میری علمی فیملی سے ایک غم ناک خبر
میری علمی فیملی سے ایک غم ناک خبر
درس نظامی کی تعلیم کے دوران کم و بیش دو سو کے قریب افراد ہوں گے جو میرے کلاس فیلو رہے شروع میں بڑی کلاس تھی پھر بہت سارے افراد شروع یا درمیان سے چھوڑ گئے کچھ درمیان یا آخر میں کلاس میں شامل ہوئے میں نے مکمل تعلیم ہاسٹل میں رہ کر ہی حاصل کی اس بنا پر وہ کلاس فیلو جو ہاسٹل ہی میں ساتھ رہے وہ ایک فیملی کی طرح محسوس ہوتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ تمام کلاس فیلو حسب موقع یاد ضرور آتے ہیں لیکن سب رابطے میں نہیں ہیں.
لیکن 8 سے 10 سال کی رفاقت شب و روز کا ساتھ یہ بھولنے کی چیزیں نہیں ہوتی
آج میری یادداشت کے مطابق میری اس فیملی میں سے پہلے فرد کے انتقال کی خبر مجھے موصول ہوئی اور غم زدہ کر گئی
مفتی امجد میرے کلاس فیلو تھے
اس وقت نگاہوں میں وہ سارے مناظر گھوم رہے ہیں کہ وہ کتنی محنت سے پڑھا کرتے تھے کس طرح ہمارے درمیان مختلف اسباق پر مکالمہ ہوتا تھا علمی تکرار ہوتی تھی
کس طرح ہم لوگوں نے علم و شعور کا سفر ساتھ طے کیا.
انہوں نے پہلی کلاس سے لے کر تخصص تک میرے ساتھ پڑھا ہے. افتاء میں یہ کچھ بعد میں آئے تھے کچھ دن میرے ساتھ دار الإفتاء اہل سنت نور العرفان میں بھی رہے تقریبا ایک سال بخاری مسجد کھارادر میں امامت بھی کی یہ شاید 2007 کا سال تھا.
پھر یہ فیصل آباد افتاء میں شفٹ ہوئے دو ایک سال بعد کراچی آئے فیضان مدینہ میں تخصص فی الفقہ کے ناظم بھی رہے پھر انہوں نے افتاء اور جامعۃ المدینہ کی تدریس اچانک سے خود ہی چھوڑ دی کیوں چھوڑ دی مجھے آج تک معلوم نہیں ہو سکا
اپنا ایک ادارہ قائم کیا اولڈ ایریا کی ہری مسجد میں امامت کی وہاں افتاء قائم کیا اپنے آبائی علاقے احمد پور شرقیہ میں خواتین کا بڑا جامعہ قائم کیا
ہری مسجد چھوڑنے کے بعد وہاں قریب ہی ایک ویلفیئر یا ادارہ قائم کیا کسی نے بتایا تھا کہ چاول مارکیٹ میں پونا والا بلڈنگ میں بھی کوئی آفس تھا جہاں ویلفیئر وغیرہ کی سرگرمی تھی اسکول بھی بنایا
میرے اندازے میں مرحوم کی عمر 35 سال کی ہوگی اس عمر میں ایک متحرک عالم دین کا دنیا سے چلا جانا ایک بہت بڑا نقصان ہے بہت بڑا سانحہ ہے مرحوم کے نا جانے کیا کیا علمی خواب ہوں گے؟ اور کون کون سے بڑے پروجیکٹ ہوں گے جس پر انہوں نے کام کرنے کا سوچا ہوگا
مرحوم ایک بہت اچھے حافظ قرآن بھی تھے
آج 27 رمضان المبارک کوئی دو بجے کے قریب کسی نے مجھے ان کے انتقال کا میسج کیا تو اول تو یقین ہی نہیں آیا کئی جگہ سے کنفرم ہونے کے بعد یقین کیے بغیر کوئی چارہ بھی نہیں بچا تھا
مرحوم ایک متحرک عالم دین تھے ان لوگوں میں سے تھے جنہوں نے ہار ماننا سیکھا ہی نہیں تھا
اگر ایک گلی بند ہو تو وہ دوسری گلی سے راستہ بنانا سیکھ چکے تھے
پوری زندگی ہم نے ان کو جدو جہد اور محنت کرتے ہی دیکھا
میرا تو عرصہ دراز سے براہ راست رابطہ نہیں تھا لیکن کبھی کبھار ان کے علمی اور ویلفیئر کے کاموں کی اطلاع ملتی تھی تو دل خوش ہوتا تھا
اب تک جو اطلاعات آئی ہیں ان کے مطابق شوگر بڑھ جانے کی وجہ سے کچھ دن اسپتال رہنے کے بعد انتقال ہوا ہے
اللہ تعالی نے مرحوم کو 27 رمضان المبارک کا دن بخشا ہے اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اس دن کی اور اس ماہ کی برکت سے مرحوم کے گناہ معاف فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے ان کی فیملی لواحقین اور تلامذہ و احباب کو جو صدمہ پہنچا اس پر انہیں صبر کی توفیق عطا فرمائے
ہر موت کی خبر زندگی کی حقیقت سے خبر دار کرتی ہے
ایک بوجھ باقی رہے گا کہ کاش کوئی ان کی بیماری کی خبر دیتا تو عیادت بھی کرنے کا موقع مل جاتا کہا سنا معاف کرنے کا موقع مل جاتا
میں آج موقع کے مناسبت سے یہ بھی عرض کرنا چاہوں گا کہ بالخصوص وہ تمام افراد جنہوں نے میرے ساتھ جامعہ میں پڑھا یا آگے پیچھے کے درجات میں جامعۃ المدینہ میں شامل رہے یا جامعۃ المدینہ سے کسی بھی طرح ان سے تعلق رہا
ہاتھ جوڑ کر التجا کرتا ہوں کہ میرے پاس جامعۃ المدینۃ میں زمانہ طالب علمی سے ہی ذمہ داریاں رہی کسی کو بھی مجھ سے تکلیف پہنچی ہو مجھے تو معاف کر دے یقینی طور پر مجھ سے بتقاضائے بشریت بہت ساری غلطیاں ہوئی ہوں گی میرے ہاتھ یا زبان یا انداز سے بہت ساروں کو تکلیف پہنچی ہوگی معاف کر دیں گے تو آخرت میں اجر پائیں گے
از قلم مفتی علی اصغر
27 رمضان المبارک 1441
بمطابق 21 مئی 2020