اسلام میں خنزیر کیوں حرام ہے۔۔۔۔؟
اسلام میں خنزیر کیوں حرام ہے۔۔۔۔؟
محرر: فاضل عبداللہ ہاشم عطاری مدنی
03313654057
قرآن مجید میں خنزیر کی حرمت:
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے خنزیر کے حرام ہونے کا چار مرتبہ ذکر فرمایا ہے۔
(1) سورة البقرة آیت نمبر: 173،
(2) سورة المائدة آیت نمبر:3،
(3) سورة الانعام آیت نمبر: 145،
(4) سورة النحل آیت نمبر: 115
اور ان آیات میں قطعی طور پر خنزیر کا گوشت کھانا حرام قرار دیا ہے،
جیسا کہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: حُرِّمَت عَلَيكُمُ المَيتَةُ وَالدَّمُ وَلَحمُ الخِنزيرِ )سورة المائدةآیت 3)
اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اس آیت مبارکہ میں صرف گوشت کا ذکر اس لیے کیا کہ اصل مقصود گوشت ہی ہوتا ہے اور باقی اشیاء اس کے تابع ہوتی ہیں۔
حدیث میں خنزیر کی حرمت:
کثیراحادیثِ مبارکہ میں بھی خنزیر کا حرام اور نجس العین ہونا ثابت ہے جیسا کہ نبی اکرمﷺ نے فتح مکہ کے دن فرمایا تھا:
ان الله ورسوله حرم بيع الخمر والميتة والخنزير والأصنام- ( صحيح البخاري)’’بے شک اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول نے شراب‘ مردار‘ سور اور بتوں کے بیچنے سے منع فرمایا ہے‘‘۔
اس حدیث میں گوشت کا نہیں بلکہ خنزیر کا ذکر ہے تو یہ حدیث بھی عمومِ حرمت پر دلالت کرتی ہے۔
امام نووی فرماتے ہیں کہ امت مسلمہ کا اس بات پر اجماع ہو گیا ہے کہ خنزیر حرام ہے، اس کی چربی، اس کا خون اور اس کے سارے اجزاء بھی حرام ہیں۔(شرح صحيح مسلم )
خنزیر کے نہ کھانے کی کئی حکمتیں ہیں :
٭ سور کا گوشت نہ کھانے کی وجہ تو یہ ہے کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول ﷺ نے حرام قرار دے دیا ہے۔ اس لیے ہم ان کے حکم کے پابند ہیں،اور خنزیر تو نص قطعی سے حرام ہے، اس لیے یہ نجس العین ہے۔ اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں پر بڑا انعام ہے کہ وہ پاكيزہ اشياء حلال كرتا اور خبيث اور گندى اشياء حرام كرتا ہے جیسا کہ سورۃ الاعراف آیت 157 میں اللہ تعالی ارشاد فر ماتا ہے: وَيُحِلُّ لَـهُـمُ الطَّيِّبَاتِ وَيُحَرِّمُ عَلَيْـهِـمُ الْخَبَائِث (سورۃ الاعراف :157)
٭ فطرت سلیم اسے گندہ سمجھتی ہے، نظافت طبعی اس کی طرف رغبت کرنے سے کراہت کرتی ہےعلماء فرماتے ہیں کہ خنزیر کو اس لیے حرام قرار دیا گیا ہے کہ یہ ایک خبیث اور پلید جانور ہے ،اس کی یہ پلیدی گوشت اور چربی سب میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
٭ اس کے گوشت کے جو طبی نقصانات ہیں وہ ایک ناقابل انکار حقیقت ہیں کیوں کہ یورپ میں خون کے کینسر میں مبتلا ہونے والے بہت سے لوگ وہ ہیں جو خنزیر کا کوشت کھاتے ہیں۔
٭ اس میں بہت گندگی اور بدبو ہوتی ہے جو اس کے نجس العین ہونے کی دلیل ہے۔
٭ خنزیر کی حرمت بسبب اس کی نجاست خوری ہے۔
٭ تمام جانوروں میں کوئی بھی پسند نہیں کرتا کہ اس کی مادہ کی قربت کوئی دوسرا کرے۔ لیکن خنزیز کی خباثت کا یہ عالم ہے کہ یہ دوسرے جانوروں کو گھیر گھیر کر اپنی مادہ کی طرف لاتا ہے۔ جب وہ اس مادہ کی قربت کرتے ہیں تو خوش ہوتا ہے۔خنزیر کا گوشت بکثرت استعمال سے اخلاقی خرابیاں اور بے حیائی کا پیدا ہونا ایک مسلم حقیقت ہے جن قوموں میں اس کو کثرت سے کھانے کا رواج ہے، ان کی بے حیائی کسی سے پوشیدہ نہیں۔
خنزیر کی حرمت ہر دور میں رہی ہے:
٭ محدثین نے لکھا ہے کہ کسی نبی کے زمانہ میں خنزیر حلال نہیں تھا، حضرت عیسی کی شریعت کی طرف جو اس کی حلت منسوب کی جاتی ہے بالکل غلط ہے، ان کی شریعت میں بھی خنزیر حرام تھا، حدیث میں آتا ہے کہ آخری زمانہ میں جب حضرت عیسیٰ تشریف لائیں گے تو خنزیر کو قتل کریں گے(صحیح بخاری)
اس حدیث کے تحت علامہ عینی فرماتے ہیں کہ یہ حدیث اس پر دلیل ہے کہ ان کی شریعت میں خنزیر حرام تھا اور اس میں ا ن عیسائیوں کی بھی تکذیب ہے جو خنزیر کی حلت کو اپنی شریعت کی طرف منسوب کرتےہیں۔وممایستفادمن الحدیث ما فیه قاله ابن بطال دلیل علی أن الخنزیر حرام في شریعة عیسیٰ علیہ السلام وقتله له تکذب للنصاریٰ أنه حلال في شریعتهم۔
٭ سور کی گندگی اور ناپاکی اتنی روشن اور عیاں ہے کہ بعض قدیم قومیں مثلاً اہل مصر بھی اسے نجس سمجھتی رہی ہیں، بلکہ خود یہودیوں کے یہاں بھی خنزیر حرام تھا، اس کی حرمت اور نجاست دونوں صراحت کے ساتھ بائبل میں موجود ہیں۔
نوٹ: شرعی غلطی پر میری ضرور اصلاح فرمائیں