اعتکاف کا بیان فضائل و احکام۔
اﷲ عزوجل ارشاد فرماتا ہے:
{ وَ لَا تُبَاشِرُوْهُنَّ۠ وَ اَنْتُمْ عٰكِفُوْنَ١ۙ فِي الْمَسٰجِدِ١ؕ } ( پ۲، البقرۃ: ۱۸۷)
عورتوں سے مباشرت نہ کرو، جب کہ تم مسجدوں میں اعتکاف کیے ہوئے ہو۔
پچھلی اُمَّتوں میں بھی اعتکا ف کی عبادت موجود تھی۔ چنانچہ پارہ اوّل سُوْرَۃُ الْبَقْرَہکی آیت نمبر 125 میں اللہ عَزَّوَجَلَّکا فرمانِ عالی شان ہے:
وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵)
ترجَمۂ کَنزُالْاِیمَان: اورہم نے تا کید فرمائی ابراہیم واسمٰعیل کو کہ میر ا گھر خوب ستھرا کرو طواف والوں اور اعتِکاف والوں اور رُکوع و سجود والوں
کیلئے ۔
اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَارِوایت فرماتی ہیں کہ رسولِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمرَمَضانُ المبارَک کے آخری عشرہ (یعنی آخری دس دن) کا اِعتکاف فرمایا کرتے۔ یہاں تک کہاللہ عَزَّوَجَلَّنے آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکو وفاتِ(ظاہری) عطا فرمائی۔ پھر آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکے بعد آپصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّمکی ازواجِ مطہراتاعتکاف کرتی رہیں ۔ (بُخاری ج۱ص۶۶۴حدیث۲۰۲۶)
’’ مسجِد میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا کیلئے بہ نیت اِعتکاف ٹھہرنا اِعتکاف ہے۔ ‘‘ اس کیلئے مسلمان کا عاقل ہونا اور جَنابت اورحیض ونفاس سے پاک ہوناشرط ہے۔بلوغ شرط نہیں ، نابالغ بھی جو تمیز رکھتا ہے اگر بہ نیّتِ اعتکاف مسجِد میں ٹھہرے تواُس کا اعتکاف صحیح ہے۔ (عالمگیری ج۱ ص ۲۱۱ )
اِعتکاف کے لغوی معنی ہیں : ’’ ایک جگہ جمے رہنا ‘‘ مطلب یہ کہ معتکفاللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی بارگاہِ عظمت میں اُس کی عبادت پرکمر بستہ ہو کر ایک جگہ جم کر بیٹھا رہتا ہے۔ اس کی یہی دُھن ہوتی ہے کہ کسی طرح اس کا پَروردگارعَزَّوَجَلَّاس سے راضی ہوجا ئے۔
اب تو غنی کے در پر بستر جمادیئے ہیں :
حضرتِ سیِّدُنا عطا خراسانی قُدِّسَ سِرُّہُ النُّوْرَانِی فرماتے ہیں : معتکف کی مثال اس شخص کی سی ہے جو اللہ تَعَالٰی کے در پر آپڑا ہو اور یہ کہہ رہا ہو: ’’ یااللہ عَزَّوَجَلَّکی! جب تک تو میر ی مغفرت نہیں فرمادے گا میں یہاں سے نہیں ٹلوں گا۔ ‘‘ (بَدائعُ الصنائع ج۲ص۲۷۳)
ہم سے فقیر بھی اب پھیری کو اٹھتے ہوں گے
اب تو غنی کے در پر بستر جما دیئے ہیں (حدائقِ بخشِش ص۱۰۱)
اِعتکاف کی تین قسمیں ہیں {۱} اعتکافِ واجِب {۲} اعتکافِ سُنّت {۳} اِعتکافِ نَفْل۔
اعتکافِ واجب :
اِعتکاف کی نذر(یعنی منّت) مانی یعنی زَبان سے کہا: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّکیلئے میں فلاں دن یا اتنے دن کااِعتکاف کر و ں گا۔ ‘‘ تواب جتنے دن کا کہا ہے اُتنے دن کا اِعتکاف کرناواجب ہو گیا ۔ منَّت کے اَلفاظ زَبان سے اداکرنا شرط ہے، صرف دل ہی دل میں منَّت کی نیَّت کرلینے سے منَّت صحیح نہیں ہوتی۔ (اور ایسی منَّت کاپوراکرناواجب نہیں ہوتا) ( رَدُّالْمُحْتار ج۳ص۴۹۵ مُلَخَّصاً )
منَّت کااعتکاف مردمسجدمیں کرے اورعورت مسجد بیت میں ، اِس میں روزہ بھی شرط ہے ۔ (عورت گھر میں جو جگہ نمازکیلئے مخصوص کرلے اُسے ’’ مسجدِ بیت ‘‘ کہتے ہیں ) ([1])
رَمَضانُ الْمُبارَککے آخِری عشرے کااعتکاف ’’ سنَّتِ مُؤَکَّدَہ عَلَی الْکِفایہ ‘‘ ہے۔ (دُرِّ مُخْتار ج ۳ ص ۴۹۵) اگر سب ترک کریں تو سب سے مطالبہ ہوگا اور شہر میں ایک نے کر لیا تو سب بری الذِّمَّہ۔ بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱)
اِس اعتکاف میں یہ ضروری ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی بیسویں تاریخ کوغروبِ آفتاب سے پہلے پہلے مسجِدکے اندر بہ نیّتِ اعتکاف موجود ہو اور اُنتیس (اُن۔تیس) کے چاندکے بعد یاتیس کے غُروبِ آفتاب کے بعدمسجِدسے باہَر نکلے۔ اگر 20 رَمَضانُ المبارک کوغروبِ آفتاب کے بعدمسجدمیں داخل ہوئے تو اِعتکاف کی سنّتِ مُؤَکَّدَہ ادانہ ہوئی۔
میں اللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضاکیلئے رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کے سنّتِ اِعتکاف کی نیَّت کرتا ہوں ۔ ‘‘ (دل میں نیت ہونا شرط ہے، دل میں نیت حاضر ہوتے ہوئے زبان سے بھی کہہ لینا بہتر ہے)
اعتکافِ نفل
نذر اور سنّتِ مُؤَکَّدہکے علاوہ جو اعتکاف کیاجا ئے وہ مستحب و سنّتِ غیر مُؤَکَّدہ ہے۔ (بہار شریعت ج۱ص۱۰۲۱) اِس کیلئے نہ روزہ شرط ہے نہ کوئی وَقت کی قید، جب بھی مسجِد میں داخل ہوں اِعتکاف کی نیّت کرلیجئے، جب مسجِد سے باہرنکلیں گے اِعتکاف ختم ہوجا ئے گا۔ میرے آقا اعلٰی حضرت رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں : جب مسجد میں جا ئے اِعتکاف کی نیَّت کرلے، جب تک مسجد ہی میں رہے گا اِعتکاف کا بھی ثواب پائے گا۔ (فتاوٰی رضویہ مُخَرَّجہ ج۸ص۹۸) نیَّت دل کے ارادے کوکہتے ہیں ، اگر دل ہی میں آپ نے ارادہ کر لیا کہ ’’ میں سنّتِ اِعتکاف کی نیّت کرتا ہوں ۔ ‘‘ آپ معتکف ہو گئے، دل میں نیّت حاضر ہوتے ہوئے زَبان سے بھی یہی الفاظ کہہ لینا بہتر ہے ۔ مادَری زَبان میں بھی نیّت ہوسکتی ہے مگرعربی میں زیادہ بہتر جبکہ معنی ذہن میں موجود ہوں ۔ ’’ ملفوظاتِ اعلٰی حضرت ‘‘ صَفْحَہ317پرہے:
’’ نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاِعْتِکَاف
ترجَمہ: میں نے سنّتِ اِعتکاف کی نیت کی۔ ‘‘
مسجدُ النَّبَوِیِّ الشَّریف عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے قدیم اور مشہور دروازے ’’ بابُ الرَّحمَۃ ‘‘ سے داخل ہوں تو سامنے ہی ستون مبارک ہے اس پر یاد دہانی کیلئے قدیم زمانے سے نمایاں طور پر نَوَیْتُ سُنَّۃَ الْاعتِکَاف لکھا ہوا ہے۔
معتکف کا مقصودِ اصلی انتظارِ نمازِ باجماعت:
فتاوی عالمگیری میں ہے: ’’ اعتکاف کی خوبیاں بالکل ہی ظاہرہیں کیونکہ اس میں بندہ اللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا حاصل کرنے کیلئے کُلِّیَّۃً (یعنی مکمل طور پر ) اپنے آپ کواللہ عَزَّوَجَلَّکی عبادت میں مُنْہَمِک کر دیتا ہے اوران تمام مشاغل دنیا سے کنارہ کش ہوجا تاہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّکے قرب کی راہ میں حائل ہوتے ہیں اورمعتکف کے تمام اوقات حقیقۃ ًیا حکما ًنماز میں گزرتے ہیں ۔(کیونکہ نَماز کا انتظار کرنابھی نمازکی طرح ثواب رکھتاہے) اور اعتکاف کا مقصودِ اصلی جماعت کے ساتھ نماز کا انتظار کرناہے اورمعتکف ان(فرشتوں ) سے مشابہت رکھتاہے جواللہ عَزَّوَجَلَّکے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے اور جو کچھ انہیں حکم ملتاہے اسے بجا لاتے ہیں اور ان کے ساتھ مشابہت رکھتاہے جوشب و روزاللہ عَزَّوَجَلَّکی تسبیح(پاکی) بیان کرتے رَہتے ہیں اوراس سے اُکتاتے نہیں ۔ ‘‘ (عالمگیری ج۱ ص۲۱۲)
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم: ’’ جو شخص اللہ عَزَّوَجَلَّکی رِضا وخوشنودی کیلئے ایک دن کااعتکاف کرے گا اللہ عَزَّوَجَلَّاس کے اورجہنّم کے درمیان تین خندقیں حائل کردے گا ہر خندق کی مسافت(یعنی دُوری) مشرق ومغرب کے فاصلے سے بھی زیادہ ہوگی۔ ‘‘ (مُعْجَم اَ وْسَط ج۵ص۲۷۹حدیث ۷۳۲۶)
اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے رِوایت ہے کہ سرکارِ ابدقرار، شفیع روزِ شمار صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کا فرمانِ خوشبودار ہے: مَنِ اعْتَکَفَ اِیْمَانًا وَّ احْتِسَابًا غُفِرَ لَہٗ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِہٖ۔ ترجَمہ: ’’ جس شخص نے ایمان کے ساتھ اور ثواب حاصل کرنے کی نیَّت سے اعتکاف کیا اس کے پچھلے گناہ بخش دئیے جا ئیں گے۔ ‘‘ (جا معِ صَغِیر ص۵۱۶حدیث۸۴۸۰)
آقا صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی جا ئے
اعتکاف:
حضرتِ سیِّدُنا نافِعرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کہتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُنا عبد اللہ ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَافرماتے ہیں : مدینے کے سلطان، رحمتِ عالمیان، سرورِ ذیشان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ماہِ رَمضان کے آخری عشرے کا اعتکاف فرمایا کرتے تھے ۔ حضرتِ سیِّدُنانافِع رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ حضرتِ سیِّدُناعبداللہ ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَانے مجھے مسجِد میں وہ جگہ دکھائی جہاں سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم اعتکاف فرماتے تھے۔ (مسلم ص۵۹۷ حدیث ۱۱۷۱ )
حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے : ایک مرتبہ سلطانِ دوجہان، شہنشاہِ کون و مکان، رحمتِ عالمیان صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے یکم رَمضان سے بیس رَمضان تک اِعتکاف کرنے کے بعد ارشاد فرمایا: ’’ میں نے شبِ قدر کی تلاش کیلئے رَمضان کے پہلے عشرے کا اعتکاف کیا پھر درمیانی عشرے کا اعتکاف کیا پھر مجھے بتایا گیا کہ شبِ قدر آخری عشرے میں ہے لہٰذا تم میں سے جو شخص میرے ساتھ اِعتکاف کرنا چاہے وہ کر لے ۔ ‘‘ (مُسلم ص۵۹۴حدیث۱۱۶۷)
حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ’’ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ایک ترکی خیمے کے اندر رَمضانُ الْمُبارَک کے پہلے عشرے کااعتکاف فرمایا، پھر درمیانی عشرے کا، پھر سراقدس باہر نکالا اور فرمایا: ’’ میں نے پہلے عشرے کا اعتکاف شبِ قدر تلاش کرنے کیلئے کیا، پھراسی مقصد کے تحت دوسرے عشرے کااعتکاف بھی کیا، پھر مجھےاللہ عَزَّوَجَلَّکی طرف سے یہ خبر دی گئی کہ شبِ قدر آخری عشرے میں ہے۔ لہٰذا جوشخص میرے ساتھ اعتکاف کرنا چاہے وہ آخری عشرے کا اعتکاف کرے۔ اس لئے کہ مجھے پہلے شب قدر دکھادی گئی تھی پھر بھلادی گئی ، اور اب میں نے یہ دیکھاہے کہ شب قدر کی صبح کو گیلی مٹی میں سجدہ کررہاہوں ۔لہٰذا اب تم شب قدر کو آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔ ‘‘ حضرتِ سیِّدُنا ابو سعید خدری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں کہ اُس شب بارِش ہوئی اور مسجِد شر یف کی چھت مبارک ٹپکنے لگی ، چنانچِہ اکیس رَمضانُ الْمُبارَک کی صبح کو میری آنکھوں نے میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کواس حالت میں دیکھاکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی مبارک پیشانی پر گیلی مٹی کانشان عالی شان تھا۔ (مِشکٰوۃ ج ۱ ص ۳۹۲ حدیث ۲۰۸۶)
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! ہمیں زندَگی میں ایک بار تواِس ادائے مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کو ادا کرتے ہوئے پورے ماہِ رَمضانُ الْمُبارَککا اِعتکاف کرہی لینا چاہئے۔ رَمضانُ الْمُبارَکمیں اِعتکاف کرنے کا سب سے بڑا مقصد شبِ قَدْر کی تلاش ہے۔ اور راجِح (یعنی غالِب) یہی ہے کہ شبِ قَدْر رَمضانُ المُبارَک کے آخری دس۱۰ دنوں کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔ اِس حدیثِ مبارَک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اُس بار شبِ قَدْر اِکیسویں ۲۱ شب تھی مگر یہ فرماناکہ ’’ آخِری عشرے کی طاق راتوں میں اِس کو تلاش کرو۔ ‘‘ اس بات کو ظاہرکرتاہے کہ شبِ قَدْر بدلتی رَہتی ہے۔ یعنی کبھی اِکیسویں ۲۱ ، کبھی تئیسویں ۲۳ ، کبھی پچیسویں ۲۵ کبھی ستائیسویں ۲۷ توکبھی انتیسو یں ۲۹ شب۔ مسلما نو ں کوشبِ قَدْرکی سعادت حاصِل کرنے کیلئے آخری عشرے کے اِعتکاف کی ترغیب دلائی گئی ہے، کیوں کہ مُعتَکِف دسو۱۰ں دن مسجدہی میں گزارتاہے اوران د۱۰س دنوں میں کوئی سی ایک رات شبِ قَدر ہوتی ہے۔اور یوں وہ شبِ قدر مسجد میں گزارنے میں کامیاب ہو جا تاہے۔ایک اور نکتہ اس حدیثِ پاک سے یہ بھی معلوم ہواکہ رسولِ پاک، صاحب لولاک، سیّاحِ اَفلاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے خاک پر سجدہ ادا فرمایاجبھی توخاک کے خوش نصیب ذَرّات سرورِ کائنات ، شَہَنْشاہِ موجودات صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کی نورانی پیشانی سے چِمٹ گئے تھے۔
زمین پربلا حائل سجدہ کرنا مستحب ہے:
فقہائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : ’’ زمین پر بلاحائل (یعنی مصلّٰی ، کپڑا وغیرہ نہ ہو یوں ) سجدہ کرنا افضل ہے۔ ‘‘ (مراقِی الْفَلاح ص۱۹۰) حُجَّۃُ الْاِسلام حضرت سیِّدُناامام محمدبن محمدبن محمد غزالیعَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالینقل فرماتے ہیں : حضرتِ سیِّدُنا عمر بن عبدالعزیز رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ ہمیشہ زمین ہی پرسجدہ کرتے یعنی سجدے کی جگہ مصلّی وغیرہ نہ بچھاتے۔ (اِحیاء العُلُوم ج۱ص۲۰۴)
دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
{۱} ’’ جس نے رَمَضانُ الْمُبارَک میں دس دن کا اعتکاف کرلیاوہ ایسا ہے جیسے دوحج اوردوعمرے کئے۔ ‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۲۵حدیث ۳۹۶۶) {۲} ’’ اِعتکاف کرنے والاگناہوں سے بچا رہتا ہے اور اس کیلئے تمام نیکیاں لکھی جا تی ہیں جیسے ان کے کرنے والے کے لئے ہوتی ہیں ۔ ‘‘ (ابنِ ماجہ ج۲ص۳۶۵حدیث۱۷۸۱)
مُفَسِّرِ شہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان حدیث نمبر 2 کے تحت مراٰۃ جلد 3 صفحہ 217 پر فرماتے ہیں : ’’ یعنی اعتکاف کا فوری فائدہ تو یہ ہے کہ یہ معتکف کو گناہوں سے باز رکھتا ہے۔ عَکْف کے معنی ہیں روکنا، باز رکھنا، کیونکہ اکثر گناہ غیبت، جھوٹ اور چغلی وغیرہ لوگوں سے اختلاط کے باعث ہوتی ہے معتکف گوشہ نشین ہے اور جو اس سے ملنے آتا ہے وہ بھی مسجد و اعتکاف کا لحاظ رکھتے ہوئے بری باتیں نہ کرتا ہے نہ کراتا ہے۔ یعنی معتکف اعتکاف کی وجہ سے جن نیکیوں سے محروم ہوگیا جیسے زیارتِ قبور مسلمان سے ملاقات بیمار کی مزاج پرسی ، نمازِ جنازہ میں حاضری اسے ان سب نیکیوں کا ثواب اسی طرح ملتا ہے جیسے یہ کام کرنے والوں کو ثواب ملتا ہے، اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ غازی، حاجی ، طالب علم دین کا بھی یہ ہی حال ہے۔ ‘‘
حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے منقول ہے: ’’ معتکف کو ہر روز ایک حج کا ثواب ملتاہے۔ ‘‘ (شُعَبُ الْاِیمان ج۳ص۴۲۵حدیث ۳۹۶۸)
یاد رکھئے! مسجِدکے اندر کھانے پینے، سحرو افطار کرنے، آبِ زم زم یا دم کیا ہوا پانی پینے اور سونے کی شَرْعاً اجا زت نہیں ، اگر اعتکاف کی نیّت تھی توضمناً ان سب کاموں کی اجا زت ہوجا ئے گی۔ یہاں یہ بات بھی سمجھ لیناضروری ہے کہ اعتکاف کی نیَّت صرف کھانے، پینے اورسونے وغیرہ کیلئے نہ کی جا ئے، ثواب کیلئے کی جا ئے۔ رَدُّالْمُحْتَار(شامی) میں ہے: ’’ اگرکوئی مسجِد میں کھانا ، پینا یا سونا چاہے تو اعتکا ف کی نیت کرلے، کچھ دیر ذِکرُاللہ عَزَّوَجَلَّکرے پھر جو چاہے کرے (یعنی اب چاہے تو کھاپی یاسوسکتا ہے) ۔ ‘‘ (رَدُّالمُحتار ج۳ص۵۰۶)
میں امام و مُؤَذِّن مقرر ہوں ، اگرچِہ اس میں پنجگانہ جماعت نہ ہوتی ہو اور آسانی اس میں ہے کہ مُطْلقاً ہر مسجد میں اعتکاف صحیح ہے
اگرچہ وہ مسجد جماعت نہ ہو، خصوصاً اس زمانہ میں کہ بہتیری مسجدیں ایسی ہیں جن میں نہ امام ہیں نہ مُؤَذِّن۔ (رَدُّالْمُحتَارج۳ص۴۹۳) سب سے افضل مسجد حرم شریف میں اعتکاف ہے پھرمسجِدُالنَّبَوِی عَلٰی صَاحِبِہَا الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام میں پھر مسجِد اقصیٰ (یعنی بیتُ الْمَقْدِس) میں پھر اُس میں جہاں بڑی جماعت ہوتی ہو۔ ( جَوْہَرہ ص۱۸۸، بہارِشریعتج۱ص۱۰۲۰۔۱۰۲۱)
پیارے معتکف اسلامی بھائیو! آپ کو دس روز مسجِدہی میں گزار نے ہیں اِس لئے چند باتیں اِحترامِ مسجِد سے مُتَعَلِّق سیکھ لیجئے۔ دَورانِ اعتکاف مسجِد کے اندر ضَرورۃًدُنیوی بات کرنے کی اجا زت ہے لیکن اس طرح کہ کسی نمازی یا عبادت کرنے والے یا سونے والے کو تشویش نہ ہو۔ یادرکھئے! مسجِد میں بلاضرو ر ت دُنیوی بات چیت کی معتکف کو بھی اجا ز ت نہیں ۔
اللہ ان پر کرم نہ کرے گا:
حضرتِ سیِّدُنا حسن بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللہ الْقَوِی سے روایت ہے کہ نبی رَحمت ، شفیعِ اُمت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کافرمانِ ذی شان ہے: لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گاکہ مساجد میں دنیا کی باتیں ہوں گی، تم ان کے ساتھ مت بیٹھوکہاللہ عَزَّوَجَلَّکوایسے لوگوں کی کوئی حاجت نہیں ۔(شُعَبُ الایمان ج۳ ص ۸۶ حدیث ۲۹۶۲)
مُفَسّرِشہیر حکیمُ الْاُمَّت حضر تِ مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الحَنّان اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں : یعنی اللہ ان پرکرم نہ کرے گا، ورنہ رب کو کسی بندے کی ضرورت نہیں ، وہ ضرورتوں سے پاک ہے۔(مراٰۃ المناجیح ج۱ ص۴۵۷)
اللہ تیری گمشدہ چیز نہ ملائے:
حضرتِ سیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ، فیض گنجینہ ، صاحبِ معطر پسینہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں : جو کسی کو مسجِد میں گمشدہ چیز ڈھونڈتے سنے (یا دیکھے) تو کہے: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّکرے تجھے وہ چیز نہ ملے۔ ‘‘ کیونکہ مسجِدیں اس لیے نہیں بنی ہیں ۔(مسلم ص۲۸۴ حدیث ۵۶۸)
تو تمہیں سز ادیتا:
حضرتِ سیِّدُنا سَائِب بن یزید رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : میں مسجِد میں کھڑا تھا کہ مجھے کسی نے کنکری ماری میں نے دیکھا تو وہ امیرُالْمُؤمِنین حضرتِ سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ تھے، اُنھوں نے مجھ سے (اشارہ کرکے ) فرمایا: ’’ اُن دو شخصوں کو میرے پاس لاؤ! ‘‘ میں ان دونوں کولے آیا۔ حضرت سیِّدُناعمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ نے اُن سے اِسْتِفْسار فرمایا: ’’ تم کہاں سے تَعَلُّق رکھتے ہو؟ عرض کی: ’’ طائف سے۔ ‘‘ فرمایا: ’’ اگرتم مدینۂ منوَّرہ کے رہنے والے ہوتے (کیونکہ وہ مسجِدکے آداب بخوبی جا نتے ہیں ) تو میں تمہیں ضرور سزا دیتا (کیونکہ) تم رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ مسجِد میں اپنی آوازیں بلند کرتے ہو! ‘‘ (بُخاری ج۱ص۱۷۸حدیث۴۷۰)
مباح کلام نیکیوں کو کھا جا تا ہے :
حضرتِ سیِّدُنا علّامہ علی قاری عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ البَارِی، مُحَقِّق عَلَی الْاِطْلاقشیخ ابن ھمام عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ السَّلَامکے حوالے سے نَقْل فرماتے ہیں : ’’ مسجِد میں مُباح (یعنی جس میں نہ ثواب ہو نہ گناہ ایسی جا ئز) بات کرنا مکروہ ہے اور نیکیو ں کو کھاجا تا ہے۔ ‘‘ (مِرقاۃُ المَفاتیح ج ۲ ص ۴۴۹)
40 سال کے اَعمال بربادفرما دے:
٭امام احمد رضاخان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الرَّحْمٰن لکھتے ہیں : جو مسجِد میں دُنیا کی بات کرے ، اللہ عَزَّوَجَلَّاُس کے چالیس برس کے نیک اعمال اکارت ( یعنی برباد) فرمادے۔ (فتاوٰی رضویہ ج۱۶ ص۳۱۱، غَمزُ الْعُیون ج۳ص۱۹۰)
مسجد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا لاتا ہے:
سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے کہ سرکارِ والا تبار، بِاِذْنِ پروَردگار دو جہاں کے مالِک ومختار، شہنشاہِ اَبرار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: اَلضَّحِکُ فِی الْمَسْجِدِ ظُلْمَۃٌ فِی الْقَبْرِ ۔ ترجمہ: ’’ مسجِد میں ہنسنا قبر میں اندھیرا (لاتا) ہے۔ ‘‘ (اَلْفِردَوس بمأثور الْخِطاب ج۲ص۴۳۱حدیث۳۸۹۱)