"تقدیر الٰہی"
"تقدیر الٰہی"
قُلْ لَّنْ یُّصِیْبَنَاۤ اِلَّا مَا كَتَبَ اللّٰهُ لَنَاۚ-هُوَ مَوْلٰىنَاۚ-وَ عَلَى اللّٰهِ فلأتوكل الْمُؤْمِنُوْنَ(۵۱)
ترجمۂ کنز العرفان
ترجمہ کنز العرفان : تم فرماؤ: ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ نے ہمارے لیے لکھ دیا، وہ ہمارا مددگار ہے اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔
یعنی اے حبیب! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عل وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، آپ ان لوگوں سے فرما دیں جو آپ کو مصیبت و تکلیف پہنچنے پر خوش ہوتے ہیں کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے اور ہم پر مقدر فرما دیا اور ا س نے اسے لوحِ محفوظ میں لکھ دیا کیونکہ قیامت تک ہونے والا ہر اچھا برا کام لکھ کر قلم خشک ہو چکا تو اب کوئی شخص ا س بات پر قادر نہیں کہ وہ اپنی جان سے ا س مصیبت کو دور کر دے جو اس پر نازل ہونی ہے اور نہ ہی کوئی ا س بات پر قادر ہے کہ وہ خود کوایسا فائدہ پہنچا
سکے جو اس کے مقدر میں نہیں اور بے شک اللہ تعالیٰ ہی ہمارا حافظ و ناصر ہے اور وہ ہماری زندگی اور موت ہر حال میں ہماری جانوں سے زیادہ ہمارے قریب ہے اور مسلمانوں کو اپنے تمام اُمور میں اللہ تعالیٰ ہی پر بھروسہ کرنا چاہئے۔
( خازن، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱ ، ۲ / ۲۴۸ )
تقدیر سے متعلق اَحادیث و آثار:
یہاں تقدیر کا مسئلہ بیان ہوا اس مناسبت سے ہم یہاں تقدیر سے متعلق دو احادیث اور دو آثار ذکر کرتے ہیں ، چنانچہ حضرت زید بن ثابت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’اگراللّٰہ تعالیٰ آسمان و زمین کے تمام باشندوں کو عذاب دینا چاہے تو وہ انہیں عذاب دے سکتا ہے اور یہ ا س کا کوئی ظلم نہ ہو گا(کیونکہ وہ سب کا مالک ہے اور مالک کو اپنی ملکیت میں تَصَرُّف کا حق حاصل ہے)اگر وہ ان پر رحم کرے تو اس کی رحمت ان کے اعمال سے بہتر ہو گی، اگر تم اُحد پہاڑ کے برابر سونا یا مال اللّٰہ تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو تو وہ ا س وقت تک ہر گز قبول نہ ہوگا جب تک تقدیر پر ایمان نہ لے آؤ، دیکھو! جو بات تم پر آنے والی ہے وہ جا نہیں سکتی اور جو نہیں آنے والی وہ آ نہیں سکتی، اگر اس کے خلاف عقیدہ رکھتے ہوئے تمہیں موت آ گئی تو سمجھ لو کہ جہنم میں جاؤ گے۔ ( ابن ماجہ، کتاب السنّۃ، باب فی القدر، ۱ / ۵۹ ، الحدیث: ۷۷ )
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سرورِ عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ہر چیز کی ایک حقیقت ہے اور بندہ اپنے ایمان کی حقیقت تک اس وقت پہنچے گا جب وہ اس بات پر یقین کرلے کہ جو مصیبت اسے پہنچی وہ ا س سے ٹلنے والی نہ تھی اور جو مصیبت اس سے ٹل گئی وہ اسے پہنچنے والی نہ تھی۔
( مسند امام احمد، مسند القبائل، ومن حدیث ابی الدرداء عویمر رضی اللہ عنہ ، ۱۰ / ۴۱۷ ، الحدیث: ۲۷۵۶۰ )
حضرت مسلم بن یسار رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’تقدیر اور اس کے بارے میں کلام کرنا یہ دو ایسی وسیع وادیاں ہیں کہ لوگ ان میں ہلاک تو ہو سکتے ہیں لیکن ان کی انتہا تک نہیں پہنچ سکتے لہٰذا تم اس شخص کی طرح عمل کرو جسے یہ معلوم ہو کہ اس کا عمل ہی اسے نجات دے گا اور اس شخص کی طرح توکل کرو جسے یہ علم ہو کہ اسے وہی پہنچے گا جو اللّٰہ تعالیٰ اس کے لئے لکھ دیا ہے۔ ( تفسیر ابن ابی حاتم، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱ ، ۶ / ۱۸۱۱ - ۱۸۱۲ )
حضرت مطرف رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’ کسی شخص کے لئے یہ جائز نہیں کہ وہ چھت پہ چڑھ کے خود کو گرا دے اور کہنے لگے کہ میری تقدیر میں ہی یوں لکھا تھا بلکہ ہمیں ڈر اور خوف ہونا چاہئے اور جب کوئی مصیبت پہنچ جائے تو یہ ذہن بنانا چاہئے کہ ہمیں وہی پہنچے گا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ نے ہمارے لیے لکھ دیا۔ ( در منثور، التوبۃ، تحت الآیۃ: ۵۱ ، ۴ / ۲۱۶ )
تقدیر کے بارے میں بحث کرنے سے بچیں :
یاد رہے کہ تقدیر کا مسئلہ انتہائی نازک ہے اور اس مسئلے میں الجھا کر شیطان لوگوں کا ایمان برباد کرنے کی کوشش کرتا ہے لہٰذا ہر مسلمان کو چاہئے کہ وہ تقدیر کے بارے میں بحث اور غورو فکر کرنے سے بچے ۔ صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’قضا و قدر کے مسائل عام عقلوں میں نہیں آ سکتے اور ان میں زیادہ غورو فکر کرنا ہلاکت کا سبب ہے، صدیق و فاروق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ا س مسئلہ میں بحث کرنے سے منع فرمائے گئے تو ہم اور آپ کس گنتی میں۔۔۔! اتنا سمجھ لیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کو پتھر اور دیگر جمادات کی طرح بے حس و حرکت پیدا نہیں کیا بلکہ اسے ایک طرح کا اختیار دیا ہے کہ ایک کام چاہے کرے چاہے نہ کرے اور ا س کے ساتھ عقل بھی دی ہے کہ بھلے، برے، نفع، نقصان کو پہچان سکے اور ہر قسم کے سامان اور اَسباب مہیا کر دئیے ہیں کہ بندہ جب کوئی کام کرنا چاہتا ہے تو اسے اسی قسم کے سامان مہیا ہو جاتے ہیں اور اسی بنا پر اس پر مُؤاخذہ ہے۔ اپنے آپ کو بالکل مجبور یا بالکل مختار سمجھنا دونوں گمراہی ہے۔ ( بہار شریعت، حصہ اول، عقائد متعلقۂ ذات وصفات، ۱ / ۱۸ - ۱۹ ، ملخصاً )
{ وَ عَلَى اللّٰهِ فَلْیَتَوَكَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ : اور مسلمانوں کو اللہ ہی پر بھروسہ کرنا چاہیے۔} اس آیت میں یہ اشارہ ہے کہ منافقین دنیوی اسباب ،جلد ملنے والی اور فانی لذتوں پر بھروسہ کرتے ہیں ا س لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ وہ صرف اللہ تعالیٰ پر ہی بھروسہ کریں اور ا س کی رضا پر راضی رہیں۔
اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی فضیلت:
انسان کی زندگی نشیب و فراز کا نام ہے، کبھی دکھ کبھی سکھ، کبھی رنج و غم اور کبھی راحت و آرام، کبھی عیش و عشرت سے بھرپور لمحات اور کبھی مصائب و آلام سے معمور گھڑیاں الغرض طرح طرح کے حالات کا سامنا ہر فرد ِبشر کو اپنی زندگی میں کرنا پڑتا ہے، دینِ اسلام کا پیروکار ہونے کے ناطے ہر مسلمان کو چاہئے کہ غمی خوشی ہر حا ل پرراضی اور صابر و شاکر رہے، ترغیب کے لئےاللّٰہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے کی عظمت و فضیلت پر مشتمل چند آیات اور روایات یہاں ذکر کی جاتی ہیں۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: ’’ وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآءَ وَجْهِ رَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَةً وَّ یَدْرَءُوْنَ بِالْحَسَنَةِ السَّیِّئَةَ اُولٰٓىٕكَ لَهُمْ عُقْبَى الدَّارِۙ( ۲۲)
جَنّٰتُ عَدْنٍ یَّدْخُلُوْنَهَا وَ مَنْ صَلَحَ مِنْ اٰبَآىٕهِمْ وَ اَزْوَاجِهِمْ وَ ذُرِّیّٰتِهِمْ وَ الْمَلٰٓىٕكَةُ یَدْخُلُوْنَ عَلَیْهِمْ مِّنْ كُلِّ بَابٍۚ( ۲۳) سَلٰمٌ عَلَیْكُمْ بِمَا صَبَرْتُمْ فَنِعْمَ عُقْبَى الدَّارِ ‘‘ ( الرعد: ۲۲ - ۲۴ )
ترجمہ ٔ کنزُالعِرفان : اور وہ جنہوں نے اپنے رب کی رضا کی طلب میں صبر کیا اور نماز قائم رکھی اور ہمارے دئیے ہوئے رزق میں سے ہماری راہ میں پوشیدہ اور اعلانیہ خرچ کیا اور برائی کو بھلائی کے ساتھ ٹالتے ہیں انہیں کے لئے آخرت کا اچھا انجام ہے۔ وہ ہمیشہ رہنے کے باغات ہیں ان میں وہ لوگ داخل ہوں گے اور ان کے باپ دادا اور بیویوں اور اولاد میں سے جو صالحین ہوں گے (وہ بھی جنت میں داخل ہوں گے) اور ہر دروازے سے فرشتے ان کے پاس (یہ کہتے ہوئے) آئیں گے۔تم پر سلامتی ہو کیونکہ تم نے صبر کیا تو آخرت کا اچھا انجام کیا ہی خوب ہے۔
حضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ بے شک زیادہ اجر سخت آزمائش پر ہی ہے اور اللہ عَزَّوَجَلَّ جب کسی قوم سے محبت کرتا ہے تو انہیں آزمائش میں مبتلا کردیتا ہے تو جو اس کی قضا پر راضی ہو اس کے لئے رضا ہے اور جوناراض ہو اس کے لئے ناراضی ہے۔ ( ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلائ، ۴ / ۳۷۴ ، الحدیث: ۴۰۳۱ )
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’جس کے مال یا جان میں مصیبت آئی پھر اس نے اسے پوشیدہ رکھا اور لوگوں پر ظاہر نہ کیا تو اللہ عَزَّوَجَلَّ پر حق ہے کہ اس کی مغفرت فرما دے ۔ ( معجم الاوسط، باب الالف، من اسمہ احمد، ۱ / ۲۱۴ ، الحدیث: ۷۳۷ )
حضرت جابر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، نبی اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا’’ قیامت کے دن جب مصیبت زدہ لوگوں کو ثواب دیا جائے گا تو اس وقت دنیا میں عافیت کے ساتھ رہنے والے تمنا کریں گے کہ’’ کاش! (دنیا میں ) ان کے جسموں کوقینچیوں سے کاٹ دیا جاتا۔ ( ترمذی، کتاب الزہد، ۵۹ - باب، ۴ / ۱۸۰ ، الحدیث: ۲۴۱۰ )
روئے زمین کا سب سے بڑ اعبادت گزار:
حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام سے فرمایا، میں روئے زمین کے سب سے بڑے عابد (یعنی عبادت گزار) کو دیکھنا چاہتا ہوں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو ایک ایسے شخص کے پاس لے گئے جس کے ہاتھ پائوں جذام کی وجہ سے گل کٹ کر جدا ہو چکے تھے اور وہ زبان سے کہہ رہا تھا، ’’ یا اللہ ! عَزَّوَجَلَّ ، تو نے جب تک چاہا ان اَعضاء سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا لے لیا اور میری امید صرف اپنی ذات میں باقی رکھی، اے میرے پیدا کرنے والے! میرا تو مقصود بس توہی تو ہے۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا، اے جبرئیل! میں نے آپ کونمازی روزہ دار (قسم کا کوئی) شخص دکھانے کاکہا تھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے جواب دیا، اس مصیبت میں مبتلا ہونے سے قبل یہ ایسا ہی تھا، اب مجھے یہ حکم ملا ہے کہ اس کی آنکھیں بھی لے لوں۔ چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے اشارہ کیا اوراس کی آنکھیں نکل پڑیں ! مگر عابد نے زبان سے وہی بات کہی ’’ یا اللہ ! عَزَّوَجَلَّ ،جب تک تو نے چاہا ان آنکھوں سے مجھے فائدہ بخشا اور جب چاہا انہیں واپس لے لیا۔ اے خالق! عَزَّوَجَلَّ ،میری امید گاہ صرف اپنی ذات کو رکھا، میرا تومقصود بس توہی توہے۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے عابد سے فرمایا، آئو ہم تم باہم ملکر دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ تم کو پھر آنکھیں اور ہاتھ پائوں لوٹا دے اور تم پہلے ہی کی طرح عبادت کرنے لگو۔ عابد نے کہا، ہرگز نہیں۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلام نے فرمایا ، آخر کیوں نہیں ؟ عابد نے جواب دیا ’’ جب میرے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا اسی میں ہے تو مجھے صحت نہیں چاہئے ۔ حضرت یونس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے فرمایا، واقعی میں نے کسی اور کو اس سے بڑھ کر عابد نہیں دیکھا۔ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام نے کہا، یہ وہ راستہ ہے کہ رضا ئے الٰہی عَزَّوَجَلَّ تک رسائی کیلئے اس سے بہتر کوئی راہ نہیں۔ ( روض الریاحین، الحکایۃ السادسۃ والثلاثون بعد الثلاث مائۃ، ص ۲۸۱ )