یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

قبروں کو پکا کرنا کیسا ہے؟



قبروں کو پکا کرنا کیسا ہے؟ 

سائل : عبدالرحمن سعودی عرب
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
قبر کے دو حصے ہوتے ہیں :
1- بیرونی حصہ جو لوگوں کو نظر آتا ہے۔
2- اندرونی حصہ جو میت کے جسم کے ساتھ ملا ہوا ہوتا ہے۔
*قبر کے بیرونی حصے کو پکّا کرنا :*
بغیر کسی وجہ کے عام لوگوں کی قبروں کے بیرونی (اوپر والے) حصے کو پکا (پختہ) کرنا مکروہِ تنزیہی (یعنی شرعاً ناپسندیدہ) ہے لہذا بہتر یہی ہے کہ بغیر کسی وجہ کے صرف زیب و زینت کے لئے ان کو اوپر سے پکا نہ کیا جائے لیکن اگر کوئی پکا کرتا بھی ہے تو گناہگار نہیں ہوگا۔
اور اگر عام لوگوں کی قبروں کو اوپر سے پکا کرنے کی کوئی ضرورت ہو جیسے درندوں کا خوف ہو کہ وہ قبر کو نقصان پہنچائیں گے یا کچی قبر کو شہید کر دئیے جانے کا خوف ہو وغیرہ وغیرہ تو ایسی صورت عوام الناس کی قبروں کو اوپر سے پکا مکروہِ تنزیہی بھی نہیں ہوگا۔
اور دینی عظمت رکھنے والوں (یعنی علماء کرام و مشائخ عظام) کی قبروں کو تعظیم کے لئے اوپر سے پکا کرنا بلاکراہت جائز ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی عظمت قائم رہے۔
*قبر کا اندرونی حصے کو پکّا کرنا :*
قبروں کے اندرونی حصوں کو بلاضرورت پکا کرنا مکروہِ تحریمی اور ناجائز و گناہ ہے البتہ اگر زمین نرم ہو اور قبریں زیادہ دیر قائم نہ رہتی ہوں یا درندے ایذا پہنچاتے ہوں تو اندر سے بھی پکا کر سکتے ہیں اور اس صورت میں بہتر یہ ہے پکی اینٹوں پر مٹی کا لیپ کر دیا جائے۔
فتاوی عالمگیری میں ہے :
*"و یکرہ الآجر فی اللحد اذا کان یلی المیت کذا فی فتاوی قاضیخان"*
یعنی لحد میں میت سے متصل پکی اینٹیں لگانا مکروہ ہے، ایسے ہی فتاویٰ قاضیخان میں ہے۔
*(فتاوی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، الباب الحادی و العشرون فی الجنائز، الفصل السادس فی القبر و الدفن و النقل من مکان الی آخر، جلد 1 صفحہ 166 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
تنویر الابصار مع درمختار میں ہے :
*"(یسوی اللبن علیہ و القصب لا الاٰجر) المطبوخ و الخشب لو حولہ اما فوقہ فلا یکرہ ابن ملک و جاز ذلک حولہ بارض رخوۃ کالتابوت"*
یعنی اس پر کچی انیٹیں اور بانس لگا دے، پکی انیٹیں اور لکڑی اس (میت) کے گرد نہ لگائے، بہرحال اوپر ہو تو مکروہ نہیں، ابن الملک۔ اور نرم زمین ہو تو اس کے گرد بھی جائز ہے جیسے تابوت۔
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، باب صلٰوۃ الجنائز، فی دفن المیت، جلد 3 صفحہ 167 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*

عمدۃ المحققین علامہ محمد بن امین بن عمر بن عبدالعزیز عابدین شامی دمشقی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"کرھوا الاٰجر و الواح الخشب و قال الامام التمرتاشی ھذا ان کان حول المیّت و ان کان فوقہ لایکرہ لانہ یکون عصمۃ من السبع و قال مشائخ بخارا لایکرہ الاٰجر فی بلدتنا لمساس الحاجۃ لضعف الاراضی"*
یعنی علماء نے پکی اینٹوں اور لکڑی کے تختوں کو مکروہ کہا ہے اور امام تمرتاشی نے فرمایا : یہ اس وقت ہے جب میّت کے گرد ہو، اور اگر اس کے اوپر ہو تو مکروہ نہیں اس لیے کہ یہ درندے سے حفا ظت کا ذریعہ ہوگا، مشائخ بخارا نے فرمایا کہ ہمارے دیار میں پکی اینٹیں مکروہ نہیں کیونکہ زمین کمزور ہونے کی وجہ سے اس کی ضرورت ہے۔
*(ردالمحتار علی الدرالمختار، باب صلٰوۃ الجنائز، فی دفن المیت، جلد 3 صفحہ 167 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
امام قاضی حسن بن منصور بن محمود اوزجندی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"یکرہ الاٰجر فی اللحد اذا کان یلی المیّت اما فیما وراء ذلک لاباس بہ و یستحب للبن و القصب"*
یعنی لحد میں پکّی اینٹ مکروہ ہے جبکہ میّت سے متصل ہو اس کے علاوہ میں کوئی حرج نہیں، اور مستحب کچی اینٹ اور بانس ہے۔
*(فتاوٰی قاضیخاں، کتاب الصلٰوۃ، جلد 1، صفحہ 92، منشی نو لکشور لکھنؤ)*
علامہ شیخ احمد بن محمد بن اسماعیل طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"قال فی الخانیۃ یکرہ الآجر اذا كان مما یلی المیت اما فیما وراء ذلک فلاباس"*
یعنی امام قاضیخان رحمۃ اللہ علیہ نے خانیہ میں فرمایا : قبر پکی کرنا مکروہ ہے جب میت کے متصل ہو، اگر اس کے علاوہ ہو تو کوئی حرج نہیں۔
*(حاشیۃ الطحطاوی علٰی مراقی الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل فی حملھا و دفنھا، جلد 1، صفحہ 610، دارالکتب العلمیہ بیروت)*
مزید تحریر فرماتے ہیں :
*"یفید ان ما ذکرہ مکروہ تحریمی"*
یعنی افادہ ہوتا ہے کہ جس کو امام واضیخان نے ذکر کیا (یعنی بلاوجہ قبروں کو اندر سے پکا کرنا) مکروہِ تحریمی ہے۔
*(حاشیۃ الطحطاوی علٰی مراقی الفلاح، کتاب الصلاۃ، فصل فی حملھا و دفنھا، جلد 1، صفحہ 611، دارالکتب العلمیہ بیروت)*
غنیہ میں ہے :
*"اختاروا الشق فی دیارنا لرخاوۃ الاراضی فیتعذر اللحد فیھا اجاز وا الاٰجر و رفوف الخشب و التابوت و لو کان من حدید"*
یرنی ہمارے دیار میں شق اختیار کی گئی ہے اس لیے کہ زمین نرم ہے جس میں لحد متعذر ہے یہاں تک کہ علماء نے پکّی اینٹ، لکڑی کے صندوق اور تابوت کی اجازت دی ہے اگرچہ لوہے کا ہو۔
*(غنیہ المستملی شرح منیۃ المصلی، فصل فی الجنائز، صفحہ 595، سہیل اکیڈمی لاہور)*
علامہ زین الدین نجیم مصری رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"قیدہ الامام السرخسی بان لایکون الغالب علی الاراضی النز و الرخاوۃ فان کان فلاباس بھما کاتخاذ تابوت من حدید لھذا"*
یعنی امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ نے اس حکم کو اس سے مقید کیا ہے کہ زمین پر تری اور نرمی غالب نہ ہو۔ اگر ایسی ہو تو پکی اینٹ اور لکڑی لگانے میں کوئی حرج نہیں، جیسے اس بناء پر لوہے کا تابوت لگانے میں حرج نہیں۔
*(بحرالرائق، کتاب الجنائز، فصل السلطان احق بصلٰوتہ، جلد 2 صفحہ 194 ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)*
ابوبکر بن علی بن محمد حداد عبادی زبیدی یمنی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"و قال التمرتاشی انما یکرہ الآجر اذا کان مما یلی المیت اما اذا کان من فوق اللبن لایکرہ لانہ یکون عصمۃ من السبع و صیانۃ عن النبی"*
یعنی اور تمرتاشی نے فرمایا : قبر کے اس حصے میں پکی اینٹیں لگانا مکروہ ہیں جو میت سے متصل ہو، بہرحال جب قبر کا اوپر والا حصہ پکا ہو تو مکروہ نہیں اس لئے کہ اس میں درندوں اور اکھیڑنے سے تحفظ ہے۔
*(الجوھرۃ النیرۃ، کتاب الصلاۃ، باب الجنائز، جلد 1، صفحہ 272 مکتبہ رحمانیہ لاہور)*
فتح المعین میں ہے :
*"و قیدہ فی شرح المجمع بان یکون حولہ اما لو کان فوقہ لایکرہ لانہ یکون عصمۃ من السبع"*
شرح مجمع میں یہ قید لگائی ہے کہ اس کے گرد ہو لیکن اگر اوپر ہو تو مکروہ نہیں اس لیے کہ اس سے درندوں سے حفاظت رہے گی۔
*(فتح المعین علی شرح الکنز لملا مسکین، باب الجنائز، فصل فی الصلٰوۃ علی المیّت، جلد 2 صفحہ 194، ایچ ایم سعید کمپنی کراچی)*
درر الحکام میں ہے :
*"یسوی اللبن و القصب لا الخشب و الاٰجر و جوز فی ارض رخوۃ"*
کچّی اینٹ اور بانس چُنا جائے، لکڑی اور پکی اینٹ نہ ہو اور نرم زمین میں اس کی بھی اجازت ہے۔
*(درر الحکام فی شرح غرر الاحکام، باب الجنائز، جلد 1 صفحہ 167، مطبعۃ احمد کامل الکائنہ دار سعادت بیروت)*
شرح نقایہ برجندی میں ہے :
*"انما یکرہ الاجر فی اللحد ان کان یلی المیّت اما فی وراء ذلک فلا باس بہ کذا فی الخلاصۃ و قال الامام علی السغدی اتخاذ التابوت فی دیارنا افضل من ترکہ"*
لحد میں پّکی اینٹ اسی صورت میں مکروہ ہے کہ میّت سے متصل ہو، اس کے علاوہ میں کوئی حرج نہیں، ایسا ہی خلاصہ میں ہے۔ امام علی سغدی نے فرمایا : ہمارے دیار میں تابوت لگانا نہ لگانے سے بہتر ہے۔
*(شرح نقایہ برجندی، فصل فی صلٰوۃ الجنائزۃ، جلد 1، صفحہ 182، منشی نولکشور لکھنؤ)*
مجمع الانہر میں ہے :
*"یکرہ الاٰجر و الخشب ای کرہ ستر اللحد بھما و بالحجارۃ و الجص لکن لو کانت الارض رخوۃ جاز استعمال ما ذکر"*
پکی اینٹ اور لکڑی مکروہ ہے صرف لحد کو ان سے اور پتھروں سے اور گچ سے چھپانا مکروہ ہے لیکن اگر زمین نرم ہو تو ان سب کا استعمال جائز ہے۔
*(مجمع الانہر شرح ملتقی الابحر، فصل فی الصلٰوۃ المیّت، جلد 1، صفحہ 186، داراحیاء التراث العربی بیروت)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"اور قبر پختہ بنانے میں حاصل ارشاد علمائے امجاد رحمہم ﷲ تعالٰی یہ ہے کہ اگر پکی اینٹ میّت کے متصل یعنی اس کے آس پاس کسی جہت میں نہیں کہ حقیقۃً قبر اسی کا نام ہے بلکہ گڑھا کچّا اور بالائے قبر پختہ ہے تو مطلقاً ممانعت نہیں، یہاں تک کہ امامِ اجل فقیہِ مجتہد اسمٰعیل زاہدی نے خاص لحد میں پکی اینٹ پر نص فرمایا جبکہ کچّے چوکے کی تَہ ہو اور اپنی قبر مبارک میں یونہی کرنے کی وصیت فرمائی اور متصل میّت ممنوع مکروہ، مگر جبکہ بضرورت تری و نرمی زمین ہو تو اس میں بھی حرج نہیں۔"
*(فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 421 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
آپ رحمۃ اللہ علیہ مزید تحریر فرماتے ہیں :
"قبر پختہ نہ کرنا بہتر ہے، اور کریں تو اندر سے کڑا کچا رہے، اوپر سے پختہ کرسکتے ہیں، طول و عرض موافق قبر میت ہو، اور بلندی ایک بالشت سے زیادہ نہ ہو، اور صورت ڈھلوان بہتر ہے."
*(فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 425 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
مزید ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
"قبر جس قدر میّت سے متصل ہوئی اس اندرونی حصہ کو پختہ کرنا ممنوع ہے اور باہر سے پختہ کرنے میں حرج نہیں،اور معظمان دینی کے لئے ایسا کرنے میں بہت مصالح شرعیہ ہیں۔"
*(فتاوی رضویہ جلد 9 صفحہ 365 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"علماء مشائخ کی قبور کو اوپر سے پختہ کرنا جائز ہے عوام کے لئے مکروہ."
*(فتاویٰ امجدیہ جلد 3 صفحہ 389 مکتبہ رضویہ کراچی)*
فقیہ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں :
"علماء متقدمین نے علماء و مشائخ کی قبروں کو صرف باہر سے پختہ بنانا جائز لکھا ہے اور عامہ مومنین کی قبر کو پختہ بنانے سے منع فرمایا ہے لیکن اب ہندوستان میں جبکہ کفار اور بعض دنیا دار مسلمان ان قبرستانوں پر قبضہ کر رہے ہیں کہ جن میں سب قبریں خام ہوتی ہیں، اس لئے ہر قبرستان میں کچھ قبروں کے پختہ ہونے کی اجازت ہے۔"
*(فتاوی فیض الرسول جلد 2 صفحہ 531 شبیر برادرز لاہور)*
مفتی اعظم پاکستان وقارالدین قادری امجدی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"دینی عظمت والے لوگوں کی قبریں اوپر سے پکی بنا دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ البتہ اندر کی طرف کسی ایسی چیز کا لگانا مکروہ ہے جو آگ سے بنائی گئی ہو مثلاً سیمنٹ یا پکی اینٹیں وغیرہ۔"
*(وقارالفتاویٰ جلد 2 صفحہ 362 بزم وقار الدین کراچی)*
حکیم الامت مفتی احمد یار نعیمی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"خیال رہے کہ قبر میں تین چیزیں ہیں : ایک اس کا اندرونی حصہ جو میت کے جسم سے ملا ہوا ہوتاہے اسے پختہ کرنا، وہاں لکڑی یا پکی اینٹ لگانا مطلقًا ممنوع ہے خواہ ولی کی قبر ہو یا عام مسلمان کی، جسم میت مٹی میں رہنا چاہئیے حتی کہ اگر کسی وقت مجبورًا میت کو تابوت یا صندوق میں دفن کرنا پڑے تب بھی اس کے اندرونی حصے میں مٹی سے کہگل کر دی جائے۔دوسرا قبر کا بیرونی حصہ جو لوگوں کو نظر آتا ہے اس کا پختہ کرنا عوام کی قبروں میں منع، اولیاء و مشائخ و علماء کی قبور کا جائز کیونکہ عوام کے لیے یہ بیکار ہے اور خاص قبروں کی حرمت و تعظیم کا باعث اسی پر ہمیشہ مسلمانوں کا عمل رہا اور ہے، خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے عثمان ابن مظعون کی قبر کے سرہانے پتھر لگایا۔ تیسرے یہ کہ قبر کے آس پاس چبوترہ پختہ ہو اور تعویذ قبر کچا یہ مطلقًا جائزہے۔ لہذا یہاں قبر سے مراد قبر کا اندرونی حصہ ہے اسی لیئے عَلَی الْقَبْرِ نہ فرمایا گیا، یا عام قبریں مراد ہیں جن سے مشائخ اور علماء کی قبریں مستثنٰی ہیں۔ ابھی اسی باب میں آئے گا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور صدیق و فاروق کی قبور پر عہد صحابہ میں سرخ بجری بچھادی گئی تھی بالکل خام نہ رکھی گئی۔"
*(مرآۃ المناجیح شرح مشکوٰۃ المصابیح جلد 2 صفحہ 489 نعیمی کتب خانہ گجرات)*
مفتی منیب الرحمن صاحب مدظلہ العالی تحریر فرماتے ہیں :
"عام مسلمانوں کی قبروں کو پختہ کرنا مناسب نہیں ہے۔ ہاں تعظیم کے لئے اولیاء کرام کی قبور کو پختہ کرنا جائز ہے تاکہ لوگوں کے دلوں میں عظمت و احترام قائم ہو۔"
*(تفہیم المسائل جلد 7 صفحہ 115 مکتبہ ضیاء القرآن لاہور)*
*نوٹ :* 
اس تفصیل اور دلائل سے واضح ہوگیا کہ جس روایت میں قبر کو پکی کرنے سے منع کیا گیا ہے اس سے مراد بلاوجہ قبر کو اندر سے پکا کرنا ہے، لہذا اس روایت کو لے کر احناف پر اعتراض نہیں کیا جا سکتا۔
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
29/10/2020
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحيح
*فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*