یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

13رجب،کعبہ،سیدنا علی و سیدنا حکیم........!!



13رجب،کعبہ،سیدنا علی و سیدنا حکیم........!!

خلاصہ:
سیدنا ابوبکر صدیق سیدنا علی رضی اللہ عنھما اور لاکھوں صحابہ کرام اہل بیت سادات کرام میں سے اکثر کی فکس تاریخ ولادت مستند باسند کتابوں میں نہیں آئی..اور سیدنا علی کی ولادت کعبہ کے اندر ہونے کا واقعے کی اگرچہ صحیح متصل سند نہ ملی
مگر
مجموعی طور یہ کہہ سکتے ہیں کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد نظریات نکال کر فقط اتنا کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علی کی ولادت اندازاً تیرہ رجب کعبہ میں ہوئی اور یہ خصوصیت صرف سیدنا علی کی نہیں بلکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوےتھے...صحابہ کرام کی تاریخ پر لکھی ہر کتاب بلکہ اس کے علاوہ بہت کتابوں میں سیدنا حکیم بن حزام کے متعلق یہی لکھا ہے..مثلا صحیح مسلم کتاب البیوع باب الصدق فی البیع والبیان میں امام مسلم فرماتے ہیں:
ولد حکیم بن حزام فی جوف الکعبۃ
سیدنا حکیم بن حزام عین کعبہ کے اندر پیدا ہوے.
(صحیح مسلم تحت الحدیث،1532,3850)
.
ایسے الفاظ.و.وضاحت بھی ضروری بیان کی جاے کہ جس سے غلط بے بنیاد نظریات کی تردید ہو..مثلا وحی یا تقابل ولادت سیدنا عیسی  وغیرہ کا رد کیا جائے، حضرت علی کی ولادت کعبہ میں ہونے کو بیان کیا جاے تو ساتھ میں یہ بھی بیان کیا جاے کہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام کی ولادت بھی کعبہ کے اندر ہوئی.. اس طرح غلط بے بنیاد نظریات خودبخود ختم ہوجائیں گے
.=======================
حضرت سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کی.ولادت کب ہوئی اور کہاں ہوئی.. اس بارے میں اہل سنت اہلِ تشیع اور دیگر مسالک کی کافی کتب کا بغور مطالعہ کیا..اور اس نتیجے پے پہنچا کہ
①پوائنٹ نمبر ایک:
پہلے کے زمانے میں فکس تاریخ ولادت کا اہتمام نا تھا،سیدنا ابو بکر صدیق اور سیدنا علی اور بہت سارے صحابہ اہلِ بیت کی تاریخِ ولادت مستند کتابوں میں نہیں آئی...حتی کہ جو تیرہ رجب مشھور ہے اسکی تحقیق.و.تفصیل دیکھی جاے تو تیرہ رجب اندازہ کرکے بتائی گئ ہے...جس واقعہ سے اندازہ کیا گیا وہ پوائنٹ نمبر دو کے بعد عرض کرونگا.. پھر اس اندازے کو بعد کی دو چار کتابوں مین اندازے کا تذکرہ کیے بغیر اتنا لکھ دیا گیا کہ سیدنا علی تیرہ رجب میں پیدا ہوے

②نمبر دو:
جس واقعے سے تیرہ رجب ولادت کا دن ہونے کا اندازہ لگایا گیا اسی واقعے سے یہ ثابت کیا گیا کہ آپ کی ولادت کعبے کے اندر ہوئی
.
③ولادت والا واقعہ:
شیعہ کتب مین واقعہ درج ہے کہ حضرت علی کی والدہ کو وحی ہوئ،کچھ کتابوں میں ہے کہ الھام ہوا کہ کعبے میں جاے کیونکہ ولادتِ علی کا وقت قریب ہے... وہ کعبے مین گئیں دردِ زہ ہوا اور کعبے کے اندر سیدنا علی کی.ولادت ہوئ.. کچھ کتب میں اسکی مزید تفصیل یوں ہے کہ کعبہ کے اندر کا دروازہ کبھی کبھار ہی کھلتا تھا.. پندرہ رجب حضرت موسی علیہ السلام کی ولادت کا دن کے موقعے پر چار پانچ دن کے لیے کعبے کا اندر کا دروازہ بھی کھلتا تھا.. باپردہ خواتین پندرہ رجب سے دو تین دن پہلے ہی زیارت کر آتی تھیں..اس طرح اندازہ لگایا گیا کہ تیرہ رجب کو سیدنا علی کی والدہ کعبہ گئی ہوگی..پھر اہل تشیع نے سیدنا موسی علیہ السلام سے بھی حضرت علی کو افضل کہہ دیا کہ حضرت عیسی کی ولادت کے وقت بی بی مریم کو بیت المقدس سے باہر بھیجا گیا اور یہاں کعبہ کے اندر ولادت علی کا حکم..
.
شاہ صاحب کا تبصرہ:
تحفہ اثنا عشریہ صفحہ 164,165.,166میں شاہ صاحب نے مذکورہ روایت ، مذکورہ واقع  کو جھوٹ دھوکہ قرار دیا...فرمایا کہ کسی معتبر کتاب مین حدیث میں کہیں یہ نہیں آیا کہ بی بی مریم کو بیت المقدس سے نکل جانے کا حکم ہوا ہو...ہرگز نہیں.. اور فرمایا کہ کسی معتبر کتاب میں یہ نہیں کہ ولادتِ علی کے لیے کعبہ جانے کا حکم ہوا ہو..ہرگز نہیں.. وہ ایک اتفاق تھا.. وحی کا کہنا تو کفر ہے... شاہ صاحب نے تیرہ رجب پر گفتگو نا فرمائی.. البتہ ان کے کلام سے واضح ہوتا ہے کہ شیعہ کے مرچ مسالے جھوٹ بے بنیاد غلط نظریات نکال کر یہ ہوسکتا ہے کہ اتفاقا عورتوں کے ساتھ سیدنا علی کی والدہ بھی کعبہ کی زیارت کوگئی ہوں اور وہاں اتفاقا دردِ زہ زیادہ ہوگیا ہو اور اس طرح سیدنا علی کی ولادت کعبہ میں ہوئی ہو مگر شاہ صاحب نے ساتھ میں دو ٹوک ارشاد فرمایا کہ اس سے افضلیت وغیرہ شیعہ کے دعوے ثابت نہین ہوتے کیونکہ صحابی سیدنا حکیم بن حزام بھی کعبہ کے اندر پیدا ہوے
.
نوٹ:
کافی کتب میں سیدنا علی کے کعبہ میں پیدا نا ہونے کا لکھا ہے... چند اہلسنت کتابوں میں بغیر سند و ثبوت کے آپ کی ولادت کعبہ میں ہونے کا لکھا ہے....عقائد افضلیت حلال حرام وغیرہ بنیادی معاملات میں صحیح مستند روایات ضروری ہیں جیساکہ نیچے دو اصول بیان کیے جائیں گے جبکہ تاریخ ، فضائل،  پیدائش وغیرہ چھوٹے چھوٹے معاملات میں اتنی سختی نہیں... مسلک المقتسط اورفتاوی شامی اور فتاوی رضویہ سے دو قیمتی اصول پر تحریر کا اختتام کر رہا ہوں..
.
اصول نمبر ایک:
 مسلک المتقسط وغیرہ کتب مین ہے کہ:
الاصل ھوالنفی حتی یتحقق الثبوت
ترجمہ: اصل کسی چیز کی نفی ہے جب تک کہ ثبوت متحقق نا ہو جاے(المسلک المتقسط صفحہ 110.. فتاوی رضویہ جلد6 صفحہ198)
.
اصول نمبر دو:
امام احمد رضا فتاوی شامی کی عبارت کو دلیل.بناتے ہوے فرماتے ہیں:
اگر تسلیم بھی کیا جائے کہ بہت سی جگہوں میں مذکور ہے تو بھی کثرت نقول مستلزم صحت کو نہیں پہلے ایک شخص کو غلطی ہوجاتی ہے اور بعد کے لوگ اس کی غلطی بظنِ صحت نقل کرتے چلے جاتے ہیں
۔شامی جلد 4ص 351 میں ہے:قد یقع کثیراان مؤلفایذکر شیئاخطاً فینقلونہ بلا تنبیہ فلیکثرالناقلون واصلہ لواحدمخطئ 
اکثر ایسا واقع ہوا ہے کہ مؤلف سے کوئی غلطی ہوگئی تو لوگ اسے بلا تنبیہ نقل کرتے رہتے ہیں حتی کہ اس کے ناقلین کثیر ہوجاتے ہیں حالانکہ اصل کے اعتبار سے ایک مخطی ہوتا ہے
(فتاوی رضویہ جلد6 صفحہ،199,198)
.
بعض محققین کہتے ہیں کہ اہلسنت کی کسی معتبر کتاب میں باسند نہیں لکھا کہ سیدنا علی کی ولادت کعبہ میں ہوئی بعض کتب میں اگر لکھا ہے تو بلاسند کے یا پھر امام حاکم کو غلطی لگی انہوں نے سیدنا علی کومولود کعبہ لکھا پھر انکی پیروی میں مشہور ہوگیا کہ سیدنا علی مولود کعبہ ہے لیھذا یہ شہرت یہ کئ کتب میں بلادلیل آنا معتبر نہیں...لیکن میری رائے فالحال یہ ہے کہ اگر تاریخ ولادت میں باسند روایت کی شرط لگائی جائے تو غالبا سیدنا حکیم بن حزام کے مولود کعبہ ہونے کی بات بھی مشھور و کئ کتب میں موجود تو ہے مگر
متصل سند نہیں....تاریخ ولادت کے معاملے میں معتبر نسب دان یا تاریخ دان کا کہنا لکھنا ہی کافی ہونا چاہیے لیھذا شیعہ کے مرچ مسالے غلط سوچ و نظریات نکال کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ سیدنا علی اور سیدنا حکیم بن حزام دونوں کعبہ میں پیدا ہوئے....واللہ تعالی اعلم بالصواب
.
✍تحریر:العاجز الحقیر علامہ عنایت اللہ حصیر
facebook,whatsApp,bip nmbr
00923468392475
03468392475