یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

قرب الٰہی کیسے حاصل ہو۔۔۔۔۔؟





قرب الٰہی کیسے حاصل ہو۔۔۔۔۔۔؟

اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے    وَ مِنَ الْاَعْرَابِ مَنْ یُّؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ یَتَّخِذُ مَا یُنْفِقُ قُرُبٰتٍ عِنْدَ اللّٰهِ وَ صَلَوٰتِ الرَّسُوْلِؕ-اَلَاۤ اِنَّهَا قُرْبَةٌ لَّهُمْؕ-سَیُدْخِلُهُمُ اللّٰهُ فِیْ رَحْمَتِهٖؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ۠(۹۹)
ترجمہ کنز العرفان: اور کچھ گاؤں والے وہ ہیں جو اللہ اور قیامت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں نزدیکیوں اور رسول کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں ۔ سن لو! بیشک وہ ان کے لیے (اللہ کے) قرب کا ذریعہ ہیں ۔ عنقریب اللہ انہیں اپنی رحمت میں داخل فرمائے گا، بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ( سورہ التوبہ آیت 99  )  
  یعنی بے شک ان کا خرچ کرنا ان کے     لئے     اللہ     تعالیٰ کے قرب اور اس کی رضا حاصل ہونے کا ذریعہ ہے کیونکہ انہوں نے اخلاص کے ساتھ اپنا مال خرچ کیا اور اپنے اس عمل کو         رسولُ اللہ         صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     کی طرف وسیلہ بنایا عنقریب     اللہ         عَزَّوَجَلَّ     انہیں اپنی رحمت یعنی جنت     میں داخل فرمائے گا، بیشک     اللہ         عَزَّوَجَلَّ     اپنے اطاعت گزار بندوں کو بخشنے والا اور ان پرمہربان ہے۔     (    جلالین مع صاوی، التوبۃ، تحت الآیۃ:     ۹۹    ،     ۳     /     ۸۳۱    )  
 
                    اِس آیت میں راہِ خدا میں خرچ کرنے کی نہایت عظمت کا بیان ہے اور وہ یوں کہ ویسے تو ہر نیک عمل     اللہ عَزَّوَجَلَّ     کے قرب کا ذریعہ ہے لیکن راہِ خدا میں خرچ کرنا ایسا خاص عمل ہے کہ جس کو بطورِ خاص         اللہ         عَزَّوَجَلَّ    نے اپنے قرب کا ذریعہ     قرآن میں بیان فرمایا ہے

اللہ تعالیٰ قرب سے متعلق3  اَحادیث:        
                    یہاں آیت کی مناسبت سے     اللہ     تعالیٰ کے قرب سے متعلق    3    اَحادیث ملاحظہ ہوں ،    
(    1    )…    حضرت ابوہریرہ     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ     سے روایت ہے، حضور اقدس     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے فرمایا ’’     اللہ     تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ جو میرے کسی ولی سے عداوت رکھے میں اسے اعلانِ جنگ دیتا ہوں اور میرے کسی بندے کا فرض     عبادتوں کے مقابلے میں دوسری عبادتوں کے ذریعے مجھ سے قریب ہونا مجھے زیادہ پسند نہیں اور میرا بندہ         (فرض عبادات کی     ادائیگی کے ساتھ)     نَوافل کے ذریعے مجھ سے قریب ہوتا رہتا ہے، حتّٰی کہ میں اس سے محبت کرنے لگتا ہوں ، پھر جب اس سے محبت کرتا ہوں تو میں اس کے کان ہو جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور اس کی آنکھیں ہوجاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا     ہے اور اس کے ہاتھ ہوجاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے اور اس کے پائوں بن جاتا ہے جن سے وہ چلتا ہے ، اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو اسے دیتا ہوں اور اگر میری پناہ لیتا ہے تو اسے پناہ دیتا ہوں اور جو مجھے کرنا ہوتا ہے اس میں کبھی میں تردد نہیں کرتا جیسے کہ میں اس مومن کی جان نکالنے میں توقف کرتا ہوں جو موت سے گھبراتا ہے اور میں اسے ناخوش کرنا پسند نہیں کرتا ادھر موت بھی اس کے لیے ضروری ہے۔     (    مشکاۃ المصابیح، کتاب الدعوات، باب ذکر اللہ عزّوجل والتقرّب الیہ، الفصل الاول،     ۱     /     ۴۲۳    ، الحدیث:     ۲۲۶۶    )    
(    2    )…    حضرت ابوہریرہ     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ     سے روایت ہے، نبی کریم     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے فرمایا ’’     اللہ     تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے’’ میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ رہتا ہوں ، پس اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرے تو میں بھی اسے اکیلے ہی یاد کرتا ہوں اور اگر وہ مجھے کسی گروہ میں یاد کرتا ہے تو میں اس سے بہتر گروہ میں اسے یاد کرتا ہوں اور اگر وہ بالشت بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت گز بھر اس کے قریب ہوجاتی ہے اور اگر وہ گز بھر میرے قریب ہوتا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر اس کے قریب ہو جاتی ہے اور اگر وہ چل کر میری طرف آتا ہے تو میری رحمت دوڑ کر ا س کی طرف جاتی ہے۔     (    بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللہ تعالی: ویحذّرکم اللہ نفسہ،     ۴     /     ۵۴۱    ، الحدیث:     ۷۴۰۵    )    
(    3    )…    حضرت ابو ذر         رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ     سے روایت ہے ،     رسولُ اللہ         صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے فرمایا ’’     اللہ     تعالیٰ     ارشاد فرماتا ہے ’’جو ایک نیکی کرے اسے دس گنا ثواب ہے اور زیادہ بھی دوں گا اور جو ایک گناہ کرے تو ایک برائی کا بدلہ اس کے برابر ہی ہے یا     (میں چاہوں تو )     اسے بخش دوں اور جو مجھ سے ایک بالشت قریب ہوتا ہے تو میری رحمت ایک گز اس کے نزدیک ہوجاتی ہے اورجو مجھ سے ایک گز نزدیک ہو تا ہے تو میری رحمت دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ برابر اس سے قریب     ہوجاتی ہے ، جو میری طرف چلتا ہوا آتا ہے تومیری رحمت اس کی طرف دوڑتی ہوئی آتی ہے، اور جو کسی کو میرا شریک نہ ٹھہرائے پھر زمین بھر گناہ لے کر مجھ سے ملے تو میں اتنی ہی بخشش کے ساتھ اس سے ملوں گا۔     (    مسلم، کتاب الذکر والدعاء والتوبۃ والاستغفار، باب فضل الذکر والدعاء والتقرّب الی اللہ تعالی، ص    ۱۴۴۳    ، الحدیث:     ۲۲(۲۶۸۷)    )