یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

کیا شیعہ سنی کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے



کیا شیعہ سنی کا آپس میں نکاح ہوسکتا ہے ؟

سائلہ : صائمہ جنت سندھ
*بسمہ تعالیٰ*
*الجواب بعون الملک الوھّاب*
*اللھم ھدایۃ الحق و الصواب*
کسی سنی مرد کا شیعہ عورت کے ساتھ اور سنیہ عورت کا شیعہ مرد کے ساتھ نکاح جائز نہیں ہے کیونکہ نکاح کے جائز ہونے کے لیے لڑکے اور لڑکی دونوں کا مسلمان ہونا ضروری ہے جبکہ موجودہ دور کے شیعہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن کریم میں کمی ہو چکی ہے اور آئمہ اطہار رضی اللہ عنھم کو انبیاء کرام علیھم السلام سے افضل سمجھتے ہیں، حضرت جبریل علیہ السلام سے وحی پہنچانے میں غلطی ہونے کے قائل ہیں اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا پر بہتان باندھتے ہیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ آپ نے دین کی تبلیغ میں تقیہ کیا ہے اور اللہ تعالیٰ کے بارے ميں یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ بعض اوقات حکم دے کر پچھتاتا ہے پھر پشیمان ہوکر اسے بدل دیتا ہے یا پہلے اسے مصلحت کا علم نہیں ہوتا، بعد میں مطلع ہوکر تبدیل کرتا ہے تو یہ تمام کفریہ عقائد ہیں اور اس طرح کے عقائد رکھنے والے افراد مسلمان نہیں ہوسکتے بلکہ پکے کافر ہیں اور جب مسلمان نہیں ہیں تو ان کا نکاح کسی سنی لڑکی یا سنی لڑکے کے ساتھ جائز نہیں ہے، اگر کیا تو زنائے محض ہوگا اور اولاد ولدالزنا ہوگی۔

اور اگر کوئی شیعہ اجماعیہ کفریہ عقائد سے بچتے ہوئے صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو برا بھلا کہے تو جو ان میں سے حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ کی خلافت کا انکار کرے یا انہیں برا بھلا کہے تو فقہائے کرام کے نزدیک ایسا شخص کافر ہے لیکن محقق علمائے متکلمین کے سے نزدیک کافر نہیں مگر بدعتی، جہمنی کتا ہے، ایسوں سے نکاح اگرچہ ہوجائے گا مگر سخت مکروہ اور ناجائز گناہ ہوگا۔
اور کوئی صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو خیر سے یاد کرتا ہو، چاروں خلفائے راشدین کی امامت کو برحق سمجھتا ہو لیکن حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ کو حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنھما سے افضل مانتا ہو تو ایسا شخص رافضی، گمراہ، بدمذہب ہے ایسوں سے نکاح اگرچہ جائز ہے مگر کراہت سے خالی نہیں۔
البتہ اگر شیعہ لڑکی یا لڑکا اپنے باطل کفریہ اور گمراہ کن عقائد سے سچے دل کے ساتھ توبہ کر لیں اور سنی عقائد کو دل و جان سے قبول کر لیں تو پھر ان کا سنی سے نکاح کرنا جائز ہوگا۔
چنانچہ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے :
*"وَ لَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكٰتِ حَتّٰى یُؤْمِنَّؕ-وَ لَاَمَةٌ مُّؤْمِنَةٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكَةٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْكُمْۚ-وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْاؕ-وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْؕ-اُولٰٓىٕكَ یَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ ۚۖ-وَ اللّٰهُ یَدْعُوْۤا اِلَى الْجَنَّةِ وَ الْمَغْفِرَةِ بِاِذْنِهٖۚ-وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِهٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ۠"*
ترجمہ : اورمشرکہ عورتوں سے نکاح نہ کرو جب تک مسلمان نہ ہوجائیں اور بیشک مسلمان لونڈی مشرکہ عورت سے اچھی ہے اگرچہ وہ تمہیں پسند ہو اور (مسلمان عورتوں کو) مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے اگرچہ وہ مشرک تمہیں پسندہو، وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ اپنے حکم سے جنت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنی آیتیں لوگوں کے لئے بیان کرتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں۔
*(پارہ 2 سورۃ البقرۃ : 221)*
یہ آیت حضرت مرثد غَنَوِی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں نازل ہوئی، وہ ایک بہادر شخص تھے۔
سرکارِ دو عالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ نے انہیں مکہ مکرمہ روانہ فرمایا تاکہ وہاں سے کسی تدبیر کے ساتھ مسلمانوں کو نکال لائیں۔
وہاں عَناق نامی ایک مشرکہ عورت تھی جو زمانہ جاہلیت میں ان کے ساتھ محبت کرتی تھی، وہ حسین اور مالدار تھی جب اُس کو اِن کے آنے کی خبر ہوئی تو وہ آپ کے پاس آئی اور اپنی طرف دعوت دی۔ آپ نے خوفِ الٰہی کی وجہ سے اس سے اِعراض کیا اور فرمایا کہ اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا، تب اس نے نکاح کی درخواست کی تو آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا کہ یہ بھی رسولِ خدا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمَ کی اجازت پر موقوف ہے۔
چنانچہ پھر اپنے کام سے فارغ ہو کر جب آپ نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوئے تو صورتِ حال عرض کرکے نکاح کے متعلق دریافت کیا۔ اس پر یہ آیت نازل ہوئی
*(خازن، البقرۃ، تحت الآیۃ: 221، جلد 1 صفحہ 160)*
اور فرمایا گیا کہ مشرکہ عورتوں سے نکاح کی اجازت نہیں اگرچہ وہ تمہیں پسند ہوں۔ 
مفتی صاحب نے مزید تحریر فرمایا :
*وَلَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا:* 
اور مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں۔
یہ عورت کے سرپرستوں سے خطاب ہے کہ اپنی مسلمان عورتوں کو مشرکوں کے نکاح میں نہ دو۔ مسلمان عورت کا نکاح مشرک و کافر کے ساتھ باطل و حرام ہے۔ مشرک و کافر لوگ تو تمہیں جہنم کی آگ کی طرف بلاتے ہیں جبکہ اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی مغفرت کی طرف بلاتا ہے اور تمہیں نصیحت فرمانے کیلئے تم پر اپنے احکام نازل فرماتا ہے۔
اس آیت میں آج کل کے مسلمانوں کے لئے بہت واضح حکم موجود ہے۔ انتہائی افسوس ہے کہ قرآن میں اتنی صراحت و وضاحت سے حکم آنے کے باوجود مسلمان لڑکوں میں مشرکہ لڑکیوں کے ساتھ اور یونہی کافر لڑکوں اور مسلمان لڑکیوں میں باہم شادیوں کا رجحان بڑھتا جارہا ہے، خاص طور پر ان علاقوں میں جہاں کفار و مسلم اکٹھے رہتے ہیں۔ مغربی طرزِ زندگی نیز لڑکوں اور لڑکیوں کی مخلوط تعلیم سے جہاں اور تباہیاں مچی ہوئی ہیں اور بے حیائی کا طوفان امڈ آیا ہے وہیں باہم ایسی حرام شادیوں کے ذریعے زندگی بھر کی بدکاری کے سلسلے بھی جاری و ساری ہیں۔ اس تمام صورتحال کا وبال اُن لڑکوں لڑکیوں پر بھی ہے جو اس میں مُلَوَّث ہیں اور ان والدین پر بھی جو راضی خوشی اولاد کو اس جہنم میں جھونکتے ہیں اور ان حکمرانوں اور صاحبِ اختیار پر بھی ہے جو ایسی تعلیم کو رواج دیتے ہیں یا باوجودِ قدرت اس کا اِنسِداد کرنے کی کوشش نہیں کرتے اور یونہی اس کا وبال اُن نام نہاد جاہل دانشوروں، لبرل اِزم کے مریضوں اور دین دشمن قلمکاروں پر بھی ہے جو اس کی تائید و حمایت میں ورق سیاہ کرتے ہیں۔
*(تفسیر صراط الجنان جلد اول، پارہ 2، تحت الآیۃ : 221 مکتبۃ المدینہ کراچی)*
امام علاء الدین ابو بکر بن سعود کاسانی حنفی رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
*"و منها أن لا تكون المرأة مشركةً إذا كان الرجل مسلماً فلا يجوز للمسلم أن ينكح المشركة لقوله تعالى : (وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتىّٰ يُؤْمِنَّ)''*
یعنی اور اس میں سے یہ ہے کہ عورت مشرکہ نہ ہو جب کہ مرد مسلمان ہو، پس مسلمان کے لئے مشرکہ عورت سے نکاح کرنا جائز نہیں ہے، اللہ پاک کے اس فرمان کی وجہ سے : 
*"وَلَا تَنْكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتىّٰ يُؤْمِنَّ"*
(سورۃ البقرۃ، آلایۃ : 221)
*(بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع، جلد 2 صفحہ 552 مکتبہ رشیدیہ کوئٹہ)*
فتاوی عالمگیری میں ہے : *"لایجوز للمرتد ان یتزوج مرتدة و لا مسلمة و لا كافرة اصلية وكذالك لايجوز نكاح المرتدة مع احد کذا فی المبسوط"*
یعنی مرتد کے لئے مرتدہ کے ساتھ نکاح کرنا جائز نہیں اور نہ ہی مسلمان عورت کے ساتھ اور نہ ہی اصلیہ کافرہ عورت کے ساتھ (نکاح جائز ہے) اور ایسے ہی مرتدہ عورت کا نکاح کسی مرد کے ساتھ جائز نہیں ہے، ایسے ہی *"مبسوط"* میں ہے۔
*(فتاوی عالمگیری، کتاب النکاح، الباب الثالث، القسم السابع، جلد 1، صفحہ 282 مطبوعہ نورانی کتب خانہ پشاور)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"جس مسلمان عورت کا غلطی یا جہالت سے کسی ایسے (کافر، مرتد) کے ساتھ نکاح باندھا گیا اس پر فرض فرض فرض ہے کہ فوراً فوراً فوراً اس سے جدا ہو جائے کہ زنا سے بچے، اور طلاق کی کچھ حاجت نہیں، بلکہ طلاق کا کوئی محل ہی نہیں، طلاق تو جب ہو کہ نکاح ہوا ہو، نکاح ہی سرے سے نہ ہوا، نہ اصلاً عدت کی ضرورت کہ زنا کے لئے عدت نہیں، بلا طلاق و بلاعدت جس مسلمان سے چاہے نکاح کر سکتی ہے۔
درمختار میں ہے : 
*"نکح کافر مسلمة فولدت منه لایثبت النسب منه و لاتجب العدۃ لانه نکاح باطل"*
کسی کافر نے کسی مسلمان عورت سے (اپنے خیال میں) نکاح کر لیا تو اس سے عورت نے بچہ جنا تو اس سے بچے کا نسب ثابت نہ ہوگا اور نہ عورت پر عدت واجب ہوگی، اس لئے کہ وہ ایک باطل نکاح ہے۔
ردالمحتار میں ہے :
*"ای فالوطء فیه زنا لایثبت به النسب"*
یہ وطی زنا قرار پائے گی، اس سے بچے کا نسب ثابت نہ ہوگا.
*(فتاویٰ رضویہ جلد 21 صفحہ 281 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پر تحریر فرماتے ہیں :
"مگر عدت تو منکوحہ پر ہوتی ہے ہندہ و زید میں باہم نکاح ہی اصلاً نہ تھا کہ جب زید مثل عام روافضِ زمانہ ان عقائدِ کفر کا معتقد تھا تو قطعاً کافر مرتد تھا، عالمگیریہ میں ہے :
*"یجب اکفار الروافض فی قولھم  (و عد بعض عقائدھم المکفرۃ و قال) و ھٰؤلاء القوم خارجون عن ملۃ الاسلام و احکامھم احکام المرتدین کذا فی الظھیریۃ"*
رافضیوں کو کافر قرار دینا ضروری ہے ان کے عقائد کی بابت (یہاں روافض کے بعد عقائد کفریہ ذکر کرکے ہندیہ میں فرمایا کہ) یہ قوم ملتِ اسلامیہ سے خارج ہے، اور ان کے احکام مرتدین جیسے ہوں گے جیسا کہ ظہیریہ میں ہے۔(ت)
*(فتاوی عالمگیری، الباب التاسع فی احکام المرتدین، جلد 2 صفحہ 264 نورانی کتب خانہ پشاور)*
اور مرتد مرد خواہ عورت کا نکاح کسی ملت و مذہب والے سے ہو ہی نہیں سکتا نہ مومنین سے نہ کفار سے نہ خود اسی کے ہم مذہبوں سے۔
ہندیہ میں ہے :
*"لایجوز للمرتد ان یتزوج مرتدۃ و لا مسلمۃ و لا کافرۃ اصلیۃ و کذٰلک لایجوز نکاح المرتدۃ مع احد کذا فی المبسوط"*
مرتد کو جائز نہیں کہ وہ مرتدہ، مسلمان یا کافرہ اصلیہ سے نکاح کرے، اور یونہی مرتدہ کا نکاح کسی سے بھی جائز نہیں، جیسا کہ مبسوط میں ہے (ت)۔
تو ہندہ اگرچہ زید کی حیات ہی میں بلاطلاق اسی وقت اپنا عقد بکر سے کر لیتی جب بھی جائز و صحیح تھا۔"
*(فتاوی رضویہ جلد 13 صفحہ 315 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
درمختار مع رد المحتار میں ہے :
*''وبهذا ظهر أن الرافضي إن كان ممن يعتقد الألوهية في علي، أو أن جبريل غلط في الوحي، أو كان ينكر صحبة الصديق، أو يقذف السيدة الصديقة فهو كافر ؛ لمخالفته القواطع المعلومة من الدين بالضرورة، بخلاف ما إذا كان يفضل علياً أو يسب الصحابة ؛ فإنه مبتدع لا كافر''*
یعنی اور اس کے ساتھ ظاہر ہوگیا کہ بےشک رافضی اگر اس سے ہو کہ جو اعتقاد رکھتا ہے حضرت علی رضی اللہ عنہ کے خدا ہونے کا یا جبرئیل علیہ السلام کے وحی میں غلطی کرنے کا یا وہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی صحابیت کا منکر ہے یا سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا پر تہمت لگاتا ہے تو وہ کافر ہے کیونکہ وہ اس قطعی چیزوں کی مخالفت کر رہا ہے جن کا ضروریاتِ دین سے ہونا معلوم ہے بخلاف اس کے جب وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کو (حضرت ابو بکر صدیق اور حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنھما پر)  فضیلت دے یا صحابہ کرام کو برا بھلا کہے تو ایسا شخص بدعتی ہے، کافر نہیں۔
*(رد المحتار علی الدرالمختار جلد 3 صفحہ 46)*
مزید ایک اور مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ تحریر فرماتے ہیں :
"شیعہ تین قسم ہیں :
*اول* غالی کہ منکر ضروریات دین ہوں، مثلا قرآن مجید کو ناقص بتائیں، بیاض عثمانی کہیں یا امیر المومنین مولا علی کرم اللہ وجہہ خواہ دیگر ائمہ اطہار کو انبیائے سابقین علیہم الصلوٰۃ و التسلیم خواہ کسی ایک نبی سے افضل جانیں یا رب العزت جل و علا پر بدع یعنی حکم دے کر پشیمان ہونا، پچتا کر بدل دینا، یا پہلے مصلحت کا علم  نہ ہونا بعد کو مطلع ہو کر تبدیل کرنا مانیں، یا حضور پرنور سید المرسلین صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم پر تبلیغ دین متین میں تقیہ کی تہمت رکھیں الی غیر ذلک من الکفریات (اس کے علاوہ دیگر کفریات۔ ت) یہ لوگ یقینا قطعا اجماعا کافر مطلق ہیں اور ان کے احکام مثل مرتد، فتاوٰی ظہیریہ و فتاوٰی ہندیہ و حدیقہ ندیہ وغیرہا میں ہے : احکامھم احکام المرتدین (ان کے احکام مرتدین والے ہیں۔ ت) آج کل کے اکثر بلکہ تمام رفاض تبرائی اسی قسم کے ہیں کہ وہ عقیدہ کفریہ سابقہ میں ان کے عالم، جاہل، مرد، عورت سب شریک ہیں الا ما شاء ﷲ (مگر جو اللہ تعالٰی چاہے۔ ت) جو عورت ایسے عقیدہ کی ہو مرتدہ ہے کہ نکاح نہ کسی مسلم سے ہو سکتا ہے نہ کافر سے نہ مرتد سے نہ اس کے ہم مذہب سے۔ جس سے نکاح ہوگا زنائے محض ہوگا اور اولاد ولدالزنا۔
*دوم* تبرائی کہ عقاید کفریہ اجماعیہ سے اجتناب اور صرف سَبّ صحابہ رضی اللہ تعالٰی عنہم کا ارتکاب کرتا ہو، ان میں سے منکرانِ خلافتِ شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما اور انھیں برا کہنے والے فقہائے کرام کے نزدیک کافر و مرتد ہیں، نص علیہ فی الخلاصۃ و الھندیۃ و غیرھما (خلاصہ اور ہندیہ میں اس پر نص ہے۔ ت) مگر مسلک محقق قولِ متکلمین ہے کہ یہ بدعتی ناری جہنمی کلاب النار ہیں مگر کافر نہیں، ایسی عورت سے نکاح اگرچہ صحیح ہے مگر  سخت کراہت شدیدہ سے مکروہ ہے۔
*"لما فی الحدیث عن النبی صلی ﷲ تعالٰی علیہ وسلم لاتناکحوھم"*
کیونکہ حدیث شریف میں حضور علیہ الصلوٰۃ و السلام کا ارشاد ہے کہ ان سے نکاح نہ کرو۔ (ت)
صحیح حدیث میں ہے کہ ایک شخص نے اپنے ناقہ کو لعنت کی حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے اسے چھڑوا دیا کہ ملعونہ ناقہ پر ہمارے ساتھ نہ رہ۔ پھر کسی نے اس ناقہ کو نہ چھوا۔ حالانکہ ناقہ فی نفسہا مستحق لعنت نہیں۔ حضرات شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہما پر لعنت کرنے والے بلاشبہہ لعنت الہٰی کے مورد ہیں، 
*"اولئک یلعنھم ﷲ و یلعنھم اللاعنون۔"*
یہ وہ لوگ ہیں کہ ان پر اللہ تعالٰی لعنت فرماتا ہے اور سب لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔ (ت)
احادیث صحیحہ کثیرہ اس معنی پر ناطق ہیں تو ایک ملعونہ سے صحبت رکھنا کیونکر شرع مطہر کو گوارا ہوگا واللہ الہادی۔
*سوم* تفضیلی کہ تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کو خیر سے یاد کرتا ہو، خلفائے اربعہ رضوان اللہ تعالٰی علیہم کی امامت بر حق جانتا ہو صرف امیرالمومنین مولٰی علی کو شیخین رضی اللہ تعالٰی عنہم سے افضل مانتا ہو، انھیں کفر سے کچھ علاقہ نہیں، بدمذہب ضرور ہیں، ایسی عورت سے بالاتفاق نکاح جائز ہے ہاں کراہت سے خالی نہیں کہ مبتدعہ ہے اگرچہ ہلکے درجہ کی بدعت ہے خصوصا اگر اس کی محبت میں اپنے مذہب پر اثر پڑنے کا احتمال ہو تو کراہت شدید ہو جائے گی اور ظنِ غالب تو اشد بالغ بدرجہ تحریم،
*(فتاوی رضویہ جلد 11 صفحہ 345، 346 رضا فاؤنڈیشن لاہور)*
واللہ اعلم ورسولہ اعلم عزوجل و صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم 
کتبہ
*ابواسیدعبیدرضامدنی*
07/10/2020
03068209672
*تصدیق و تصحیح :*
الجواب صحيح
*فقط محمد عطاء اللہ النعیمی خادم الحدیث والافتاء بجامعۃالنور جمعیت اشاعت اہلسنت (پاکستان) کراچی*