. *شعبان المعظم کی کیا ہی بات ہے*
*شعبان المعظم کی کیا ہی بات ہے*
✍ *ابو المتبسِّم ایاز احمد عطاری* :-
👈 شعبان المعظّم کا چاند نظر آتے ہی فضاء میں نور کی خوشبو بکھر جاتی یے۔ اور اللہ کے مہینے رجب المرجب کے بعد میرے آقا کے مہینے شعبان کا آغاز ہو جاتا یے۔ یہ مہینہ اسلامی تعلیمات کی رو سے بابرکت مہینوں میں شمار ہوتا ہے۔
👈 حضرتِ سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: شعبان کا چاند نظر آتے ہی صحابۂ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان تِلاوتِ قراٰنِ پاک کی طرف خوب مُتَوَجِّہ ہو جاتے، اپنے اَموال کی زکوٰۃ نکالتے تاکہ غرباء و مساکین مسلمان ماہِ رَمضان کے روزوں کے لئے تیاری کرسکیں ، حکام قیدیوں کو طَلَب کرکے جس پر ’’حَد‘‘ (یعنی شرعی سزا) جاری کرنا ہوتی اُس پر حَد قائم کرتے ، بَقِیّہ میں سے جن کو مناسب ہوتا اُنہیں آزاد کردیتے، تاجر اپنے قرضے ادا کردیتے ، دوسروں سے اپنے قرضے وصول کرلیتے۔ اور رَمضان شریف کا چاند نظر آتے ہی غسل کرکے (بعض حضرات ) اعتکاف میں بیٹھ جاتے۔
(غنية الطالبين ص 341 )
👈 اللہ اکبر! صحابہ کرام علیہم الرضوان قطعی جنتی ہونے کے باوجود پھر بھی کس قدر عبادت کا شوق و ذوق تھا۔ لیکن افسوس! فی زمانے کے مسلمانوں کو زیادہ تر حصولِ مال ہی کا شوق ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ! اپنے بندوں پر مہربان ہوکر نیکیوں کا اَجْر و ثواب خوب بڑھا دیتا ہے۔
👈 اس ماہِ مبارک میں روزے رکھنے کی کیا ہی بات ہے۔ سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ماہِ شعبان میں کثرت سے روزے رکھنا پسند فرماتے۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ بن ابی قیس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ اُنہوں نے امُّ المؤمنین سَیِّدَتُنا عائِشہ صدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو فرماتے سنا: نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا پسندیدہ مہینا شعبانُ المُعَظَّم تھا کہ اس میں روزے رکھا کرتے پھر اسے رَمَضانُ الْمُبارَک سے ملادیتے۔
(سُنَنِ ابوداوٗد ، ج 2، ص 476 ، حدیث 2431 )
👈 لیکن لوگ اس مہینے کی فضیلت سے ناواقف ہیں۔ اور اس مہینے کو غفلت میں گزار دیتے ہیں۔ چنانچہ حضرتِ سیِّدُنا اُسامہ بن زید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں: میں نے عرض کی: یَارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں دیکھتا ہوں کہ جس طرح آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شعبان میں روزے رکھتے ہیں اِس طرح کسی بھی مہینے میں نہیں رکھتے؟ فرمایا: رَجب اور رَمضان کے بیچ میں یہ مہینا ہے ، لوگ اِس سے غافل ہیں ، اِس میں لوگوں کے اَعمال اللہُ ربُّ العٰلَمین عَزَّوَجَلَّ کی طرف اُٹھائے جاتے ہیں اور مجھے یہ محبوب ہے کہ میرا عمل اِس حال میں اُٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں ۔
(سُنَن نَسائی ص 387حدیث 2356)
👈 ایک اور حدیث پاک میں آتا ہے کہ حضرتِ سَیِّدَتُنا عائشہ صِدِّیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ رَسُولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ شعبان سے زیادہ کسی مہینے میں روزے نہ رکھا کرتے بلکہ پورے شعبان ہی کے روزے رکھ لیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے: اپنی اِستطاعت کے مطابق عمل کرو کہ اللہ عَزَّ وَجَلَّ اُس وَقْت تک اپنا فضل نہیں روکتا جب تک تم اکتا نہ جاؤ۔
(صَحیح بُخاری ، ج 1 ، ص 648 ، حدیث 1970)
👈 اے میرے بھائیو! کوشش کرو اس مبارک مہینے میں جتنا ہوسکے روزے رکھا کریں۔ اس کی آپ کو بہت برکتیں ملے گیں۔
👈 اس مبارک ماہ کی کیا ہی بات ہے ، اس کے فضائل اور اس مبارک ماہ کی برکتیں تو بہت ہی زیادہ ہیں۔ لیکن اس کے باوجود پھر بھی اس مبارک ماہ کی برکتوں سے کچھ لوگ محروم ہیں۔ اے محترم بھائیو! شبِ بَرَاءَت بے حد اَہم رات ہے، کسی صورت سے بھی اسے غفلت میں نہ گزارا جائے، اِس رات رَحمتوں کی خوب برسات ہوتی ہے ۔ اِس مبارَک شب میں اللہ تبارَک وَتعالیٰ ’’بنی کلب ‘‘ کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو جہنَّم سے آزاد فرماتا ہے۔ کِتابوں میں لکھا ہے: ’’قبیلۂِ بنی کلب ‘‘ قبائلِ عرب میں سب سے زیادہ بکریاں پالتا تھا۔
(مرقاة ، جلد 3 ، ص 375)
👈 آہ! کچھ بدنصیب ایسے بھی ہیں جن پر شبِ بَرَاءَت یعنی چھٹکارا پانے کی رات بھی نہ بخشے جانے کی وَعید ہے۔ حضرتِ سیِّدُنا امام بیہقی شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ’’فَضائِلُ الْاَوقات‘‘ میں نقل کرتے ہیں: رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا فرمانِ عبرت نشان ہے: چھ آدمیوں کی اس رات بھی بخشش نہیں ہوگی:
{1} شراب کا عادی
{2}ماں باپ کا نافرمان
{3} زِناکا عادی
{4}قَطْع تعلق کرنے والا
{5}تصویر بنانے والا
{6}چغل خور۔
(فضائل الاوقات، ج 1، ص 130 ،حدیث 28)
👈 اِسی طرح کاہن ، جادوگر ، تکبُّر کے ساتھ پاجامہ یا تہبند ٹخنوں کے نیچے لٹکانے والے اور کسی مسلمان سے بلا اجازت شرعی بغض و کینہ رکھنے والے پر بھی اِس رات مغفِرت کی سعادت سے محرومی کی وعید ہے، چنانچہ تمام مسلمانوں کو چاہئے کہ متذکرہ (یعنی بیان کردہ) گناہوں میں سے اگر مَعَاذَ اللہکسی گناہ میں ملوث ہوں تو وہ بالخصوص اُس گناہ سے اور بالعموم ہر گناہ سے شبِ بَرَاءت کے آنے سے پہلے بلکہ آج اور ابھی سچی توبہ کرلیں ، اور اگر بندوں کی حق تلفیاں کی ہیں توتوبہ کے ساتھ ساتھ ان کی مُعافی تلافی کی ترکیب فرما لیں ۔