February 07, 2021 Abdullah Hashim Madni
لفظ دعا کے چھ معنی ہے اس کا مرجع و مآل دو معنوں کی طرف ہے عبادت اور پکار ۔
*وجہ حصر :-*
دعا کا صلہ إلی ہوگا یا نہیں بصورت أول ( جب صلہ إلی ہو ) پکار کے معنی ہوگے ( *ألٰٸک یدعون إلی النار* ) اگر صلہ إلی نا ہوتو پھر دو حال سے خالی نہیں صیغہ أمر کا ہوگا یا امر کا نہیں اگر أمر کا ہوتو اس کا فاعل مومن ہوگا یا کافر اگر فاعل مومن ہوتو مفعول بہ اللہ ہوگا یا غیر اللہ اگر مفعول بہ اللہ ہوتو دعا کا معنی عبادت ہوگا ( *أدعو ربکم تضرعا و خفیة* )
اگر فاعل مومن ہو اور مفعول بہ غیر اللہ ہوتو معنی پکارنا ہوگا ( *قل ادعو اللہ او ادعو الرحمن* ) اگر فاعل کافر ہو اور مفعول بہ غیر اللہ ہوتو معنی پکار ہوگا ( *و ادعو شھدا ٕ کم من دون اللہ* ) اگر صیغہ أمر کا نا ہوتو دو حال سے خالی نہیں معنی دعا مسلوب ہوگا یا نہیں ( یعنی دعا کا سلب ہوگا یا نہیں ) اگر دعا کا مفہوم مسلوب ہوتو معنی عبادت ہوگا خواہ فاعل مومن ہو یا کافر ، مفعول بہ اللہ ہو یا غیر اللہ[ ما سوا ایک صورت کے کہ جہاں دعا کے دو صیغے إستعمال ہو ایک مسلوب اور دوسرا غیر مسلوب اور مفعول بہ بھی ایک ہو وہاں معنی پکار ہوگا : *لا تدعو الیوم ثبورا و اوّاحدا وّادعوا ثبورا کثیرا* ] اگر مفہوم دعا مسلوب ہو صیغہ أمر کا نا ہوتو اس وقت دعا کا معنی عبادت ہوگا اس کی مثال : *و انّ المساجد للہ فلا تدعوا مع اللہ احدا* ۔ اور اگر دعا کا مفہوم مسلوب نا ہوتو پھر دو حال سے خالی نہیں ، اس کا فاعل مومن ہوگا یا کافر اگر فاعل مومن ہوتو مفعول بہ اللہ ہوگا یا غیر اللہ اگر فاعل فاعل مومن ہو او مفعول بہ اللہ ہوتو معنی عبادت کے ہوں گے : ( *ولا تطرد الذین یدعون ربھم بالغداة و العشی* ) اور اگر فاعل مومن ہو اور مفعول بہ غیر اللہ ہوتو معنی پکارنا ہوگا ( *قالت إنّ أبی یدعوک* ) اور اگر فاعل کافر ہو تو معنی پکار ہوگا خواہ مفعول بہ اللہ ہو یا غیر اللہ ۔ من دون صلہ یا نا ہو ۔
( *مأخوذا و ملخصا :* أحکام القرآن مولانا جلال الدین قادری میں بحوالہ أز افادات شیخ القرآن مولانا عبد الغفور ھزاروی )
*أز قلم : محمد عمیر رضا عطاری*