یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

خود ساختہ سوچخود ساختہ سوچ



📚 **خود ساختہ سوچ** 📚


از قلم: ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
7/3/2021
03163627911

جب بھی ثقلین اپنے نانا جان کے گاؤں جاتا تو نانا ابو اسے اپنے باغ میں لاتے اور جو پھل درخت سے گر کر زمین پر پڑے ہوتے انھیں اٹھا کر دھو کہ اپنے نواسے کو دیتے۔
ثقلین ہر دفعہ یہ سوچتا کہ نانا جان کتنے کنجوس ہیں جب بھی آتا ہوں مجھے گرے پڑے پھل ہی کھانے کو دیتے ہیں 

ایک مرتبہ اس نے نانا جان سے پوچھ ہی لیا کہ نانا ابو آپ مجھے درخت پہ لگے پھل دینے کے بجائے گرے پڑے پھل کیوں دیتے ہیں

نانا جان نے مسکراتے ہوئے کہا
ثقلین بیٹا!!!
یہ گرے پڑے پھل ان درخت پہ موجود پھلوں سے زیادہ میٹھے اور رسیلے ہوتے ہیں کیونکہ یہ پورے طور پر پک کر تیار ہونے کے بعد گرے ہیں لہٰذا ان سے زیادہ میٹھے یہ ہیں اسلیئے آپ کو میں یہی پھل دیتا ہوں۔

ہمارا حال بھی کچھ اسی طرح کا ہی ہے ہم اپنے تائیں ہر چیز کو سوچ کر اسکے متعلق اپنی رائے قائم کر لیتے ہیں جس کے بارے میں رائے قائم کر رہے ہوتے ہیں کبھی اس سے اسکے متعلق پوچھا تک نہیں ہوتا اور فوراً سے مائینڈ سیٹ کر لیا جاتا ہے کہ یہ تو ایسا ہے ویسا ہے

پیارے دوستو!!
یہ 🌍خود ساختہ سوچ🌍 کہلاتی ہے جو ہم دوسرے کے بارے میں سوچ لیتے ہیں 

ثقلین نے جب تک معاملہ اپنی سوچ تک رکھا اپنے نانا جان سے دریافت نہیں کیا تو وہ نانا جان کو کنجوس خیال کر رہا تھا لیکن معاملہ الٹ ہی نکلا کہ نانا جان تو نواسے کی بھلائی کے لیے گرا پڑا پھل اسے کھلاتے تھے نہ کے کنجوس تھے

ہم ذرا سا کسی کا غصہ دیکھ یا اسکے چہرے پر طویل خاموشی دیکھ کر اسے متکبر ،مغرور سمجھنا شروع کر دیتے ہیں لیکن جب وضاحت کی جاتی ہے عموماً معاملہ ایسا نہیں ہوتا

 *سوچ دو طرح کی ہوتی ہے* ۔

1۔اچھی سوچ(حسن ظن)

2۔بری سوچ(سوء ظن)

📝 *سوء ظن(بری سوچ)* 

’بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم (یعنی یقین) کرنا۔‘‘

 (باطنی بیماریوں کی معلومات،صفحہ۱۴۰،۱۴۱)

آیت مبارکہ:

اللہ عَزَّ وَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: (یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘-اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّ لَا تَجَسَّسُوْا وَ لَا یَغْتَبْ بَّعْضُكُمْ بَعْضًاؕ-اَیُحِبُّ اَحَدُكُمْ اَنْ یَّاْكُلَ لَحْمَ اَخِیْهِ مَیْتًا فَكَرِهْتُمُوْهُؕ-وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ(۱۲)

(پ۲۶، الحجرات: ۱۲)

ترجمۂ کنزالایمان: ’’اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈو اور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے بھائی کا گوشت کھائے تو یہ تمہیں گوارا نہ ہو گا اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘

صدر الافاضل حضرتِ علامہ مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہِ الْہَادِی ’’خزائن العرفان‘‘ میں اس آیت مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں : ’’مومنِ صالح کے ساتھ بُرا گمان بھی ممنوع ہے ، اسی طرح اس کا کوئی کلام سن کر فاسد معنٰی مراد لینا باوجود یہ کہ اس کے دوسرے صحیح معنٰی موجود ہوں اور مسلمان کا حال ان کے موافق ہو ، یہ بھی گمانِ بد میں داخل ہے ۔

  📝 *حسن ظن (اچھی سوچ)

حسن ظن کی تعریف :‏

‏ کسی مسلمان کے بارے میں اچھا گمان رکھنا ’’حسن ظن ‘‘کہلاتا ہے۔

(نجات دلانےوالےاعمال کی معلومات،صفحہ۹۸)

ہم مسلمان ہیں ہمیں اپنے دین کے ان احکامات کا جاننا بے حد ضروری ہے

کسی کے بارے میں رائے قائم کرنے سے پہلے شرعی حکم پر نظر کیجیے کہ یہ کہیں بد گمانی تو نہیں اگر ایسا ہے تو فوراً اسے دور فرما لیجیۓ


عیبوں کو ڈھونڈتی ہے عیب جو کی نظر

جو خوش نظر ہیں وہ ہنر و کمال دیکھتے ہیں