*بیعت کےوقت یزید پلید نااہل و برا نہ تھا لیھذا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کہ برے و نا اہل کو ولی عہد کیا جھوٹ ہے..........!!*
*بیعت کےوقت یزید پلید نااہل و برا نہ تھا لیھذا سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ پر طعن کہ برے و نا اہل کو ولی عہد کیا جھوٹ ہے..........!!*
سوال:
علامہ صاحب ایک سوال کے جواب کی اشد ضرورت ہے سوال کچھ اس قسم کا ہے کہ زید کہتا ہے کہ جب سیدنا معاویہ نے یزید کے لیے بیعت لی تو اس وقت سیدنا معاویہ کو پتہ تھا کہ یزید نا اہل ہے،(فاسق و فاجر اور شرابی ہے بے نمازی ہے)لہذا سیدنا معاویہ سے بہت بڑی خطا ہوئی
۔
جواب:
جب یزید کی لئے بیعت لی گئ، بیعت کی گئی تو اس وقت یزید برا نہ تھا ، نااہل نہ تھا ، بعد میں پلید ظالم برا فاسق و فاجر ہوا....بیعت کے وقت نااہل و برا نہ تھا اس پر ہم مختصراً حق چار یار کی نسبت سے چار دلائل پیش کر رہے ہیں
.
*دلیل نمبر 1:*
بَلَغَ ابْنَ عُمَرَ أَنَّ يَزِيدَ بْنَ مُعَاوِيَةَ بُويِعَ لَهُ فَقَالَ: «إِنْ كَانَ خَيْرًا رَضِينَا , وَإِنْ كَانَ شَرًّا صَبَرْنَا
جب صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کو یہ خبر پہنچی کہ یزید بن معاویہ کی بیعت کی گئی ہے تو آپ نے فرمایا کہ اگر اچھا نکلا تو ہم راضی ہو جائیں گے اور اگر برا نکلا تو ہم صبر کر لیں گے
(استادِ بخاری مصنف ابن أبي شيبة ,6/190روایت30575)
صحابی سیدنا ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہ کا یہ کہنا کے اگر برا نکلا واضح دلیل ہے کہ اس وقت یزید برا نہیں تھا
.
*دلیل نمبر 2:*
بايعه ستون من أصحاب رسول الله - صلى الله عليه وسلم
ساٹھ صحابہ کرام نے یزید کی بیعت کی
(عمدة الأحكام الكبرى1/42)
(ذيل طبقات الحنابلة3/55)
بھلا کیسے ہو سکتا ہے کہ اتنے صحابہ کرام کسی شرابی زانی بے نمازی فاسق و فاجر نااہل کی بیعت کریں۔۔۔۔؟؟
.
*دلیل نمبر3:*
اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي وَلَّيْتُهُ لِأَنَّهُ فِيمَا أَرَاهُ أَهْلٌ لِذَلِكَ فَأَتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ، وَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي إِنَّمَا وَلَّيْتُهُ لِأَنِّي أُحِبُّهُ فَلَا تُتْمِمْ لَهُ مَا وَلَّيْتُهُ
سیدنا معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ نے جب یزید کے لیے بیعت لے لی تو آپ یہ دعا فرمایا کرتے تھے کہ اللہ اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اپنے بیٹے کو اس لیے ولی عہد کیا ہے کہ وہ اس کا اہل ہے تو اس کو ولی عہدی عطا فرما اور اگر تو جانتا ہے کہ میں نے اس کو ولی عہد محض اس لئے بنایا ہے کہ میں اس سے محبت کرتا ہوں تو اس کے لیے ولی عہدی کو مکمل نہ فرما
(البداية والنهاية ط هجر11/308)
صاف ظاہر ہوتا ہے کہ سیدنا معاویہ نے بیٹے کو اہل سمجھتے تھے تب بھی تو ان کے لئے بیعت لی اور آگے کے لئے دعا فرمائی
*دلیل نمبر4:*
تمام معتبر کتب میں لکھا ہے کہ دو تین صحابہ کرام نے یزید کی بیعت نہ کی تو انہوں نے بیعت نہ کرنے کی وجہ یہ بتائی کہ یہ طریقہ ولی عہدی مروجہ ماثورہ نہیں ہے بلکہ سیدنا معاویہ کا(اجتہاد کردہ)نیا طریقہ ہے۔۔۔اگر یزید نااہل ہوتا زانی شرابی فاسق و فاجر ہوتا تو صحابہ کرام ضرور اعتراض میں اس چیز کا تذکرہ کرتے... صحابہ کرام کو کوئی عذر معلوم نہ ہوا سوائے اس کے کہ ولی عہدی اسلام میں ایک نیا طریقہ ہے
ويزيد أخوكم، وابن عمَكم، وأحسن النَّاس فيكم رأيًا، وإنما أردت أن تقدموه، وأنتم الذين تنزعون وتؤمرون وتقسمون، فسكتوا، فَقَالَ: ألَّا تجيبوني! فسكتوا، فأقبل عَلَى ابن الزبير فقال: هات يابن الزبير، فإنك لعَمْري صاحب خطبة القوم. قَالَ: نعم يَا أمير المؤْمِنِينَ، نخيرك بَيْنَ ثلاث خصال، أيها مَا أخذتَ فهو لك، قَالَ: للَّهِ أَبُوك، اعرضهنّ، قَالَ: إن شئتَ صُنع مَا صنع رَسُول اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَإِنَّ صُنع مَا صنع أَبُو بكر، وإن شئت صُنع مَا صنع عمر. قَالَ: مَا صنعوا؟ قَالَ: قُبِضَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فلم يعهد عهدًا، وَلَمْ يستخلف أحدًا، فارتضي المسلمون أبا بكر. فَقَالَ: إِنَّهُ ليس فيكم الْيَوْم مثل أَبِي بكر، إن أبا بكر كَانَ رجلًا تُقطع دونه الأعناق، وإني لست آمن عليكم الاختلاف. قَالَ: صدقت، واللَّه مَا نحب أن تدعنا، فاصنع ماصنع أَبُو بكر. قَالَ: للَّهِ أَبُوك وَمَا صنع؟ قَالَ: عمد إِلَى رَجُلٌ من قاصية11 قريش، ليس من رهطه فاستخلفه، فإن شئت أن تنظر أي رَجُلٌ من قريش شئت، ليس من بني عَبْد شمس، فنرضى بِهِ. قَالَ: فالثالثة مَا هِيَ؟ قَالَ: تصنع مَا صنع عمر. قَالَ: وَمَا صنع؟ قَالَ: جعل الأمر شورى في ستة، ليس فِيهِم أحد من ولده، وَلَا من بني أبيه، وَلَا من رهطه. قَالَ: فهل عندك غير هَذَا؟ قَالَ: لَا،
انظر: البداية "8/ 56-58"، تاريخ الطبري "5/ 270-276"، الكامل "3/ 490"
(تاريخ الإسلام ط التوفيقية4/77,78)
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,bip nmbr
00923468392475
03468392475
آپ میرا نام و نمبر کاٹ کر بلانام شئیر کاپی پیسٹ کرسکتے ہیں...نام لکھنے علامہ لکھنے نمبر لکھنے کے فوائد بہت ہین مثلا کوئی آپ سے الجھنے کے بجائے اصل لکھاری سے بات کرسکے اور لوگوں کو اپنے مسائل اعتراضات اشکلات کے حل کے لیے نمبر مل سکے لیھذا ماہر علماء فضلاء کو تحریرات میں اپنا نمبر دینا چاہیے واللہ تعالیٰ اعلم