یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

ارض پاک و ہند میں اصحاب رسول ﷺ کی آمد


 *ارض پاک و ہند میں اصحاب رسول ﷺ کی آمد


بلوچستان، سندھ اور بعض دیگر علاقوں میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی مقدس جماعت کا ورود مسعود تاریخ کی بعض روایات سے ثابت ہوتا ہے۔
 تاریخ کی کتابوں سے ہمیں صرف پچیس صحابہ کے اسمائے گرامی کا پتا چل سکا ہے، جن کے مبارک قدم جہاد کے لیے برصغیر میں پہنچے، ورنہ خیال یہ ہے کہ بہت سے صحابہ یہاں تشریف لائے ہوں گے، جنھوں نے اس خطۂ ارض کے مختلف مقامات کو اپنا مسکن ٹھہرایا ہوگا۔
(برصغیر میں اسلام کے اولین نقوش،ص26)

عہدِ فاروقی میں آنے والے صحابہ

22جمادی الثانی13ھ کو خلیفہ اوّل سیدنا ابوبکر صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کی وفات کے بعد ان کی وصیت کے مطابق سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ  کی بیعت خلافت کی گئی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا عہد خلافت ساڑھے دس برس پر مشتمل ہے۔ ان کے عہدِ خلافت میں اسلامی مملکت بہت وسیع ہوئی اور جنگی فتوحات میں غیر معمولی کامیابیاں حاصل ہوئیں اور ان کامیابیوں کے نتیجے اسلامی ریاست موجود پاک و ہند کے حدود تک پھیل گئی۔ ان کے عہد میں 11 اصحابِ رسول کے نام ملتے ہیں جو بلادِ ہند کے کسی خطے میں تشریف لائے۔ ان کے اسمائے گرامی اور مختصر حالات حسبِ ذیل ہیں:-

۔1 حضرت عثمان  رضی اللہ عنہ بن ابی العاص ثقَفِی

حضرت عثمان بن ابی العاص بن بشر طائف کے رہنے والے اور قبیلہ بنو ثقیف سے تعلق تھا۔ 9 ہجری میں 16، 17 برس کی عمر میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ وہ کم عمری ہی سے نہایت ذہین وفطین تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے عرض کیا کہ میں نے اس لڑکے میں اسلام کو سمجھنے اور قرآن کو سیکھنے کی حرص دیکھی ہے۔ نبی کریم ﷺ نے انھیں طائف کا امیر مقرر کیا تھا۔ طائف میں ان کی امارت کی مدت چھے برس رہی، ڈیڑھ سال عہدِ نبوت میں، ڈھائی سال عہدِ صدیقی میں اور دو سال عہدِ فاروقی میں۔
(اسلامی ہند کی عظمت رفتہ،ص47)
 15ھ میں انھیں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے عمان اور بحرین کا والی (گورنر) مقرر کیا۔ اسی سال انھوں نے ایک بحری بیڑا تیار کرایا اور اپنے چھوٹے بھائی حکم بن ابی العاص کی زیر قیادت ہندوستان کی طرف روانہ کیا۔ اس لشکر اسلامی نے موجودہ ممبئی کے اطراف میں واقع تھانہ اور بھڑوچ کی بندرگاہوں پر حملہ کیا۔ حضرت عثمان رضی ﷲ عنہ نے اپنی زندگی میں مختلف مقامات میں کی جانے والی متعدد جہادی سرگرمیوں میں حصہ لیا۔ 
مشہور روایت کے مطابق 51ھ اور ایک روایت کے مطابق 50ھ یا 55ھ میں انھوں نے بصرہ میں وفات پائی۔ 
(تہذیب الکمال 209/19)

2 حضرت حکم رضی اللہ عنہ بن ابی العاص ثقَفِی

حضرت عثمان بن ابی العاص رضی ﷲ عنہ کے چھوٹے بھائی تھے۔ تمام امیرانہ و فاتحانہ سرگرمیوں میں اپنے بھائی کے شریکِ کار رہے ہیں۔ 15ھ میں جب سیدنا عمر فاروق  رضی ﷲ عنہ نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کو عمان اور بحرین کا والی (گورنر) مقرر کیا تو حضرت عثمان نے انھیں اپنی جگہ طائف کا امیر مقرر کیا۔ کچھ عرصہ بعد انھیں بحرین کا امیر مقرر کیا۔ حضرت حکم رضی اللہ عنہ نے اپنے بھائی کے حکم سے بلادِ سندھ و ہند کے کئی ساحلی علاقوں پر لشکر کشی کی جن میں تھانہ، بھڑوچ، اور اس کے اطراف شامل ہیں، جہاں بھی یلغار کی کامیاب و کامران رہے۔ زیاد بن ابی سفیان نے انھیں خراسان کا والی مقرر کیا تھا۔ آخری دور میں یہ بصرہ میں مقیم ہو گئے تھے اور وہیں 45ھ میں ان کی وفات ہوئی۔ علامہ ذہبی کے مطابق ان کی وفات 47ھ میں ہوئی۔

۔3 حضرت مغیرہ رضی اللہ عنہ بن ابی العاص ثقَفِی
حضرت عثمان اور حضرت حکم کے بھائی ہیں اور اپنے بھائیوں کے امیرانہ و فاتحانہ سرگرمیوں میں ان کے شریکِ کار رہے ہیں۔ حضرت مغیرہ اپنے بھائی حضرت عثمان کے حکم سے امیر لشکر کی حیثیت سے دیبل کی مہم پر روانہ ہوئے اور کامیابی حاصل کی۔  زندگی کے آخری سالوں اپنے بھائیوں کے ساتھ بصرہ مقیم ہو گئے وہیں وفات پائی تاہم سن وفات سے آگاہی نہ ہو سکی۔ 
( نزہۃ الخواطر ،ص:37)
(خلافتِ راشدہ اور ہندوستان ،ص: 261 – 262)

۔4 حضرت رُبیَّع  بن زیاد حارثی مذحجی رضی ﷲ عنہ

حضرت ربیع کا تعلق قبیلہ بنو مَذحِج سے تھا۔ انھوں نے بہت سی جنگوں میں حصہ لیا اور ہر جنگ میں حریف کو شکست سے دوچار کیا۔ 17ھ میں عہد فاروقی میں حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے انھیں لشکرِ اسلامی کا امیر بنا کر ایران کی جانب مختلف محاذوں پر بھیجا، انھوں نے ہر محاذ پر جرأت و بہادری کا مظاہرہ کیا۔ ’’فتوح البلدان‘‘ میں مکران کے علاقے شیرجان اور اس کے اطراف کا ذکر ہے۔ اس زمانے کے مکران کا بیشتر علاقہ موجودہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان کا حصہ تھا۔ حضرت ربیع رضی اللہ عنہ کی فاتحانہ جہادی سرگرمیوں کا آغاز عہد فاروقی سے شروع ہوا اور عہد معاویہ تک جاری رہا۔ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے انھیں خراسان کا والی بنا دیا تھا۔ حضرت ربیع رضی اللہ عنہ نے عہد معاویہ میں 51ھ یا اس کے کچھ عرصہ بعد وفات پائی۔
( تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (ج 9، ص: 80 تا 82)، الاستیعاب (ص: 488)، طبقات ابن سعد (ج 8، ص: 279 – 280)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 487)، تہذیب التہذیب (ج 3، ص: 243 – 244)

۔5 حضرت حکم رضی اللہ عنہ بن عمرو ثعلبی غِفاری

حضرت حکم بن عمرو بن مُجَدَّع رضی ﷲ عنہ کا تعلق عرب کے مشہور قبیلہ بنو غفار کی شاخ بنو ثعلب سے تھا اسی نسبت سے ثعلبی غفاری کہلاتے تھے۔ جلیل المرتبت صحابی رسول تھے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے کئی احادیث روایت کی ہیں۔ ابن سعد کے مطابق حضرت حکم، رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد مدینہ سے بصرہ چلے گئے تھے اور وہیں اقامت اختیار کر لی تھی۔ 17ھ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے انھیں مکران کے مفتوحہ حصوں کا والی مقرر کیا۔ 23ھ میں انھوں نے پورے مکران کا محاصرہ کر لیا اور اسے فتح کیا۔ حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ کے حکم پر زیاد بن ابی سفیان نے انھیں 44ھ میں خراسان کا امیر و حاکم بنایا۔ وہاں پہنچ کر حضرت حکم نے اپنی مجاہدانہ سرگرمیاں شروع کر دیں جس سے بہت سے بلاد و امصار فتح ہوئے۔ کہا جاتا ہے کہ آپ پہلے مسلمان ہیں جنھوں نے علاقہ ماوراء النہر میں سب سے پہلے نماز ادا کی ہے۔ باختلاف روایت حضرت حکم رضی اللہ عنہ نے 45ھ یا 50ھ یا 51ھ میں خراسان میں وفات پائی۔ ایک روایت کے مطابق مرو میں وفات پائی۔
(الاستیعاب (ص: 356 تا 358)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (ج 7، ص: 124 تا 129)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 403 – 404)، طبقات ابن سعد (ج 5، ص: 116 – 117، ج 9، ص: 370)، تہذیب التہذیب (ج 2، ص: 436 – 437)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ، اسد الغابۃ (ج 2، ص: 51 تا 53)، البدایۃ والنہایۃ (ص: 1214)

۔6 حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ انصاری رضی ﷲ عنہ

حضرت عبد اللہ بن عبد اللہ بن عتبان انصاری رضی اللہ عنہ عالی مرتبت اصحابِ رسول میں سے ایک تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد بن ابی وقاص کو کوفہ کا گورنر مقرر کیا تھا جب حضرت عمر نے انھیں عراق و ایران کے محاذ پر بھیجنے کا ارادہ کیا تو انھیں مدینہ تشریف لانے کی دعوت دی اس موقع پر حضرت سعد نے حضرت عبد اللہ انصاری کو اپنی جگہ کوفے کا گورنر مقرر کیا۔ بعد ازاں حضرت عمر نے حضرت عبد اللہ کو اصفہان کی گورنری پر مامور فرمایا جہاں انھوں نے مخالفینِ اسلام سے جہاد بھی کیا۔ حضرت عبد اللہ نے فارس (ایران) کے ایک مقام ’’جی‘‘ کی جنگ میں بھی نمایاں حصہ لیا، اس جنگ میں مسلمانوں کو فتح ہوئی اور کفار نے جزیہ کی شرط پر صلح کی۔ صلح نامہ حضرت عبد اللہ نے تحریر فرمایا، یہ 23ھ کا واقعہ ہے۔ اسی سال حضرت عبد اللہ کو مکران بھیجا گیا جہاں حضرت حکم بن عمرو غفاری مصروف جہاد تھے۔ حضرت عبد اللہ یہاں ان کے معاون ہوئے۔
(الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 4، ص: 135)، اسد الغابۃ (ج 3، ص: 299)

۔7 حضرت سہل بن عدی خزرجی انصاری رضی ﷲ عنہ

حضرت سہل بن عدی بن مالک انصارِ مدینہ کی ایک شاخ قبیلہ خزرج سے تعلق رکھنے والے جلیل المرتبت صحابی رسول تھے جنھوں نے غزوہ بدر و احد میں شرکت کی سعادت حاصل کی تھی۔ حضرت عمر نے حضرت ابو موسیٰ اشعری کو خط لکھا تھا کہ حضرت سہل کو مکران کا والی مقرر کیا جائے۔ چنانچہ حضرت سہل مکران گئے اور اس کے گرد و نواح کی فتوحات میں نمایاں کردار ادا کیا۔ یہ 23ھ کا واقعہ ہے۔ حضرت سہل رضی اللہ عنہ اور دیگر اصحابِ رسول نے مکران اور اس کے اطراف کے متعدد علاقے فتح کیے جو اس وقت موجودہ بلوچستان کا حصہ ہیں۔ ارض پاکستان کی یہ بڑی خوش قسمتی ہے کہ یہاں ایک بدری صحابی رسول کی آمد ہوئی۔
(طبقات ابن سعد (ج 4، ص: 303)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 3، ص: 169)

۔8 حضرت صحار بن عباس عبدی رضی ﷲ عنہ
حضرت صحار رضی اللہ عنہ بن عباس بن شراحیل عبدی بحرین کے قبیلہ بنو عبد القیس کی شاخ بنو ظفر سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے والد کا نام صخر بھی بتایا جاتا ہے۔ 5ھ میں وفد عبد القیس کے ساتھ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اسلام قبول کیا۔ حضرت صحار رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ ﷺ سے دو یا تین حدیثیں بھی روایت کی ہیں۔ حضرت صحار رضی اللہ عنہ نہایت عالم و فاضل تھے، فصاحت و بلاغت اور خطابت میں مشہور تھے، علم الانساب کے زبردست ماہر تھے۔
( الفہرست، ص: 221)
22ھ میں احنف بن قیس نے فتح ہرات کے بعد انھیں وہاں اپنا نائب مقرر کیا۔ 23ھ میں حضرت صحار فتح مکران میں شریک تھے۔ فتح مکران کے بعد انھیں دربارِ خلافت میں مژدہ خلافت سنانے کے لیے بھیجا گیا۔ سیدنا فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے ان کا شاندار استقبال کیا اور دریافت کیا کہ مکران کیسا علاقہ ہے ؟ انھوں نے ادیبانہ اسلوب میں بیان کیا:-

’’فھلھا جبل، وماء ھا وشل، وتمرھا وقل، وعدوھا بطل۔‘‘
’’اس کی نرم و ہموار زمین پہاڑ ہے، پانی کم، کھجوریں ردی اور دشمن بے باک ہے۔‘‘

حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر مزید پیش قدمی سے روک دیا۔
حضرت صحار رضی اللہ عنہ جنگ صفین میں حضرت معاویہ  رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے۔ آخری عہد میں ان کی رہائش بصرہ میں تھی۔
( الاستیعاب (ص: 735 – 736)، طبقات ابن سعد (ج 8، ص: 122 – 123، ج 9، ص: 86)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 3، ص: 328 تا 331)

۔9 حضرت عاصم  رضی ﷲ عنہ بن عَمرو تمیمی

حضرت عاصم بن عمرو رضی ﷲ عنہ عرب کے مشہور قبیلہ بنو تمیم سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کے بھائی حضرت قعقاع بن عمرو رضی ﷲ عنہ بھی مشہور صحابی ہیں۔ لیکن ابن عبدالبر کے مطابق ان دونوں بھائیوں کی رسول اللہ ﷺ سے صحبت، لقا اور روایت تینوں محدثین کے نزدیک ثابت نہیں۔ لیکن امام طبری نے تصریح کی ہے کہ عاصم اصحاب رسول میں سے ہیں۔
حضرت عاصم شاعرانہ طبیعت اور مجاہدانہ فطرت کے حامل تھے۔ جنگ قادسیہ میں شریک تھے، فتح عراق کے ضمن میں ان سے کئی اشعار منقول ہیں۔ 17ھ میں حضرت سہل بن عدی کے زیر اہتمام مختلف خطوں میں جہاد کے لیے امراء اور ان کے لواء متعین کیے گئے تو عاصم بن عمرو کو سجستان میں جہاد کا لواء دیا گیا۔ 23ھ میں عاصم بن عمرو نے سجستان میں فتوحات کیں اور اسی ضمن میں سندھ سے متصل بعض علاقوں کو بھی فتح کیا۔
(الاستیعاب (ص: 786)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 3، ص: 465)

۔10 حضرت عبد اللہ بن عمیر اشجعی رضی ﷲ عنہ

حضرت عبد اللہ بن عمیر اشجعی ان اصحاب رسول میں سے ہیں جنھوں نے اپنے قبیلہ سے آکر مدینہ میں سکونت اختیار کرلی تھی۔ انھیں رسول اللہ ﷺ سے روایتِ حدیث کا شرف بھی حاصل ہے۔ محدثین نے ان کا شمار علمائے مدینہ میں کیا ہے۔ 23ھ میں سجستان میں حضرت عاصم بن عمرو تمیمی کے ساتھ شاندار مجاہدانہ خدمات انجام دیں۔ جس کے نتیجے میں سندھ کے بعض علاقے فتح ہوئے۔
(الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 4، ص: 171)، الاستیعاب (ص: 960)، اسد الغابۃ (ج 3، ص: 351)

۔ 11 حضرت عبد اللہ بن عامر بن کریز رضی ﷲ عنہ

حضرت عبد اللہ بن عامر بن کریز مشہور اموی صحابی ہیں۔ حضرتِ عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے ماموں زاد بھائی ہیں۔ کثیر المناقب ہیں، جن کی مجاہدانہ خدمات سے فارس و خراسان کا بہت بڑا خطہ حلقہ بگوشِ اسلام ہوا۔ 4ھ میں پیدا ہوئے۔ عام طور پر ان کی مجاہدانہ خدمات کے ذکر میں جن خطوں کو بیان کیا جاتا ہے وہ موجودہ ایران و افغانستان کے خطے ہیں۔ لیکن اس میں خراسان کا ذکر بطور خاص ملتا ہے۔ اس عہد میں خراسان ایک بڑا وسیع خطہ تھا جس کا ایک حصہ آج موجودہ ایران میں ہے تو ایک حصہ موجودہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شامل ہے
 محرم 24ھ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ 29ھ میں سیدنا عثمان  نے انھیں سیدنا ابو موسیٰ اشعری کی جگہ بصرہ کا والی بنایا۔ اس کے بعد فارس کا بھی والی بنا دیا۔ ان کے عہد میں تقریباً پورا فارس و خراسان اسلامی حکومت کے زیر نگیں آگیا۔ حضرت عبد اللہ بن عامر رضی اللہ عنہ نے بھرپور مجاہدانہ زندگی گزاری۔ 57ھ، 58ھ یا 59ھ میں ان کی وفات ہوئی۔
(الاستیعاب (ص: 931 تا 933)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 515 تا 517)، اسد الغابۃ (ج 3، ص: 289 – 290)، تہذیب التہذیب (ج 5، ص: 272 تا 276)

عہدِ عثمانی میں آنے والے صحابہ

عہد عثمانی میں 4 اصحابِ رسول کے نام ملتے ہیں جو خطہ برصغیر پاک و ہند میں تشریف لائے۔ ان کے اسمائے گرامی اور مختصر حالات حسبِ ذیل ہیں:-

۔12 حضرت عبید اللہ بن مَعْمَر تیمی قرشی رضی ﷲ عنہ

حضرت ابو معاذ عبید اللہ بن معمر بن عثمان بن عمرو بن کعب بن سعد بن تیم بن مرہ قرشی قریش کی مشہور شاخ بنو تیم سے تعلق رکھتے تھے۔ اسی شاخ سے خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا بھی تعلق تھا۔ عمرو پر دونوں کا نسب مل جاتا ہے اور نسبی رشتے کے اعتبار سے دونوں بھائی ہیں۔ حضرت عبید اللہ رضی اللہ عنہ کا شمار اصاغر صحابہ میں ہوتا ہے۔ انھوں نے رسول اللہ ﷺ سے روایتِ حدیث کا شرف بھی حاصل کیا۔ فتوحات عجم میں انھوں نے شاندار خدمات انجام دیں۔
حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے عبید اللہ رضی اللہ عنہ بن معمر کو مکران کی مہم کا امیر بنا کر بھیجا یہاں انھوں نے نمایاں فتوحات حاصل کیں۔ طبری کی روایت کے مطابق حضرت عبید اللہ رضی اللہ عنہ اپنے لشکر کے ہمراہ دشمن کا صفایا کرتے ہوئے آگے بڑھتے گئے اور ’’نہر‘‘ کے مقام تک جا پہنچے۔ پھر فارس کے امیر بنائے گئے۔ 29ھ میں اصطخر کے مقام پر اس جلیل المرتبت صحابی رسول نے شہادت پائی۔ ایک روایت کے مطابق شہادت کے وقت ان کی عمر 29 برس اور ایک روایت مطابق 40 برس تھی۔ 
(طبقات ابن سعد، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 4، ص: 335 – 336)، الاستیعاب (ص: 1013 – 1014)

۔13 حضرت عمیر بن عثمان بن سعد رضی ﷲ عنہ

حضرت عمیر بن عثمان بن سعد کا ذکر 29ھ کے واقعات میں طبری نے اپنی تاریخ اور ابن اثیر نے ’’الکامل‘‘ میں کیا ہے۔ جس کے مطابق حضرت عثمان نے انھیں خراسان کا امیر بنایا تو انھوں نے خراسان سے فرغانہ تک کا پورا علاقہ فتح کر لیا۔ پھر حضرت عثمان نے جب حضرت عبید اللہ  بن معمر تیمی رضی ﷲ عنہ کا تبادلہ مکران سے فارس کر دیا تھا تو ان کی جگہ حضرت عمیر رضی اللہ عنہ  کو مکران کا والی بنایا اور غالباً جب حضرت عبید اللہ اصطخر کے مقام پر شہید ہو گئے تو ان کی جگہ حضرت عمیر کو فارس کا امیر بنایا۔ چنانچہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ کی شہادت کے وقت حضرت عمیر رضی اللہ عنہ فارس کے امیر تھے۔
(خلافتِ راشدہ اور ہندوستان (ص: 258 تا 260)

۔14 حضرت مجاشع بن مسعود سَلمِی رضی ﷲ عنہ

حضرت مجاشع بن مسعود سلمی مشہور صحابی رسول ہیں جن کی روایات صحیحین، مسند احمد اور دیگر کتب احادیث میں موجود ہیں۔ وہ جاہلیتِ عرب کے مشہور ترین شاعر امراء القیس کے احفاد میں سے تھے۔ وہ اور ان کے بھائی حضرت مجالد نے فتح مکہ کے موقع پر اسلام قبول کیا۔ حضرت مجاشع فرماتے ہیں کہ میں اور میرے بھائی دونوں دربارِ رسالت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ ہم آپ سے ہجرت پر بیعت کرتے ہیں تو رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ہجرت کا دور اب گزر چکا، فتح مکہ کے بعد ہجرت نہیں۔ اس پر ہم نے عرض کیا کہ پھر کس بات پر ہم بیعت کریں ؟ ارشاد فرمایا: اسلام اور جہاد فی سبیل اللہ پر۔ بعض روایات میں صرف اسلام اور بعض میں صرف احسان کا ذکر بھی ہے۔ یہ روایات مسند احمد میں موجود ہیں۔
حضرت مجاشع نے اپنی پوری زندگی خدمتِ اسلامی میں بسر کی۔ عہدِ فاروقی و عثمانی کی فتوحات میں نمایاں حصہ لیا۔ ایران کے مرکزی شہر توَّج کا محاصرہ لشکر اسلامی نے حضرت مجاشع رضی اللہ عنہ ہی کی زیرِ امارت کیا تھا۔ حضرت مجاشع نے کابل اور پاکستان کے علاقے بلوچستان و کرمان وغیرہ فتح کیے۔ عہدِ عثمانی میں حضرت مجاشع رضی اللہ عنہ کی فتوحات کے بعد مسلمان مستقل طور پر بلوچستان میں آباد ہوئے۔ حضرت مجاشع نے زندگی کے آخری ایام بصرہ میں گزارے۔ 36ھ میں جنگ جمل میں شہید ہوئے وہ ام المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کے طرف دار تھے۔ ان کی اہلیہ سُمیلہ بنت الوحیدہ بن ازیہر دوسیہ تھیں جنھوں نے ان کی وفات کے بعد حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنھما سے نکاح کر لیا تھا۔
(طبقات ابن سعد (ج 6، ص: 187)، تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (ج 27، ص: 216 تا 217)، الاستیعاب (ص: 1457 – 1458)، تہذیب التہذیب (ج 10، ص: 38)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 5، ص: 569 – 570)، اسد الغابۃ (ج 5، ص: 55 – 56)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 299)

۔15 حضرت عبد الرحمٰن بن سُمرہ قرشی رضی ﷲ عنہ

حضرت عبد الرحمن بن سمرہ بن حبیب بن عبد شمس بن عبد مناف قریش کے معزز فرد تھے۔ عبد مناف پر ان کا نسب رسول اللہ ﷺ سے مل جاتا ہے  فتح مکہ کے وقت اسلام قبول کیا۔ قبولیت اسلام کے وقت ان کا نام عبد الکعبہ یا عبد کلال تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے ان کا نام عبد الرحمن رکھا۔ رسول اللہ ﷺ کے ساتھ غزوئہ موتہ و غزوئہ تبوک میں بھی شریک ہوئے۔
فتوحات عراق و فارس میں حصہ لیا۔ کئی بار خراسان و سجستان کی جنگی مہموں میں شریک ہوئے۔ 23ھ میں انھیں سجستان کا والی مقرر کیا گیا اور شہادت عثمان کے وقت تک اس منصب پر فائز رہے۔ 42ھ میں عبد اللہ بن عامر نے دوبارہ حضرت عبد الرحمن بن سمرہ کو غزوہ کے لیے سجستان بھیجا۔ اس بار حضرت ابن سمرہ نے بلاد ہند کے کئی علاقوں کو فتح کیا۔ ’’فتوح البلدان‘‘ کے مطابق عبد الرحمن بن سمرہ نے زرنج کے مقام پر کفار کی عید کے دن مرزبان (ایرانی سردار) کو اس کے قصر میں محصور کر لیا۔ اس نے بیس لاکھ درہم اور دو ہزار وصائف پر صلح کرلی۔ اس کے بعد ابن سمرہ بلاد ہند میں اس علاقے پر کہ زرنج اور کِش کے درمیان ہے اور اس علاقے پر کہ رخج کے اور بلاد الداور کے درمیان ہے، غالب آئے۔ بلاد الداور پہنچے اور وہاں کے باشندوں کو جبل الزور میں محصور کیا، انھوں نے امان چاہی اور صلح کرلی۔ اس کے ساتھ آٹھ ہزار مسلمان تھے۔ غنیمت تقسیم ہوئی تو ہر ایک کو چار ہزار (درہم) ملے۔ حضرت عبد الرحمن بن سمرہ جبل الزور میں داخل ہوئے، یہاں ایک صنم خانہ تھا، اس میں سونے کا بت تھا جس کی آنکھیں یاقوت کی تھیں، انھوں نے بت کا ہاتھ کاٹا، دونوں یاقوت نکالے اور مرزبان سے کہا میں نے یہ اس لیے کیا کہ تجھے بتادوں کہ یہ نہ ضرر پہنچا سکتا ہے نہ نفع۔
حضرت عبد الرحمن بن سمرہ نے بلاد ہند کے کئی علاقوں کو فتح کیا۔ آخری دور میں بصرہ منتقل ہو گئے تھے یہیں 50ھ یا 51ھ میں وفات پائی۔
(تہذیب الکمال فی اسماء الرجال (ج 17، ص: 157 تا 160)، فتوح البلدان (ص: 555 تا 558)، طبقات ابن سعد (ج 6، ص: 40، ج 9، ص: 15، 370)، الاستیعاب (ص: 835)، تہذیب التہذیب (ج 6، ص: 190 – 191)، البدایۃ والنہایۃ (ص: 1214)، الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 4، ص: 262 – 263)، اسد الغابۃ (ج 3، ص: 250 – 251)، تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 419 – 420)

عہدِ سیدنا علی میں آنے والے صحابہ

 عہد سیدنا علی المرتضیٰ کرم اللہ وجہہ الکریم میں ہمیں صرف ایک صحابی حضرت خریت بن راشد کا ذکر ملتا ہے جو ارض پاک و ہند تشریف لائے۔ ان کے مختصر حالات حسبِ ذیل ہیں:

۔16 حضرت خِریّت رضی اللہ عنہ بن راشد ناجی سامی
حضرت خِریّت بن راشد عمان کے قبیلہ بنو سامہ کی شاخ بنو ناجیہ سے ہیں۔ بنو سامہ کے ایک وفد کے ساتھ مکہ و مدینہ کی درمیان رسول اللہ ﷺ سے ملاقات کا شرف حاصل کیا۔ رسول اللہ ﷺ نے ارکانِ وفد کی باتوں کو توجہ سے سنا اور اہل قریش سے فرمایا کہ یہ لوگ تمہاری قوم سے ہیں۔ اس کے بعد قریش نے انھیں اپنا مہمان بنایا اور ان کی میزبانی کی۔
حضرت خریت نے خلافتِ صدیقی میں فتنہ ارتداد کے خلاف بنو ناجیہ کے سردار کی حیثیت سے حصہ لیا اور قتالِ مرتدین میں نمایاں شرکت کی۔ خلافت عثمانی میں عبد اللہ بن عامر نے انھیں فارس کا امیر بنایا۔ 37ھ یا اس کے کچھ بعد حضرت علی کے عہد خلافت میں حضرت خریت حالات سے دل برداشتہ ہو کر مکران چلے آئے تھے۔
(الاصابۃ فی تمیز الصحابۃ (ج 2، ص: 235)، الاستیعاب (ص: 458 – 459)، اسد الغابۃ (ج 2، ص: 165)

عہد معاویہ رضی اللہ عنہ میں آنے والے صحابہ

17حضرت سنان بن سلمہ محبق الھذلی رضی ﷲ عنہ

حضرت سنان بن سلمہ محبق الھذلی رضی ﷲ عنہ ان صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم میں سے ہیں جنھوں نے اشاعت دین و سر بلندی اسلام کے لئے اپنے وطن کو خیر باد کہا اور اسلام کا جھنڈا لیے سرزمین ہند کا رخ کیا آئیے آپ کی سیرت طیبہ کے چند گوشے مطالعہ کرتے ہیں:

نام ونسب:
آپ کا نام سنان ، والد کا نام سلمہ اور والدہ کا نام امامہ بنت توأم ہے آپ کی کنیت ابو عبدالرحمن یا ابو حبتر یا ابو یُسر ہے آپ قریش کے قبیلے ہذیل سے تعلق رکھتے تھے
امام ابن حبان رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ آپ صحابی رسول ہیں

پیدائش:
آپ غزوہ حنین کے دن پیدا ہوئے اور نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم نے آپ کا نام سنان تجویز فرمایا ،آپ بہت بہادر و شجاع تھے
آپ بصرہ میں بھی اقامت اختیار کی تھی
صحیح مسلم کتاب الحج
سنن ابو داؤد کتاب الصوم
مسند احمد مسند مکیین 
میں آپ سے احادیث مروی ہیں

سرزمین ہند تشریف آوری:
حضرت عثمان غنی رضی ﷲ عنہ کے دور میں لشکرِ اسلام نے ہند کا رخ کیا اور مختلف علاقوں کو فتح کرتے ہوئے خراسان پہنچے اور اسے اسلام کا قلعہ بنایا اور خراسان کے حاکم حضرت زیاد بن عبید رضی ﷲ عنہ مقرر ہوئے پھر جرنیل اسلام حضرت عبداللہ بن سوار رضی ﷲ عنہ نے قلات فتح کیا اور اس مقام پر شہادت پائی یہ حضرت سیّدنا امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کی سلطنت کا دور تھا جب حضرت امیر معاویہ رضی ﷲ عنہ کو حضرت عبداللہ بن سوار کی شہادت کی خبر ملی تو آپ نے زیاد بن عبید رضی ﷲ عنہ کو لکھا کہ کسی باصلاحیت شخص کو لشکر کا سپاہ سالار قائم کیا جائے تو ان کی جگہ حضرت سنان بن سلمہ محبق الھذلی رضی ﷲ عنہ کو لشکر کا سپاہ سالار مقرر کیا گیا تو آپ رضی ﷲ عنہ کوئٹہ،ڈیرہ اسماعیل خان اور بنوں کے علاقے فتح کرتے ہوئے کوہاٹ پہنچے ،کوہاٹ کو فتح کرنے کے بعد پشاور کی طرف پیش قدمی کی اور اسے فتح کر لیا اس کے بعد داؤد زئی   کے علاقے چغر مٹی کے کفار سے جنگ ہوئی اور آپ شہید ہوگئے 
تو اس مقام پر آپ رضی ﷲ عنہ اور آپ کے ساتھ شہید ہونے والے مجاہدین کو یہاں دفن کیا گیا 
یہ دور حجاج بن یوسف تھا 

مزار شریف:
آپ کا مزار شریف پشاور سے بجانب مغرب 20کلو میٹر کے فاصلے پر چغر مٹی کے مقام پر مرجع خاص و عام ہے آپ اصحاب بابا کے نام سے مشہور و معروف ہیں

حوالہ جات:
تہذیب الکمال
تہذیب التہذیب
تقریب التہذیب
الاصابہ
اسد الغابہ
التاریخ الکبیر
سنان بن سلمہ ایک تعارفی جائزہ

عہد یزید پلید میں آنے والے صحابہ

عہدِ یزید میں ایک صحابی رسول حضرت منذر بن جارود عبدی ارضِ پاک و ہند تشریف لائے۔ ان کے مختصر حالات حسب ذیل ہیں:

۔18 حضرت منذر بن جارود عبدی  رضی ﷲ عنہ

حضرت منذر بن جارود اصاغر صحابہ میں سے تھے۔ اپنے قبیلہ بنو عبد القیس کے سردار اور اپنے وقت مشہور سخی تھے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے انھیں اصطخر کا امیر مقرر کیا تھا۔ یزید کے عہد میں عبید اللہ بن زیاد کے کہنے سے انھیں سرحدات ہند کی طرف روانہ کیا گیا۔ انھوں نے بوقا، قلات اور خضدار کی جنگوں میں نمایاں حصہ لیا۔ 61ھ یا 62ھ میں انھیں سندھ کے شہر قندابیل کا امیر مقرر کیا گیا۔ 62ھ میں قندابیل میں وفات پائی۔ وفات کے وقت ان کی عمر ساٹھ سال تھی اس سے ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت ان کی عمر سات آٹھ سال رہی ہوگی۔

(تاریخ الاسلام للذہبی (ج 2، ص: 724 – 725، 884 – 885)، چچ نامہ (110 – 111 __ )

ان کے علاوہ 
حضرت مہلب بن صفرہ
عبداللہ بن سوار
یاسر بن سوار 
رضی ﷲ عنہ کا تذکرہ بھی ملتا ہے
تاریخ سے ہمیں انہیں اصحابِ رسول کا ذکر ملتا ہے جو ارض پاک و ہند تشریف لائے۔ ان میں سے بعض یہیں مدفو ن ہوئے اور بعض کچھ عرصہ یہاں گزار کر رخصت ہوئے۔ ارض پاک و ہند کی تاریخ کا یہ ایک اہم گوشہ ہے جسے ہمیں جاننا چاہیے۔