علامہ خادم حسین رضوی اور ادب حدیث
علامہ خادم حسین رضوی اور ادب حدیث
امیر المجاہدین حضرت علامہ خادم حسین رضوی رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد بیان کرتے ہیں کہ آپ دوران تدریس حدیث شریف کا سبق پڑھانے سے پہلے قصیدہ بردہ شریف خود بھی پڑھتے اور طلباء کرام سے بھی پڑھاتے اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کا شجرہ مبارکہ مطہرہ حضرت ابراہیم علیہ السلام تک پڑھتے تھے اور روزانہ قصیدہ بردہ شریف کے ایک شعر کی تشریح کرتے (زمانہ طالب علمی میں آپ کے استاذ علامہ عبدالحکیم شرف قادری رحمۃ اللہ علیہ بھی اپنا درس شروع کرنے سے پہلے قصیدہ بردہ شریف پڑھتے تھے اسی وجہ سے آپ نے اس طریقہ کو اپنایا ہوا تھا) اسکے بعد حدیث شریف کا درس شروع فرماتے تھے، دورانِ درس حدیث ذرا سی منافی ادب بات بھی گوارا نہیں کرتے اگر حدیث کی کتاب الٹی یا ٹیڑھی رکھی دیکھتے تو بہت زیادہ ناراض ہوتے تھے
ایک دفعہ ایک شاگرد نے حدیث شریف کی عبارت پڑھی اور پہلا لفظ غلط پڑھ گئے تو آپ نے شدید ناراضگی کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ یہ حدیث رسول ہے کوئی عام کتاب نہیں اس میں غلطی یا عدم توجہ ناقابل معافی ہے۔(حالانکہ درس و تدریس سے وابستہ افراد جانتے ہیں کہ زمانہ طالب علمی میں یہ چیزیں درپیش آتی رہتی ہیں لیکن حضرت کے عشق پر قربان )
آپ کے ایک شاگرد کا بیان ہے کہ جس وقت قبلہ امیر المجاہدین رحمۃ اللہ علیہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال پر ملال والی حدیث پڑھائی تو آپ کی ایسی حالت تھی کہ آپ کا جگر پھٹ جائے گا اور یہ بات کرتے کرتے دس منٹ سے زیادہ لگ گئے کہ نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے وصال کے بعد تین سو سال کوئی بندہ مسکرا نہیں سکا اور منہ پر چادر رکھ کر بلک بلک کر روتے جاتے۔
(امیر عزیمت،ص 23تا25 مخلصا)
حدیث شریف میں استدلال کے حوالےسے حضرت قبلہ رحمۃ اللہ علیہ غزالی زماں علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ سے زیادہ متاثر تھے اور آپ سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔
مفتی عبدالرشید ہمایوں صاحب اپنی کتاب "قائد ملّت اسلامیہ" میں لکھتے ہیں:
قائد ملّت اسلامیہ رحمۃ اللہ علیہ ایک سچے عاشق رسول تھے اور آپ نے لاکھوں افراد کو عشق رسول کے جام سے سیراب کیا ہے، آپ انتہائی دلنشین انداز سے نبی کریم روف رحیم صلی ﷲ علیہ وسلم کی احادیث سنایا کرتے اور اس کی شرح بیان کرتے،ہجر رسول میں ان کی آنکھوں سے زار و قطار اور بے اختیار آنسو جاری ہو جاتے،سننے والے اس قدر محو ہو جاتے کہ چشمِ تصور سےمدینہ دیکھ لیتے۔
(قائدِ ملت اسلامیہ،ص52)
✍️ محمد ساجد مدنی
19.11.2021ء