مسلک اہلسنت کا ایک عظیم رہنماء-abdullahmadni1991
*مسلک اہلسنت کا ایک عظیم رہنماء*🌹
اللہ رب العالمین نے سر زمیں ہری پور ہزارہ اور اس کے گردونواح میں ایسے کثیر علماء کو پیدا فرمایا جنہوں نے مسلک حق اہلسنت کی رہنمائی کی اور لوگوں کو بد عقیدہ لوگوں سے بچایا اور دین متین کو پھیلایا اسی وجہ سے یہ علاقہ مشہور ہوا انہی علماء ربانیین میں ایک نام جامع المعقول والمنقول علامہ قاضی محمد عبد السبحان کھلابٹی ہزاروی رحمہ اللہ تعالی کا ہے
*تاریخ ولادت اور خاندانی پس منظر:
شیخ التفسیر والحدیث استاذ العلماء حضرت قاضی محمد عبدالسبحان کھلابٹی ہزاروی 1898ء جمعہ کے دن ہری پور ہزارہ کے ایک گاؤں کھلابٹ میں قریشی علوی خاندان کے ایک مذہبی اور علمی گھرانے میں پیدا ہوئے۔ آپ کے خاندان کے لوگ صدیوں سے دینی و مذہبی پیشوا مانے جاتے تھے اور لوگوں میں بے پناہ مقبولیت حاصل تھی ۔آپ کی پیدائش سے قبل آپ کی والدہ نے یہ خواب دیکھا کہ میری گود میں ایک حسین و جمیل پھول ہے اور کوئی شخص یہ کہ رہا ہے کہ اس کو سنبھال لو اور میں پھول کے حسن کو دیکھ کر حیران ہو رہی ہوں اور اللہ کا شکر ادا کر رہی ہوں جب آپ کی والدہ نے بیدار ہو کر یہ خواب بیان کیا ۔تو سب نے ان کو مبارکباد دی اور کہا اللہ آپ کو ایک بیٹا عطا کرے گا،اس کے کچھ عرصہ بعد قاضی عبد السبحان کھلابٹی رحمہ اللہ کی پیدائش ہوئی ۔
آپ رحمہ اللہ تعالی کی ساری زندگی درس و تدریس احقاق حق اور ابطال باطل اور تصنیف و تالیف کرتے گزری ،آپ زبردست مناظر ،اور مفتی ہونے کے ساتھ ساتھ ایک حاذق حکیم بھی تھے اور باقاعدہ حکمت کا کورس بھی کیا ہوا تھا ۔
*تحصیل علم اور آپ کے اساتذہ:
آپ نے اپنے وقت کے عظیم علماءاور جلیل القدر ہستیوں سے علم حاصل کیا آپ کے اساتذہ میں استاذ العلماء جامع المعقول والمنقول حضرت علامہ قطب الدین غور غشتوی ،حضرت مولانا عبد الباقی صاحب ،حکیم برکات احمد صاحب ٹونکی حضرت مولانا شیر بہادر مارتونگی ،مولانا حمید الدین مانسہروی ،حضرت مولانا محمد خلیل محدث ہزاروی ،حاذق الحکماء مولانا قاضی عبد القیوم اور مولانا گراہان والے رحمہم اللہ تعالی کے اسماء گرامی شامل ہیں ،
حضرت علامہ قاضی عبد السبحان کھلابھٹی اپنے اساتذہ میں سے قطب الدین غور غشتوی سے بے انتہاء محبت کرتے اور آپ سے بہت متاثر تھے آپ خود فرماتے کہ مجھے جو بھی ملا وہ قطب الدین غورغشتوی سے ملا ہے
آپ کے اپنے علاقے کے علماء سے علم حاصل کرنے کے بعد دور دراز علاقوں کا سفر بھی اختیار کیا تحصیل علم کے لیے آپ دارالعوام دیوبند بھی گے جہاں آپ نے چھ ماہ قیام کیا اور مختلف اسباق پڑھے ۔لیکن وہاں کے اساتذہ میں آپ جیسے ذہین طالب علم کو پڑھانے کی استعداد نہیں تھی جو کہ آپ کو بہت پریشان کرتی تھی اس پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ آپ جو سوال کرتے اس جا کوئی جواب نہ ملتا تھا پھر آپ رحمہ اللہ تعالی نے جب یہ دیکھا کہ اسباق آپ کے ذوق کے مطابق نہیں ہوتے تو آپ نےخود ہی غور وفکر اور محنت سے اپنے اسباق حل کرنا شروع کر دیے اور چھ ماہ وہاں قیام کے بعد واپس تشریف لائے اس کے علاوہ حصول علم کے لیے دور دراز علاقوں کا سفر اختیار کیا ۔
*درس وتدریس اور علمی مشاغل:
آپ رحمہ اللہ تعالی نے 13سال کی عمر میں علوم سے فراغت حاصل کی اور اس کے بعد مسند تدریس پر فائز ہوئے اور قریب چالیس سال تک اپنے آبائی گاؤں کھلابٹ میں ہی درس وتدریس فرماتے رہے ۔آپ اپنی خداداقابلیت اور ذہانت کی وجہ سے بہت جلد مشہور ہوئے اور پاکستان کے علاوہ ہندوستان کابل و قندہار ،بنگلہ دیش ،سمرقند وبخارا ،اور کئی علاقوں کے تشنگان علم حصول علم کے لیے آپ کے پاس حاضر ہوتے اور آپ ان کی رہنمائی فرماتے اور انکی علمی پیاس کو بجھاتے اور اپنے بحر علم و فضل سے سیراب کرتے ،آپ فجر کی اذان سے کچھ قبل سحری کے وقت اٹھتے اور پڑھانا شروع کرتے تھے اور نماز ظہر تک درس کا سلسلہ جاری رہتا آپ ایک دن میں تقریبا پچاس اسباق پڑھاتے تھے ۔
*میدان مناظرہ میں کمال مہارت :
آپ نے دین متین کی خدمت صرف درس و تدریس کے ذریعے ہی نہیں کی بلکہ آپ میدان مناظرہ میں بھی اپنا ہمسر نہیں رکھتے تھے ،احقاق حق اور ابطال باطل کی غرض سے آپ کو جہاں جس وقت بھی مناظرے کے لیے بلایا جاتا بغیر کسی لالچ کے وہاں تشریف لے جاتے اور پھر اپنی کمال مہارت کے ذریعے صرف چند جملوں میں ہی کچھ دیر میں حق کو واضح کر کے مسلک اہلسنت کی نیک نامی کرتے تھے آپ کے مقابل آنے کی کوئی کوشش نہیں کرتا تھا ۔آپ کا مناظرہ محمود شاہ حویلیاں والے( شیعہ ) جو کہ اپنے آپ کو سنی کہلاتا اور امیر معاویہ رضی اللہ تعالی عنہ پر سب وشتم کرتا ،(اور آج کل وہ لوگ جوکہلاتے سنی ہیں مگر عقائد میں شیعہ کی طرف مائل نظر آتے ہیں ان کا سرغنہ ہےاس سے بھی آپکا مناظرہ ہونا طے ہوا لیکن وہ راہ فرار اختیار کر گیا اور مقابل نہیں آیا جس پر آپ نے ایک تاریخی تحریری فیصلہ اس کے خلاف فرمایا ۔
آپ کے مختلف مناظروں کی روئیداد آپ کے صاحبزادوں علامہ قاضی غلام محمود ہزاروی اور علامہ مفتی سیف الرحمن قادری ہزاروی نے جمع کی ہیں جو کہ فیوضات سبحانیہ کے نام سے مطبوع ہے اور قابل مطالعہ کتاب ہے ،
*تصنیف و تالیف:
آپ نے مسلک اہلسنت کی خدمت کے لیے تصنیف و تالیف کے میدان میں بھی برابر کام کیا اور جس موضوع پر قلم اٹھایا اس کو ایسا نبھایا بیگانے بھی ماننے پر مجبور ہوگے کہ آپ نے اس موضوع کا حق ادا کر دیا ،آپ کی ہر ہر تحقیق اور تصنیف لاجواب ہے آپ کی تصنیفات و تالیفات کی تعداد تقریبا اکتیس ہے مشہور درج ذیل ہیں۔
1. *حاشیہ بخاری شریف* 2. *حاشیہ مطول*
3. *فائض الانوار شرح معانی الآثار* 4. *رد منکرین سنت*
5. *حاشیہ مشکوۃ شریف* 6. *انوار الاتقیاء فی حیات الانبیاء*
7. *حاشیہ ہدایہ* ، 8. *حاشیہ شرح نخبۃ الفکر*
9. *حاشیہ نور الانوار* نامکمل 10. *حل حاصل الحصول و محصول شرح جامی*
11. *مواہب الرحمن فی اغلاط جوہر القران*
افسوس کہ آپ کی یہ تمام تصنیفات عربی میں ہیں اور غیر مطبوعہ مخطوط ہیں کاش کہ اس علمی خزانے کو منظر عام پر لایا جاے اور اہل علم ان سے اکتساب فیض کریں ،
*اعلی حضرت رحمہ اللہ کا احترام :
آپ رحمہ اللہ تعالی امام اہلسنت اعلی سیدی امام احمد رضا خان محدث بریلی کا بے حد احترام کرتے اور آپ کا دفاع کرتے لیکن بعض فقہی مسائل میں آپ کی تحقیقات جداگانہ ہیں ،
*بد عقیدہ لوگوں سے نفرت:
آپ رحمہ اللہ تعالی بد عقیدہ لوگوں سے بے حد نفرت کرتے تھے چنانچہ آپ کے آخری سفر میں جب علاج کی غرض سے کسی حکیم کے پاس لے جایا گیا تو ایک تانگہ پر آپ کے ساتھ کچھ دیوبندی وہابی لوگ بھی سفر کر رہے تھے جوکہ مولوی تھی وہ آپ سے کہنے لگے ہم آپ کو حق گوئی کی داد دیے بغیر نہیں رہ سکتے اور آپ کے اس فیصلہ جو کہ آپ نے سید محمود شاہ شیعہ کے خلاف دیا اس پر بہت خوش ہیں ۔آپ رحمہ اللہ تعالی نے فرمایا سنو میری محمود شاہ صاحب سے دوستی تھی اور اچھا تعلق تھا ۔مگر جب وہ راہ حق سے ہٹا اور شیعہ کی طرف مائل ہوا تو میں اس کا مخالف ہوگیا میں ہمیشہ حق کا ساتھ دیتا ہوں ۔لوگوں کو حق کے ذریعے پہچانتا ہوں ۔اور حق کو لوگوں کے ذریعے نہیں پہچانتا تو اسی اصول کی وجہ سے وہابیوں کے بھی خلاف ہوں ،جس شخص کے عقائد فاسد ہوتے آپ ہمیشہ اس سے دور رہتے تھے وہابیہ کی ان عبارات جن پر امام اہلسنت نے فتوی کفر صادر فرمایا آپ بھی ان عبارات پر انہیں کافر قرار دہتے تھے اور انکے کفر کو ثابت کرتے تھے ۔
*اقوال علماء:
آپ کی قابلیت اور علم و فضل کا اعتراف آپ کے معاصر علماء نے بھی کیا اور یہ بھی ایک اصول ہے کہ کسی شخص کے متعلق جاننا ہو تو سب سے بہتر اس کے متعلق اس کے معاصر ہی بتا سکتے ہیں ،
چنانچہ ،مفسر شہیر حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی ،علامہ سید احمد سعید کاظمی ،محدث اعظم پاکستان مولانا سردار احمد رحمہم اللہ تعالی ،مناظر اسلام علامہ عمر اچھروی مولانا عارف اللہ شاہ اویسی آپ کی تعریف و توصیف بیان کرتے اور آپ کی علمی قابلیت اور حق گوئی کی تحسین دیتے نظر آتے ہیں ،
محدث اعظم پاکستان کی جب آپ سے ملاقات ہوئی تو محدث اعظم پاکستان نے روح المعانی کی ایک عبارت کے متعلق سوال کیا کہ یہ بات سمجھ نہیں آ رہی کہ اس کی مراد کیا ہے تو آپ نے ایسی توجیہ فرمائی کہ محدث اعظم پاکستان آپ کو داد و تحسین دیے بغیر نہ رہ سکے ،
آپ کی تصنیف انوار الاتقیاء چھپی تو محدث اعظم پاکستان نے مطالعہ کے بعد اس کو خوب سراہا اور ایک سو نسخے اپنے کتب خانہ کے لیے منگواۓ
محدث کھچوچھوی نے آپ کی تصنیف مواہب الرحمن کی بہت تعریف فرائی
مفسر شہیر مفتی احمدیار خان نعیمی نے فرمایا آپ بہت بلند پایہ عالم ہیں مگر جتنے بڑے عالم ہیں اتنے سادہ طبیعت ہیں ،
*وصال:
اسلام کا یہ بطل عظیم تقریبا دو ہفتے بیمار رہنے کے بعد 12شوال المکرم 1377شب جمعہ بمطابق مئی 1958کو اس دنیا فانی سے کوچ کر گیا ،آپ اس وقت ابن تیمیہ کی کتاب کتاب الوسیلہ کارد اور نورالانوار کا حاشیہ تحریر فرما رہے تھے جوکہ مکمل نہ ہو سکا اور آپ اس دار فانی سے چل دیے
مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمہ نے فرمایا آپ کا انتقال سےدنیائے اہل سنت کو ایسا نقصان پہنچا جس کی تلافی ممکن نہیں ۔
اللہ کریم کی ان پر رحمت ہو اور انکے صدقے ہماری مغفرت ہو ،آمین
*نوٹ* : آپ. رحمہ اللہ تعالی کے تفصیلی حالات زندگی اور آپ کے مناظروں کی روئیداد کے لیے کتاب فیوضات سبحانیہ مطبوعہ انجمن اشاعت العلوم محلہ عید گاہ ہری پور ہزارہ کا مطالعہ کیجیے انشاءاللہ تعالی بہت کچھ سیکھنے کو ملے گا ، اس تحریر کو ترتیب دینے میں اس کتاب سے بھی استفادہ کیا گیا ہے.