یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

عورت، حقوق، اسلام، پاکستان............



عورت، حقوق، اسلام، پاکستان.............!!


حقوقِ نسواں کے حقیقی علمبردار، محسنِ انسانیت ، عورتون کے عظیم محسن و حقوق دینے دلانے والے سیدِ عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع جو اس وقت کا سب سے بڑا اجتماع تھا، اور معاشرے میں عورت کو غلام سمجھا جاتا تھا، کھلونہ سمجھا جاتا تھا..... میراث، معاشرت ، نکاح و فضائل کے کوئی حقوق حاصل نہ تھے ایسے موقعہ پر فرمایا:
.
ترجمہ:
سنو..........!!
عورتوں کے ساتھ حسنِ سلوک، اچھا برتاؤ کرو
.
سنو.........!!
تم عورتوں کے مالک نہیں ہو(لیھذا عورتوں کو غلام.و.کھلونہ مت سمجھو، ان کے ساتھ غلامانہ رویہ مت رکھو، زبردستی شادیاں مت کراؤ، عورتوں پر اسلامی پابندیوں کے علاوہ کوئی پابندی حکم لاگو نہ کرو، نوابی رعب نہ جماؤ)
ہاں اگر فحاشی کریں تو(سمجھانے کے ساتھ ساتھ) بستروں میں عارضی جدائی اور ہلکی تادیبی مار مار سکتے ہو
.
سنو........!!
تمھارے عورتوں پر حقوق ہیں اور عورتوں کے تم پر حقوق ہیں(لیھذا ایک دوسرے کے حقوق و ذمہ داریاں یاد رکھو، حقوق و ذمہ داریاں اچھی طرح پوری کرو)
اور
عورتوں کے تم پر جو حقوق ہیں ان میں سے یہ بھی ہے کہ
تم ان کے ساتھ اچھا سلوک کرو اور انہیں اچھا پہناؤ اور اچھا کھلاؤ

سنو........!!
عورتوں کے متعلق اللہ سے ڈرو...عورتیں تو تمھارے پاس اللہ کی امان کے ساتھ ہیں
(ترمذی ملتقطا حدیث نمبر1163،
مسلم حدیث نمبر,2950,1218)
.

الحدیث،ترجمہ:
عورتیں تو تم مردوں کی سگے رشتہ داروں کی طرح ہیں(انہیں سوتیلا ،الگ مت سمجھو، سوتیلانہ رویہ حقوق نہیں بلکہ سگانہ مالکانہ مشترکانہ اپنا ہی فرد سمجھو، سرمایہ و فخر سمجھو، مالک و نواب مت بن بیٹھو)
(ابو داؤد حدیث نمبر236)
.

الحدیث،ترجمہ:
تم میں سے اچھے وہ ہیں جو عورتوں کے متعلق اچھے ہیں
(ترمذی حدیث1162)
.
دیوث جنت نہ جائےگا،دیوث وہ جسےپرواہ نہ ہو کہ اس کے اہل خانہ کا کہاں آنا جانا ہے(شعب ایمان10310)
اسلامی حقوق نسواں ادا کیجیے
نگرانی کیجیے،سمجھائیے،ساتھ جائیے
.
.
آزادی کی طلبگار بہنوں کے نام
اسلامی آزادی...یا...مغربی آزادی
.
سب سے پہلے تو ہم سب کو یہ.سمجھنا ضروری ہے کہ ہمارے ملک میں جہالت یا قومیت کے اصولوں کے تحت جو عورتوں کو غلام سمجھا جاتا ہے، اسلام اسکی سخت مذمت کرتا ہے
.
اس جاہلی غلامی سے نکلنے کے دو راستے ہیں
①اسلامی ذمہ دارانہ آزادی
②دوسرا راستہ ملحدانہ، مغربی آزادی
.
ایجنٹ مکار منافق میڈیا حکومت اس غلامی کی آڑ میں مغربی آزادی لانا چاہیتی ہے... اسی کی تعلیم دیتی ہے.. اسی کے اصول.. اسی کے فوائد عام کرتی ہے... اسی آزادی کے لیے عورتوں کو بغاوت پر اکساتی ہے...ہاں اس بغاوت میں کچھ جرم ان سادہ کم علم مسلمانوں کا بھی ہے جنھوں نے حد سے زیادہ سختیاں کی ہیں،حد سے زیادہ سختیاں بیان کی ہیں.. اسکے ساتھ ساتھ اس بغاوت میں مرکزی کردار ان منافق ایجنٹ ملاوں کا بھی ہے جو مغربیت لبرلیت سے متاثر ہوکر اسلامی تعلیمات کی آزادیوں کو حد سے بڑھا کر پیش کرتے ہیں.. میڈیا حکومت اور ایسی جدت پسند تنظیمیں اسی آزادی کی آڑ میں مردوں کو کمزور.اور.محکوم بنانا چاہتی ہے، مغربی تباہی لانا چاہتی ہیں..
.
جو کہ سراسر ناانصافی ہے... ظلم ہے.. مکاری ہے.. منافقت ہے..اب سائنس بھی مان چکی ہے کہ عورت کی فطرتی قدرتی بناوٹ ذہنی جسمانی بناوٹ ہی ایسی ہے کہ اسے تمام ذمہ داریاں آزادیاں نہیں دی جاسکتیں..(گوگل پے "عورت کا ذہن سائنسدان" لکھ کر سرچ کر دو چار ویب سائیٹس سے نیوز مل جائے کہ مرد عورت کے ذہن میں فرق ہے)وہ فطرتا قدرتا خلقتا ان ذمہ.داریوں کے لائق نہیں.. تو پھر اس پر آزادی کے نام پر مزید ذمہ.داریاں ڈالنا ظلم نہیں تو اور کیا ہے.....؟؟
.
 ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ
اس غلامی سے بچانے کے لیے اسلامی آزادی کو اجاگر کیا جاتا.. اسلامی آزادی کی بات کی جاتی.. اسلامی آزاد کے اصول.و.فوائد بیان کیے جاتے... مگر منافق ایجنٹ دھوکے باز مکار میڈیا، اینکرز، صحافی، سرکاری ملا اور حکومت سے ایسا توقع کہاں......؟؟افسوس
.
پیاری بہنوں اسلام نے آزادی دی ہے مگر ذمہ داریاں لگائی ہیں.. وفا..صبر..قناعت.. اخلاقیات کا حکم دیا ہے.. یہ ذمہ داریاں فقط عورتوں پر نہیں بلکہ اس سے کہیں بڑھ کر مردوں پر ذمہ داریاں لگائی ہیں.. مرد اپنی والدہ بیوی بہن بیٹی کسی کا مالک نہیں.. اس پر پرورش کی ذمہ داری ہے مگر مالک نہیں.. وہ بیچ نہین سکتا.. فقط اپنا حکم لاگو نہیں کرسکتا.. عورتوں کی عزت و پرورش کا حکم دیتا ہے... اسکے معاملات میں اس سے مشاورت.و.رضا مندی سمجھنے سلجھانے کا درس دیتا ہے..
.
جبکہ مغربی آزادی آزادی نہین بلکہ ایک چال ہے.. وہاں کے مرد حضرات آزادی نہیں دینا چاہتے بلکہ.خود ذمہ داریوں سے جان چھڑانا چاہتے ہیں... وہ چاہتے ہیں کہ.وہ کسی عورت کو سنبھالنے کی زحمت کیوں اٹھائیں.. عیاشی آزادی انکا اصل ٹارگٹ ہے..اپنی.آزادی کا نام دیتے تو بدنام ہوتے... کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ:
یہ جھوٹ ہےکہ مغرب،ملحد،مکار،عیاش انسان عورت کی آزادی چاہتاہے
سچ یہ ہےکہ وہ عورت تک پہنچنےکی آزادی چاہتاہے
.
کسی نے کیا خوب کہا:
"جب بھی بکری آزادی مانگے گی بھیڑئیے حمایت کریں گےکیوں باپ بھائی شوہر بیٹے کے مضبوط حصار میں کسی عورت کو دبوچنا اور نوچنا مشکل ہے...پس پہلے عورت کو یہ احساس دلایا جائے گا کہ تم قید ہو پابند ہو آزادی حاصل 
کرو جب آزاد ہوگئی تب اس کی عزت و جان کو تارتار کرنا آسان ہے"
.
اسی لیے چال چلی.. بیچاری عورت پر آزادی کے نام مزید ذمہ داریاں بڑھا دیں.. کھانے کمانے سنبھالنے اور کسی وفادار ساتھی ہمدرد کی تلاش زندگی بھر رہتی ہے انکو... ایسے ملکوں میں طلاقیں سب سے زیادہ ہوتی ہیں.. اولاد ماں باپ کی محبت.و.تعلیمات پرورش تربیت سے محروم.رہتا ہے... بوڑھوں کو سنبھالنے والا کوئ نہین ہوتا.. انہیں اولڈ ہاوس بھیجا جاتا ہے.. کینسر ایڈز اور طرح طرح کی جسمانی ذہنی بیماریاں وہیں سے اٹھتی ہیں..
.
بے وفائی.. بے پرواہی.. بے یقینی نے جہاں مستقبل کو تباہ کیا.. وہیں بے چینی بے سکونی کو عروج دیا... جس سے جسمانی اور ذہنی کمزوریوں بیماریوں نے وہاں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں
.
انکی ایسی تباہی بربادی وحشیت کچھ نا کچھ حد تک ہم تک پہنچتی ہے مگر مکار منافق ایجنٹ میڈیا ان سب پر پردہ ڈالتے ہیں.. چھوٹی چھوٹی کامیابیوں کو بڑے بڑے کارنامے کہہ کر بیان کرتے ہیں.. چھوٹی چھوٹی ادب.و.وفاؤں کو بڑا بڑا کہہ کر بیان کرتے ہیں.. ہاں وہاں کے کافی شہروں میں دنیاوی ترقی ہے مگر وہاں انسانی اخلاقی پستی ہی پستی ہے.. انکی ٹیکنالوجی طب میں ترقی ہے مگر افواہ ڈرامہ بازی بھی بہت اور بڑھا چرھا کر بیان کرنا بھی بہت..!!
.
مغرب و الحاد کے نعرہ "حقوقِ نسواں، آزادیِ عورت، ترقی"
کے متعلق فقط دو جملے کہنے ہوں تو یہ کہوں گا کہ:
"دور کے ڈھول سہانے"
ہاتھی کے دانت......کھانے کے اور ، دکھانے کے اور.......!!
.
آج کے دور کے ایسے گمراہ کن ، چکنے ، بظاہر خوبصورت نعرے سن کر سیدنا علی رضی اللہ.تعالیٰ عنہ.کا وہ عظیم.فرمان یاد آتا ہے جو آپ نے خوارج کے نعرے "صرف اللہ حاکم" کے جواب میں آپ نے فرمایا تھا
کہ:
کلمۃ الحق ارید بھا الباطل..(مسلم) یعنی بات تو حق ہے مگر اسکا معنی و مقصود باطل ہے..
.
آج عورت کی آزادی...عورت کے حقوق... مساوات...وغیرہ سب کے سب نعرے ہیں تو خوبصورت مگر باطل معنی.و.مقصود رکھتے ہیں.
.
عورت مرد آزاد ہیں مگر غلامی اور زمہ داری کا فرق ضروری ہے... ذمہ.داری اور من مانی، موج مستی، عیاشی کا فرق ضروری ہے... اگر یہ ذمہ داریاں غلامی ہیں تو یہ غلامی مرد پر بھی ہے...مگر حقیقت یہ ہے کہ ذمہ داریاں غلامی نہیں..
.
سب کے سب برابر ہیں کہنا عقل.و.فطرت کے مطابق بھی ٹھیک نہیں... اسلام کچھ معاملات میں سب کو برابر قرار دیتا ہے.. اور کچھ معاملات میں بعض کو بعض پر فضیلت دیتا ہے.. اور اس فضیلت کو پانے کی جستجو بھی دیتا ہے...جو جتنا باعلم باعمل باکردار بااخلاق باشعور بااحساس ہوگا اتنی افضلیت پاتا جاے گا... وہی برحق ہے... وہی سچ ہے... وہی عقل و فطرت کے مطابق ہے..
.
آج جو سب کو برابر کا نعرہ.لگاتے ہین وہ دراصل جال میں پھنسانے کی ایک چال ہے... وہ لوگ بات تو برابری کی.کرتے ہین مگر عمل مشاہدے مین ایک دو مثالوں کے علاوہ کہیں برابری نہیں ہوتی.. اور ہوبھی نہیں سکتی..
.
ذمہ.داریوں کی.تقسیم اور ذمہ داریون کی کمی بیشی ہی برحق ہے... اسلام نے عورت کو باہر کے معاملات، کمانے کے معاملات و ذمہ داریوں سے آزاد کیا ہے اور یہ ذمہ داریاں مرد پر ڈالی ہیں...یہی وجہ ہے کہ میراث میں اکثر مرد کو ڈبل حصہ ملتا ہے کیونکہ معاشی ذمہ داری عورت پر بہت ہی کم اور مرد پر زیادہ ہے، یہی خلقت و فطرت مطابق ہے... آج سائنس بھی مان گئ ہے کہ عورت کا دماغ اور اسکی تخلیق ہی.کچھ اس طرح کی ہے کہ اسے باہر کے معاملات میں نا الجھایا جاے...
.
آزادی،حقوق،تعلیم کی اسلام مخالفت نہیں کرتا مگر اس کی آڑ میں بے راہ روی فحاشی ظلم کی شدید مخالفت کرتا ہے...جہاں.بے راہ رویانہ آزادی کی اسلام مذمت کرتا ہے وہی جاہلانہ ظالمانہ.غلامانہ سوچ کی.بھی مذمت کرتا ہے..
یہ.غلامانہ طرز و سوچ عورت تک محدود نہیں بلکہ اسلام غریبوں ناداروں مجبوروں کمزورون بچوں شاگردوں پر بھی غلامانہ نظام نافذ کرنے کی مذمت فرماتا ہے...جہاں ازادی دیتا ہے تو آداب و حد بندی بھی مقرر فرماتا ہے..
.
عورت مرد کو ہر معاملے میں برابر کیا جاے تو دنیا نظام تباہ ہوجاے..اور اسکی ایک.دو جھلک روز بروز سامنے آتی رہتی ہیں..آزادی،حقوق،مساوات،فضیلت،ذمہ داری کی کمی بیشی وہی برحق جو اسلام نے سمجھائ..
جو عقل.و.فطرت کے بھی عین مطابق ہے..
.
.

میرا جسم میری مرضی.....؟؟
اللہ نےمومن سےجسم،مال خریدلیےبدلےجنت کے(سورہ توبہ111)میراجسم میری مرضی مطلقا ہو تو منجزِ کفر تک ہوجاتا ہے…اللہ کا دیا جسم ، اللہ کی مرضی…جہاں دی اسلام نے اجازت وہاں ہماری مرضی
.
اللہ نےدیا جسم، اللہ کی مرضی…والدین نےجسم کو پالا والدین کی مرضی…اسلام نےکہا تمھارا نکاح تمھاری مرضی…حد سےزیادہ مرضی بےحیائ  و تباہی ہے
.
میری مرضی کہنےوالو/والیوں کاجب حسن،جوانی ڈھل جائےگی
تب سمجھ لگےگی:کاش کوئی باوفا شوہر/بیوی،اولاد سہارا ہوتا #اسلامی_آزادی_پابندی_برحق
.
دیکھیں ایک حکومت زبردست موٹروے بناتی ہے اور اس پر  گاڑی چلانے کے مختلف اصول و پابندیاں طے کرتی ہے
مثلا:
①ٹول ٹیکس دینا ہوگا
②موٹروے کو واضح نقصاں نہیں پہنچانا ہوگا
③گاڑی 120 یا 130 فی گھنٹہ کی رفتار سے تیز نہیں چلانا ہوگا
④گاڑی اپنی سائیڈ پر چلانی ہوگی
⑤کسی اور موٹروے بنانے والوں کو دخل اندازی کی اجازت نہیں ہوگی....کسی اور موٹروے کے اصول یہاں زبردستی لاگو نہیں ہونگے....بلکہ اس موٹروے کے بانی.و.وارثان کے اصول و قوانین چلیں گے
.
ان پابندیوں کو سب برحق و بہتر سمجھتے ہیں، انہیں رواداری و آزادی کے خلاف نہیں سمجھتے.... ان اصول و پابندیوں کے توڑنے والے کو مجرم کہا جاتا ہے، اسے مختلف قسم کی سزائیں دی جاتی ہیں
اب اگر کوئی ٹول ٹیکس نہ دے یا رفتار بڑھا دے یا اپنی ساٹیڈ سے ہٹ کر گاڑی چلائے اور کہے کہ:
میری گاڑی میری مرضی........؟؟
کہے کہ:
میری ازادی میری مرضی....؟؟
کہے کہ:
مجھے اصول و پابندیاں منظور نہیں مگر گاڑی پھر بھی چلاوں گا اور حکومت کی پابندی و سزاوں کو رواداری آزادی کے خلاف کہے تو..........؟؟
اپنا ٹریکٹر موٹروے پر ہل سمیت کھروچتا ہوا نقصان پنچاتا ہوا چلائے اور کہے کہ میرا ٹریکٹر میری مرضی.....؟ میری ازادی رواداری میری مرضی............؟؟
کہے کہ:
موٹروے پر پابندیاں لگانے والے بانی و وارثان کی ایسی تیسی.....؟؟

.
ایسا کرنے والے کو حکومت اور معاشرہ کیا کہے گا......؟
کیسا سلوک کرے گا....؟
کیا اسے ایسی حرکات کی اجازت ہوگی....؟؟
کیا اسے ایسی ناحق و نقصان دہ آزادی دی جائے گی.......؟؟
کیا اسے موٹروے بنانے والے کی گستاخی کی اجازت دے جائے گی.........؟؟
یقینا نہیں......ہرگز نہیں
.
اسی طرح ملک پاکستان اسلام کے لیے بنا ہے اس میں رہنا ہے تو اسلامہ پابندیوں اصولوں پر چلنا ہوگا.......میری مرضی  میری آزادی نہیں کہنا ہوگا.... شراب جوا سود فحاشی زنا کو فروغ نہیں دینا ہوگا.... بانییان اسلام محافظان اسلام کی گستاخی نہیں کرنی ہوگی.... میرا جسم میری مرضی نہیں کہنا ہوگا
.
یہ ملک اسلام کے نام پے بنا تو یہاں چلے گی اسلام کی مرضی، یہاں چلے گی اسلامی پابندی، اسلامی آزادی،
اس اسلامی ملک میں میری زبان، میرا دماغ، میرا جسم، میری آزادی میری مرضی  کہہ کر
گستاخی و بدعقیدگی ، جوا زنا فحاشی، سیکیولر ازم، مغربیت و الحاد وغیرہ غیراسلامی تہذیب و افکار پھیلانے، اسلامی معاشرے کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں ہوگی... یہی پابند شدہ ازادی و اسلام کے دیے گئے حقوق و ذمہ داریاں پابندیاں برحق ہیں...یہ اسلامی اصول پابندیاں "رواداری و آزادی" کے خلاف نہیں
بلکہ یہی برحق و بہتر رواداری و مفید آزادی ہے......جس میں معاشرے کی بھلائی ہے، انفرادی بھلائی بھی ہے اور خالق و بانیان سے وفاداری و اطاعت بھی ہے....اگر ہیں منظور اسلامی پابندیاں تو چلو اس ملک میں
اور
اگر اسلامی پابندیاں و حقوق نہیں منظور تو اس موٹروے اس اسلامی ملک سے آپ کو دور جانا ہوگا........ورنہ اصول و پابندیوں کی خلاف ورزی پر سزاء ہوگی، سختی ہوگی، آپ کو مجرم و غدار کہا جائے گا، اپ کی مذمت کی جائے گی....یہی برحق و لازم ہے
.
.
قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:
میرا ایمان ہے کہ ہماری نجات اس اسوہ حسنہ(سیرت نبی، سنت نبی)پر چلنے میں ہے جو ہمیں قانون عطا کرنے والے پیغمبر اسلام(حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم)نے ہمارے لیے بنایا ہے، ہمیں چاہیے کہ
ہم اپنی جمہوریت کی بنیادیں صحیح معنوں میں اسلامی تصورات اور اصولوں پر رکھیں..(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص29)
.
.

قائد اعظم محمد علی جناح نے فرمایا:
اسلامی حکومت کے تصور  کا یہ امتیاز پیشِ نظر رہنا چاہیے کہ اس میں اطاعت و وفاکیشی کا مرجع خدا کی ذات ہے، اسلام میں اصلا نہ کسی بادشاہ کی اطاعت ہے نہ پارلیمنٹ کی، نہ کسی شخص کی یا ادارے کی، قرآن کریم کے احکام ہی سیاست و معاشرت میں ہماری آزادی اور پابندی کی حدود متعین کرسکتے ہیں...(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص25)
.
دیکھا آپ نے بانی پاکستان کے مطابق وہ جمہوریت، وہ لوگ، وہ صدر، وہ وزیر، وہ سینیٹر وہ پارلیمنٹ، وہ جج وہ وکیل، وہ فوجی  وہ جرنیل الغرض جو بھی اسلام کے اصول و تصورات کے خلاف ہو وہ جوتے کی نوک پر.....!!
پاکستان ان کی حکمرانی نوابی کے لیے نہین بلکہ ان کے خاتمے کے لیے بنایا گیا تھا... غیرمسلم انگریز اور اسلام پسند.....؟؟ یہ ہو ہی نہین سکتا، یہی وجہ ہے کہ قائد نے انگریزوں کو دشمن تک کہا تھا
.
قائد اعظم نے فرمایا:
ہمیں نہ انگریزوں پر بھروسہ ہے نہ ہندو بنیے پر، ہم دونوں کے خلاف جنگ کریں گے..(قائد اعظم کے افکار و نظریات ص36)
.
.

1946میں قائد اعظم کی یہ تحریر اس قابل ہے کہ ہر ادارے میں  قائد کی فوٹو کے بجاے یا فوٹو کےساتھ یہ تحریر لٹکائی جاے..
قائد اعظم فرماتے ہیں:
میں مطمئین ہوں کہ قرآن و سنت کے زندہ جاوید قانون پر مبنی ریاست(پاکستان)دنیا کی بہترین اور مثالی سلطنت ہوگی،یہ اسلامی ریاست اسی طرح سوشلزم کمیونزم مارکسزم کیپٹل ازم کا قبرستان بن جاے گی..جس طرح سرورکائنات کا مدینہ اس وقت کے تمام نظام ہاے فرسودہ کا گورستان بنا...
پاکستان میں اگر کسی نے روٹی(معیشت،دولت)کے نام پر اسلام.کے خلاف کام کرنا چاہا
یا
اسلام کی آڑ میں کیپٹل ازم،سوشلزم،کمیونزم یا مارکسزم کے لیے راہ ہموار کرنے کی کوشش کی تو پاکستان کی غیور قوم اسے کبھی برداشت نہیں کرے گی..
یہ یاد رکھو کہ میں نہرو نہیں ہوں کہ وہ کبھی سیکولرسٹ بنتے ہیں کبھی مارکسٹ..
میں تو اسلام.کے کامل نظام زندگی،خدائی قوانین کی بادشاہت پر ایمان رکھتا ہوں... مجھے عظیم فلاسفر اور مفکر ڈاکٹر اقبال سے نا صرف پوری طرح اتفاق ہے بلکہ میں انکا معتقد ہوں
اور میرا ایمان ہے کہ اسلام ایک کامل ضابطہ حیات ہے..
زندگی کی تمام مصیبتوں اور مشکلوں کا حل اسلام سے بہتر کہیں نہیں ملتا... سوشلزم کمیونزم مارکسزم کیپٹل ازم ہندو ازم امپیریل ازم امریکہ ازم روس ازم ماڈرن ازم یہ سب دھوکہ اور فریب ہیں..
(قائد اعظم کا مسلک ص137,138)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,bip nmbr
00923468392475
03468392475