یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

دینی طبقہ مرعوب کیوں؟


*دینی طبقہ مرعوب کیوں؟*


از قلم::ابو امجد غلام محمد عطاری مدنی
21/2/2021
03163627911

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے  کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ طیبہ کے بازاروں میں سے کسی بازار سے  تشریف لے جارہے ہیں  ،حضرات صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین  بھی آپ کے ہمراہ ہیں  کہ 
 (اذ مرالنبی صلی اللہ علیہ وسلم بِجَدْيٍ أَسَكّ مَيِّتٍ، فَتَنَاوَلَهُ، فَأَخَذَ بِأُذُنِهِ، ثُمَّ قَالَ: أَيُّكُمْ يُحِبُّ أَنْ يَكُونَ هَذَا لَهُ بِدِرْهَمٍ؟ فَقالوا: مَا نُحِبُّ أَنَّهُ لَنَا بِشَيْءٍ، وَمَا نَصْنَعُ بِهِ؟! ثُمَّ قَالَ: أَتُحِبُّونَ أَنَّهُ لَكُمْ؟ قَالُوا: وَاللَّه لَوْ كَانَ حَيًّا كَانَ عَيْبًا أنَّه أَسَكّ، فكَيْفَ وَهو مَيِّتٌ؟! فقال: فَوَاللَّه للدُّنْيَا أَهْوَنُ عَلى اللَّه مِنْ هَذَا عَلَيْكُمْ ) 
(صحیح مسلم کتاب الزھد والرقائق الحدیث 2957)

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر بکری کے ایک چھوٹے کانوں والے مردہ بچہ کے پاس سے ہوا  ،آپ نے اس کے کانوں کو پکڑ کر فرمایا : تم میں سے کون ہے جو بکری کے اس چھوٹے کانوں والے مردہ  بچہ کو ایک درہم میں خریدنے کے لئے آمادہ وتیار ہے؟ صحابہ کرام نے عرض کیا ہم بکری کے اس مردہ بچہ کو جس کے کان بھی چھوٹے ہیں ایک درہم میں تو کیا اس کو مفت لینے کے لئے بھی تیار نہیں ہیں  اور اس کو ہم لے کر کیا کریں گے ؟  آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ارشاد فرمایا : کیا تم اس کو لینا گوارہ کروگے؟ صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین نے کہا اے  اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم  اللہ کی قسم  اگر یہ زندہ ہوتا   تب بھی  عیب دار تھا کیوں کے اس کے دونوں کان چھوٹے ہیں  اب  جب کہ  وہ مرچکا ہے تو ہم اس کو کیسے خریدنا گوارہ کریں گے، آپ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی قسم  بکری کے چھوٹے کانوں  والے اِس مردہ بچہ کی جو حیثیت تمہارے یہاں ہے اللہ کے یہاں دنیاکی حیثیت اس سے بھی کمتر ہے ‘‘

 دنیا کی حقیقت تو مکھی کے پر کے برابر بھی نہیں اور اس جیسی سینکڑوں احادیث دنیا کی مذمّت پر وارد ہیں 
آج کے اس پر فتن دور میں دین پر چلنے والے افراد کے لیے بظاھر زمین تنگ ہوتی نظر آ رہی ہے جس کو دیکھو دیندار افراد پر طنزیہ جملوں کی بوچھاڑ کر دیتا ہے 
دنیا دار لوگ خود کو ہی انسان سمجھتے ہیں باقی دیندار افراد کو ۔۔۔۔۔۔۔
جب کہ جس دنیا کہ حصول پر انکو اتنا ناز ہے اسکی حقیقت گزشتہ حدیث میں گزر چکی 

میرے کلام کا موضوع دینی طبقہ ہے جو اکثر طور پر ان دنیا داروں سے مرعوب (ڈرا ہوا،رعب زدہ) محسوس ہوتا ہے 

اسکی وجوہات میں سے چند وجوہ یہ ہیں۔۔

#دین کی عظمت و جلالت پر مشتمل احادیث وروایات کا پیش نظر نہ ہونا

#دنیا کی مذمّت پر مشتمل احادیث پر توجہ نہ دینا

#دنیا کی عظمت کا دل میں جم جانا 

#دنیا داروں کی ظاہری وضع قطع سے متاثر ہو جانا

#مال کی محبت

#دنیاوی منصب کی چاہت 

نہیں دنیا کو جب پروا ہماری 

تو پھر دنیا کی پروا کیوں کریں ہم 

اے میرے دینی طبقے سے تعلق رکھنے والے دوستوں دنیا کی حیثیت کے بارے میں تو میرے نبی پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

لَوْ كَانَت الدُّنْيَا تَعْدِلُ عِنْدَ اللَّه جَنَاحَ بَعُوضَةٍ مَا سَقَى كَافِرًا مِنْها شَرْبَةَ مَاءٍ)’’
ترجمہ:اگر دنیا کی اللہ کے یہاں  مچھر کے ایک پر کے برابر بھی حیثیت ہوتی تو اللہ تعالی کافر کو اس دنیا سے پانی کا ایک گھونٹ بھی نصیب نہیں کرتا‘‘ 

 (سنن الترمذي، أبواب الزهد عن رسول الله ﷺ، باب ما جاء في هوان الدنيا على الله (4/ 560)، برقم: (2320))

دنیا تو بد صورت بوڑھی عورت کی طرح ہے،جب سے اللہ پاک نے دنیا کو بنایا ہے کبھی اسکی طرف نظر رحمت نہیں فرمائی، **الدنیا سجن المؤمن***  دنیا تو مومن کے لیے قید ہے ،

 *اے دیندارو!* جب دنیا کی حیثیت یہ ہے تو جسے دنیا ملی ہوئی ہے وہ کوئی صاحب قدر تو نہیں ایک حقیر چیز کا متحمل ہے ،تو اس سے تم رعب زدہ کیوں ہو ،تمھارے سامنے کوئی پینٹ شرٹ میں ملبوس ،داڑھی منڈا شخص دو جملے انگریزی میں بول دے تم پر عجب کیفیت طاری ہو جاتی ہے تم اپنے آپ کو کم تر محسوس کرنے لگ جاتے ہو ،ان دنیا داروں کا رعب خود پہ طاری کر لیتے ہو حالانکہ جس چیز پر وہ فخر کر رہا ہے وہ *دنیا* کی فراوانی ہے اور تم دنیا کی حقیقت سے آگاہ ہو کہ اسکی حیثیت مچھر کے پر کے برابر بھی نہیں ہے تو رعب میں آنا کیسا؟کمتری محسوس کرنا کیسا؟

جب کہ جو چیز تمھارے پاس ہے وہ ** دین** ہے  وہ دین کے جس کے بارے میں رب العالمین فرمائے ( * و رضیت لکم الاسلام دینا* (المائدہ آیت نمبر 3))

یعنی تمھارے پاس رب کی پسندیدہ چیز ہے اور تم وہ خوش نصیب ہو جو دین پر عمل پیرا ہو،اسلام ایک ایسا بابرکت دین ہے جس کی برکتوں کی کوئی انتہا نہیں۔ ہم جتنا بھی اس کی برکتوں پر غور کرتے ہیں اتنا ہی اس کی برکتیں وسیع تر ہوتی جاتی ہیں ،تو دین کی اہمیت کی طرف نظر کریں گے تو ہمیں اپنی اس حاصل شدہ دولت (دین پر عمل پیرا ہونا) پر ملنے والے اجر کی لذت محسوس ہوگی.
لہذا ہمیں ذلیل چیز(دنیا)کے حامل یعنی دنیا دار قسم کے لوگوں سے کبھی بھی مرعوب نہیں ہونا چاہیے ۔۔

دنیا میں ہوں دنیا کا طلب گار نہیں ہوں 

بازار سے گزرا ہوں خریدار نہیں ہوں