سیدنا معاویہ پےچار مشھور اعتراضات کےجوابات......!!
سیدنا معاویہ پےچار مشھور اعتراضات کےجوابات......!!
.
*#پہلا_اعتراض:*
آپ ﷺوآلہ نے آپ (معاویہ) کے بارے میں فرمایا ، معاویہ کو اگر میرے منبر پر پاؤ تو قتل کردو۔
حوالہ: [انساب الاشراف جلد ٥ ص ١٣٦ طبع دار الفکر اور تاریخ دمشق جلد ٥٩ ص ١٥٦ طبع دار الفکر۔]
.
جواب و تحقیق:
تاریخ دمشق کا حوالہ تو لکھ دیا مگر خیانت کرتے ہوئے آدھی عبارت لکھی....اس روایت کو لکھنے کے بعد امام ابن عساکر لکھتے ہیں
إذا رأيتم معاوية على المنبر فاقتلوه فقال كذب عمرو... قال ابن عساكر وهذه الأسانيد كلها فيها مقال
جب تم معاویہ کو منبر پر دیکھو تو قتل کر دو ، یہ عمرو کا جھوٹ اور من گھڑت بات ہے۔۔۔میں ابن عساکر کہتا ہوں کہ اس روایت کی تمام سندوں میں کلام و اعتراض ہے
(تاريخ دمشق لابن عساكر59/159)
.
امام ابن حجر عسقلانی اس روایت کی اسانید پر بحث کرنے بعد آخری فیصلہ سناتے ہوئے رقمطراز ہیں کہ:
وجملة القول أن هذا الحديث لم يثبت عَنْ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- من وجه صحيح، غالب الظن أنه موضوع مختلق
الحاصل
یہ روایت رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے بلکہ غالب گمان یہی ہے کہ یہ موضوع من گھڑت اور جھوٹی روایت ہے
(المطالب العالية محققا18/201)
.
اس روایت کے ایک راوی مجالد کے متعلق امام بخاری اور امام ابن معین فرماتے ہیں
عَنْ يَحْيَى بْنِ مَعْينٍ، أَنَّهُ قَالَ: مُجَالِدٌ لَا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ، وَقَالَ مَرَّةً أُخْرَى: مُجَالِدٌ كَذَّابٌ، وَقَالَ مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ الْبُخَارِيُّ: مُجَالِدٌ كَذَّابٌ
ابن معین فرماتے ہیں کہ مجالد کی حدیث سے دلیل نہیں پکڑی جاسکتی وہ کذاب جھوٹا راوی ہے اور امام بخاری فرماتے ہیں کہ مجالد کذاب و جھوٹا راوی ہے
(الأباطيل والمناكير والصحاح والمشاهير1/354)
.
اس روایت کو طبری نے سیدنا معاویہ وغیرہ بنو امیہ کے متعلق لکھی گئ موضوع من گھڑت جھوٹی کتاب میں سے قرار دیا
(تاريخ الطبری54, 10/58)
.
امام سیوطی اس روایت کے متعلق فرماتے ہیں
مَوْضُوع. عباد رَافِضِي وَالْحكم مَتْرُوك كَذَّاب
یہ روایت جھوٹی من گھڑت ہے اس کی ایک سند میً عباد راوی ہے جوکہ رافضی ہے اور ایک راوی حکم بھی ہے جوکہ متروک ہے
(اللآلىء المصنوعة في الأحاديث الموضوعة1/388)
.
ایک قول یہ ہے کہ فاقتلوہ کا حکم معاویہ بن سفیان کے نہیں بلکہ معاویہ بن تابوہ کے لیے تھا جس نے گستاخی کی تھی
ويقال: هو معاوية بن تابوه
(سير أعلام النبلاء ط الرسالة3/150)
.
ایک قول یہ ہے کہ اصل حدیث یوں ہے کہ
إِذا رَأَيْتُمْ مُعَاوِيَة على منبري فاقبلوه فَإِنَّهُ أَمِين مَأْمُون
جب تم معاویہ کو میرے منبر پر دیکھو تو اسے قبول کر لو کیونکہ بے شک وہ امین و مامون ہے
(الفردوس بمأثور الخطاب حدیث1016)
(تاريخ بغداد وذيوله ط العلمية جلد23 ص74)
.
*#دوسرا_اعتراض:*
آپ ﷺ وآلہ نے فرمایا آپ (معاویہ) جہنم اندر تابوت میں ہے
حوالہ: [انساب الاشراف جلد ٥ ص ١٣٦ طبع دار الفکر۔]
.
جواب و تحقیق:
وهذا باطل موضوع ظاهر الوضع إن لم يكن أحمد بن الطيب وضعه وإلا فغيره من الروافض.
یہ روایت جھوٹی من گھڑت ہے، احمد بن طیب راوی نے گھڑی ہے یا پھر کسی اور رافضی نے
(لسان الميزان ت أبي غدة1/489)
.
اس روایت کو طبری نے سیدنا معاویہ وغیرہ بنو امیہ کے متعلق لکھی گئ موضوع من گھڑت جھوٹی کتاب میں سے قرار دیا
(دیکھیے تاريخ الطبری،54, 10/58)
.
*#تیسرا_اعتراض:*
آپ ﷺ وآلہ نے آپ (معاویہ) کی اور آپ کے والد (ابو سفیان) اور آپ (معاویہ ) کے بھائی یزید بن ابی سفیان ) کی فضیلت بیان کرتے ہوئے فرمایا:اللہ کی لعنت ہو سوار (ابوسفیان)، مہار پکڑنے والے پر (معاویہ) اور دھکا دینے والا پر (یزید بن ابی سفیان)حوالہ: [انساب الاشراف جلد ٥ ص ١٣٦ طبع دار الفکر اور مسند بزار جلد ٩ ص ٢٨٦ رقم روایت ٣٨٣٩ طبع مکتبہ العلوم اور مجمع الزوائد جلد ١ ص ١١٣ طبع مکتبہ القدسی ]
.
تحقیق و جواب:
انساب الاشراف کوئی معتبر حدیث کی کتاب نہیں اور مسند بزاز مین معاویہ یزید ابوسفیان کسی کا نام نہین...یہ رہی مسند بزاز کی اصل روایت کے عربی الفاظ
3839 - حَدَّثَنَا السَّكَنُ بْنُ سَعِيدٍ، قَالَ: نَا عَبْدُ الصَّمَدِ، قَالَ: نَا أَبِي، وَحَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُمْهَانَ، عَنْ سَفِينَةَ، رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ جَالِسًا فَمَرَّ رَجُلٌ عَلَى بَعِيرٍ وَبَيْنَ يَدَيْهِ قَائِدٌ وَخَلْفَهُ سَائِقٌ، فَقَالَ: «لَعَنَ اللَّهُ الْقَائِدَ وَالسَّائِقَ وَالرَّاكِبَ»
[مسند البزار = البحر الزخار ,9/286]
.
نیز یہ بھی نہیں لکھا کتب میں کہ معاویہ ابوسفیان کے ایمان لانے سے پہلے کا واقعہ ہے یا بعد کا.....؟؟ اگر اس روایت کو صحیح مان لیا جاءے تو لازم ہے کہ اسے ایمان لانے سے پہلے کا واقعہ کہا جائے اور ایمان لانے کے بعد تمام مذمتیں ختم ہوجاتی ہیں
.
امام طبری نے سیدنا معاویہ و سفیان علیھم الرضوان کی مذمت کرتے ہوئے مزکورہ روایت نہیں لکھی
بلکہ
یہ لکھا ہے کہ
المعتضد بالله على لعن معاويه بن ابى سفيان على المنابر، وامر بإنشاء كتاب بذلك يقرا على الناس
[تاريخ الطبري = تاريخ الرسل والملوك، وصلة تاريخ الطبري ,10/54]
یعنی
معتضد باللہ نے جمعہ کے خطبوں میں سیدنا معاویہ و سفیان پر لعنت کا حکم دیا اور ایک تحریر لکھ دی جو ہر خطبہ جمعہ میں پڑھی جاتی تھی اس تحریر میں یہ بھی تھا کہ
ومنه قول الرسول ع وقد رآه مقبلا على حمار ومعاويه يقود به ويزيد ابنه يسوق به: لعن الله القائد والراكب والسائق]
ترجمہ
معتضد باللہ کی تحریر میں یہ بھی تھا کہ رسول اللہ نے دیکھا کہ ابو سفیان گدھے پے سوار ہے معاویہ آگے سے کھینچ رہا ہے اور اسکا بیٹا یزید گدھے کو پیچھے سے ہانک رہا ہے تو رسول نے فرمایا اللہ کی لعنت ہو سوار پر کھینچنے والے پر ہانکنے والے پر(تاريخ الطبري = تاريخ الرسل والملوك، وصلة تاريخ الطبري ,10/58]
.
اس روایت کے جھوٹے من گھرت ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ اس میں یزید بن معاویہ کا ذکر ہے کیونکہ یزید بن معاویہ زمانہ رسالت میں پیدا ہی نہیں ہوا تھا...
لیکن
شیعہ نے چالاکی کی اور ابنہ اسکا بیٹا ترجمہ کرنے کے بجائے اخوہ کر دیا یعنی یزید معاویہ کا بھائی ترجمہ کردیا
.
اگر اخوہ مان لیا جاءے تب بھی یہ روایت من گھڑت جھوٹی ہی کہلائے گی
کیونکہ
اول تو یہ کہ تاریخ طبری میں اسکو حق سچ کہہ کر نہین لکھا بلکہ ایک بادشاہ کے کرتوت کے طور پر لکھا
.
دوسری بات یہ ہے کہ روایت میں یہ نہین لکھا کہ اسلام لانے کے بعد رسول کریم نے لعنت کی...کیونکہ عین ممکن ہے بلکہ اگر روایت صحیح مان لی جائے تو واجب ہے کہ یہ معنی لیے جائیں کہ یہ لعنت معاویہ و ابوسفیان کے اسلام لانے سے پہلے کی بات ہوگی اور اسلام لانے کے بعد تمام لعنتیں بددعائیں براءییاں گناہ مذمتیں سب کچھ معاف ہوجاتا ہے اسلام لانے کے بعد عظمت و فضیلت والا رحمتی بن جاتا ہے
الحدیث:
أَنَّ الْإِسْلَامَ يَهْدِمُ مَا كَانَ قَبْلَهُ
ترجمہ:
اسلام لانے سےپہلے جو گناہ و مظالم کرتوت وغیرہ اس نے کیے اسلام لانے کے بعد اسلام ان گناہ و مظالم مذمتوں لعنتوں وغیرہ سب کچھ کو اسلام مٹا دیتا ہے
(اہلسنت کتاب مسلم حدیث192)
(شیعہ کتاب میزان الحکمۃ2/134)
.
الحدیث:
لَا تَذْكُرُوا مُعَاوِيَةَ إِلَّا بِخَيْرٍ، فَإِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «اللَّهُمَّ اهْدِ بِهِ
حضرت معاویہ کا تذکرہ خیر کےساتھ ہی کرو کیونکہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ تعالی وعلیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: اے اللہ! اسے(ہدایت یافتہ بنا کر اسے)ذریعہ ہدایت بنا۔(سنن ترمذی حدیث 3843)
اور نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا رد نہیں ہوتی لہذا سیدنا معاویہ ہدایت یافتہ باعث ہدایت ہیں رسول کریم کی ان کے لیے اچھی دعا ہے لیھذا لعنت والی بلاسند روایت جھوٹ ہے
.
الحدیث:
قَدْ فَعَلْتُ، يَغْفِرُ اللَّهُ لَهُ كُلَّ عَدَاوَةٍ عَادَانِيهَا
میں ابوسفیان سےراضی ہوگیا،اللہ اسکی تمام دشمنیوں کو معاف فرمائے(مستدرک حدیث5108)
نبی پاک راضی،اللہ پاک راضی
جل بھن جائےرافضی،نیم رافضی
*#چوتھا_اعتراض:*
حضرت عمار اور ایک روایت میں ہے کہ حضرے علی نے فرمایا
والله ما أسلموا ولکن استسلموا وأسروا الکفر فلما رأو علیه أعوانا أظهروه۔۔۔ خدا کی قسم معاویہ اور اسکے ساتھی بالکل اسلام نہیں لائے تھے، وہ ظاہری طور پر اسلام کا نام لیتے تھے اور اپنے کفر کو مخفی طور پر چھپاتے تھے اور آج جنگ صفین میں جب اس نے اپنے مددگاروں کو پا لیا ہے تو انھوں نے اپنے باطنی کفر کو اسلام کے خلاف ظاہر کر دیا ہے۔* (مجمع الزوائد ومنبع الفوائد، اسم المؤلف: علی بن أبی بکر الهیثمی، دار النشر: دار الریان للتراث/دار الکتاب العربی - القاهرة, بیروت – 1407، ج 1، ص 113، باب منه فی المنافقین)
.
جواب.و.تحقیق:
پہلی بات یہ کہ اس بےسند روایت سے ثابت ہوتا ہے کہ نعوذ باللہ سیدنا معاویہ بمع گروہ منافق تھے باطن میں کفر رکھتے تھے موقع پر کفر ظاہر کیا جبکہ حضرت سیدنا علی نے فرمایا کہ سیدنا معاویہ بمع گروہ ہمارے بھائی (اجتہادی) باغی تھے مشرک کافر منافق نہ تھے...
.
أن عليا – عليه السلام – لم يكن ينسب أحدا من أهل حربه إلى الشرك ولا إلى النفاق ، ولكنه يقول : هم بغوا علينا ))
ترجمہ:
بےشک سیدنا علی جنگ کرنے والوں(جنگ جمل و صفین والے سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ سیدنا زبیر و طلحہ وغیرہ صحابہ)کو شرک و منافقت کی طرف منسوب نہ کرتے تھے بلکہ فرماتے تھے کہ وہ ہماری دینی بھائی ہیں جنہوں نے(اجتہادی) بغاوت کی ہے
(شیعہ کتاب قرب الإسناد ص 62
شیعہ کتاب وسائل الشيعة11/62
شیعہ کتاب بحارالانوار32/324)
نوٹ:
اجہتادی بغاوت شرک کفر منافقت گناہ نہیں
.
سیدنا عمار کا نظریہ بھی ملاحظہ فرمائیے
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، عَنِ الْحَسَنِ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ زِيَادِ بْنِ الْحَارِثِ، قَالَ: كُنْتُ إِلَى جَنْبِ عَمَّارِ بْنِ يَاسِرٍ بِصِفِّينَ , وَرُكْبَتِي تَمَسُّ رُكْبَتَهُ , فَقَالَ رَجُلٌ: كَفَرَ أَهْلُ الشَّامِ , فَقَالَ عَمَّارٌ: لَا تَقُولُوا ذَلِكَ نَبِيُّنَا وَنَبِيُّهُمْ وَاحِدٌ , وَقِبْلَتُنَا وَقِبْلَتُهُمْ وَاحِدَةٌ ; وَلَكِنَّهُمْ قَوْمٌ مَفْتُونُونَ جَارُوا عَنِ الْحَقِّ , فَحَقَّ عَلَيْنَا أَنْ نُقَاتِلَهُمْ حَتَّى يَرْجِعُوا إِلَيْهِ "
راوی کہتے ہیں کہ میں جنگ صفین کے موقع پر حضرت عمار بن یاسر کے اتنا قریب بیٹھا تھا کہ ان کے گھٹنے سے میرا میرا گھٹنا ملا ہوا تھا اسی اثنا میں ایک شخص نے کہا کہ اھل شام یعنی سیدنا معاویہ وغیرہ نے کفر کیا تو حضرت عمار نے فرمایا کہ یہ مت کہو کہ انہوں نے کفر کیا کیونکہ ان کے نبی اور ہمارا نبی ایک ہے اور ان کا قبلہ اور ہمارا قبلہ ایک ہے لیکن وہ قوم فتنہ میں پڑ گئی اور حق سے ہٹ گئی یعنی اجتہادی بغاوت کی تو ہم پر حق ہے کہ ہم ان کے ساتھ قتال کریں یہاں تک کہ وہ حق کی طرف لوٹ آئیں
[مصنف ابن أبي شيبة استاد بخاری روایت37841]
.
شیعوں کی معتبر ترین کتاب نہج البلاغۃ میں سیدنا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم موجود ہے کہ: .ومن كلام له عليه السلام وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إني أكره لكم أن تكونوا سبابين، ولكنكم لو وصفتم أعمالهم وذكرتم حالهم كان أصوب في القول
ترجمہ:
جنگ صفین کے موقعے پر اصحابِ علی میں سے ایک قوم اہل الشام (سیدنا معاویہ سیدہ عائشہ وغیرھما رضی اللہ تعالیٰ عنھم اجمعین) کو برا کہہ رہے تھے، لعن طعن کر رہے تھے تو حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم نے فرمایا: تمہارا اہل شام( سیدنا معاویہ، سیدنا ابو سفیان سیدہ عائشہ صحابہ وغیرہ کو) برا کہنا لعن طعن کرنا مجھے سخت ناپسند ہے ، درست یہ ہے تم ان کے اعمال کی صفت بیان کرو...(نہج البلاغہ ص437)
.
سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: لاتکرہ امارۃ معاویه ترجمہ: حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کی حکومت کو ناپسند.و.نفرت مت کرنا (بدایہ نہایہ8/131, استادِ بخاری فی "المصنف" روایت نمبر37854 شیعہ کتاب شرح نہج البلاغۃ ابن ابی حدید3/36)
.
حضرت علی نے اپنے مخالفین اصحاب جمل وصفین یعنی سیدنا معاویہ سیدنا ابو سفیان اور سیدہ عائشہ سیدنا زبیر وغیرہ کے متعلق فرمایا: .إِِخْوَانُنَا بَغَوْا عَلَيْنَا ترجمہ: وہ(سیدنا معاویہ سیدنا ابو سفیان سیدہ عائشہ سیدنا زبیر سیدنا طلحہٰ وغیرہ )ہمارے دینی بھائی ہی ہیں اگرچہ انہوں نے اجتہادی بغاوت کی ہے(شیعہ کتاب: قرب الاسناد جلد6 ص11, وسائل الشیعہ قبیل روایت نمبر20032)
سیدنا علی کا سیدنا معاویہ وغیرہ کو بھائی کہنا دلیل ہے کہ وہ فاجر منافق کافر نہ تھے
.
دوسری بات یہ کہ شیعہ کی پیش کردہ روایت کی مجمع الزوائد میں کوئی سند ہی نہیں لکھی اور بلاسند کفر منافقت فسق جیسا عمل پے مشتمل بےسند روایت جو معتبر روایات کے خلاف ہو وہ یقینا ناقابل عمل ناقابل حجت ہے مردود ہے من گھڑت و جھوٹ ہے وَمِنَ الْمَقْطُوعِ بِكَذِبِهِ مَا نُقِّبَ عَنْهُ مِنَ الْأَخْبَارِ، وَلَمْ يُوجَدْ عِنْدَ أَهْلِهِ مِنْ صُدُورِ الرُّوَاةِ، وَبُطُونِ الْكُتُبِ، وَكَذَا قَالَ صَاحِبُ الْمُعْتَمَدِ. قَالَ الْعِزُّ ابْنُ جَمَاعَةَ: وَهَذَا قَدْ يُنَازَعُ فِي إِمْضَائِهِ إِلَى الْقَطْعِ، وَإِنَّمَا غَايَتُهُ غَلَبَةُ الظَّنِّ. اور جس حدیث و خبر کے بارے میں تحقیق و تدقیق کی گئی اور اہل فن کے پاس ان کی سند نہ مل سکی اور نہ ہی وہ حدیث و خبر معتبر مصنفات میں نہ مل سکیں تو اس حدیث و خبر کا موضوع من گھڑت جھوٹا ہونا قطعی ہے۔ایسا ہی صاحب المعتمد نے بھی کہا ہے امام عزبن جماعہ نے فرمایا ایسی صورت میں یہ کہنا کہ قطعی طور پر موضوع ہے قابل قبول نہیں ہاں ظن غالب ضرور ہے کہ وہ حدیث و خبر موضوع من گھڑت جھوٹی ہے۔ (تدريب الراوي في شرح تقريب النواوي1/326)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,bip nmbr
00923468392475
03468392475