یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

علم منطق کے متعلق چند أقوال




*علم منطق کے متعلق چند  أقوال :-*

 
امام غزالی فرماتے ہیں :
1⃣ إنّ من لا معرفة لہ بالمنطق لا یوثق بعلمہ ۔

2⃣  إنّ من لا یحیط بالمنطق فلا ثقة لہ فی العلوم أصلا ۔

3⃣ إنّ المنطق کالمعیار و المیزان للعلوم کلھا ، وکل ما لم یوزن بالمیزان لا یتمیز فیہ الرجحان من النقصان و الربح من الخسران ۔

4⃣ فارابی نے اسے رٸیس العلوم کہا ۔

5⃣ أبن سینا نے اسے خادم العلوم کہا ہے ۔

6⃣ أبن سینا : المنطق نعم العون علی إدراک العلوم کلھا ۔

7⃣ میر شریف جرجانی : من کان فکرہ أکثر فإحتیاجہ إلی المنطق متفاوتہ ۔

( *مأخوذا :* کشف الظنون عن أسامی الکتب و الفنون ،  الشمسیة فی قواعد المنطقیہ ) 

علم منطق کو کٸ نام دیۓ گۓ ہے جن کی تعداد تقریبا دس تک پہنچ جاتی ہیں : خادم العلوم ، رٸیس العلوم ، معیار العلم ، علم آلی وغیرہ ۔

 *علم منطق کے نام :- 

1⃣ أرسطو نے علم التحلیل ۔

2⃣ علم المیزان ۔

3⃣ معیار العلم ۔ 

4⃣ فن التفکیر ۔

5⃣ فارابی رٸیس العلوم ۔

6⃣ إبن سینا خادم العلوم ۔

7⃣ علم الآلی ۔

8⃣  علم المنطق ۔

9⃣ قسطاس المستقیم ۔

🔟 أورکانون ( یونانی ) ۔

ممکن ہے اس کے علاوہ بھی ہو ۔

منطق کی دو قسمیں ہیں : 

1⃣ وہ منطق جو فلسفی شبھات سے خالی ہو اس بارے میں کسی کا أختلاف نہیں ہے ۔

 2⃣ وہ منطق جو فلسفے سے ملی ہوٸ  اس کو پڑھنے کے متعلق کے متعلق تین أقوال ہیں : 

1⃣ إمام  إبن صلاح ، امام یحیی شرف نووی اور متأخرین کی ایک جماعت ان میں إمام جلال الدین سیوطی رحمھم اللہ   نے اسے مطلقا حرام قرار دیا ہے ۔

2⃣ إمام غزالی  رحمہ اللہ نے اس کو پڑھنے کو جاٸز قرار دیا ہے ۔( اسی پر جمہور ہے ) 

3⃣ اس شخص کے لۓ جاٸز ہے جو اتنا ذہین و فطین ہے کہ غلط اور صحیح کے درمیان فرق کردے ۔

( *مأخوذا :* الشرح الواضح المنسق لنظم سلم المرونق ، شرح شیخ حسن درویش القویسینی علی متن السلم فی المنطق ، الضو ٕ المشرق علی سلم المنطق للأخضری   ) 

 *أز قلم : محمد عمیر عطاری*
 *أز قلم : محمد عمیر رضا عطاری*
 *أز قلم : محمد عمیر رضا عطاری*