قرآن مجید میں جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال بیان کرنے کا مقصد
قرآن مجید میں جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال بیان کرنے کا مقصد:
قرآن مجید کی متعدد آیات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ نے جنتیوں اور جہنمیوں کے احوال کو تفصیل سے بیان فرمایا ہے، ان کے مکالمے، جنتیوں کی نعمتیں اور جہنمیوں کے عذاب، جنتیوں کی خوشیاں اور جہنمیوں کی حسرتیں یہ سب چیزیں بیان کی گئیں۔ آیات میں جو کچھ بیان ہوا اس میں بنیادی طور پر مسلمانوں اور کافروں کے انجام کا بیان کیا گیا ہے لیکن اس کے ساتھ اصحاب ِ اعراف کا بھی بیان ہے جن کی نیکیاں اور گناہ برابر ہوں گے۔ اب یہاں مسلمانوں کا ایک وہ گروہ بھی ہوگا جن کے گناہ زیادہ اور نیکیاں کم ہوں گی اور یونہی وہ لوگ بھی ہوں گے جو نیکیوں کے باوجود کسی گناہ پر پکڑے جائیں گے۔ ان تمام چیزوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمیں اپنی آخرت کی فکر کرنی چاہیے۔ سب سے پہلے تو کفر سے بچنے کی کوشش کرنی
چاہیے،
اس میں وہ تمام ذرائع مثلاً فلمیں ، ڈرامے، مزاحیہ پروگرام اور دینی معلومات کی کمی داخل ہیں جو آج کے زمانے میں کفریات کا سبب بنتے ہیں۔ دوسرے نمبر پر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اگرچہ کوئی مسلمان ہمیشہ کیلئے جہنم میں نہیں جائے گا لیکن یہ بات طے شدہ ہے کہ کچھ گناہگار مسلمان ضرور جہنم میں جائیں گے لہٰذا ہمیں جہنم کے عذاب اور اس کی ہولناکیوں سے ڈرتے رہنا چاہیے۔ سرکارِ دوعالم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ سیدُ المَعصُومِین ہیں لیکن اس کے باوجود تعلیمِ امت کیلئے آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ عذاب ِ جہنم سے کس قدر پناہ مانگتے تھے اس کا اندازہ احادیثِ طیبہ کے مطالعہ سے ہوسکتا ہے ۔ یونہی صحابہ و تابعین اور بزرگانِ دین بھی ہمیشہ جہنم کے عذاب سے خائف اور لرزاں و ترساں رہتے تھے۔ ترغیب کیلئے یہاں چند احادیث و واقعات پیشِ خدمت ہیں :
(1)… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ یوں دعا مانگا کرتے ’’ اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ جَہَنَّمَ وَاَعُوْذُ بِکَ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ ‘‘ اے اللہ ! عَزَّوَجَلَّ، میں جہنم کے عذاب سے تیری پناہ مانگتا ہوں اور قبر کے عذاب سے تیری پناہ چاہتا ہوں۔ ( نسائی، کتاب الاستعاذۃ، الاستعاذۃ من عذاب القبر، ص ۸۷۴ ، الحدیث: ۵۵۱۴ )
(2)…حضرت حُمرَان رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے (ایک مرتبہ) ان آیاتِ کریمہ:
’’ اِنَّ لَدَیْنَاۤ اَنْكَالًا وَّ جَحِیْمًاۙ( ۱۲) وَّ طَعَامًا ذَا غُصَّةٍ وَّ عَذَابًا اَلِیْمًا ‘‘ ( مزمل ۱۲ ، ۱۳ )
ترجمہ کنزُالعِرفان: بیشک ہمارے پاس بھاری بیڑیاں اور بھڑکتی آگ ہے اور گلے میں پھنسنے والاکھانا اور دردناک عذاب ہے۔
کی تلاوت فرمائی تو آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ پر غشی طاری ہو گئی۔ ( الزہد لابن حنبل، تمہید، ص ۶۲ ، رقم: ۱۴۶ )
(3)… حضرت بَرَاء بن عازب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ ’’ہم سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے ہمراہ ایک جنازہ میں شریک تھے، آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ قبر کے کنارے بیٹھے اور اتنا روئے کہ آپ کی چشمانِ اقدس سے نکلنے والے آنسوؤں سے مٹی نم ہوگئی۔ پھر فرمایا ’’اے بھائیو! اس قبر کے لئے تیاری کرو۔ ‘‘ ( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب الحزن والبکاء، ۴ / ۴۶۶ ، الحدیث: ۴۱۹۵ )
(4)… حضرت سلیمان بن سحیم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں ’’مجھے اس شخص نے بتایا جس نے خود حضرت عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کو اس طرح نماز پڑھتے ہوئے دیکھا کہ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نماز میں جھکتے، اٹھتے اور سوز و گدازکی حالت میں نماز ادا کرتے، اگر کوئی ناواقف شخص آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی اس حالت کو دیکھتا تو کہتا کہ ان پر جنون طاری ہے۔ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کی یہ کیفیت جہنم کے خوف کی وجہ سے اس وقت ہوتی کہ جب آپ یہ آیت:
’’ وَ اِذَاۤ اُلْقُوْا مِنْهَا مَكَانًا ضَیِّقًا مُّقَرَّنِیْنَ دَعَوْا هُنَالِكَ ثُبُوْرًا ‘‘ ( الفرقان: ۱۳ )
ترجمہ کنزُالعِرفان: اور جب انہیں اس آگ کی کسی تنگ جگہ میں زنجیروں میں جکڑکر ڈالا جائے گا تو وہاں موت مانگیں گے۔
یا اس جیسی کوئی اور آیت تلاوت فرماتے۔ ( کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل الصحابۃ، فضائل الفاروق رضی اللہ عنہ، ۶ / ۲۶۴ ، الحدیث: ۳۵۸۲۶ ، الجزء الثانی عشر )
(5)…حضرت عبداللہ رومی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مجھے امیرُ المؤمنین حضرت عثمانِ غنی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے بارے میں یہ بات پہنچی ہے کہ انہوں نے ارشاد فرمایا: ’’اگر میں جنت اور جہنم کے درمیان ہوں اور مجھے یہ معلوم نہ ہو کہ ان میں سے کس کی طرف جانے کا مجھے حکم دیا جائے گا تو میں اس بات کو اختیار کروں گا کہ میں یہ معلوم ہونے سے پہلے ہی راکھ ہو جاؤں کہ میں کہاں جاؤں گا۔ ( الزہد لابن حنبل، زہد عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ، ص ۱۵۵ ، رقم: ۶۸۶ )
(6)…ایک انصاری نوجوان کے دل میں جہنم کا خوف پیدا ہوا تواس کی وجہ سے وہ گھر میں ہی بیٹھ گئے، جب نبی ٔاکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ان کے پاس تشریف لائے تو وہ آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کی تعظیم میں کھڑے ہو گئے ، پھر آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے مقدس سینے سے چمٹ گئے ، اس کے بعد ایک چیخ ماری اور ان کی روح پرواز کر گئی، غمگسار آقا صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم سے ارشاد فرمایا: ’’اپنے بھائی کے کفن دفن کی تیاری کرو، جہنم کے خوف نے اس کا جگر ٹکڑے ٹکڑے کر دیا ہے۔ ( الزہد لابن حنبل، زہد عبید بن عمیر، ص ۳۹۴ ، رقم: ۲۳۴۹ )
(7)…حضرت ابو سلیمان دارانی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’(مشہور تابعی بزرگ) حضرت طاؤس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ (کا جہنم کے خوف کی وجہ سے یہ حال تھا کہ آپ) سونے کے لئے بستر بچھاتے اور اس پر لیٹ جاتے ، پھر ایسے تڑپنے لگتے جیسے دانہ ہنڈیا میں اچھلتا ہے، پھر اپنے بستر کی گدی بنا دیتے ، پھر اسے بھی لپیٹ دیتے اور قبلہ رخ ہو کر بیٹھ جاتے یہاں تک کے صبح ہو جاتی اور فرماتے ’’جہنم کی یاد نے عبادت گزاروں پر نیند حرام کر دی ہے۔ ( التخویف من النار، الباب الثانی فی الخوف من النار۔۔۔ الخ، فصل من الخائفین من منعہ خوف جہنم من النوم، ص ۳۷ )
اللہ تعالیٰ ہمیں جہنم کے عذابات سے ڈرنے اوراپنی آخرت کی فکر کرنے کی توفیق عطا فرمائے،آمین
جنتیوں اور جہنمیوں کے باہمی مکالمے:
جنتیوں اور جہنمیوں کے درمیان مکالمے قرآنِ پاک میں کئی جگہ مذکور ہیں چنانچہ سورۂ صافّات میں ہے:
فَاَقْبَلَ بَعْضُهُمْ عَلٰى بَعْضٍ یَّتَسَآءَلُوْنَ( ۵۰) قَالَ قَآىٕلٌ مِّنْهُمْ اِنِّیْ كَانَ لِیْ قَرِیْنٌۙ( ۵۱) یَّقُوْلُ اَىٕنَّكَ لَمِنَ الْمُصَدِّقِیْنَ( ۵۲) ءَاِذَا مِتْنَا وَ كُنَّا تُرَابًا وَّ عِظَامًا ءَاِنَّا لَمَدِیْنُوْنَ( ۵۳) قَالَ هَلْ اَنْتُمْ مُّطَّلِعُوْنَ( ۵۴) فَاطَّلَعَ فَرَاٰهُ فِیْ سَوَآءِ الْجَحِیْمِ( ۵۵) قَالَ تَاللّٰهِ اِنْ كِدْتَّ لَتُرْدِیْنِۙ( ۵۶) وَ لَوْ لَا نِعْمَةُ رَبِّیْ لَكُنْتُ مِنَ الْمُحْضَرِیْنَ ‘‘( صافات ۵۰ تا ۵۷ )
ترجمہ کنزُالعِرفان : پھر جنتی آپس میں سوال کرتے ہوئے ایک دوسرے کی طرف متوجہ ہوں گے۔ان میں سے ایک کہنے والاکہے گا:بیشک میرا ایک ساتھی تھا۔مجھ سے کہا کرتاتھا : کیا تم (قیامت کی) تصدیق کرنے والوں میں سے ہو؟ کیا جب ہم مرجائیں گے اور مٹی اور ہڈیاں ہوجائیں گے تو کیا ہمیں جزا سزا دی جائے گی؟جنتی (دوسرے جنتیوں سے) کہے گا: کیا تم(جہنم میں ) جھانک کر دیکھو گے؟ تو وہ جھانکے گا تو (اپنے) اس (دنیا کے) ساتھی کو بھڑکتی آگ کے درمیان دیکھے گا۔وہ جنتی کہے گا: خدا کی قسم، قریب تھا کہ تو ضرور مجھے (بھی گمراہ کرکے) ہلاک کردیتا اور اگر میرے رب کا احسان نہ ہوتا تو ضرور میں بھی (عذاب میں ) پیش کئے جانے والوں میں سے ہوتا۔
نیز سورۂ مدثر میں ہے:
’’ كُلُّ نَفْسٍۭ بِمَا كَسَبَتْ رَهِیْنَةٌۙ( ۳۸) اِلَّاۤ اَصْحٰبَ الْیَمِیْنِؕۛ( ۳۹) فِیْ جَنّٰتٍﰈ یَتَسَآءَلُوْنَۙ( ۴۰) عَنِ الْمُجْرِمِیْنَۙ( ۴۱) مَا سَلَكَكُمْ فِیْ سَقَرَ( ۴۲) قَالُوْا لَمْ نَكُ مِنَ الْمُصَلِّیْنَۙ( ۴۳) وَ لَمْ نَكُ نُطْعِمُ الْمِسْكِیْنَۙ( ۴۴) وَ كُنَّا نَخُوْضُ مَعَ الْخَآىٕضِیْنَۙ( ۴۵) وَ كُنَّا نُكَذِّبُ بِیَوْمِ الدِّیْنِۙ( ۴۶) حَتّٰۤى اَتٰىنَا الْیَقِیْنُ ‘‘ ( مدثر ۳۸ تا ۴۷ )
ترجمہ ٔ کنزُالعِرفان : ہر جان اپنے کمائے ہوئے اعمال میں گروی رکھی ہے مگر دائیں طرف والے،باغوں میں ہوں گے ،وہ پوچھ رہے ہوں گے مجرموں سے،کون سی چیزتمہیں دوزخ میں لے گئی؟وہ کہیں گے:ہم نمازیوں میں سے نہیں تھے اور مسکین کو کھانا نہیں کھلاتے تھے اور بیہودہ فکر والوں کے ساتھ بیہودہ باتیں سوچتے تھے اور ہم انصاف کے دن کو جھٹلاتے رہے یہاں تک کہ ہمیں موت آئی۔
کفر اور بد عملی کی بڑی وجہ:
کفر و عناد اور بد عملی کی بڑی وجہ قیامت کا انکار یا اسے بھلانا ہے اگر بندے کے دل میں قیامت کا خوف ہو تو جرم کرنے کی ہمت ہی نہ کرے ۔اسی لئے بزرگانِ دین نے روزانہ کچھ وقت موت، قبر اور قیامت کے متعلق غور و فکر کرنے کا مقرر فرمایا ہے کہ یہ فکر دل کی دنیا بدل دیتی ہے اور ایسی ہی سوچ کے بارے میں فرمایا گیا ہے کہ ’’لمحہ بھر غورو فکر کرناپوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے۔ ( مصنف ابن ابی شیعبہ، کتاب الزھد ،کلام الحسن البصری ، ۸ / ۲۵۸ ، الحدیث : ۳۷ )
کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جائے گے۔
اس کا ایک معنی یہ ہے کہ کفار کے اعمال اور ان کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جائیں گے کیونکہ اُن کے اعمال و ارواح دونوں خبیث ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ کفار کی ارواح کے لئے آسمان کے دروازے نہیں کھولے جاتے اور مؤمنین کی ارواح کے لئے کھولے جاتے ہیں۔ ابن جُرَیْج نے کہا کہ آسمان کے دروازے نہ کافروں کے اعمال کے لئے کھولے جائیں گے نہ ارواح کے لئے۔ ( خازن، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۰ ، ۲ / ۹۳ )
یعنی نہ زندگی میں ان کا عمل آسمان پر جاسکتا ہے نہ موت کے بعد ان کی روح جا سکتی ہے ۔
مرنے کے بعد مومن اور کافر کی روح کو آسمان کی طرف لے جانے اور مومن کی روح کے لئے آسمان کے دروازے کھلنے اور کافر کی روح کے لئے نہ کھلنے کاذکر حدیثِ پاک میں بھی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، سیدُ المرسلین صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’روح نکلتے وقت میت کے پاس فرشتے آتے ہیں ، اگر وہ مومن کی روح ہے تو اس سے کہتے ہیں : اے پاک روح! پاک جسم سے نکل آ کیونکہ تونیک ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رحمت سے خوش ہو جا، جنت کی خوشبو اور اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی رضا مندی سے خوش ہو جا، فرشتے روح نکلنے تک یہی کہتے رہتے ہیں ، جب روح نکل آتی ہے تو اسے لے کر آسمان کی طرف چڑھتے ہیں ، جب آسمان کے قریب پہنچتے ہیں تو آسمان کے فرشتے کہتے ہیں : یہ کون ہے؟ فرشتے جواب دیتے ہیں ’’فلاں شخص کی روح ہے۔ آسمانی فرشتے کہتے ہیں ’’مرحبا، مرحبا، اے پاک روح ! پاک جسم میں رہنے والی ، تو خوش ہو کر (آسمانوں میں ) داخل ہو جا اور خوشبو اور اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا سے خوش ہو جا، ہر آسمان پر اسے یہی کہا جاتا ہے ،حتّٰی کہ وہ روح عرش تک پہنچ جاتی ہے ۔اگر کسی برے بندے کی روح ہوتی ہے تو کہتے ہیں ’’اے ناپاک جسم کی روح! بری حالت کے ساتھ آ، گرم پانی اور پیپ کی اور اس کے ہم شکل دوسرے عذابوں کی بشارت حاصل کر۔وہ روح نکلنے تک یہی کہتے رہتے ہیں ، پھر اسے لے کر آسمان کی جانب چلتے ہیں تو اس کے لئے آسمان کا دروازہ نہیں کھولا جاتا، آسمان کے فرشتے دریافت کرتے ہیں : ’’یہ کون ہے؟ روح لے جانے والے فرشتے کہتے ہیں ’’یہ فلاں شخص کی روح ہے، آسمانی فرشتے جواب دیتے ہیں ’’اس خبیث روح کو جو خبیث جسم میں تھی کوئی چیز مبارک نہ ہو، اسے ذلیل کر کے نیچے پھینک دو تو وہ اسے آسمان سے نیچے پھینک دیتے ہیں پھر وہ قبر میں لوٹ آتی ہے۔ ( ابن ماجہ، کتاب الزہد، باب ذکر الموت والاستعداد لہ، ۴ / ۴۹۷ ، الحدیث: ۴۲۶۲ )
کفار کے لئے آسمان کے دروازے نہ کھولے جانے کا دوسرا معنی یہ ہے کہ وہ خیر و برکت اور رحمت کے نزول سے محروم رہتے ہیں۔ ( تفسیرکبیر، الاعراف، تحت الآیۃ: ۴۰ ، ۵ / ۲۴۰ )
قرآنِ پاک میں ہے:
’’ وَ لَوْ اَنَّ اَهْلَ الْقُرٰۤى اٰمَنُوْا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنَا عَلَیْهِمْ بَرَكٰتٍ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ وَ لٰكِنْ كَذَّبُوْا فَاَخَذْنٰهُمْ بِمَا كَانُوْا یَكْسِبُوْنَ ‘‘ ( اعراف: ۹۶ )
ترجمہ ٔ کنزُالعِرفان : اور اگر بستیو ں والے ایمان لاتے اور تقویٰ اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پر آسمان اور زمین سے برکتیں کھول دیتے مگر انہوں نے تو جھٹلایا تو ہم نے انہیں ان کے اعمال کی وجہ سے (عذاب میں ) گرفتار کردیا۔