یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

راہ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل


 راہ خدا میں خرچ کرنے کے فضائل




1: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے : تو میری راہ میں مال خرچ کر میں تجھے مال دوں گا۔ اور فرمایا کہ اللہ کے ہاتھ(دست قدرت) بھرے ہوئے ہیں، رات دن خرچ کرنے سے بھی خالی نہیں ہوتے۔ فرمایا کہ کیا تم نہیں دیکھتے جب سے آسمان اور زمین کی پیدائش ہوئی اُس وقت سے کتنا اُس نے لوگوں کو دیا لیکن اُس کے خزانوں میں کوئی کمی نہیں آئی اور اُس وقتاً اُس کا عرش پانی پر تھا اور اُسی کے ہاتھ میں میزان ہے جو پست (یعنی جس کا ایک پلڑا پست) اور (ایک پلڑا) بلند ہوتا ہے۔
(صحیح بخاری،حدیث:4407)

2: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے راویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے : اے ابن آدم! تو (مخلوق خدا پر) خرچ کر (تو) میں تیرے اوپر خرچ کروں گا۔
(صحیح بخاری،حدیث:5037)


3: حضرت اسماء رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : خرچ کرو اور گن کر نہ دو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تمہیں گن کر دے گا، اور ہاتھ نہ روکو ورنہ اللہ تعالیٰ بھی تم سے اپنا ہاتھ (رزق) روک لے گا۔
(صحیح بخاری،حدیث:2451)

 4: حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : میں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ منورہ کی پتھریلی زمین پر چل رہا تھا اور ہمارے سامنے اُحد پہاڑ تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابو ذر! میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میں حاضر ہوں۔ فرمایا کہ مجھے اس بات کی کوئی خوشی نہیں کہ میرے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا ہو اور تیسری رات مجھ پر اس حال میں گزرے کہ اُس میں سے ایک دینار بھی میرے پاس بچا رہے، سوائے اس کے جو قرض ادا کرنے کے لیے رکھ چھوڑوں، مگر میں یہ چاہتا ہوں کہ اللہ کے بندوں میں وہ مال تقسیم کر دوں یعنی اپنے دائیں بائیں اور پیچھے دیتا رہوں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چلتے رہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : زیادہ مال والے قیامت کے روز مفلس (کم نیکیوں والے) ہوں گے مگر جو ایسے، ایسے اور ایسے یعنی دائیں بائیں اور پیچھے سے خرچ کریں، لیکن ایسے لوگ کم ہیں۔ پھر مجھ سے فرمایا کہ اپنی جگہ پر رہنا یہاں تک کہ میں تمہارے پاس واپس آؤں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم رات کی تاریکی میں تشریف لے گئے یہاں تک کہ میری نظروں سے اوجھل ہو گئے۔ پھر میں نے اونچی آواز سنی۔ مجھے خدشہ ہوا کہ کہیں حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی حادثہ پیش نہ آ گیا ہو۔ یہ سوچ کر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جانے کا ارادہ کیا لیکن مجھے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی یاد آ گیا کہ میرے آنے تک اپنی جگہ نہ چھوڑنا۔ چنانچہ میں نے اپنی جگہ نہ چھوڑی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میرے پاس تشریف لائے۔ میں عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! میں نے ایک آواز سنی تو خوفزدہ ہو گیا لیکن مجھے حضور کا ارشاد عالی یاد آ گیا۔ تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : کیا تم نے آواز سنی؟ میں عرض گزار ہوا : ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : وہ جبرائیل تھے، میرے پاس آئے اور کہا : آپ کی امت میں سے جو شخص اس حال میں فوت ہو جائے کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو وہ (بالآخر) جنت میں جائے گا۔ میں نے کہا : خواہ اس نے زنا کیا اور چوری کی ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ہاں) خواہ اس نے زنا کیا ہو اور چوری کی ہو۔‘‘
(صحیح بخاری،حدیث:6079)


 5: حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ عنہ نے بیان کیا : حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں نماز عصر پڑھائی اور پھر جلدی سے کاشانۂ اقدس میں داخل ہو گئے۔ تھوڑی دیر میں واپس تشریف لائے تو میں نے عرض کیا، یا آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے گزارش کی گئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : میں گھر میں صدقے کا سونا چھوڑ آیا تھا۔ مجھے نا پسند ہوا کہ اس کے ہوتے ہوئے رات گزاروں، پس میں نے اسے تقسیم کر دیا۔
(صحیح بخاری،حدیث:1363)

6: حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے ہر کوئی عنقریب اس حال میں اپنے رب سے کلام کرے گا کہ رب کے اور اس کے درمیان کوئی ترجمان نہیں ہو گا۔ پس جب وہ دائیں جانب دیکھے گا تو کچھ نہیں دیکھے گا مگر وہی عمل جو اس نے آگے بھیجا ہو گا، پھر جب وہ بائیں جانب دیکھے گا تو کچھ نہیں دیکھے گا مگر صرف وہی عمل جو اس نے آگے بھیجا ہوگا، اور جب سامنے نظر کرے گا تو کچھ نہیں دیکھے گا مگر جہنم جو اس کے سامنے ہو گی۔ پس جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کا ایک ٹکڑا ہی خیرات کرنے سے ممکن ہو۔
(صحیح بخاری،حدیث:2729)

7: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : جس نے ایک کھجور کے برابر بھی حلال کمائی سے خیرات کی ۔ اور اللہ تعالیٰ قبول نہیں فرماتا مگر حلال کمائی سے ۔ تو اللہ تعالیٰ اسے اپنے داہنے دستِ قدرت سے قبول فرماتا ہے۔ پھر خیرات کرنے والے کے لیے اس کی پرورش کرتا ہے جیسے تم میں سے کوئی اپنے بچھڑے کی پرورش کرتا ہے، یہاں تک کہ وہ نیکی پہاڑ کے برابر ہو جائے گی۔‘‘
(صحیح مسلم، حدیث:1014)

8:حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان فرمایا : ایک آدمی حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض گزار ہوا : یا رسول اللہ! کون سا صدقہ ثواب کے لحاظ سے بڑا ہے؟ فرمایا : جب تم صدقہ اس حال میں دو کہ تندرست ہو، مال کی ضرورت ہو اور تنگ دستی سے خائف ہو اور مال داری کا اشتیاق ہو۔ اتنی دیر نہ کرو کہ جان گلے میں آپھنسے اور تب تو کہے کہ اتنا مال فلاں کے لیے اور اتنا فلاں کے لیے ہے حالانکہ اب تو وہ (تیرے کہے بغیر) فلاں کا ہو ہی چکا ہے۔
(صحیح مسلم،حدیث:1032)


9: حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر آدمی ایک درہم اپنی زندگی میں صدقہ کرے تو یہ بہتر ہے بہ نسبت اس کے کہ وہ سو درہم اپنی موت کے وقت خیرات کرے۔‘‘
(سنن ابی داؤد،حدیث:2866)

10: حضرت عبد اللہ (بن مسعود) رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : تم میں سے کون ایسا ہے جس کو اپنے وارث کا مال اپنے مال سے زیادہ پیارا ہو؟ لوگ عرض گزار ہوئے : یا رسول اللہ! ہم میں سے تو ہر کسی کو اپنا مال ہی سب سے زیادہ پیارا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یقینا ہر شخص کا اپنا مال صرف وہ ہے جسے اس نے (خرچ کر کے) آگے بھیج دیا اور اس کے وارث کا مال وہ ہے جو اس نے پیچھے چھوڑا۔
(سنن نسائی،حدیث:3612)

11: حضرت قیس بن سلع انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بھائیوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے اس کی شکایت کی، انہوں نے کہا : یہ اپنا مال فضول خرچ کر دیتا ہے اور اس میں خوش رہتا ہے۔ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان سے استفسار کیا : قیس! کیا بات ہے؟ تیرے بھائی تیرے بارے میں شکایت کرتے ہیں، ان کا خیال ہے کہ تو فضول خرچی کرتا ہے اور اس میں خوشی محسوس کرتا ہے؟ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ! میں پیداوار میں سے اپنا حصہ لے لیتا ہوں اور اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں اور اپنے دوستوں پر خرچ کر دیتا ہوں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ان کے سینے پر ہاتھ مار کر فرمایا : تو خرچ کرتا رہ، اللہ تعالیٰ تجھ پر خرچ کرتا رہے گا۔ یہ بات آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی۔ اس کے بعد جب میں اللہ تعالیٰ کے راستے میں نکلا تو حالت یہ تھی کہ میرے پاس ایک سواری تھی اور آج میں اپنے خاندان میں سب سے زیادہ مال و دولت والا اور خوش حال ہوں۔
(طبرانی،حدیث:8536)

12: حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ جب کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر پر جلوہ افروز تھے۔ نے صدقہ کرنے، سوال سے بچنے اور سوال کرنے کے متعلق فرمایا : اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہے؛ اوپر والا ہاتھ خرچ کرنے والا ہے اور نیچے والا سوال کرنے والا ہے۔
صحیح مسلم،حدیث:1033)

13: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : سب سے افضل صدقہ وہ ہے جس کے بعد غنا قائم رہے اور اوپر (دینے ) والا ہاتھ نیچے (لینے) والے ہاتھ سے بہتر ہے اور ابتداء اُن سے کرو جو تمہارے زیرکفالت ہیں، یہ نہ ہو کہ بیوی بھی کہے کہ مجھے کھانا دو ورنہ طلاق دے دو، غلام کہے کہ مجھے کھانا دو اور مجھ سے کام لو اور بیٹا کہے کہ مجھے کھانا دو، مجھے کس کے سہارے چھوڑ رہے ہو؟ لوگوں نے دریافت کیا : اے ابوہریرہ! کیا یہ بات آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود سنی ہے؟ جواب دیا کہ نہیں، یہ ابو ہریرہ کی ذہانت میں سے ہے۔
(مسند امام احمد،حدیث:10830)

14: حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے ابن آدم! تیرے لیے ضرورت سے زائد چیز کا خرچ کرنا بہتر ہے اور (ضرورت سے زائد اپنے پاس) روکے رکھنا تیرے لئے برا ہے، لیکن بقدرِ ضرورت (اپنے پاس) رکھنے پر تجھے کچھ ملامت نہیں۔ اور پہلے ان پر خرچ کرو جو تمہارے زیر کفالت ہیں، اور اُوپر والا ہاتھ (یعنی دینے والا ہاتھ) نیچے والے ہاتھ (یعنی لینے والے ہاتھ) سے بہتر ہے.
(مسند امام احمد،حدیث: 22319)

الحمدللہ رب العالمین دعوت اسلامی دین متین کی خدمت میں مصروف عمل ہے اور اس تحریک کو چلانے کے لیے خطیر رقم درکار ہوتی ہے 
دعوت اسلامی کے تین بڑے شعبے جامعتہ المدینہ، مدارس المدینہ اور کنز المدارس کے لئے 7نومبر سے مدنی عطیات مہم ٹیلی تھون شروع ہو رہی ہے تو آپ بھی اس میں ضرور حصہ شامل کیجئے۔


✍️تحریر: 
محمد ساجد مدنی
6.11.2021ء

WhatsApp:
+923013823742