اگر غیراللہ سے مدد طلب کرنا درست ہے تو پھر ہم ہر نماز میں *وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن* (ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) کیوں کہتے ہیں ؟
اگر غیراللہ سے مدد طلب کرنا درست ہے تو پھر ہم ہر نماز میں *وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْن* (ہم تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں) کیوں کہتے ہیں ؟
سائل : فہیم میانوالی
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اے اللہ پاک ہم حقیقی طور پر تجھ سے ہی مدد طلب کرتے ہیں اور انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ سے جو مدد طلب کی جاتی ہے تو چونکہ وہ اللہ پاک کی عطا سے مدد کرتے ہیں اور خود اللہ پاک ان کو مدد کرنے کا اختیار دیتا ہے تو اس عطا اور اختیار کی بناء پر ان کی مدد اللہ پاک کی مدد ہی ہوتی ہے جیسا کہ غزوہ بدر میں فرشتوں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی مدد کی لیکن ان کی مدد کو اللہ پاک نے اپنی مدد قرار دیا۔
چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے :
*"وَلَقَدْنَصَرَکُمُ اللّٰہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّۃ"*
ترجمہ : اور بےشک اللہ نے بدر میں تمہاری مدد کی، جب تم بالکل بےسروسامان تھے.
*(پارہ : 4، سورہ : الِ عمران، آیت :123)*
فرشتوں کی مدد کو اپنی مدد اس لیے قرار دیا کہ فرشتوں کو مدد کرنے کا اختیار خود دیا، یہی معاملہ انبیاء کرام علیہم السلام اور اولیاء عظام رحمہم اللہ کا ہے کہ وہ بھی اللہ پاک کی عطا اور اختیار سے مدد کرتے ہیں تو ان کی مدد بھی درحقیقت اللہ پاک کی مدد ہوتی ہے لہذا ان مقدس ہستیوں سے مدد طلب کرنا، سورہ فاتحہ کی آیتِ مبارکہ کے اس جز *"وایاک نستعین"* کے خلاف نہیں.
چنانچہ خلیفہ اعلی حضرت حضرت علامہ مولانا حشمت علی رضوی بریلوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
استعانت کے معنی مدد چاہنے کے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ مدد اسی سے چاہی جاتی ہے جو مدد کرنے کی قدرت رکھتا ہو اور وہ حقیقۃً اللہ تبارک و تعالی ہی ہے، اسی کے قبضہ قدرت میں ہر قسم کی مدد کرنا اور دوسروں کو مدد کرنے کی توفیق و طاقت بخشنا ہے، اسی کا اقرار بندے کی زبان سے ان آیات میں کرایا گیا ہے، انبیاء و اولیاء وغیرہ محبوبان خدا اس کے وسائل ہیں، تو ان سے جو امداد چاہی جاتی ہے وہ حقیقۃً خدا ہی سے مدد چاہنا ہے کہ اللہ تبارک و تعالی فرماتا ہے : *"وابتغوا الیہ الوسیلۃ"* (المائدۃ : 35) اللہ کی طرف پہنچنے کا وسیلہ تلاش کرو۔ اور وہ وسیلہ یہی انبیاء و اولیاء و صلحاء اور نماز وغیرہ اعمال صالحہ ہیں، جن کے ذریعہ سے بندے کی دعا دربار الہی تک پہنچتی ہے اور اس کا مدعا بر آتا ہے، اسی لیے بندے کو گناہ کرنے کے بعد اپنے محبوب کے دربار میں حاضر ہو کر ان کے وسیلہ سے استغفار کرنے اور گناہ کی معافی چاہنے کا حکم دیا ہے کما قال اللہ تعالی : *"ولو انھم اذظلموا انفسھم جاؤوک الخ"* (النساء : 64) یعنی اگر وہ لوگ جب اپنے نفس پر ظلم کریں یعنی گناہ کریں تو اے نبی تیری بارگاہ میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی چاہیں اور رسول بھی ان کے لیے معافی چاہے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا پائیں گے۔ ابو جعفر نے مسجد نبوی میں حضرت امام مالک رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے دریافت کیا کہ کیا میں قبلہ کی طرف منہ کر کے دعا مانگوں یا رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جانب، تو امام مالک رحمۃ اللہ تعالی نے فرمایا : تم رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی جانب سے کیوں منہ پھیرتے ہو وہ تو تمہارے اور تمہارے باپ حضرت آدم علیہ السلام کے قیامت تک اللہ تبارک و تعالیٰ کی جناب میں وسیلہ ہیں، انہیں کی طرف توجہ کرو اور ان سے اپنی حاجت و مراد میں شفاعت چاہو، پس اللہ تبارک و تعالی تمہارے لئے ان کی شفاعت قبول فرمائے گا۔ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم (شرح شفا لعلی القاری) اور اسی لئے صبر و صلوۃ سے استعانت کرنے کا حکم دیا گیا *"واستعینوا بالصبر والصلاۃ"* (البقرة : 45) فرمایا گیا ہے بلکہ مسلمانوں کو آپس میں ایک دوسرے کے تعاون کرنے اور مدد لینے کا حکم دیا گیا *" وتعاونوا علی البر و التقوی"* (المائدۃ : 2) فرمایا گیا ہے، تو اگر کسی سے مدد چاہنا اور کسی کی مدد کرنا مطلقاً ممنوع یا ناجائز ہوتا تو آیتِ مذکورہ میں نبی کریم علیہ الصلوۃ والتسلیم کو وسیلہ بنانے اور وسیلہ تلاش کرنے اور استعانت کرنے اور آپس میں ایک دوسرے کا تعاون کرنے اور مدد کرنے کا حکم نہ فرمایا جاتا، اور طبرانی وغیرہ کی احادیث میں *"اعینونی یاعباداللہ"* وارد نہ ہوتا اور سرورِ عالم صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم ایک نابینا کو دعا میں یہ الفاظ تعلیم نہ فرماتے : *"اللھم انی اسئلک و اتوجہ الیک بنبیک محمد الخ"* یعنی اے اللہ میں تجھ سے تیرے نبی کے توسل سے سوال کرتا ہوں اور تیری طرف توجہ کرتا ہوں. (ترمذی و نسائی و ابن ماجہ وغیرہ) بلکہ بندوں تک اپنے احکام پہنچانے کے لیے حضرت جبرائیل اور انبیاء علیھم السلام کو واسطہ و ذریعہ نہ بناتا، گویا اسی نے ہمیں وسیلہ اور ذریعہ بنانا سکھایا، اس سے معلوم ہوا کہ دراصل استعانت حقیقی اللہ عزوجل ہی سے ہے اور انبیاء و اولیاء اس سے مدد چاہنے کا وسیلہ ہیں، ان کی طرف استعانت کی نسبت مجازاً کی جاتی ہے،اس قدر کے تو وہابیہ بھی قائل ہیں تو اصاغر کو بھی اس پر ایمان لانا چاہیے۔"
*(تفسیر جوہر الایقان المعروف تفسیرِ رضعی، جلد 1، صفحہ 5، مکتبہ اعلیٰ حضرت لاہور)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نے ایک شعر میں کیا خوب فرمایا :
حاکم حکیم داد و دوا دیں، یہ کچھ نہ دیں
مردود یہ مراد کس آیت خبر کی ہے۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
22/03/2021
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
انبیاء و اولیاء سے مدد چاہنے کے حوالے سے جو آپ کا تحقیقی فتویٰ ہے، بندہ ناچیز اس کی مکمل تائید و توثیق کرتا ہے، اہل اللہ سے مدد مانگنا درحقیقت اللہ ہی سے مدد مانگنا ہے، اللہ ہی ان کو یہ توفیق بخشتا ہے کہ وہ آگے کسی کی مدد کر سکیں، ایک سڑیل وہابی نے یہ کہا تھا :
وہ کیا ہے جو ملتا نہیں خدا سے جسے مانگتے ہو تم اولیاء سے
تو اسے یہ جواب دیا گیا :
وہ چندہ ہے جو نہیں ملتا خدا سے
جسے مانگتے ہو تم اغنیاء سے۔
اہل اللہ کا در چھوڑ کر پھر یہ اہل الدنیا کے در پر گرتے پڑتے ہیں، اللہ تعالیٰ عقلِ سلیم نصیب فرمائے۔
اس حوالہ سے اعلیٰ حضرت عظیم المرتبت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب مستطاب *"برکات الامداد لاہل الاستمداد"* کافی اور وافی ہے۔
اور آسان لفظوں میں مختصر دلائل کے ساتھ فقیر معطر قادری گدائے رضوی کا مطبوعہ سولہ صفحات کا فتویٰ *"الاستمداد"* بھی سالہا سال سے شائع ذائع ہے، الله تعالیٰ سمجھ کی توفیق نصیب فرمائے۔
وماتوفیقی الا بالله العلی العظيم۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*