وزن اور میزان
"وزن اور میزان"
سورہ الانبیاء آیت 47 میں ارشادِ ربانی ہے
وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـاؕ-وَ اِنْ كَانَ مِثْقَالَ حَبَّةٍ مِّنْ خَرْدَلٍ اَتَیْنَا بِهَاؕ-وَ كَفٰى بِنَا حٰسِبِیْنَ(۴۷)
ترجمۂ کنز العرفان
اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔
یعنی ارشاد فرمایا کہ ہم قیامت کے دن عدل کے ترازو رکھیں گے جن کے ذریعے اعمال کا وزن کیاجائے گا تاکہ ان کی جزا دی جائے تو کسی جان پراس کے حقوق کے معاملے میں کچھ ظلم نہ ہوگااور اگر اعمال میں سے کوئی چیز رائی کے دانہ کے برابر بھی ہو گی تو ہم اسے لے آئیں گے اور ہم ہر چیز کا حساب کرنے کیلئے کافی ہیں ۔ ( روح البیان، الانبیاء، تحت الآیۃ : ۴۷ ، ۵ / ۴۸۵-۴۸۶ ، جلالین، الانبیاء، تحت الآیۃ : ۴۷ ، ص ۲۷۳ ، ملتقطاً )
ایک اور جگہ پر ارشاد فرمایا:
وَ الْوَزْنُ یَوْمَىٕذِ ﹰالْحَقُّۚ- فَمَنْ ثَقُلَتْ مَوَازِیْنُهٗ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(سورہ اعراف آیت 8)
ترجمہ کنز العرفان: اور اس دن وزن کرنا ضرور برحق ہے تو جن کے پلڑے بھاری ہوں گے تو وہی لوگ فلاح پانے والے ہوں گے۔
وزن اور میزان کا معنی:
وزن کا معنی ہے کسی چیز کی مقدار کی معرفت حاصل کرنا اور عرفِ عام میں ترازو سے کسی چیز کے تولنے کو وزن کرنا کہتے ہیں۔ ( مفردات امام راغب، کتاب الواو، ص ۸۶۸ ) اور جس آلے کے ساتھ چیزوں کا وزن کیا جائے اسے میزان کہتے ہیں۔ ( تاج العروس، باب النون، فصل الواو، ۹ / ۳۶۱ )
جمہور مفسرین کے نزدیک اس آیت میں ’’وزن‘‘ سے’’ میزان کے ذریعے اعمال کا وزن کرنا‘‘ مراد ہے۔ ( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸ ، ۲ / ۷۸ )
قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورتیں :
قیامت کے دن اعمال کے وزن کی صورت کیا ہوگی اس بارے میں مفسرین نے تین ممکنہ صورتیں بیان فرمائی ہیں ، ایک یہ ہے کہ اعمال اعراض کی قسم ہیں ممکن ہے اللہ تعالیٰ ان اعراض کے مقابلے میں اجسام پیدا فرما دے اور ان اجسام کا وزن کیا جائے ۔ دوسری صورت یہ کہ نیک اعمال حسین جسموں کی صورت میں کر دئیے جائیں گے اور برے اعمال قبیح جسموں میں بدل دئیے جائیں گے اور ان کا وزن کیا جائے گا۔ تیسری صورت یہ ہوسکتی ہے کہ نفسِ اعمال کا وزن نہیں کیا جائے گابلکہ اعمال کے صحائف کا وزن کیا جائے گا۔ ( تفسیر کبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸ ، ۵ / ۲۰۲ ، خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۸ ، ۲ / ۷۸ ، ملتقطاً )
حضرت سلمان فارسی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضور سید المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’قیامت کے دن میزان رکھا جائے گا اگر اس میں آسمانوں اور زمینوں کو رکھا جائے تو وہ اس کی بھی گنجائش رکھتا ہے۔ فرشتے کہیں گے: یااللہ! عَزَّوَجَلَّ ، اس میں کس کو وزن کیا جائے گا؟ اللہ تعالیٰ ارشاد فرمائے گا: میں اپنی مخلوق میں سے جس کو چاہوں گا۔ فرشتے عرض کریں گے: تو پاک ہے، ہم تیری اس طرح عبادت نہیں کر سکے جوتیری عبادت کا حق ہے۔ ( مستدرک، کتاب الاہوال، ذکر وسعۃ المیزان، ۵ / ۸۰۷ ، الحدیث: ۸۷۷۸ )
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں ’ ’نیکیوں اور برائیوں کا میزان میں وزن کیا جائے گا، اس میزان کی ایک ڈنڈی اور دو پلڑے ہیں۔ مومن کا عمل حسین صورت میں آئے گا اور ا س کو میزان کے ایک پلڑے میں رکھا جائے گا تو اس کی نیکیوں کا پلڑا برائیوں کے پلڑے کے مقابلے میں بھاری ہوگا۔ ( شعب الایمان، الثامن من شعب الایمان ۔۔۔ الخ، ۱ / ۲۶۰ ، الحدیث: ۲۸۱ )
میزان سے متعلق دو اہم باتیں :
یہاں میزان کے بارے میں دو اہم باتیں ذہن نشین رکھیں :
(1)…صحیح اور متواتر احادیث سے یہ ثابت ہے کہ قیامت کے دن ایک میزان لا کر رکھی جائے گی جس میں دو پلڑے اور ایک ڈنڈی ہو گی۔ اس پر ایمان لانا اور اسے حق سمجھنا ضروری ہے، رہی یہ بات کہ اس میزان کے دونوں پلڑوں کی نوعیت اور کیفیت کیا ہو گی اور اس سے وزن معلوم کرنے کا طریقہ کیا ہو گا؟ یہ سب ہماری عقل اور فہم کے دائرے سے باہر ہے اور نہ ہم اسے جاننے کے مُکَلَّف ہیں ، ہم پر غیب کی چیزوں پر ایمان لانا فرض ہے، ان کی نوعیت اور کیفیت اللہ تعالیٰ اور اس کا رسول صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ بہتر جانتے ہیں۔
(2)…میزان کو اس معروف ترازو میں مُنْحَصر سمجھ لینا درست نہیں ، اس دنیا میں ہی دیکھ لیں کہ مختلف پیشوں سے وابستہ افراد کے ترازو جدا جدا ہیں ، جب اس دنیا میں مختلف قسم کے ترازو ہیں جن سے نظر آنے والی اور نہ نظر آنے والی چیزوں کا وزن اور درجے کا فرق معلوم ہو جاتا ہے تو اللہ تعالیٰ قادرِ مُطْلَق ہے، اس کیلئے کیا مشکل ہے کہ وہ قیامت کے دن ایک ایسا حسی اور مقداری میزان قائم فرما دے جس سے بندوں کے اعمال کا وزن، درجات اور مراتب کا فرق ظاہر ہو جائے۔
میزانِ عمل کو بھرنے والے اعمال:
اس آیت میں قیامت کے دن میزان میں اعمال تولے جانے کا ذکر ہوا ،ا س مناسبت سے ہم یہاں چند ایسے اعمال ذکر کرتے ہیں جو میزانِ عمل کو بھر دیتے ہیں ، چنانچہ
حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’دو لفظ زبان پر آسان ہیں ، میزان میں بھاری ہیں اور رحمٰن کو محبوب ہیں (وہ دو لفظ یہ ہیں ) سُبْحَانَ اللہِ الْعَظِیْمِ سُبْحَانَ اللہِ وَبِحَمْدِہٖ ۔‘‘ ( بخاری، کتاب الدعوات، باب فضل التسبیح، ۴ / ۲۲۰ ، الحدیث: ۶۴۰۶ )
حضرت ابو مالک اشعری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’پاکیزگی نصف ایمان ہے اور اَلْحَمْدُ لِلّٰہْ میزان کو بھر دیتا ہے۔ ( مسلم، کتاب الطہارۃ، باب فضل الوضوئ، ص ۱۴۰ ، الحدیث: ۱(۲۲۳) )
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اس ذات کی قسم! جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے، تمام آسمانوں اور زمینوں اور جو کچھ ان میں اور ان کے درمیان اوران کے نیچے ہے، یہ سب اگر تم لے کر آؤ اور اسے میزان کے ایک پلڑے میں رکھ دو اور کلمہ شہادت کو دوسرے پلڑے میں تو وہ پہلے پلڑے سے بھاری ہو گا۔ ( معجم الکبیر، ۱۲ / ۱۹۶ ، الحدیث: ۱۳۰۲۴ )
حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’اچھے اخلاق سے زیادہ میزان میں کوئی چیز بھاری نہیں ہے۔ ( ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی حسن الخلق، ۴ / ۳۳۲ ، الحدیث: ۴۷۹۹ )
میزان آپ خطرے سے نجات پانے والا شخص:
قیامت کے ہولناک مراحل میں سے ایک انتہائی ہولناک مرحلہ وہ ہے جب لوگوں کے اعمال کا وزن کیا جائے گااور یہاں کسی کے ثواب میں کمی کر کے یا کسی کے گناہوں میں اضافہ کر کے اس پر ظلم نہیں کیا جائے گا بلکہ ہر ایک کے ساتھ عدل و انصاف ہو گا اور ہر ایک کو ا س کا حق دیاجائے گا لہٰذا اس مرحلے میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے دنیا میں تیاری بہت ضروری ہے۔ ترمذی شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور اس نے آپ کے سامنے بیٹھ کر عرض کی : یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِوَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، میرے کچھ غلام ہیں جو مجھ سے جھوٹ بولتے ، میرے ساتھ خیانت کرتے اور میری نافرمانی کرتے ہیں ، میں انہیں گالیاں دیتا اور مارتا ہوں ، تو ان سے متعلق میرا کیا حال ہو گا؟ حضور اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ ( جب قیامت کا دن ہو گا تو) ان لوگوں نے جوتمہاری خیانت کی ، تمہاری نافرمانی کی اور تم سے جھوٹ بولا اور جوتم نے انہیں سزا دی، ان سب کا حساب لگایا جائے گا، پھر اگر تیری سزا ان کے جرموں کے برابر ہو گی تو حساب بے باق ہے، نہ تیرا ان کے ذمہ نہ ان کا تیرے ذمہ کچھ ہو گا، اور اگر تیرا انہیں سزا دینا ان کے قصوروں سے کم ہوگا تو تجھے ان پر بزرگی حاصل ہوگی اور اگر تیرا انہیں سزا دینا ان کے قصور سے زیادہ ہوا تو زیادتی کا تجھ سے بدلہ لیا جائے گا۔ وہ شخص ایک طرف ہوگیا اور چیخیں مار کررونے لگا، نبی کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے اس سے ارشاد فرمایا ’’ کیا تم نے اللہ یہ فرمان نہیں پڑھا
’’ وَ نَضَعُ الْمَوَازِیْنَ الْقِسْطَ لِیَوْمِ الْقِیٰمَةِ فَلَا تُظْلَمُ نَفْسٌ شَیْــٴًـا ‘‘
ترجمہ ٔ کنزُالعِرفان : اور ہم قیامت کے دن عدل کے ترازورکھیں گے تو کسی جان پر کچھ ظلم نہ ہوگا۔‘‘
اس شخص نے عرض کی :میں اپنے اوران غلاموں کے لیے ان کی جدائی سے بہتر کوئی چیز نہیں پاتا ،میں آپ کو گواہ بناتا ہوں کہ یہ سارے آزاد ہیں ۔ ( ترمذی، کتاب التفسیر، باب ومن سورۃ الانبیاء علیہم السلام ، ۵ / ۱۱۱ ، الحدیث: ۳۱۷۶ )
امام محمد غزالی رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں :میزان کے خطرے سے وہی بچ سکتا ہے جس نے دنیا میں اپنا محاسبہ کیا ہو اور اس میں شرعی میزان کے ساتھ اپنے اعمال ، اقوال اور خطرات و خیالات کو تولا ہو، جیسا کہ حضرت عمر فاروق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ نے فرمایا ’’اپنے نفسوں کا محاسبہ کرو اس سے پہلے کہ تمہارا محاسبہ کیا جائے اور (قیامت کے دن) وزن کرنے سے پہلے خود وزن کرلو۔‘‘ اپنے نفس کے حساب (یا محاسبہ) سے مراد یہ ہے کہ بندہ مرنے سے پہلے روزانہ سچی توبہ کرے اور اللہ تعالیٰ کے فرائض میں جو کوتاہی کی ہے اس کا تَدارُک کرے اور لوگوں کے حقوق ایک ایک کوڑی کے حساب سے واپس کرے اور اپنی زبان، ہاتھ یا دل کی بدگمانی کے ذریعے کسی کی بے عزتی کی ہو تو اس کی معافی مانگے اور ان کے دلوں کو خوش کرے حتّٰی کہ جب اسے موت آئے تو اس کے ذمہ نہ کسی کا کوئی حق ہو اور نہ ہی کوئی فرض، تو یہ شخص کسی حساب کے بغیر جنت میں جائے گا۔ اور اگر وہ لوگوں کے حقوق ادا کرنے سے پہلے مرجائے تو (قیامت کے دن) حق دار اس کا گھیراؤ کریں گے، کوئی اسے ہاتھ سے پکڑے گا ،کوئی اس کی پیشانی کے بال پکڑے گا، کسی کا ہاتھ اس کی گردن پر ہوگا، کوئی کہے گا :تم نے مجھ پر ظلم کیا، کوئی کہے گا: تو نے مجھے گالی دی ، کوئی کہے گا: تم نے مجھ سے مذاق کیا ، کوئی کہے گا :تم نے میری غیبت کرتے ہوئے ایسی بات کہی جو مجھے بری لگتی تھی، کوئی کہے گا: تم میرے پڑوسی تھے لیکن تم نے مجھے اِیذا دی، کوئی کہے گا :تم نے مجھ سے معاملہ کرتے ہوئے دھوکہ کیا، کوئی کہے گا :تو نے مجھ سے سودا کیا تو مجھ سے دھوکہ کیا اور مجھ سے اپنے مال کے عیب کو چھپایا ،کوئی کہے گا: تو نے اپنے سامان کی قیمت بتاتے ہوئے جھوٹ بولا، کوئی کہے گا: تو نے مجھے محتاج دیکھا اور تو مال دار تھا لیکن تو نے مجھے کھانا نہ کھلایا، کوئی کہے گا: تو نے دیکھا کہ میں مظلوم ہوں اور تو اس ظلم کو دور کرنے پر قادر بھی تھا، لیکن تو نے ظالم سے مُصالحت کی اور میرا خیال نہ کیا۔
تو جب اس وقت تیرا یہ حال ہوگا اور حق داروں نے تیرے بدن میں ناخن گاڑ رکھے ہوں گے اور تیرے گریبان پر مضبوط ہاتھ ڈالاہوگا اور تو ان کی کثرت کے باعث حیران وپریشان ہوگا حتّٰی کہ تو نے اپنی زندگی میں جس سے ایک درہم کا معاملہ کیا ہوگا یا اس کے ساتھ کسی مجلس میں بیٹھا ہوگا تو غیبت ، خیانت یا حقارت کی نظر سے دیکھنے کے اعتبار سے اس کا تجھ پر حق بنتا ہوگا اور تو ان کے معاملے میں کمزور ہوگا اور اپنی گردن اپنے آقا اور مولیٰ کی طرف اس نیت سے اٹھائے گا کہ شاید وہ تجھے ان کے ہاتھ سے چھڑائے کہ اتنے میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا تیرے کانوں میں پڑے گی :
’’ اَلْیَوْمَ تُجْزٰى كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْؕ-لَا ظُلْمَ الْیَوْمَ ‘‘ ( مومن : ۱۷ )
ترجمہ ٔ کنزُالعِرفان : آج ہر جان کو اس کے کمائے ہوئے اعمالکا بدلہ دیا جائے گا ۔آج کسی پر زیادتی نہیں ہوگی۔
اس وقت ہیبت کے مارے تیرا دل نکل جائے گا اور تجھے اپنی ہلاکت کا یقین ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کی زبانی جو تجھے ڈرایا تھا وہ تجھے یاد آجائے گا۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’ وَ لَا تَحْسَبَنَّ اللّٰهَ غَافِلًا عَمَّا یَعْمَلُ الظّٰلِمُوْنَ۬ؕ -اِنَّمَا یُؤَخِّرُهُمْ لِیَوْمٍ تَشْخَصُ فِیْهِ الْاَبْصَارُۙ( ۴۲) مُهْطِعِیْنَ مُقْنِعِیْ رُءُوْسِهِمْ لَا یَرْتَدُّ اِلَیْهِمْ طَرْفُهُمْۚ -وَ اَفْـٕدَتُهُمْ هَوَآءٌؕ( ۴۳) وَ اَنْذِرِ النَّاسَ ‘‘ ( ابراہیم : ۴۲-۴۴ )
ترجمہ ٔ کنزُالعِرفان : اور (اے سننے والے!) ہرگز اللہ کو ان کاموں سے بے خبر نہ سمجھنا جو ظالم کررہے ہیں ۔ اللہ انہیں صرف ایک ایسے دن کیلئے ڈھیل دے رہا ہے جس میں آنکھیں کھلی کی کھلی رہ جائیں گی۔لوگ بے تحاشا اپنے سروں کو اٹھائے ہوئے دوڑتے جا رہے ہوں گے، ان کی پلک بھی ان کی طرف نہیں لوٹ رہی ہوگی اور ان کے دل خالی ہوں گے۔ اور لوگوں کو ڈراؤ۔
آج جب تو لوگوں کی عزتوں کے پیچھے پڑتا ہے اور ان کے مال کھاتا ہے تو کس قدر خوش ہوتا ہے، لیکن اس دن تجھے کس قدر حسرت ہوگی جب تو عدل کے میدان میں اپنے رب کے سامنے کھڑا ہوگا اوراس وقت تو مُفلس ،فقیر، عاجز اور ذلیل ہوگا ،نہ کسی کا حق ادا کرسکے گا اور نہ ہی کوئی عذر پیش کرسکے گا۔پھر تیری وہ نیکیاں جن کے لیے تو نے زندگی بھر مشقت برداشت کی تجھ سے لے کر ان لوگوں کو دے دی جائیں گی جن کے حقوق تیرے ذمہ ہوں گے، اور یہ ان کے حقوق کا عِوَض ہوگا۔ تو دیکھو اس دن تم کس قدر مصیبت میں مبتلا ہوگے کیوں کہ پہلے تو تمہاری نیکیاں ریا کاری اور شیطانی مکر وفریب سے محفوظ نہیں ہوں گی اور اگر طویل مدت کے بعدکوئی ایک نیکی بچ بھی جائے تو اس پر حق دار دوڑیں گے اور اسے لے لیں گے اور شاید تو اپنے نفس کا محاسبہ کرنے ، دن کو روزہ رکھنے اور رات کو قیام کرنے والا ہو، تو تجھے معلوم ہوگا کہ تو دن بھر مسلمانوں کی غیبت کرتا رہا جو تیری تمام نیکیوں کو لے گئی، باقی برائیاں مثلاً حرام اور مشتبہ چیزیں کھانا اور عبادات میں کوتاہی کرنا اپنی جگہ ہے اور جس دن سینگوں والے جانور سے بے سینگ جانور کا حق لیا جائے گا تو اس دن حقوق سے چھٹکارا پانے کی امید کیسے رکھ سکتا ہے۔ ( احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت ومابعدہ، الشطر الثانی، صفۃ الخصماء ورد الظلم ، ۵ / ۲۸۱-۲۸۲ )
تحریر: عبداللہ ہاشم عطاری مدنی
03313654057