February 07, 2021 Abdullah Hashim Madni
" کیاعورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر ماں باپ کے گھر جا سکتی ہے"
*استفتاء نمبر 327 :*
ہمارے ایک درینہ عزیز اپنے ایک ذاتی مسئلے میں بضد ہیں کہ جب تک اہلِ علم سے رائے نہیں مل جاتی وہ اپنی بات پر قائم رہتے ہوئے اپنا عمل جاری رکھیں گے ۔ ہر چند ہم اپنے تئیں جو کچھ علم میں تھا گوش گزار کر چکے ہیں مگر وہ تاحال بضد ہیں اور ان کی ضد کی وجہ سے ہمارے خیال میں ایک گناہ ہو رہا ہے جس کا انہیں احساس نہیں ہے ۔ بہرحال مسئلہ بیان کئے دیتے ہیں تاکہ آپ حضرات اس پر بحوالہ دلائل کے ساتھ جواب عنایت فرما دیں۔
موصوف کی ہمشیرہ جو ایک شادی شدہ خاتون ہیں اپنے میکے سے اِس لیے اپنے شوہر کے گھر نہیں جا رہی ہیں کیونکہ اُن کے والدین ضعیف ہیں اور ضیعف والدین کی خدمت ان پر فرض ہے ۔ کیونکہ حدیث میں آیا ہے کہ انسان پر سب سے ذیادہ حق اس کی والدہ کا ہے پھر والدہ کا ہے پھر والدہ کا ہے پھر والد کا ہے اور ایک دوسری حدیث میں ہے کہ انسان اور اس کی سب آل اولاد سب اسکے باپ کی ہے لہذا وہ بھی اپنی ہمشیرہ کے موقف کی تائید کرتے ہیں۔ والدین بھی یہی کہتے ہیں کہ اگر تم شوہر کے ساتھ گئیں تو ہم تمہں معاف نہیں کریں گے اور زندگی بھر تم سے کوئی تعلق نہیں رکھیں گے۔
دوسری طرف شوہر کا کہنا یہ ہے کہ شادی کے بعد عورت کا فرض اپنے شوہر کی خدمت کرنا اور شوہر کے ساتھ رہنا ہے ناکہ والدین کے ساتھ رہنا ۔ اور شادی کے بعد عورت کا اپنے شوہر سے ان وجوہات کی بنیاد پر دور رہنا ناجائز ہے ۔
اس مسئلے میں آپ سے مدلل رائے چاہیے کہ کون سا فریق حق پر ہے؟
اور اس عورت پر کس کی اطاعت واجب ہے والدین کی یا شوہر کی؟
اگر شوہر کی بات مان کر والدین کو ناراض کردے تو کیا حکم لگے گا ؟
اگر والدین کی مان کر شوہر کو ناراض کردے تو کیا حکم لگے گا ؟
سائل : عبداللہ
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
شوہر کے حقوق عورت پر بکثرت ہیں اور شوہر کے حقوق کی ادائیگی عورت پر بَہُت زیادہ لازم اور ضروری ہے، عورت پر سب سے بڑا حق اس کے شوہر کا ہے یعنی عورت کے ماں باپ سے بھی زیادہ حق اس کے شوہر کا ہے، میاں بیوی سے متعلق معاملات میں مطلقاً شوہر کی فرمانبرداری کرے کہ ان معاملات میں شوہر کی اطاعت اپنے ماں باپ پر بھی مقدم ہے لہذا صورتِ مسؤلہ (یعنی پوچھی گئی صورت) میں مذکورہ عورت اپنے شوہر کی اجازت کے بغیر ماں باپ کے پاس ہفتے میں صرف ایک بار صبح سے شام تک کے لئے جا سکتی ہے اور ماں باپ کے علاوہ دیگر محارم جیسے بہن، بھائی، چچا، ماموں، خالہ اور پھوپھی وغیرہ کے پاس سال میں صرف ایک بار صبح سے شام تک کے لئے جاسکتی ہے، اس کے علاوہ شوہر کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتی البتہ اگر شوہر اجازت دے تو روزانہ بھی جا سکتی ہے اور رات کے وقت بھی جا سکتی ہے۔
اب اگر مذکورہ حکمِ شرع پر عورت عمل کرتی ہے اور اس کے ماں باپ اس سے ناراض ہوجاتے ہیں تو عورت پر کوئی وبال و گناہ نہ ہوگا۔
چنانچہ اُمُّ المؤمنین حضرت سیِّدَتُنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا فرماتی ہیں کہ :
*"سألتُ رسولَ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ أيُّ النَّاسِ أعظمُ حقًّا على المرأةِ قالَ زوجُها قلتُ فأيُّ النَّاسِ أعظَمُ حقًّا على الرَّجلِ قالَ أمُّهُ"*
یعنی میں نے رسول اللہ صلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی بارگاہ میں عرض کی :
عورت پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟
تو آپ صلَّی اللہ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا :
’’شوہر کا۔‘‘
پھر میں نے عرض کی :
مرد پر سب سے زیادہ حق کس کا ہے ؟
ارشاد فرمایا :
’’اس کی ماں کا۔‘‘
*(المستدرک علی الصحیحین، کتاب البر و الصلۃ، باب اعظم الناس حقا علی الرجل امہ، جلد 5، صفحہ 244، الحدیث: 7418)*
رسول اکرم صلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ جنت نشان ہے :
*’’ایما امراۃ ماتت و زوجھا عنھا راض، دخلت الجنۃ"*
یعنی جو عورت اس حال میں مری کہ اس کا شوہر اس سے راضی تھا تو وہ جنّت میں داخل ہوگی۔
*(سنن ابن ماجہ، کتاب النکاح، باب حق الزوج علی المرأۃ، صفحہ 297، رقم الحدیث : 1854، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
حضرتِ سیِّدُنا معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ عَنْـــہ سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :
*’’لاتؤذی امراۃ زوجھا فی الدنیا الا قالت زوجتہ من الحور العین : لاتؤذیہ، قاتلک اللہ، فانما ھو عندک دخیل، یوشک ان یفارقک الینا"*
یعنی کوئی عورت اپنے شوہر کو دنیا میں ایذا نہیں دیتی مگر تو حُورِ عین میں سے اس کی بیوی کہتی ہے : خدا پاک تجھے غارت کرے، اِسے ایذا نہ دے، یہ تو تیرے پاس مہمان ہے، عنقریب تجھ سے جدا ہو کر ہمارے پاس آئے گا۔
*(سُنَنُ التِّرْمِذِی، کتاب الرضاع، باب ماجاء فی کراھیۃ الدخول۔۔۔الخ، صفحہ 305، رقم الحدیث :1174، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا :
*"اذا دعا الرجل امراتہ الی فراشہ فابت، فبات غضبان علیھا، لعنتھا الملائکۃ حتی تصبح"*
یعنی جب مرد اپنی عورت کو اپنے بستر کی طرف بلائے پس وہ (بغیر عذر کے) انکار کر دے اور خاوَند ناراض ہو کر رات گزارے تو فرشتے صبح تک اس عورت پر لعنت بھیجتے ہیں.
*(صَحِیحُ البُخارِیّ، کتاب بدء الخلق، باب اذا قال احدکم : آمین... الخ، صفحہ 595، رقم الحدیث : 3237، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضرت ِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں :
"یہاں رات کو بلانے کا خصوصیَّت سے ذکر اس لئے ہوا کہ عُمُوماً بیویوں کے پاس رہنا سونا رات ہی کو ہوتا ہے دن میں کم ورنہ اگر دن میں خاوند بلائے عورت نہ آئے تو شام تک فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں رات کی لعنت صبح کو اس لئے ختم ہو جاتی ہے کہ صبح ہونے پر خاوند کام و کاج میں لگ جاتا ہے رات کا غصّہ ختم یا کم ہو جاتا ہے."
*(مراٰۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 5، صفحہ 91)*
نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :
"جو عورَت (بلاحاجتِ شرعی) اپنے گھر سے باہَر جائے اور اس کے شوہر کو ناگوار ہو، جب تک پلٹ کر نہ آئے آسمان میں ہر فِرِشتہ اُس پر لعنت کرے اور جِنّ و آدَمی کے سوا جس جس چیز پر گزرے سب اُس پر لعنت کریں."
*(المُعجَمُ الْاَوسط، جلد 1، صفحہ 158، رقم الحدیث : 513)*
رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :
*’’لو کنت آمرا احدا ان یسجد لاحد لامرت النساء ان یسجدن لازواجھن لما جعل اللہ لھم علیھن من الحق"*
یعنی اگر میں کسی کو کسی مخلوق کے ليے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں کہ ﷲ پاک نے مَردوں کا حق عورتوں کے ذِمَّے کر دیا ہے.
*(ابو داود، کتاب النکاح، باب فی حق الزوج علی المرأة، صفحہ 341، رقم الحدیث : 2140، دارالکتب العلمیہ بیروت، لبنان)*
حضرتِ سیِّدُنا ابو بریدہ رَضِیَ اللہُ عَنْـہ سے روایت ہے کہ رسولُ ﷲصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا :
رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :
*’’لو امرت احدا ان یسجد لاحد لامرت المراۃ ان تسجد لزوجھا"*
یعنی اگر میں کسی شخص کو کسی کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
*(اَلْمُسْتَدْرَک لِلْحَاکم، کتاب البر و الصلۃ، حق الزوج علی الزوجۃ، جلد 5، صفحہ 240، رقم الحدیث : 7406)*
رسول اللہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :
*’’لو امرت احدا ان یسجد لاحد، لامرت المراۃ ان تسجد لزوجھا"*
یعنی اگر میں کسی کو حکم کرتا کہ غیرِ خدا کے لئے سجدہ کرے تو حکم دیتا کہ عورت اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
*(سُنَنِ اِبن ماجہ کتاب النکاح باب فی حق الزوج علی المراۃ صفحہ 297 رقم الحدیث : 1852 دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)*
اس حدیثِ پاک سے شوہر کی اہمیت خوب واضح ہوتی ہے لہٰذا بیوی کو چاہیے کہ شوہر کے حُقُوق میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے.
شوہر کے حُقُوق کا بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت، امام اَحمد رضا خان رحمۃُ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
’’عورت پر مرد کا حق خاص اُمورِ مُتَعَلِّقہ زَوِجِیَّت میں اللہ (پاک) و رسول (صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کے بعد تمام حُقُوق حتّٰی کہ ماں باپ کے حق سے زائد ہے ان اُمور میں اس کے احکام کی اطاعت اور اس کے ناموس کی نگہداشت (یعنی اس کی عزت کی حفاظت) عورت پر فرضِ اَہَمّ ہے، بے اس کے اِذن کے مَحارِم کے سوا کہیں نہیں جاسکتی اور مَحارِم کے یہاں بھی (اگر بِغیر اجازت جانا پڑجائے تو) ماں باپ کے یہاں ہر آٹھویں دن وہ بھی صبح سے شام تک کے لئے اور بہن بھائی، چچا، ماموں، خالہ، پھوپھی کے یہاں سال بھر بعد (جا سکتی ہے) اور (بِلااجازت) شب کو کہیں (یعنی ماں باپ کے یہاں بھی) نہیں جاسکتی۔ (ہاں اجازت سے جہاں جانا ہو وہاں روزانہ بھی اور رات کے وقت بھی جا سکتی ہے۔)
نبیِّ کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں :
اگر میں کسی کو غیرِ خدا کے سَجدہ کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔
اور ایک حدیث میں ہے :
اگر شوہر کے نتھنوں سے خون اور پیپ بہ کر اس کی اَیڑیوں تک جسم بھر گیا ہو اور عورت اپنی زَبان سے چاٹ کر اسے صاف کرے تو بھی اس کا حق ادا نہ ہوگا۔‘‘
*(فتاوٰی رضویہ، جلد 24، صفحہ 380، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
مزید ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
"اُمورِ متعلقہ زن شوی میں مطلقاً اس کی اطاعت (یعنی میاں بیوی سے متعلق مُعامَلات میں بیوی مطلقاً شوہر کی فرمانبرداری کرے) کہ ان اُمور میں اس کی اِطاعت والِدَین پر بھی مُقدَّم ہے، اس کے ناموس کی بشِدَّت (یعنی سختی سے) حِفاظت، اس کے مال کی حِفاظت، ہر بات میں اس کی خیر خواہی (یعنی اچھا چاہنا)، ہر وقت اُمورِ جائز میں اس کی رِضا کا طالِب رہنا، اسے اپنا مولیٰ جاننا، نام لے کر نہ پکارنا، کسی سے اس کی بے جا شِکایَت نہ کرنا، اور خدا توفیق دے تو بجا (یعنی دُرُست شِکایَت) سے بھی اِحتِراز کرنا (یعنی بچنا)، نہ بے اس کی اِجازت کے آٹھویں دن سے پہلے والِدَین یا سال بھر سے پہلے اور مَحارِم کے یہاں جانا، وہ ناراض ہو تو اس کی اِنتِہائی خوشامد کر کے اسے منانا (کہ) اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ میں رکھ کر کہنا کہ یہ میرا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں ہے یہاں تک کہ تم راضی ہو یعنی میں تمہاری مملوکہ ہوں جو چاہو کرو مگر راضی ہو جاؤ۔"
*(فتاوی رضویہ، جلد 24، صفحہ 371، رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل وصلی اللہ علیہ والہ وسلم
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
03/02/2021
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
اَلْحَمْدُ لِلّٰہ تَعَالیٰ جَلَّ جلالُہ اس استفتاء کے جواب کہ عورت پر اس کے والدین کا حق زیادہ ہے یا اس کے میاں کا، عزیز از جان، فاضل نوجوان، حضرت مولانا ابواسیدعبیدرضامدنی زید مجدہ نے جو فتویٰ جاری فرمایا ہے، بندہ ناچیز اس کی مکمل تائید و تصویب کرتا ہے اور اس کو جمہور فقہائے احناف کے مذہبِ مختار کے بالکل موافق پاتا ہے اور بالخصوص انہوں نے اپنے فتویٰ میں اعلیٰ حضرت مجددِ اعظم امام احمد رضا خان قادری حنفی محدث بریلی قدس سرہ العزیز کی تحقیقاتِ انیقہ اور تحقیقات شریفہ سے جو اقتباسات پیش فرمائے ہیں، فقیر قادری گدائے رضوی اس کے لفظ لفظ کی تائید و توثیق کرتا ہے، اللہ تعالیٰ علمِ نافع عطاء فرمائے اور مسلکِ رضا پر کاربند فرمائے.
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت واقع آستانہ عالیہ قادریہ محلہ نورپورہ میانوالی شریف پنجاب پاکستان*
03480006363