مکڑی کی آرزو
'' مکڑی کی آرزو ''
کہتے ہیں جب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم غار ( ثور ) میں داخل ہوئے تو جبریل علیہ السّلام نے عرض کِیا:
'' خدایا مجھے اِجازت دیجیے تاکہ میں جا کر اپنے پَروں سے غار کو بلکہ اس پہاڑی کو ہی چُھپا دوں۔ ''
خطاب ہُوا:
'' اے جبریل! ( علیہ السّلام ) حقیقی ستّار میں ہی ہوں۔میرا کمالِ قُدرت اس امر کا متقاضی ہے کہ میں اپنی کمزور ترین مخلوق کے ذریعے مکر و فریب کو دُور کروں۔ ''
کمزور مکڑی کو مقرّر کِیا اور اسے حِفاظت کے لیے بھیجا۔جب مکڑی کو حُکمِ خداوندی پہنچا اس نے اسی وقت سجدۂ شُکر ادا کِیا۔خدا تعالٰی کا اسے حُکم ہُوا کہ:
'' جا کر پردہ تان دے اور مکّھی پر قناعت کر لیکن ہِمّت بُلند رکھنا۔ہم ایک روز قافِ قرب کے سیمرغ کو تیرے جال میں لائیں گے۔ ''
اس اُمید پر سات سو سال اس غار کے مُنہ پر بیٹھی اِنتظار کرتی رہی۔چنانچہ نہ رات کو آرام تھا نہ دِن کو چین۔یہاں تک کہ اس رات آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم اس غار کے دہانے پر پہنچے۔مکڑی نے آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کی طرف اِشارہ کر کے کہا:
'' مجھ کمزور کو آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے دِیدار کا وعدہ دیا گیا ہے۔تشریف لائیے تاکہ آپ ( صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ) کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کروں۔ ''
حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم جب غار کے اندر تشریف لے گئے مکڑی نے جالا تننا شروع کر دیا اور عِجز آمیز لعاب پھیلانا شروع کر دیا۔
آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللّٰه عنہُ سے کہا:
'' ابوبکر! ایک مُدّت سے میں اس فِکر میں تھا کہ میری اُمّت اس باریک پُل صِراط سے کیسے گُزرے گی،اب عالمِ غیب کے خبر کنندگان نے مجھے یوں اِطلاع دی ہے کہ جس طرح اس پردہ دار کو ایک باریک تار پر محفوظ رکھتے ہیں،تیرے دوستوں کو اسی طرح اس صِراط سے محفوظ رکھیں گے۔ ''
( معارجُ النّبوّت،جِلد: ۳،صفحہ: ۹،۱۰ )
کُن تو کہا گیا تھا بڑی مُدّتوں کے بعد
یہ عِشق اس کمال سے پہلے کی چیز ہے
سرکار ہوں تو غار کے مُنہ پر تنا ہُوا
مکڑی کا ایک جالا بھی لوہے کی چیز ہے
'' مکڑی کی آرزو ''
کہتے ہیں جب رسول اللّٰه صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم غار ( ثور ) میں داخل ہوئے تو جبریل علیہ السّلام نے عرض کِیا:'' خدایا مجھے اِجازت دیجیے تاکہ میں جا کر اپنے پَروں سے غار کو بلکہ اس پہاڑی کو ہی چُھپا دوں۔ ''
خطاب ہُوا:
'' اے جبریل! ( علیہ السّلام ) حقیقی ستّار میں ہی ہوں۔میرا کمالِ قُدرت اس امر کا متقاضی ہے کہ میں اپنی کمزور ترین مخلوق کے ذریعے مکر و فریب کو دُور کروں۔ ''
کمزور مکڑی کو مقرّر کِیا اور اسے حِفاظت کے لیے بھیجا۔جب مکڑی کو حُکمِ خداوندی پہنچا اس نے اسی وقت سجدۂ شُکر ادا کِیا۔خدا تعالٰی کا اسے حُکم ہُوا کہ:
'' جا کر پردہ تان دے اور مکّھی پر قناعت کر لیکن ہِمّت بُلند رکھنا۔ہم ایک روز قافِ قرب کے سیمرغ کو تیرے جال میں لائیں گے۔ ''
اس اُمید پر سات سو سال اس غار کے مُنہ پر بیٹھی اِنتظار کرتی رہی۔چنانچہ نہ رات کو آرام تھا نہ دِن کو چین۔یہاں تک کہ اس رات آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم اس غار کے دہانے پر پہنچے۔مکڑی نے آنحضرت صلی علیہ وآلہ وسلم کی طرف اِشارہ کر کے کہا:
'' مجھ کمزور کو آپ صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم کے دِیدار کا وعدہ دیا گیا ہے۔تشریف لائیے تاکہ آپ ( صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم ) کی زیارت سے اپنی آنکھیں ٹھنڈی کروں۔ ''
حضور نبی اکرم صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم جب غار کے اندر تشریف لے گئے مکڑی نے جالا تننا شروع کر دیا اور عِجز آمیز لعاب پھیلانا شروع کر دیا۔
آنحضرت صلی اللّٰه علیہ وآلہ وسلم نے حضرت ابوبکرصدیق رضی اللّٰه عنہُ سے کہا:
'' ابوبکر! ایک مُدّت سے میں اس فِکر میں تھا کہ میری اُمّت اس باریک پُل صِراط سے کیسے گُزرے گی،اب عالمِ غیب کے خبر کنندگان نے مجھے یوں اِطلاع دی ہے کہ جس طرح اس پردہ دار کو ایک باریک تار پر محفوظ رکھتے ہیں،تیرے دوستوں کو اسی طرح اس صِراط سے محفوظ رکھیں گے۔ ''
( معارجُ النّبوّت،جِلد: ۳،صفحہ: ۹،۱۰ )
کُن تو کہا گیا تھا بڑی مُدّتوں کے بعد
یہ عِشق اس کمال سے پہلے کی چیز ہے
سرکار ہوں تو غار کے مُنہ پر تنا ہُوا
مکڑی کا ایک جالا بھی لوہے کی چیز ہے