یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حلوہ پسند تھا؟




کیا نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حلوہ پسند تھا؟
جی ہاں! نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو حلواء پسند تھا اور حلواء سے مراد ہر میٹھی چیز ہے جس کے اندر عرفی حلوہ بھی شامل ہے، شھد، گھی اور آٹے کا حلوہ سب سے پہلے حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے تیار کیا اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں پیش کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے بہت پسند فرمایا. 
چنانچہ حضرت عائشہ رضي الله عنھا فرماتی ہیں :
*"كَانَ رَسُوْلُ اللّٰهِ صلى اللّٰهُ عليه وآلہ وسلم يُحِبُّ الحَلْوَاءَ وَالْعَسَلَ"*
یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حلواء اور شہد پسند فرماتے ہیں۔
*(صحیح البخاري، كتاب الأطعمة، باب الحلواء و العسَل، صفحہ 1018، رقم الحدیث : 5431، دارالکتب العلمیہ بیروت لبنان)*
ابن بَطَّال تحریر فرماتے ہیں: 
*"الحلوى : كل شيء حلو"*
یعنی ہر میٹھی چیز کو حلواء کہتے ہیں۔
*(شرح البخاري لابن بَطَّال، جلد 6، صفحہ 70)*
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں : *"استقر العُرْف على تسمية ما لا يُشرب مِن أنواع الحلو حلوى، ولأنواع ما يُشرب مشروب ونقيعٌ، أو نحو ذلك"*
یعنی میٹھی چیزوں میں سے جنہیں پیا نہیں جاتا، انہیں حلواء کا نام دینے پر عرف مستقر ہے، اور جنہیں پیا جاتا ہے، انہیں مشروب اور نقیع وغیرہ کا نام دینے پر (عرف مستقر ہے۔) 
*(فتح الباري لابن حجر شرح صحیح البخاری، جلد 10، صفحہ 78)*

امام كَرْماني تحریر فرماتے ہیں :
*"اسم الحلواء لا يقع إلا على ما دخَلَتْهُ الصنعة جامعًا بين حلاوة و دسومة"*
یعنی حلواء کا نام واقع نہیں ہوتا مگر اس پر جس میں کاریگری داخل ہو اس طور پر کہ وہ میٹھاس اور چربی کی جامع ہو۔
*(الكواكب الدراري للكَرْماني، جلد 20، صفحہ 51)*
امام نووي رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"قال العلماء : المراد بالحلواء هنا : كل شيء حلو"*
یعنی علماء فرماتے ہیں : یہاں حلواء سے ہر میٹھی چیز مراد ہے۔
*(شرح النووي على صحیح مسلم، جلد 10، صفحہ 77)*
امام قسطلَّاني رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"في فقه اللغة للثعالبي : أن حلوى النبي صلى الله عليه وسلم التي كان يحبها هي المَجِيع بالجيم بوزن عَظِيم، وهو تَمْرٌ يُعجن بلبن، فإن صَحَّ هذا، و إلا فلفظ الحلوى يعمُّ كل ما فيه حلو، و ما يُشابه الحلوى"*
یعنی فقہ اللغۃ للثعالبی میں ہے : بےشک نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا حلوی وہ جسے آپ پسند فرماتے تھے وہ مجیع ہے جیم کے ساتھ بروزن عظیم اور یہ وہ کجھور ہے جسے دودھ کے ساتھ گوندھا گیا ہو، پس اگر یہ درست ہے، وگرنہ حلوی کا لفظ ہر اس چیز کو عام ہے جو میٹھی ہو اور جو ہر اس چیز کو حلوی کے مشابہ ہو۔
*(إرشاد الساري للقسطلَّاني، جلد 8، صفحہ 234)*
علامہ بدرالدین عيني حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"قال الخطابي:: اسم الحلواء لا يقع إلا على ما دخَلَتْهُ الصنعة، وفي (المخصَّص) لابن سِيدَه ْ: هو كل ما عُولج مِن الطعام بحلاوة، و هو أيضًا الفاكهة"*
یعنی امام خطابی فرماتے ہیں : حلواء کا نام واقع نہیں ہوتا مگر اس پر جس میں کاریگری داخل ہو، اور المخصص لابن ِسیدہ میں ہے : حلوی ہر وہ طعام ہے جسے میٹھے کے ساتھ شامل کیا گیا ہو (یعنی ملایا گیا ہو)، اور وہ بھی فاکھہ ہے۔
*(عُمدة القاري شرح صحيح البخاری، جلد 21، صفحہ 61)*
حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"عموماً بزرگانِ دین میٹھی چیز سے محبت کرتے رہے۔ اس لئے عموماََ فاتحہ و نیاز میٹھی چیز پر ہوتی ہے، اس کی اصل یہ ہی حدیث ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ مؤمن میٹھا ہوتا ہے، مٹھائی پسند کرتا ہے۔ حلوے میں ہر میٹھی چیز داخل ہے۔ حتیٰ کہ شربت اور میٹھے پھل اور عام مٹھائیاں اور عرفی حلوہ۔ (مرقات) مروّجہ حلوہ سب سے پہلے حضرت عثمان غنی (رضی الله عنہ) نے بنایا، حضورِ انور (صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم) کی خدمت میں پیش کیا جس میں آٹا، گھی اور شہد تھا. حضورِ انور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بہت پسند کیا اور فارسی لوگ اسے دخیص کہتے ہیں۔ (مرقات)۔"
*(مراٰۃُ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح، جلد 6، صفحہ 25 قادری پبلشرز اردو بازار لاہور)*
شیخ الحدیث علامہ عبد المصطفی اعظمی مجددی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"عام طور پر الحلواء کا ترجمہ شرینی کرتے ہیں یعنی ہر میٹھی چیز مگر حضرت شیخ محقق علامہ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب اشعۃ اللمعات جلد 3 صفحہ 491 میں "مجمع البحار" کے حوالے سے تحریر فرمایا ہے کہ اس حدیث میں الحلواء سے مراد حلوہ ہی ہے یعنی وہ کھانا جس میں گھی اور میٹھا ڈال کر پکایا جائے۔ ہمارے ہندوستان میں عام طور پر سوجی یا گیہوں کا آٹا یا چنے کا بیسن گھی اور شکر ملا کر جو کھانا پکتا ہے اس کو حلوا کہتے ہیں۔ اور حدیث میں یہی مراد ہے کہ رحمتِ عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو حلوہ مرغوب اور پسندیدہ تھا۔
اور بعض شارحین حدیث نے فرمایا کہ الحلواء سے مراد وہ کھانا ہے جس کو مجیع کہتے ہیں جس کے پکانے کی ترکیب یہ ہے کہ کھجور کو پیس کر دودھ میں پکا دیا جائے، درحقیقت یہ بھی ایک حلوہ ہی ہے۔ بہرحال حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کو مرغوب اور پسند تھا اور ہر وہ مسلمان جو اس غذا سے محبت کرے اور برغبت اس کو کھائے اور کھلائے، وہ ایک مسنون غذا سے محبت و رغبت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکابر علماء ملت و مشائخ طریقت شب برات اور دوسرے مبارک دنوں اور برکت والی راتوں میں "حلوہ" پر فاتحہ دلا کر کھاتے اور کھلاتے ہیں۔ اور بہ نیت ادائے سنت اس غذا کو کھا کر اور دوسروں کو کھلا کر ثوابِ عظیم حاصل کرتے ہیں۔
اور جو لوگ شب برات کے حلوہ اور اس پر فاتحہ سے جڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ شب برات میں ہر قسم کا کھانا پکانا جائز و درست ہے مگر حلوہ پکانا بدعت و ممنوع ہے۔ ہم ان لوگوں کے بارے میں اس کے سوا اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ ایک ایسی غذا سے نفرت کرنا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پسند تھی، سراسر ان لوگوں کی بدنصیبی اور مرحومی ہے۔ کیونکہ کسی سنت سے نفرت ایمان کی بربادی کا سگنل ہے۔ اللہ تعالی ہر مسلمان کو اس منحوسیت اور بد نصیبی کی لعنت سے محفوظ رکھے۔" 
*(جواہرالحدیث صفحہ 220، 221 ناشر اکبر بک سیلرز لاہور)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
01/11/2020
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحیح والمجیب مصیب۔
*مفتی و حکیم محمد عارف محمود خان معطر قادری، مرکزی دارالافتاء اہلسنت میانوالی۔*