نمازِ عید کا طریقہ و احکام و مسائل
"نمازِ عید کا طریقہ و احکام و مسائل"
اﷲ عزوجل فرماتا ہے:
{ وَ لِتُكْمِلُوا الْعِدَّةَ وَ لِتُكَبِّرُوا اللّٰهَ عَلٰى مَا هَدٰىكُمْ پ۲، البقرۃ: ۱۸۵
روزوں کی گنتی پوری کرو اور اﷲ کی بڑائی بولو کہ اس نے تمھیں ہدایت فرمائی۔
اور فرماتا ہے:
{ فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَ انْحَرْؕ۰۰۲ } (پ۳۰، الکوثر: ۲۔)
اپنے رب (عزوجل) کے لیے نماز پڑھ اور قربانی کر۔
۱ عیدین کی راتوں میں عبادت کرنے کی فضیلت:
ابن ماجہ ابو امامہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم فرماتے ہیں : ’’جو عیدین کی راتوں میں قیام کرے، اس کا دل نہ مرے گا جس دن لوگو ں کے دل مریں گے۔‘‘ (سنن ابن ماجہ‘‘، أبواب ماجاء في الصیام، باب فیمن قام لیلتی العیدین، الحدیث: ۱۷۸۲، ج۲، ص۳۶۵)
2) اصبہانی معاذ بن جبل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ فرماتے ہیں : ’’جو پانچ راتوں میں شب بیداری کرے اس کے لیے جنت واجب ہے، ذی الحجہ کی آٹھویں ، نویں ، دسویں راتیں اور عیدالفطر کی رات اور شعبان کی پندرھویں رات۔(الترغیب و الترھیب‘‘، کتاب العیدین والأضحیۃ، الترغیب في إحیاء لیلتی العیدین، الحدیث: ۲، ج۲، ص۹۸)
مسائلِ فقہیّہ
عیدین کی نماز واجب ہے مگر سب پر نہیں بلکہ انھیں پر جن پر جمعہ واجب ہے اور اس کی ادا کی وہی شرطیں ہیں جو جمعہ کے لیے ہیں صرف اتنا فرق ہے کہ جمعہ میں خطبہ شرط ہے اور عیدین میں سنت، اگر جمعہ میں خطبہ نہ پڑھا تو جمعہ نہ ہوا اور اس میں نہ پڑھا تو نماز ہوگئی مگر بُرا کیا۔ دوسرا فرق یہ ہے کہ جمعہ کا خطبہ قبل نماز ہے اور عیدین کا بعد نماز، اگر پہلے پڑھ لیا تو بُرا کیا، مگر نماز ہوگئی لوٹائی نہیں جائے گی اور خطبہ کا بھی اعادہ نہیں اور عیدین میں نہ اذان ہے نہ اقامت، صرف دوبار اتنا کہنے کی اجازت ہے۔ اَلصَّلٰوۃُ جَامِعَۃٌ ط۔ (الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین، ج۱، ص۱۵۰۔ و ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج۳، ص۵۱، وغیرہما ۔
) (عالمگیری، درمختار وغیرہما) بلاوجہ عید کی نماز چھوڑنا گمراہی و بدعت ہے۔ ’’(الجوہرۃ النیرۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ص۱۱۹ )
مسئلہ: گاؤں میں عیدین کی نماز پڑھنا مکروہِ تحریمی ہے۔ (’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج۳، ص۵۲۔)
عیدین کے مستحبات
عیدکے دن یہ امور مستحب ہیں :
۔ (۱) حجامت بنوانا۔
۔ (۲) ناخن ترشوانا۔
(۳) غسل کرنا۔
(۴) مسواک کرنا۔
(۵) اچھے کپڑے پہننا، نیا ہو تو نیا ورنہ دُھلا۔
(۶) انگوٹھی پہننا۔
(۷) خوشبو لگانا۔
(۸) صبح کی نماز مسجد محلّہ میں پڑھنا۔
(۹) عیدگاہ جلد چلا جانا۔
(۱۰) نماز سے پہلے صدقۂ فطر ادا کرنا۔
(۱۱) عیدگاہ کو پیدل جانا۔
(۱۲) دوسرے راستہ سے واپس آنا۔
(۱۳) ترمذی و ابن ماجہ و دارمی بریدہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے راوی، کہ ’’حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن کچھ کھا کر نماز کے لیے تشریف لے جاتے اور عیداضحی کو نہ کھاتے، جب تک نماز نہ پڑھ لیتے۔‘‘ (جامع الترمذي‘‘، أبواب العیدین، باب ماجاء في الأکل یوم الفطر قبل الخروج، الحدیث: ۵۴۲، ج۲، ص۷۰۔ )
بُخاری کی روایت انس رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ہے، کہ ’’عیدالفطر کے دن تشریف نہ لے جاتے، جب تک چند کھجوریں نہ تناول فرمالیتے اور طاق ہوتیں ۔‘‘ ) صحیح البخاري‘‘، کتاب العیدین، باب الأکل یوم الفطر قبل الخروج، الحدیث: ۹۵۳، ج۱، ص۳۲۸۔)
(۱۴) خوشی ظاہر کرنا
(۱۵) کثرت سے صدقہ دینا
۔ (۱۶) عیدگاہ کو اطمینان و وقار اور نیچی نگاہ کیے جانا
۔ (۱۷) آپس میں مبارک دینا مستحب ہے ۔
عید کے دِن نمازِ عید سے قبل نفل نماز پڑھنے کا حکم:
نماز عید سے قبل نفل نماز مطلقاً مکروہ ہے، عیدگاہ میں ہو یا گھر میں اس پر عید کی نماز واجب ہو یا نہیں ، یہاں تک کہ عورت اگر چاشت کی نماز گھر میں پڑھنا چاہے تو نماز ہو جانے کے بعد پڑھے اور نماز عید کے بعد عید گاہ میں نفل پڑھنا مکروہ ہے، گھر میں پڑھ سکتا ہے بلکہ مستحب ہے کہ چار رکعتیں پڑھے۔ یہ احکام خواص کے ہیں ، عوام اگر نفل پڑھیں اگرچہ نماز عید سے پہلے اگرچہ عیدگاہ میں انھیں منع نہ کیا جائے۔( الدرالمختار‘‘ و ’’ردالمحتار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج۳، ص۵۶۔)
نمازِ عید کا وقت:
نماز کا وقت بقدر ایک نیزہ آفتاب بلند ہونے سے ضحوۂ کبریٰ یعنی نصف النہار شرعی تک ہے، مگر عیدالفطر میں دیر کرنا اور عیداضحی میں جلد پڑھ لینا مستحب ہے اور سلام پھیرنے کے پہلے زوال ہوگیا ہو تو نماز جاتی رہی(الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج۳، ص۶۰، وغیرہ ۔ ) زوال سے مراد نصف النہار شرعی ہے،
نماز عید کا طریقہ
نماز عید کا طریقہ یہ ہے کہ دو رکعت واجب عیدالفطر یا عیداضحی کی نیت کر کے کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اﷲ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے پھر ثنا پڑھے پھر کانوں تک ہاتھ اٹھائے اور اﷲ اکبر کہتا ہوا ہاتھچھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اﷲ اکبر کہہ کر ہاتھ چھوڑ دے پھر ہاتھ اٹھائے اور اﷲ اکبر کہہ کر ہاتھ باندھ لے یعنی پہلی تکبیر میں ہاتھ باندھے، اس کے بعد دو تکبیروں میں ہاتھ لٹکائے پھر چوتھی تکبیر میں باندھ لے۔ اس کو یوں یاد رکھے کہ جہاں تکبیر کے بعد کچھ پڑھنا ہے وہاں ہاتھ باندھ لیے جائیں اورجہاں پڑھنا نہیں وہاں ہاتھ چھوڑ دیے جائیں ، پھر امام اعوذ اور بسم اﷲ آہستہ پڑھ کر جہر کے ساتھ الحمد اور سورت پڑھے پھر رکوع و سجدہ کرے، دوسری رکعت میں پہلے الحمد و سورت پڑھے پھر تین بار کان تک ہاتھ لے جا کر اﷲ اکبر کہے اور ہاتھ نہ باندھے اور چوتھی بار بغیر ہاتھ اٹھائے اﷲ اکبر کہتا ہوا رکوع میں جائے، اس سے معلوم ہوگیا کہ عیدین میں زائد تکبیریں چھ ہوئیں ، تین پہلی میں قراء ت سے پہلے اور تکبیر تحریمہ کے بعد اور تین دوسری میں قراء ت کے بعد، اور تکبیر رکوع سے پہلے اور ان چھوؤں تکبیروں میں ہاتھ اٹھائے جائیں گے اور ہر دو تکبیروں کے درمیان تین تسبیح کی قدر سکتہ کرے اور عیدین میں مستحب یہ ہے کہ پہلی میں سورۂ جمعہ اور دوسری میں سورۂ منافقون پڑھے یا پہلی میں سَبِّحِ اسْمَاور دوسری میں هَلْ اَتٰىكَ ۔ (الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج۳، ص۶۱، وغیرہ)
نمازِ عید کی زائد تکبیرات ره جائے تو کیا کریں؟
پہلی رکعت میں امام کے تکبیر کہنے کے بعد مقتدی شامل ہوا تو اسی وقت تین تکبیریں کہہ لے اگرچہ امام نے قراء ت شروع کر دی ہو اور تین ہی کہے، اگرچہ امام نے تین سے زیادہ کہی ہوں اور اگراس نے تکبیریں نہ کہیں کہ امام رکوع میں چلا گیا تو کھڑے کھڑے نہ کہے بلکہ امام کے ساتھ رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیر کہہ لے اور اگر امام کو رکوع میں پایا اور غالب گمان ہے کہ تکبیریں کہہ کر امام کو رکوع میں پا لے گا تو کھڑے کھڑے تکبیریں کہے پھر رکوع میں جائے ورنہ اﷲ اکبر کہہ کر رکوع میں جائے اور رکوع میں تکبیریں کہے پھر اگر اس نے رکوع میں تکبیریں پوری نہ کی تھیں کہ امام نے سر اٹھا لیا تو باقی ساقط ہوگئیں اور اگر امام کے رکوع سے اٹھنے کے بعد شامل ہوا تو اب تکبیریں نہ کہے بلکہ جب اپنی پڑھے اس وقت کہے اور رکوع میں جہاں تکبیر کہنا بتایا گیا، اس میں ہاتھ نہ اٹھائے اور اگر دوسری رکعت میں شامل ہوا تو پہلی رکعت کی تکبیریں اب نہ کہے بلکہ جب اپنی فوت شدہ پڑھنے کھڑا ہو اس وقت کہے اور دوسری رکعت کی تکبیریں اگر امام کے ساتھ پا جائے، فبہا ورنہ اس میں بھی وہی تفصیل ہے جو پہلی رکعت کے بارہ میں مذکور ہوئی۔ (الفتاوی الھندیۃ‘‘، کتاب الصلاۃ، الباب السابع عشر في صلاۃ العیدین، ج۱، ص۱۵۱۔ و ’’الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج۳، ص۶۴ ۔ ۶۶، وغیرہما )۔
عیدین کے خطبہ میں کون سے احکام بیان کئے جاتے ہیں:
عیدالفطر کے خطبہ میں صدقۂ فطر کے احکام کی تعلیم کرے، وہ پانچ باتیں ہیں :
(۱) کس پر واجب ہے؟ (۲) اور کس کے لیے؟ (۳) اور کب؟ (۴) اور کتنا؟ (۵) اور کس چیز سے؟۔
بلکہ مناسب یہ ہے کہ عید سے پہلے جو جمعہ پڑھے اس میں بھی یہ احکام بتا دیے جائیں کہ پیشتر سے لوگ واقف ہو جائیں اور عیداضحی کے خطبہ میں قربانی کے احکام اور تکبیرات تشریق کی تعلیم کی جائے۔ (الدرالمختار‘‘، کتاب الصلاۃ، باب العیدین، ج۳، ص۶۷، وغیرہما ۔) (درمختار، عالمگیری)