’’فتح مکہ کا تفصیلی بیان‘
’’فتح مکہ کا تفصیلی بیان‘‘
(رمضان ۸ ھ مطابق جنوری ۶۳۰ء)
رمضان ۸ ھ تاریخ نبوت کا نہایت ہی عظیم الشان عنوان ہے اور سیرت مقدسہ کا یہ وہ سنہرا باب ہے کہ جس کی آب و تاب سے ہر مومن کا قلب قیامت تک مسرتوں کا آفتاب بنا رہے گا کیونکہ تاجدار دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس تاریخ سے آٹھ سال قبل انتہائی رنجیدگی کے عالم میں اپنے یارغار کو ساتھ لے کر رات کی تاریکی میں مکہ سے ہجرت فرماکر اپنے وطن عزیز کو خیرباد کہہ دیا تھااور مکہ سے نکلتے وقت خدا کے مقدس گھر خانہ کعبہ پر ایک حسرت بھری نگاہ ڈال کر یہ فرماتے ہوئے مدینہ روانہ ہوئے تھے کہ ’’اے مکہ!خدا کی قسم!تو میری نگاہ محبت میں تمام دنیا کے شہروں سے زیادہ پیارا ہے اگر میری قوم مجھے نہ نکالتی تو میں ہرگز تجھے نہ چھوڑتا۔‘‘ لیکن آٹھ برس کے بعد یہی وہ مسرت خیز تاریخ ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ایک فاتح اعظم کی شان و شوکت کے ساتھ اسی شہر مکہ میں نزول اجلال فرمایا اور کعبۃ اللہ میں داخل ہوکر اپنے سجدوں کے جمال و جلال سے خدا کے مقدس گھر کی عظمت کو سرفراز فرمایا۔
لیکن ناظرین کے ذہنوں میں یہ سوال سر اٹھاتا ہوگا کہ جب کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں یہ تحریر کیا جا چکا تھا کہ دس برس تک فریقین کے مابین کوئی جنگ نہ ہوگی تو پھر آخر وہ کونسا ایسا سبب نمودار ہوگیا کہ صلح نامہ کے فقط دو سال ہی بعد تاجدار دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو اہل مکہ کے سامنے ہتھیار اٹھانے کی ضرورت پیش آگئی اور آپ ایک عظیم لشکر کے ساتھ فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہوئے۔تو اس سوال کا جواب یہ ہے کہ اس کا سبب کفارمکہ کی ’’عہدشکنی‘‘ اور حدیبیہ کے صلح نامہ سے غداری ہےالسیرۃ الحلبیۃ، باب ذکر مغازیہ، غزوۃ خیبر، ج۳، ص۷۴، ماخوذاً
کفارقریش کی عہد شکنی:
صلح حدیبیہ کے بیان میں آپ پڑھ چکے کہ حدیبیہ کے صلح نامہ میں ایک یہ شرط بھی درج تھی کہ قبائل عرب میں سے جو قبیلہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرنا چاہے وہ قریش کے ساتھ معاہدہ کرے اور جو حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے معاہدہ کرنا چاہے وہ حضرت محمد صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ساتھ معاہدہ کرے۔
چنانچہ اسی بنا پر قبیلہ بنی بکر نے قریش سے باہمی امداد کا معاہدہ کرلیا اور قبیلہ بنی خزاعہ نے رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّو صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے امدادباہمی کا معاہدہ کرلیا۔ یہ دونوں قبیلے مکہ کے قریب ہی میں آباد تھے لیکن ان دونوں میں عرصہ دراز سے سخت عداوت اور مخالفت چلی آرہی تھی۔
ایک مدت سے توکفارقریش اور دوسرے قبائل عرب کے کفار مسلمانوں سے جنگ کرنے میں اپنا سارا زور صرف کررہے تھے لیکن صلح حدیبیہ کی بدولت جب مسلمانوں کی جنگ سے کفارقریش اور دوسرے قبائل کفار کو اطمینان ملا تو قبیلہ بنی بکر نے قبیلہ بنی خزاعہ سے اپنی پرانی عداوت کا انتقام لینا چاہا اور اپنے حلیف کفارِقریش سے مل کر بالکل اچانک طورپر قبیلہ بنی خزاعہ پر حملہ کردیا اور اس حملہ میں کفارقریش کے تمام رؤسا یعنی عکرمہ بن ابی جہل، صفوان بن امیہ و سہیل بن عمرو وغیرہ بڑے بڑے سرداروں نے علانیہ بنی خزاعہ کو قتل کیا۔ بے چارے بنی خزاعہ اس خوفناک ظالمانہ حملہ کی تاب نہ لاسکے اور اپنی جان بچانے کے لئے حرم کعبہ میں پناہ لینے کے لئے بھاگے۔ بنی بکر کے عوام نے تو حرم میں تلوار چلانے سے ہاتھ روک لیا اور حرم الٰہی کا احترام کیا۔ لیکن بنی بکر کا سردار ’’نوفل‘‘ اس قدر جوش انتقام میں آپے سے باہر ہوچکا تھا کہ وہ حرم میں بھی بنی خزاعہ کو نہایت بے دردی کے ساتھ قتل کرتا رہا اور چلا چلاکر اپنی قوم کو للکارتا رہا کہ پھر یہ موقع کبھی ہاتھ نہیں آسکتا۔ چنانچہ ان درندہ صفت خونخوار انسانوں نے حرم الٰہی کے احترام کو بھی خاک میں ملا دیااور حرم کعبہ کی حدود میں نہایت ہی ظالمانہ طورپر بنی خزاعہ کا خون بہایااور کفارقریش نے بھی اس قتل و غارت اور کشت و خون میں خوب خوب حصہ لیا۔ مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ، ج۲، ص۲۸۱، ۲۸۲ملخصاً (زرقانی ج ۲ ص ۲۸۹)
ظاہر ہے کہ قریش نے اپنی اس حرکت سے حدیبیہ کے معاہدہ کو عملی طورپر توڑ ڈالا۔ کیونکہ بنی خزاعہ رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّوصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے معاہدہ کرکے آپ کے حلیف بن چکے تھے، اس لئے بنی خزاعہ پر حملہ کرنا، یہ رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّوصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر حملہ کرنے کے برابر تھا۔ اس حملہ میں بنی خزاعہ کے تیئیس(۲۳) آدمی قتل ہوگئے۔
اس حادثہ کے بعد قبیلۂ بنی خزاعہ کے سردار عمروبن سالم خزاعی چالیس آدمیوں کا وفد لے کر فریاد کرنے اور امدادطلب کرنے کے لئے مدینہ بارگاہ رسالت میں پہنچے اور یہی فتح مکہ کی تمہید ہوئی۔
تاجداردوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے استعانت:
حضرت بی بی میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاکا بیان ہے کہ ایک رات حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکاشانۂ نبوت میں وضو فرمارہے تھے کہ ایک دم بالکل ناگہاں آپ نے بلند آواز سے تین مرتبہ یہ فرمایا کہ لبیک۔ لبیک۔ لبیک۔(میں تمہارے لئے بار بار حاضر ہوں ۔)پھر تین مرتبہ بلند آواز سے آپ نے یہ ارشاد فرمایا کہ نصرت۔نصرت۔ نصرت (تمہیں مدد مل گئی) جب آپ وضو خانہ سے نکلے تو میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !(عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) آپ تنہائی میں کس سے گفتگو فرمارہے تھے؟ تو ارشاد فرمایا کہ اے میمونہ!رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاغضب ہوگیا۔ میرے حلیف بنی خزاعہ پر بنی بکر اور کفارقریش نے حملہ کردیا ہے اور اس مصیبت و بے کسی کے وقت میں بنی خزاعہ نے وہاں سے چلا چلاکر مجھے مدد کے لئے پکارا ہے اور مجھ سے مدد طلب کی ہے اور میں نے ان کی پکار سن کر ان کی ڈھارس بندھانے کے لئے ان کو جواب دیا ہے۔ حضرت بی بی میمونہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاکہتی ہیں کہ اس واقعہ کے تیسرے دن جب حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنمازفجر کے لئے مسجد میں تشریف لے گئے اور نماز سے فارغ ہوئے تو دفعۃًبنی خزاعہ کے مظلومین نے رجز کے ان اشعار کو بلند آواز سے پڑھنا شروع کردیا اور حضورِ اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور اصحاب کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمنے ان کی اس پردرد اور رقت انگیز فریاد کو بغور سنا۔ آپ بھی اس رجز کے چند اشعار کو ملاحظہ فرمایئے :
یَا رَبِّ اِنِّیْ نَاشِدٌ مُحَمَّدًاحِلْفَ اَبِیْنَا وَاَبِیْہِ الْاَتْلَدًا
اے خدا!میں محمد(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو وہ معاہدہ یاد دلاتا ہوں جو ہمارے اور ان کے باپ داداؤں کے درمیان قدیم زمانے سے ہوچکا ہے۔
فَانْصُرْ ھَدَاکَ اللہ نَصْرًا اَبَّدَا وَادْعُ عِبَادَ اﷲ یَاتُوْا مَدَّدَا
تو خدا آپ کو سیدھی راہ پر چلائے۔ آپ ہماری بھرپور مدد کیجئے اور خدا کے بندوں کو بلائیے۔ وہ سب امداد کے لئے آئیں گے۔
فِیْھِمْ رَسُوْلُ اللہ قَدْ تجَردَا اِنْ سِیْمَ خَسْفًا وَجْھُہٗ تَرَبَّدَا
ان مدد کرنے والوں میں رسول اللہ(عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) بھی غضب کی حالت میں ہوں کہ اگر انہیں ذلت کا داغ لگے تو ان کا تیور بدل جائے۔ ھُمْ بَیَّتُوْنَا بِالْوَتِیْرِ ھُجَّدًا وَ قَتَلُوْنَا رُکَّعًا وَّسُجَّدًا
ان لوگوں (بنی بکر و قریش) نے ’’مقام و تیر‘‘ میں ہم سوتے ہوؤں پر شب خون مارا اور رکوع و سجدہ کی حالت میں بھی ہم لوگوں کو بیدردی کے ساتھ قتل کر ڈالا۔ اِنَّ قُرَیْشًا اَخْلَفُوْکَ الْمَوْعِدَاوَنَقَّضُوْامِیْثَاقَکَالْمُؤَکَّدَا
یقینا قریش نے آپ سے وعدہ خلافی کی ہے اور آپ سے مضبوط معاہدہ کرکے توڑ ڈالا ہے۔
ان اشعار کو سن کر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان لوگوں کو تسلی دی اور فرمایا کہ مت گھبراؤ میں تمہاری امداد کے لئے تیار ہوں( المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۳۸۰، ۳۸۲) (زرقانی ج ۲ ص ۲۹۰)
حضورﷺ کی امن پسندی:
اس کے بعد حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے قریش کے پاس قاصد بھیجا اور تین شرطیں پیش فرمائیں کہ ان میں سے کوئی ایک شرط قریش منظور کرلیں :
(۱)بنی خزاعہ کے مقتولوں کا خون بہادیا جائے۔
(۲)قریش قبیلہ بنی بکر کی حمایت سے الگ ہوجائیں ۔
(۳)اعلان کردیا جائے کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔
جب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قاصد نے ان شرطوں کو قریش کے سامنے رکھا تو قرطہ بن عبد عمرنے قریش کا نمائندہ بن کر جواب دیا کہ ’’نہ ہم مقتولوں کے خون کا معاوضہ دیں گے نہ اپنے حلیف قبیلہ بنی بکر کی حمایت چھوڑیں گے۔ ہاں تیسری شرط ہمیں منظور ہے اور ہم اعلان کرتے ہیں کہ حدیبیہ کا معاہدہ ٹوٹ گیا۔‘‘ لیکن قاصد کے چلے جانے کے بعد قریش کو اپنے اس جواب پر ندامت ہوئی۔ چنانچہ چند رؤسائے قریش ابوسفیان کے پاس گئے اور یہ کہا کہ اگر یہ معاملہ نہ سلجھا تو پھر سمجھ لو کہ یقینا محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) ہم پر حملہ کردیں گے۔ ابوسفیان نے کہا کہ میری بیوی ہندبنت عتبہ نے ایک خواب دیکھا ہے کہ مقام ’’ حجون ‘‘ سے مقام ’’خندمہ‘‘ تک ایک خون کی نہر بہتی ہوئی آئی ہے، پھر ناگہاں وہ خون غائب ہوگیا۔ قریش نے اس خواب کو بہت ہی منحوس سمجھا اور خوف و دہشت سے سہم گئے اور ابوسفیان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا کہ وہ فوراً مدینہ جاکر معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کرے۔ ( المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۳۸۴) (زرقانی ج۲ ص ۲۹۲)
ابوسفیان کی کوشش:
اس کے بعد بہت تیزی کے ساتھ ابوسفیان مدینہ گیا اور پہلے اپنی لڑکی حضرت اُم المؤمنین بی بی ام حبیبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاکے مکان پر پہنچااور بستر پر بیٹھنا ہی چاہتا تھا کہ حضرتِ بی بی اُمِ حبیبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَانے جلدی سے بستر اٹھا لیا ابوسفیان نے حیران ہوکر پوچھا کہ بیٹی تم نے بستر کیوں اٹھالیا؟ کیا بستر کو میرے قابل نہیں سمجھا یا مجھ کو بستر کے قابل نہیں سمجھا؟ اُم المؤمنین نے جواب دیا کہ یہ رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّوصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا بستر ہے اور تم مشرک اور نجس ہو۔ اس لئے میں نے یہ گوارا نہیں کیا کہ تم رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے بستر پر بیٹھو۔ یہ سن کر ابوسفیان کے دل پر چوٹ لگی اور وہ رنجیدہ ہوکر وہاں سے چلا آیا اور رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی خدمت میں حاضر ہوکر اپنا مقصد بیان کیا۔ آپ نے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر ابوسفیان حضرت ابوبکر صدیق و حضرت عمر وحضرت علی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کے پاس گیا۔ ان سب حضرات نے جواب دیا کہ ہم کچھ نہیں کرسکتے۔ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کے پاس جب ابوسفیان پہنچا تو وہاں حضرت بی بی فاطمہ اور حضرت امام حسن رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمابھی تھے۔ ابوسفیان نے بڑی لجاجت سے کہا کہ اے علی!تم قوم میں بہت ہی رحم دل ہو ہم ایک مقصد لے کر یہاں آئے ہیں کیا ہم یوں ہی ناکام چلے جائیں۔ ہم صرف یہی چاہتے ہیں کہ تم محمد(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) سے ہماری سفارش کردو۔ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے فرمایا کہ اے ابوسفیان!ہم لوگوں کی یہ مجال نہیں ہے کہ ہم حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ارادہ اور ان کی مرضی میں کوئی مداخلت کرسکیں ۔ ہر طرف سے مایوس ہوکر ابوسفیان نے حضرت فاطمہ زہراء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاسے کہا کہاے فاطمہ!یہ تمہارا پانچ برس کا بچہ(امام حسن) ایک مرتبہ اپنی زبان سے اتنا کہہ دے کہ میں نے دونوں فریق میں صلح کرا دی تو آج سے یہ بچہ عرب کا سردار کہہ کر پکارا جائے گا۔ حضرت بی بی فاطمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَانے جواب دیا کہ بچوں کو ان معاملات میں کیا دخل؟ بالآخر ابوسفیان نے کہا کہ اے علی!معاملہ بہت کٹھن نظر آتا ہے کوئی تدبیر بتاؤ؟ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے فرمایا کہ میں اس سلسلے میں تم کو کوئی مفید رائے تو نہیں دے سکتا، لیکن تم بنی کنانہ کے سردار ہو تم خود ہی لوگوں کے سامنے اعلان کردو کہ میں نے حدیبیہ کے معاہدہ کی تجدید کردی ابوسفیان نے کہا کہ کیا میرا یہ اعلان کچھ مفید ہوسکتا ہے؟ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے فرمایا کہ یک طرفہ اعلان ظاہر ہے کہ کچھ مفید نہیں ہوسکتا۔ مگر اب تمہارے پاس اس کے سوا اور چارۂ کار ہی کیا ہے؟ ابوسفیان وہاں سے مسجد نبوی میں آیا اور بلند آواز سے مسجد میں اعلان کردیا کہ میں نے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کردی مگر مسلمانوں میں سے کسی نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔
ابوسفیان یہ اعلان کرکے مکہ روانہ ہوگیا جب مکہ پہنچا تو قریش نے پوچھا کہ مدینہ میں کیا ہوا؟ ابوسفیان نے ساری داستان بیان کردی۔ تو قریش نے سوال کیا کہ جب تم نے اپنی طرف سے معاہدہ حدیبیہ کی تجدید کا اعلان کیا تو کیا محمد (صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے اس کو قبول کرلیا؟ ابوسفیان نے کہا کہ ’’نہیں ‘‘ یہ سن کر قریش نے کہا کہ یہ تو کچھ بھی نہ ہوا۔ یہ نہ تو صلح ہے کہ ہم اطمینان سے بیٹھیں نہ یہ جنگ ہے کہ لڑائی کا سامان کیا جائے۔( المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۳۸۵۔۳۸۶) (زرقانی ج۲ ص ۲۹۲تا ص ۲۹۳)
اس کے بعد حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے لوگوں کو جنگ کی تیاری کا حکم دے دیا اور حضرت بی بی عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاسے بھی فرما دیا کہ جنگ کے ہتھیار درست کریں اور اپنے حلیف قبائل کو بھی جنگی تیاریوں کے لئے حکم نامہ بھیج دیا۔ مگر کسی کو حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ نہیں بتایا کہ کس سے جنگ کا ارادہ ہے؟ یہاں تک کہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ سے بھی آپ نے کچھ نہیں فرمایا۔ چنانچہ حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ حضرت بی بی عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاکے پاس آئے اور دیکھا کہ وہ جنگی ہتھیاروں کو نکال رہی ہیں تو آپ نے دریافت کیا کہ کیا حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حکم دیا ہے؟ عرض کیا : ’’جی ہاں ‘‘ پھر آپ نے پوچھا کہ کیا تمہیں کچھ معلوم ہے کہ کہاں کا ارادہ ہے؟ حضرت بی بی عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَانے کہا کہ ’’واللہ ! مجھے یہ معلوم نہیں ) المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۳۸۱، ۳۸۲) (زرقانی ج۲ ص ۲۹۱)
غرض انتہائی خاموشی اور رازداری کے ساتھ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے جنگ کی تیاری فرمائی اور مقصد یہ تھا کہ اہل مکہ کو خبر نہ ہونے پائے اور اچانک ان پر حملہ کردیا جائے۔
حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کا خط:
حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ جو ایک معزز صحابی تھے انہوں نے قریش کو ایک خط اس مضمون کا لکھدیا کہ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجنگ کی تیاریاں کررہے ہیں ، لہٰذا تم لوگ ہوشیار ہوجاؤ۔ اس خط کو انہوں نے ایک عورت کے ذریعہ مکہ بھیجا۔ اللہ تَعَالٰینے اپنے حبیب صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو علم غیب عطا فرمایا تھا۔ آپ نے اپنے اس علم غیب کی بدولت یہ جان لیا کہ حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے کیا کارروائی کی ہے۔ چنانچہ آپ نے حضرت علی و حضرت زبیر و حضرت مقداد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم کو فوراً ہی روانہ فرمایا کہ تم لوگ ’’روضۂ خاخ‘‘ میں چلے جاؤ۔ وہاں ایک عورت ہے اور اس کے پاس ایک خط ہے۔ اس سے وہ خط چھین کر میرے پاس لاؤ۔ چنانچہ یہ تینوں اصحاب کبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم تیزرفتار گھوڑوں پر سوار ہوکر ’’روضۂ خاخ‘‘ میں پہنچے اور عورت کو پالیا۔ جب اس سے خط طلب کیا تو اس نے کہا کہ میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے فرمایا کہ خدا کی قسم!رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّوصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکبھی کوئی جھوٹی بات نہیں کہہ سکتے، نہ ہم لوگ جھوٹے ہیں لہٰذا تو خط نکال کر ہمیں دے دے ورنہ ہم تجھ کو ننگی کرکے تلاشی لیں گے۔ جب عورت مجبور ہوگئی تو اس نے اپنے بالوں کے جوڑے میں سے وہ خط نکال کر دے دیا۔ جب یہ لوگ خط لے کر بارگاہ رسالت میں پہنچے تو آپ نے حضرت حاطب بن ابی بَلْتَعَہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو بلایا اور فرمایا کہ اےحاطب!یہ تم نے کیا کیا؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! (عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) آپ میرے بارے میں جلدی نہ فرمائیں نہ میں نے اپنا دین بدلا ہے نہ مرتد ہوا ہوں میرے اس خط کے لکھنے کی وجہ صرف یہ ہے کہ مکہ میں میرے بیوی بچے ہیں ۔ مگر مکہ میں میرا کوئی رشتہ دار نہیں ہے جو میرے بیوی بچوں کی خبرگیری و نگہداشت کرے میرے سوا دوسرے تمام مہاجرین کے عزیزواقارب مکہ میں موجود ہیں جو ان کے اہل و عیال کی دیکھ بھال کرتے رہتے ہیں ۔ اس لئے میں نے یہ خط لکھ کر قریش پر ایک اپنا احسان رکھ دیا ہے تاکہ میں ان کی ہمدردی حاصل کرلوں اور وہ میرے اہل و عیال کے ساتھ کوئی برا سلوک نہ کریں ۔ یارسول اللہ ! (عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)میرا ایمان ہے کہ اللہ تَعَالٰیضروران کافروں کو شکست دے گا اور میرے اس خط سے کفار کو ہرگز ہرگز کوئی فائدہ نہیں ہوسکتا۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت حاطب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کے اس بیان کو سن کر ان کے عذرکو قبول فرما لیا مگر حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ اس خط کو دیکھ کر اس قدر طیش میں آگئے کہ آپے سے باہر ہوگئے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ !(عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) مجھے اجازت دیجیے کہ میں اس منافق کی گردن اڑا دوں ۔ دوسرے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمبھی غیظ و غضب میں بھر گئے۔ لیکن رحمت عالم صَلَّیاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی جبینِ رحمت پر اک ذرا شکن بھی نہیں آئی اور آپ نے حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ سے ارشاد فرمایا کہ اے عمر!رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَکیا تمہیں خبر نہیں کہ حاطب اہل بدر میں سے ہے اور اللہ تَعَالٰینے اہل بدر کو مخاطب کرکے فرمادیا ہے کہ ’’تم جو چاہو کرو۔ تم سے کوئی مواخذہ نہیں ‘‘ یہ سن کر حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کی آنکھیں نم ہوگئیں اور وہ یہ کہہ کر بالکل خاموش ہوگئے کہ’’ اللہ اور اس کے رسول کو ہم سب سے زیادہ علم ہے‘‘ اسی موقع پر قرآن کی یہ آیت نازل ہوئی کہ
یٰۤاَیُّهَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَ عَدُوَّكُمْ اَوْلِیَآءَ (پ۲۸، الممتحنۃ : ۱)
اے ایمان والو!میرے اور اپنے دشمن کافروں کو دوست نہ بناؤ۔
بہرحال حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت حاطب بن ابی بلتعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو معاف فرما دیاصحیح البخاری، کتاب المغازی، باب غزوۃ الفتح، الحدیث : ۴۲۷۴، ج۳، ص۹۹المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۳۷۸۔۳۹۱بخاری ج ۲ ص ۶۱۲غزوۂ الفتح)
حاطب بن ابی بلتعہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو معاف فرما دیا۔([2])(بخاری ج ۲ ص ۶۱۲غزوۂ الفتح)
مکہ پر حملہ:
غرض ۱۰ رمضان ۸ ھ کو رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمدینہ سے دس ہزار کا لشکرِ پرانوار ساتھ لے کر مکہ کی طرف روانہ ہوئے۔ بعض روایتوں میں ہے کہ فتح مکہ میں آپ کے ساتھ بارہ ہزار کا لشکر تھا ان دونوں روایتوں میں کوئی تعارض نہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ مدینہ سے روانگی کے وقت دس ہزار کا لشکر رہا ہو۔ پھر راستہ میں بعض قبائل اس لشکر میں شامل ہوگئے ہوں تو مکہ پہنچ کر اس لشکر کی تعداد بارہ ہزار ہوگئی ہو۔ بہرحال مدینہ سے چلتے وقت حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاور تمام صحابہ کبار رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم روزہ دار تھے جب آپ ’’مقام کدید‘‘ میں پہنچے تو پانی مانگا اور اپنی سواری پر بیٹھے ہوئے پورے لشکر کو دکھاکر آپ نے دن میں پانی نوش فرمایا اور سب کو روزہ چھوڑ دینے کا حکم دیا۔ چنانچہ آپ اور آپ کے اصحاب نے سفر اور جہاد میں ہونے کی وجہ سے روزہ رکھنا موقوف کردیا۔(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۳۹۵، ۳۹)٫ (بخاری ج۲ ص ۶۱۳ و زرقانی ج۲ ص۳۰۰و سیرت ابن ہشام ج۲ص۴۰۰)
حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ وغیرہ سے ملاقات:
جب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمقام ’’جحفہ‘‘ میں پہنچے تو وہاں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچا حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ اپنے اہل و عیال کے ساتھ خدمت اقدس میں حاضر ہوئے۔ یہ مسلمان ہوکر آئے تھے بلکہ اس سے بہت پہلے مسلمان ہوچکے تھے اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مرضی سے مکہ میں مقیم تھے اور حجاج کو زمزم پلانے کے معزز عہدہ پر فائز تھے اور آپ کے ساتھ میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچا حارث بن عبدالمطلب کے فرزند جن کا نام بھی ابوسفیان تھا اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پھوپھی زاد بھائی عبداللہ بن ابی امیہ جواُم المؤمنین حضرت بی بی اُمِ سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاکے سوتیلے بھائی بھی تھے بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے ان دونوں صاحبوں کی حاضری کا حال جب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو معلوم ہوا تو آپ نے ان دونوں صاحبوں کی ملاقات سے انکار فرما دیا۔ کیونکہ ان دونوں نے حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو بہت زیادہ ایذائیں پہنچائی تھیں ۔ خصوصاً ابوسفیان بن الحارث آپ کے چچازاد بھائی جو اعلان نبوت سے پہلے آپ کے انتہائی جاں نثاروں میں سے تھے مگر اعلان نبوت کے بعد انہوں نے اپنے قصیدوں میں اتنی شرمناک اور بیہودہ ہجو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی کر ڈالی تھی کہ آپ کا دل زخمی ہوگیا تھا۔ اس لئے آپ ان دونوں سے انتہائی ناراض و بیزار تھے مگر حضرت بی بی ام سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَانے ان دونوں کا قصور معاف کرنے کے لئے بہت ہی پرزور سفارش کی اور ابوسفیان بن الحارث نے یہ کہہ دیا کہ اگر رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّوصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے میرا قصور نہ معاف فرمایا تو میں اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کو لے کر عرب کے ریگستان میں چلا جاؤں گا تاکہ وہاں بغیر دانہ پانی کے بھوک پیاس سے تڑپ تڑپ کر میں اور میرے سب بچے مر کر فنا ہوجائیں ۔ حضرت بی بی اُمِ سلمہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَانے بارگاہ رسالت میں آبدیدہ ہوکر عرض کیا کہ یارسول اللہ ! (عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کیا آپ کے چچا کا بیٹا اور آپ کی پھوپھی کا بیٹا تمام انسانوں سے زیادہ بدنصیب رہے گا؟ کیا ان دونوں کو آپ کی رحمت سے کوئی حصہ نہیں ملے گا؟ جان چھڑکنے والی بیوی کے ان درد انگیز کلمات سے رحمۃ للعالمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے رحمت بھرے دل میں رحم و کرم اور عفوودرگزر کے سمندر موجیں مارنے لگے۔ پھر حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے ان دونوں کو یہ مشورہ دیا کہ تم دونوں اچانک بارگاہ رسالت میں سامنے جاکر کھڑے ہوجاؤ اور جس طرح حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلام کے بھائیوں نے کہا تھا وہی تم دونوں بھی کہو کہ
قَالُوْا تَاللّٰهِ لَقَدْ اٰثَرَكَ اللّٰهُ عَلَیْنَا وَ اِنْ كُنَّا لَخٰطِـٕیْنَ(پ۱۳،یوسف:۹۱)
کہ یقینا آپ کو اللہ تَعَالٰینے ہم پر فضیلت دی ہے اور ہم بلاشبہ خطاوار ہیں ۔
چنانچہ ان دونوں صاحبوں نے درباررسالت میں ناگہاں حاضر ہوکر یہی کہا۔ ایک دم رحمت عالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی جبینِ رحمت پر رحم و کرم کے ہزاروں ستارے چمکنے لگے اور آپ نے ان کے جواب میں بعینہٖ وہی جملہ اپنی زبانِ رحمت نشان سے ارشاد فرمایا جو حضرت یوسف عَلَیْہِ السَّلام نے اپنے بھائیوں کے جواب میں فرمایا تھاکہ
تَثْرِیْبَ عَلَیْكُمُ الْیَوْمَؕ-یَغْفِرُ اللّٰهُ لَكُمْ٘-وَ هُوَ اَرْحَمُ الرّٰحِمِیْنَ(پ۱۳،یوسف:۹۲)
آج تم سے کوئی مواخذہ نہیں ہے اللہ تمہیں بخش دے۔وہ ارحم الر احمین ہے
جب قصور معاف ہوگیا تو ابوسفیان بن الحارث رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے تاجدار دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مدح میں اشعار لکھے اور زمانہ جاہلیت کے دور میں جو کچھ آپ کی ہجو میں لکھا تھا اس کی معذرت کی اور اس کے بعد عمر بھر نہایت سچے اور ثابت قدم مسلمان رہے مگر حیاء کی و جہ سے رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سامنے کبھی سر نہیں اٹھاتے تھے اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَبھی ان کے ساتھ بہت زیادہ محبت رکھتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ مجھے امید ہے کہ ابوسفیان بن الحارث میرے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کے قائم مقام ثابت ہوں گے۔ ( المواھب اللدنیۃمع شرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۳۹۹۔۴۰۲ (زرقانی ج ۲ص ۳۰۱ تا ص ۳۰۲و سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۴۰۰)
میلوں تک آگ ہی آگ:
مکہ سے ایک منزل کے فاصلہ پر ’’مرالظہران‘‘ میں پہنچ کر اسلامی لشکر نے پڑاؤ ڈالا اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فوج کو حکم دیا کہ ہر مجاہد اپنا الگ الگ چولہا جلائے۔ دس ہزار مجاہدین نے جو الگ الگ چولہے جلائے تو ’’مرالظہران‘‘ کے پورے میدان میں میلوں تک آگ ہی آگ نظر آنے لگی۔المواھب اللدنیۃ وشرح الزرقانی،باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳،ص۴۰۳)
قریش کے جاسوس:
گو قریش کو معلوم ہی ہوچکا تھا کہ مدینہ سے فوجیں آرہی ہیں ۔ مگر صورت حال کی تحقیق کے لئے قریش نے ابوسفیان بن حرب، حکیم بن حزام و بدیل بن ورقاء کو اپنا جاسوس بناکر بھیجا۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ بے حد فکرمند ہوکر قریش کے انجام پر افسوس کررہے تھے۔ وہ یہ سوچتے تھے کہ اگر رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاتنے عظیم لشکر کے ساتھ مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے تو آج قریش کا خاتمہ ہوجائے گا۔ چنانچہ
وہ رات کے وقت رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے سفید خچر پر سوار ہوکر اس ارادہ سے مکہ چلے کہ قریش کو اس خطرہ سے آگاہ کرکے انہیں آمادہ کریں کہ چل کر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے معافی مانگ کر صلح کرلو ورنہ تمہاری خیر نہیں ۔ ( السیرۃ النبویۃلابن ھشام، اسلام ابی سفیان بن الحارث۔۔۔الخ، ص۴۶۸، ۴۶۹ ملخصاً والمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۰۳) (زرقانی ج ۲ص ۳۰۴)
مگر بخاری کی روایت میں ہے کہ قریش کو یہ خبر تو مل گئی تھی کہ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمدینہ سے روانہ ہوگئے ہیں مگر انہیں یہ پتا نہ تھا کہ آپ کا لشکر ’’مرالظہران‘‘ تک آگیا ہے۔ اس لئے ابوسفیان بن حرب اور حکیم بن حزام و بدیل بن ورقاء اس تلاش و جستجو میں نکلے تھے کہ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا لشکر کہاں ہے؟ جب یہ تینوں ’’مرالظہران‘‘ کے قریب پہنچے تو دیکھا کہ میلوں تک آگ ہی آگ جل رہی ہے یہ منظر دیکھ کر یہ تینوں حیران رہ گئے اور ابوسفیان بن حرب نے کہا کہ میں نے تو زندگی میں کبھی اتنی دور تک پھیلی ہوئی آگ اس میدان میں جلتے ہوئے نہیں دیکھی۔ آخر یہ کون سا قبیلہ ہے؟بدیل بن ورقاء نے کہا کہ بنی عمرومعلوم ہوتے ہیں ۔ ابوسفیان نے کہا کہ نہیں بنی عمرو اتنی کثیرتعداد میں کہاں ہیں جو ان کی آگ سے ’’مرالظہران‘‘ کا پورا میدان بھر جائے گا۔(صحیح البخاری، کتاب المغازی ، باب این رکز النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث : ۴۲۸۰، ج۳، ص۱۰۱ )٫(بخاری ج۲ص ۶۱۳)
بہرحال حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کی ان تینوں سے ملاقات ہوگئی اور ابوسفیان نے پوچھا کہ اے عباس!تم کہاں سے آرہے ہو؟ اوریہ آگ کیسی ہے؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّے فرمایا کہ یہ رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّوصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے لشکر کی آگ ہے۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے ابوسفیان بن حرب سے کہا کہ تم میرے خچر پر پیچھے سوار ہوجاؤ ورنہ اگر مسلمانوں نے تمہیں دیکھ لیا تو ابھی تم کو قتل کرڈالیں گے۔ جب یہ لوگ لشکرگاہ میں پہنچے تو حضرت عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ اور دوسرے چند مسلمانوں نے جو لشکرگاہ کا پہرہ دے رہے تھے۔ ابوسفیان کو دیکھ لیا۔ حضرت عمررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ اپنے جذبہ انتقام کو ضبط نہ کرسکے اور ابوسفیان کو دیکھتے ہی ان کی زبان سے نکلا کہ ’’ارے یہ تو خدا کا دشمن ابوسفیان ہے۔‘‘ دوڑتے ہوئے بارگاہ رسالت میں پہنچے اور عرض کیا کہ یارسول اللہ ! (عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)ابوسفیان ہاتھ آگیا ہے۔ اگراجازت ہوتو ابھی اس کا سر اڑا دوں ۔ اتنے میں حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ بھی ان تینوں مشرکوں کو ساتھ لئے ہوئے دربار رسول میں حاضر ہوگئے اور ان لوگوں کی جان بخشی کی سفارش پیش کردی اور یہ کہا کہ یارسول اللہ !(عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) میں نے ان سبھوں کو امان دے دی ہے۔ مدارج النبوت، قسم سوم، باب ہفتم، فتح مکہ، ج۲، ص۲۸۱، ۲۸۲ وشرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۱۸ مختصراً
ابوسفیان کا اسلام:
ابوسفیان بن حرب کی اسلام دشمنی کوئی ڈھکی چھپی چیز نہیں تھی۔ مکہ میں رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو سخت سے سخت ایذائیں دینی، مدینہ پر بار بار حملہ کرنا، قبائل عرب کو اشتعال دلاکر حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قتل کی بارہا سازشیں ، یہودیوں اور تمام کفارعرب سے سازباز کرکے اسلام اور بانی اسلام کے خاتمہ کی
کوششیں یہ وہ ناقابل معافی جرائم تھے جو پکار پکار کرکہہ رہے تھے کہ ابوسفیان کا قتل بالکل درست و جائز اور برمحل ہے۔ لیکن رسول کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجن کو قرآن نے ’’رء وف و رحیم‘‘ کے لقب سے یاد کیا ہے۔ ان کی رحمت چمکارچمکار کر ابوسفیان کے کان میں کہہ رہی تھی کہ اے مجرم!مت ڈر۔ یہ دنیا کے سلاطین کا دربار نہیں ہے بلکہ یہ رحمۃ للعالمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی بارگاہ رحمت ہے۔ بخاری شریف کی روایت تویہی ہے کہ ابوسفیان بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے تو فوراً ہی اسلام قبول کرلیا۔ اس لئے جان بچ گئی۔ ( صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث : ۴۲۸۰، ج۳، ص۱۰۱) (بخاری ج۲ ص ۶۱۳باب این رکزالنبی رایۃ)
مگر ایک روایت یہ بھی ہے کہ حکیم بن حزام اور بدیل بن ورقاء نے تو فوراً رات ہی میں اسلام قبول کرلیا مگر ابوسفیان نے صبح کو کلمہ پڑھا.(اشرحالزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۰۵) (زرقانی ج ۲ص۳۰۴)
اور بعض روایات میں یہ بھی آیا ہے کہ ابوسفیان اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے درمیان ایک مکالمہ ہوا اس کے بعد ابوسفیان نے اپنے اسلام کا اعلان کیا۔ وہ مکالمہ یہ ہے :
رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : کیوں اے ابوسفیان!کیا اب بھی تمہیں یقین نہ آیا کہ خدا ایک ہے؟
ابوسفیان : کیوں نہیں کوئی اورخداہوتاتوآج ہمارے کام آتا ۔
رسول اکرم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ : کیا اس میں تمہیں کوئی شک ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں ؟
ابوسفیان : ہاں ! اس میں تو ابھی مجھے کچھ شبہ ہے۔
مگر پھر اس کے بعد انہوں نے کلمہ پڑھ لیا اور اس وقت گو ان کا ایمان متزلزل تھا لیکن بعد میں بالآخر وہ سچے مسلمان بن گئے۔چنانچہ غزوۂ طائف میں مسلمانوں کی فوج میں شامل ہوکر انہوں نے کفار سے جنگ کی اور اسی میں ان کی ایک آنکھ زخمی ہوگئی۔ پھر یہ جنگ یرموک میں بھی جہاد کے لئے گئے۔ ( السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، اسلام ابی سفیان بن الحارث۔۔۔الخ، ص۴۶۹ ملخصاً)
لشکراسلام کا جاہ و جلال:
مجاہدین اسلام کا لشکر جب مکہ کی طرف بڑھا تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ سے فرمایا کہ آپ ابوسفیان کو کسی ایسے مقام پر کھڑا کردیں کہ یہ افواج الٰہی کا جلال اپنی آنکھوں سے دیکھ لے۔ چنانچہ جہاں راستہ کچھ تنگ تھا ایک بلند جگہ پر حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے ابوسفیان کو کھڑا کردیا۔ تھوڑی دیر کے بعد اسلامی لشکر سمندر کی موجوں کی طرح امنڈتا ہوا روانہ ہوا۔ اور قبائل عرب کی فوجیں ہتھیار سج سج کریکے بعد دیگرے ابوسفیان کے سامنے سے گزرنے لگیں ۔ سب سے پہلے قبیلۂ غفار کا باوقار پرچم نظر آیا۔ ابوسفیان نے سہم کر پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں ؟ حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے کہا کہ یہ قبیلہ غفار کے شہسوار ہیں ۔ ابوسفیان نے کہا کہ مجھے قبیلہ غفار سے کیا مطلب ہے؟ پھر جہینہ پھر سعد بن ھذیم، پھر سلیم کے قبائل کی فوجیں زرق برق ہتھیاروں میں ڈوبے ہوئے پرچم لہراتے اور تکبیر کے نعرے مارتے ہوئے سامنے سے نکل گئے۔ ابوسفیان ہر فوج کا جلال دیکھ کر مرعوب ہوہو جاتے تھے اورحضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ سے ہر فوج کے بارے میں پوچھتے جاتے تھے کہ یہ کون ہیں ؟ یہ کن لوگوں کا لشکر ہے؟ اس کے بعد انصار کا لشکر پرانوار اتنی عجیب شان اور ایسی نرالی آن بان سے چلا کہ دیکھنے والوں کے دل دہل گئے۔ ابوسفیان نے اس فوج کی شان و شوکت سے حیران ہوکر کہا کہ اے عباس!یہ کون لوگ ہیں ؟ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّے فرمایا کہ یہ ’’انصار‘‘ ہیں ناگہاں انصار کے علمبردار حضرت سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ جھنڈا لئے ہوئے ابوسفیان کے قریب سے گزرے اور جب ابوسفیان کو دیکھا تو بلند آواز سے کہا کہ اے ابوسفیان! اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃِ الْیَوْمَ تُسْتَحَلُّ الْکَعْبَۃُ آج گھمسان کی جنگ کا دن ہے۔ آج کعبہ میں خونریزی حلال کر دی جائے گی۔
ابوسفیان یہ سن کر گھبرا گئے اور حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ سے کہا کہ اے عباس!سن لو! آج قریش کی ہلاکت تمہیں مبارک ہو۔ پھر ابوسفیان کو چین نہیں آیا تو پوچھا کہ بہت دیر ہوگئی۔ ابھی تک میں نے محمد(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کو نہیں دیکھا کہ وہ کون سے لشکر میں ہیں !اتنے میں حضور تاجدارِدوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپرچم نبوت کے سائے میں اپنے نورانی لشکر کے ہمراہ پیغمبرانہ جاہ و جلال کے ساتھ نمودار ہوئے۔ ابوسفیان نے جب شہنشاہ کونینصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو دیکھا تو چلاکر کہا کہ اے حضور!کیا آپ نے سنا کہ سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَکیا کہتے ہوئے گئے ہیں ؟ارشاد فرمایا کہ انہوں نے کیا کہا ہے؟ ابوسفیان بولے کہ انہوں نے یہ کہا ہے کہ آج کعبہ حلال کردیا جائے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا کہ سعد بن عبادہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّے غلط کہا، آج تو کعبہ کی عظمت کا دن ہے۔ آج تو کعبہ کو لباس پہنانے کا دن ہے اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے اتنی غلط بات کیوں کہہ دی۔ آپ نے ان کے ہاتھ سے جھنڈا لے کر ان کے بیٹے قیس بن سعد رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کے ہاتھ میں دے دیا۔
اور ایک روایت میں یہ ہے کہ جب ابوسفیان نے بارگاہ رسول میں یہ شکایت کی کہ یارسول اللہ !عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَابھی ابھی سعد بن عبادہ یہ کہتے ہوئے گئے ہیں کہ اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَلْحَمَۃ آج گھمسان کی لڑائی کا دن ہے۔
تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے خفگی کا اظہار فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ سعد بن عبادہ نے غلط کہا، بلکہ اے ابوسفیان! اَلْیَوْمَ یَوْمُ الْمَرْحَمَۃ آج کا دن تو رحمت کا دن ہے ) المواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۰۵۔۴۰۹، ۴۱۲) (زرقانی ج۲ص ۳۰۶)
پھر فاتحانہ شان و شوکت کے ساتھ بانی کعبہ کے جانشین حضور رحمۃ للعالمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مکہ کی سرزمین میں نزول اجلال فرمایا اور حکم دیا کہ میرا جھنڈا مقام ’’حجون‘‘ کے پاس گاڑا جائے اور حضرت خالد بن ولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کے نام فرمان جاری فرمایا کہ وہ فوجوں کے ساتھ مکہ کے بالائی حصہ یعنی ’’کداء‘‘ کی طرف سے مکہ میں داخل ہوں ۔ (، صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث : ۴۲۸۰، ج۳، ص۱۰۱، ۱۰۲ملخصاً) (بخاری ج ۲ ص ۶۱۳ باب این رکزالنبی رایۃ و زرقانی ج۲ ص ۳۰۴ تا ص ۳۰۶)
فاتح مکہ کا پہلا فرمان:
تاجدار دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مکہ کی سرزمین میں قدم رکھتے ہی جو پہلا فرمان جاری فرمایا وہ یہ اعلان تھا کہ جس کے لفظ لفظ میں رحمتوں کے دریا موجیں مار رہے ہیں :
’’جو شخص ہتھیار ڈال دے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو شخص اپنا دروازہ بند کر لے گا اس کے لئے امان ہے۔
جو کعبہ میں داخل ہوجائے گا اس کے لئے امان ہے۔‘‘
اس موقع پر حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَابوسفیان ایک فخرپسند آدمی ہے اس کے لئے کوئی ایسی امتیازی بات فرما دیجئے کہ اس کا سر فخر سے اونچا ہوجائے تو آپ نے فرما دیا کہ
’’جوابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔‘‘
اس کے بعد ابوسفیان مکہ میں بلند آواز سے پکار پکار کر اعلان کرنے لگا کہ اے قریش!محمد(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)اتنا بڑا لشکر لے کر آگئے ہیں کہ اس کا مقابلہ کرنے کی کسی میں بھی طاقت نہیں ہے جو ابوسفیان کے گھر میں داخل ہوجائے اس کے لئے امان ہے۔ ابوسفیان کی زبان سے یہ کم ہمتی کی بات سن کر اس کی بیوی ہند بنت عتبہ جل بھن کر کباب ہوگئی اور طیش میں آکر ابوسفیان کی مونچھ پکڑ لی اور چلا کر کہنے لگی کہ اے بنی کنانہ! اس کم بخت کو قتل کردو یہ کیسی بزدلی اور کم ہمتی کی بات بک رہا ہے۔ ہند کی اس چیخ و پکار کی آواز سن کر تمام بنوکنانہ کا خاندان ابوسفیان کے مکان میں جمع ہوگیا اور ابوسفیان نے صاف صاف کہہ دیا کہ اس وقت غصہ اور طیش کی باتوں سے کچھ کام نہیں چل سکتا۔ میں پورے اسلامی لشکر کو اپنی آنکھ سے دیکھ کر آیا ہوں اور میں تم لوگوں کو یقین دلاتا ہوں کہ اب ہم لوگوں سے محمدصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا مقابلہ نہیں ہوسکتا۔ یہ خیریت ہے کہ انہوں نے اعلان کردیا ہے کہ جو ابوسفیان کے مکان میں چلا جائے اس کے لئے امان ہے۔ لہٰذا زیادہ سے زیادہ لوگ میرے مکان میں آکر پناہ لے لیں ۔ ابوسفیان کے خاندان والوں نے کہا کہ تیرے مکان میں بھلا کتنے انسان آسکیں گے؟
ابوسفیان نے بتایا کہ محمد(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) نے ان لوگوں کو بھی امان دے دی ہے جو اپنے دروازے بند کرلیں یا مسجد حرام میں داخل ہوجائیں یا ہتھیار ڈال دیں ۔ ابوسفیان کا یہ بیان سن کر کوئی ابوسفیان کے مکان میں چلا گیا۔ کوئی مسجد حرام کی طرف بھاگا۔ کوئی اپنا ہتھیار زمین پر رکھ کر کھڑا ہوگیا(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۱۷۔۴۲۲ملتقطاً) (زرقانی ج ۲ص ۳۱۳)
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اس اعلان رحمت نشان یعنی مکمل امن و امان کا فرمان جاری کردینے کے بعد ایک قطرہ خون بہنے کا کوئی امکان ہی نہیں تھا۔ لیکن عکرمہ بن ابوجہل و صفوان بن امیہ و سہیل بن عمرو اور جماش بن قیس نے مقام ’’خندمہ‘‘ میں مختلف قبائل کے اوباش کو جمع کیا تھا۔ ان لوگوں نے حضرت خالد بن الولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کی فوج میں سے دو آدمیوں حضرت کرزبن جابر فہری اور حبیش بن اشعر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماکو شہید کردیا اور اسلامی لشکر پر تیر برسانا شروع کردیا۔ بخاری کی روایت میں انہی دو حضرات کی شہادت کا ذکر ہے مگر زرقانی وغیرہ کتابوں سے پتا چلتا ہے کہ تین صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکو کفارقریش نے قتل کردیا۔ دو وہ جواو پر ذکر کئے گئے اور ایک حضرت مسلمہ بن المیلاء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ اور بارہ یا تیرہ کفار بھی مارے گئے اور باقی میدان چھوڑ کر بھاگ نکلے ۔ (۔ صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ ، الحدیث : ۴۲۸۰، ج۳، ص۱۰۱، ۱۰۲وشرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۱۵، ۴۱۶ ملتقطاً) (بخاری ج ۲ ص ۶۱۳ و زرقانی ج ۲ ص ۳۱۰)
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے جب دیکھا کہ تلواریں چمک رہی ہیں تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے دریافت فرمایا کہ میں نے تو خالد بن الولید رَضِیَ اللہتَعَالٰی عَنْہَ کو جنگ کرنے سے منع کردیا تھا۔ پھر یہ تلواریں کیسی چل رہی ہیں ؟ لوگوں نے عرض کیا کہ پہل کفار کی طرف سے ہوئی ہے۔ اس لئے لڑنے کے سوا حضرت خالد بن الولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَکی فوج کے لئے کوئی چارہ کار ہی نہیں رہ گیا تھا۔ یہ سن کر ارشاد فرمایا کہ قضاء الٰہی یہی تھی اور خدا نے جو چاہا وہی بہتر ہے۔ (زرقانی ج ۲ ص ۳۱۰)) المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۱۷)
تاجداردوعالم ﷺ کا مکہ میں داخلہ:
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَجب فاتحانہ حیثیت سے مکہ میں داخل ہونے لگے تو آپ اپنی اونٹنی ’’قصوائ‘‘ پر سوار تھے۔ ایک سیاہ رنگ کا عمامہ باندھے ہوئے تھے اور بخاری میں ہے کہ آپ کے سر پر ’’مغفر‘‘ تھا۔ آپ کے ایک جانب حضرت ابوبکر صدیق اور دوسری جانب اسید بن حضیر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماتھے اور آپ کے چاروں طرف جوش میں بھرا ہوا اور ہتھیاروں میں ڈوبا ہوا لشکر تھا جس کے درمیان کو کبۂ نبوی تھا۔ اس شان و شوکت کو دیکھ کر ابوسفیان نے حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ سے کہا کہ اے عباس! تمہارا بھتیجا تو بادشاہ ہوگیا۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے جواب دیا کہ تیرا برا ہو اے ابوسفیان!یہ بادشاہت نہیں ہے بلکہ یہ ’’نبوت‘‘ ہے۔ اس شاہانہ جلوس کے جاہ و جلال کے باوجود شہنشاہ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی شانِ تواضع کا یہ عالم تھا کہ آپ سورۂ فتح کی تلاوت فرماتے ہوئے اس طرح سرجھکائے ہوئے اونٹنی پر بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ کا سر اونٹنی کے پالان سے لگ لگ جاتا تھا۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی یہ کیفیت تواضع خداوند قدوس کا شکر ادا کرنے اور اس کی بارگاہِ عظمت میں اپنے عجزونیازمندی کا اظہار کرنے کے لئے تھیالمواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۳۲، ۴۳۴) (زرقانی ج ۲ ص ۳۲۰ و ص ۳۲۱)
مکہ میں حضور ﷺ کی قیام گاہ:
بخاری کی روایت ہے کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَفتح مکہ کے دن حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کی بہن حضرت ام ہانی بنت ابی طالب کے مکان پر تشریف لے گئے اور وہاں غسل فرمایاپھر آٹھ رکعت نماز چاشت پڑھی۔ یہ نماز بہت ہی مختصر طورپر ادا فرمائی لیکن رکوع و سجدہ مکمل طورپر ادا فرماتے رہے۔ (بخاری ج۲ ص ۶۱۵ باب منزل النبی یوم الفتح) صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب منزل النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم یوم الفتح، الحدیث : ۴۲۹۲، ج۳، ص۱۰۴)
ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت بی بی ام ہانی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاسے فرمایا کہ کیا گھر میں کچھ کھانا بھی ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ !عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَخشک روٹی کے چند ٹکڑے ہیں ۔ مجھے بڑی شرم دامن گیر ہوتی ہے کہ اس کو آپ کے سامنے پیش کردوں ۔ ارشاد فرمایا کہ ’’لاؤ‘‘ پھر آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنے دست مبارک سے ان خشک روٹیوں کو توڑا اور پانی میں بھگو کر نرم کیا اور حضرت اُمِ ہانی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَانے ان روٹیوں کے سالن کے لئے نمک پیش کیا تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ کیا کوئی سالن گھر میں نہیں ہے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میرے گھر میں ’’سرکہ‘‘ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا کہ ’’سرکہ‘‘ لاؤ۔ آپ نے سرکہ کو روٹی پر ڈالا اور تناول فرماکر خدا کا شکر بجالائے۔ پھر فرمایاکہ ’’سرکہ بہترین سالن ہے اور جس گھر میں سرکہ ہوگا اس گھروالے محتاج نہ ہوں گے۔‘‘ پھر حضرت اُمِ ہانی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَانے عرض کیا کہ یارسول اللہ ! صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَمیں نے حارث بن ہشام (ابوجہل کے بھائی) اور زہیر بن اُمیہ کو امان دے دی ہے۔ لیکن میرے بھائی حضرت علیرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ ان دونوں کو اس جرم میں قتل کرنا چاہتے ہیں کہ ان دونوں نے حضرت خالد بن الولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَکی فوج سے جنگ کی ہے تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے فرمایا کہ اے اُمِ ہانی!رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاجس کو تم نے امان دے دی اس کے لئے ہماری طرف سے بھی امان ہے۔ (شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۶۴) (زرقانی ج ۲ ص ۳۲۶)
بیت اللہ میں داخلہ:
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا جھنڈا ’’حجون‘‘ میں جس کو آج کل جنۃ المعلیٰ کہتے ہیں’’مسجدالفتح‘‘کے قریب میں گاڑا گیا پھر آپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر اور حضرت اسامہ بن زیدرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو اونٹنی پر اپنے پیچھے بٹھاکر مسجد حرام کی طرف روانہ ہوئے اور حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ اور کعبہ کے کلید بردار عثمان بن طلحہ بھی آپ کے ساتھ تھے۔ آپ نے مسجدحرام میں اپنی اونٹنی کو بٹھایا اور کعبہ کا طواف کیا اور حجراسود کو بوسہ دیاصحیح البخاری، کتاب المغازی، باب دخول النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم من اعلی مکۃ، الحدیث : ۴۲۸۹، ج۳، ص۱۰۴
) (بخاری ج۲ ص ۶۱۴ وغیرہ)
یہ انقلاب زمانہ کی ایک حیرت انگیز مثال ہے کہ حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ الصلوۃ والسلام جن کا لقب ’’بت شکن‘‘ ہے ان کی یادگار خانہ کعبہ کے اندرونِ حصار تین سو ساٹھ بتوں کی قطار تھی۔ فاتح مکہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکا حضرت خلیل عَلَیْہِ السَّلام کاجانشینِ جلیل ہونے کی حیثیت سے فرض اولین تھا کہ یادگار خلیل کو بتوں کی نجس اور گندی آلائشوں سے پاک کریں ۔ چنانچہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَخود بہ نفس نفیس ایک چھڑی لے کر کھڑے ہوئے اور ان بتوں کو چھڑی کی نوک سے ٹھونکے مار مار کر گراتے جاتے تھے اور جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا( پ۱۵، بنی اسراء یل : ۸۱( کی آیت تلاوت فرماتے جاتے تھے، یعنی حق آگیا اور باطل مٹ گیا اور باطل مٹنے ہی کی چیز تھی۔( صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم الرایۃ۔۔۔الخ، الحدیث : ۴۲۸۷، ج۳، ص۱۰۳]) (بخاری ج ۲ ص ۶۱۴فتح مکہ وغیرہ)
پھر ان بتوں کو جو عین کعبہ کے اندر تھے۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حکم دیا کہ وہ سب نکالے جائیں۔ چنانچہ وہ سب بت نکال باہر کئے گئے۔ انہی بتوں میں حضرت ابراہیم و حضرت اسمٰعیل علیہما السلام کے مجسمے بھی تھے جن کے ہاتھوں میں فال کھولنے کے تیر تھے۔ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کو دیکھ کر فرمایا کہ اللہ تَعَالٰیان کافروں کو مار ڈالے۔ ان کافروں کو خوب معلوم ہے کہ ان دونوں پیغمبروں نے کبھی بھی فال نہیں کھولا۔ جب تک ایک ایک بت کعبہ کے اندر سے نہ نکل گیا، آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے کعبہ کے اندر قدم نہیں رکھا جب تمام بتوں سے کعبہ پاک ہوگیا تو آپ اپنے ساتھ حضرت اسامہ بن زید اور حضرت بلال رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمااور عثمان بن طلحہ حَجَبِی کو لے کر خانہ کعبہ کے اندر تشریف لے گئے اور بیت اللہ شریف کے تمام گوشوں میں تکبیر پڑھی اور دو رکعت نماز بھی ادا فرمائی اس کے بعد باہر تشریف لائے۔
( صحیح البخاری، کتاب الصلٰوۃ، باب قول اللّٰہ تعالٰی واتخذوا۔۔۔الخ، الحدیث : ۳۹۷، ج۱، ص۱۵۶وصحیح البخاری، کتاب المغازی، باب این رکز النبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم۔۔۔الخ، الحدیث : ۴۲۸۸، ج۳، ص۱۰۳ ) (بخاری ج۱ ص ۲۱۸ باب من کبر فی نواحی الکعبۃ و بخاری ج۲ ص ۶۱۴ فتح مکہ وغیرہ)
کعبہ مقدسہ کے اندر سے جب آپ باہرنکلے توعثمان بن طلحہ کو بلاکر کعبہ کی کنجی ان کے ہاتھ میں عطا فرمائی اور ارشاد فرمایا کہ
خُذُوْھَا خَالِدَۃً تَالِدَۃً لَایَنْزعُھَا مِنْکُمْ اِلَّا ظَالِمٌ
لو یہ کنجی ہمیشہ ہمیشہ کے لئے تم لوگوں میں رہے گی یہ کنجی تم سے وہی چھینے گا جو ظالم ہوگا۔
المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۶۹۔۴۷۰) (زرقانی ج ۲ص ۲۳۹)
شہنشاہِ رسالت ﷺ کا دربارِ عام:
اس کے بعد تاجدارِ دوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے شہنشاہ اسلام کی حیثیت سے حرم الٰہی میں سب سے پہلا دربارِعام منعقد فرمایا جس میں افواج اسلام کے علاوہ ہزاروں کفارومشرکین کے خواص و عوام کا ایک زبردست ازدحام تھا۔ اس شہنشاہی خطبہ میں آپ نے صرف اہل مکہ ہی سے نہیں بلکہ تمام اقوام عالم سے خطابِ عام فرماتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کہ
’’ایک خدا کے سوا کوئی معبود نہیں ۔ اس کا کوئی شریک نہیں ۔ اس نے اپنا وعدہ سچ کر دکھایا۔ اس نے اپنے بندے (حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) کی مدد کی اور کفار کے تمام لشکروں کو تنہا شکست دے دی، تمام فخر کی باتیں ، تمام پرانے خونوں کا بدلہ، تمام پرانے خون بہا، اور جاہلیت کی رسمیں سب میرے پیروں کے نیچے ہیں ۔ صرف کعبہ کی تولیت اور حجاج کوپانی پلانا، یہ دواعزازاس سے مستثنیٰ ہیں ۔اے قوم قریش! اب جاہلیت کا غرور اور خاندانوں کا افتخار خدا نے مٹا دیا۔ تمام لوگ حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام کی نسل سے ہیں اور حضرت آدم عَلَیْہِ السَّلام مٹی سے بنائے گئے ہیں ۔‘‘
اس کے بعد حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے قرآن مجید کی یہ آیت تلاوت فرمائی جس کا ترجمہ یہ ہے :
اے لوگو!ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہارے لئے قبیلے اور خاندان بنادیئے تاکہ تم آپس میں ایک دوسرے کی پہچان رکھو لیکن خدا کے نزدیک سب سے زیادہ شریف وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ یقینا اللہ تَعَالٰیبڑا جاننے والا اور خبر رکھنے والا ہے۔(پ۲۶، الحجرٰت : ۱۳ )
بے شک اللہ نے شراب کی خریدوفروخت کو حرام فرما دیا ہے۔( السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب دخول الرسول الحرم، ص۴۷۳ وصحیح البخاری، کتاب المغازی، باب ۵۵، الحدیث : ۴۲۹۶، ج۳، ص۱۰۶) (سیرت ابن ہشام ج ۲ ص ۴۱۲مختصراً و بخاری وغیرہ)
کفارِمکہ سے خطاب:
اس کے بعد شہنشاہ کونین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اس ہزاروں کے مجمع میں ایک گہری نگاہ ڈالی تو دیکھا کہ سرجھکائے، نگاہیں نیچی کئے ہوئے لرزاں و ترساں اشراف قریش کھڑے ہوئے ہیں ۔ ان ظالموں اور جفاکاروں میں وہ لوگ بھی تھے جنہوں نے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے راستوں میں کانٹے بچھائے تھے۔ وہ لوگ بھی تھے جو بارہا آپ پر پتھروں کی بارش کرچکے تھے۔ وہ خونخوار بھی تھے جنہوں نے بار بار آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر قاتلانہ حملے کئے تھے۔ وہ بے رحم و بے درد بھی تھے جنہوں نے آپ کے دندان مبارک کو شہید اور آپ کے چہرۂ انور کو لہولہان کر ڈالا تھا۔ وہ اوباش بھی تھے جو برسہابرس تک اپنی بہتان تراشیوں اور شرمناک گالیوں سے آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے قلب مبارک کو زخمی کرچکے تھے۔ وہ سفاک و درندہ صفت بھی تھے جو آپ صلی اللہ تَعَالٰی علیہ وسلمکے گلے میں چادر کا پھندا ڈال کر آپ کا گلا گھونٹ چکے تھے۔ وہ ظلم و ستم کے مجسمے اور پاپ کے پتلے بھی تھے جنہوں نے آپ کی صاحبزادی حضرت زینب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاکو نیزہ مار کر اونٹ سے گرا دیا تھا اور ان کا حملساقط ہوگیا تھا۔ وہ آپ کے خون کے پیاسے بھی تھے جن کی تشنہ لبی اور پیاس خون نبوت کے سوا کسی چیز سے نہیں بجھ سکتی تھی۔ وہ جفاکار و خونخوار بھی تھے جن کے جارحانہ حملوں اور ظالمانہ یلغار سے بار بار مدینہ منورہ کے درودیوار دہل چکے تھے۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے پیارے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کے قاتل اور ان کی ناک، کان کاٹنے والے، ان کی آنکھیں پھوڑنے والے، ان کا جگر چبانے والے بھی اس مجمع میں موجود تھے وہ ستم گار جنہوں نے شمع نبوت کے جاں نثارپروانوں حضرت بلال، حضرت صہیب، حضرت عمار، حضرت خباب، حضرت خبیب، حضرت زید بن دثنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم وغیرہ کو رسیوں سے باندھ باندھ کر کوڑے مار مار کر جلتی ہوئی ریتوں پر لٹایا تھا، کسی کو آگ کے دہکتے ہوئے کوئلوں پر سلایا تھا، کسی کو چٹائیوں میں لپیٹ لپیٹ کر ناکوں میں دھوئیں دیئے تھے، سینکڑوں بار گلا گھونٹا تھا۔ یہ تمام جوروجفا اور ظلم و ستمگاری کے پیکر، جن کے جسم کے رونگٹے رونگٹے اور بدن کے بال بال ظلم وعدوان اور سرکشی و طغیان کے وبال سے خوفناک جرموں اور شرمناک مظالم کے پہاڑ بن چکے تھے۔ آج یہ سب کے سب دس بارہ ہزار مہاجرین و انصار کے لشکر کی حراست میں مجرم بنے ہوئے کھڑے کانپ رہے تھے اور اپنے دلوں میں یہ سوچ رہے تھے کہ شاید آج ہماری لاشوں کو کتوں سے نچوا کر ہماری بوٹیاں چیلوں اور کووں کو کھلا دی جائیں گی اور انصارو مہاجرین کی غضب ناک فوجیں ہمارے بچے بچے کو خاک و خون میں ملاکر ہماری نسلوں کو نیست و نابود کر ڈالیں گی اور ہماری بستیوں کو تاخت و تاراج کرکے تہس نہس کر ڈالیں گی ان مجرموں کے سینوں میں خوف وہراس کا طوفان اُٹھ رہا تھا۔ دہشت اور ڈر سے ان کے بدنوں کی بوٹی بوٹی پھڑک رہی تھی، دل دھڑک رہے تھے، کلیجے منہ میں آگئے تھے اور عالم یاس میں انہیں زمین سے آسمان تک دھوئیں ہی دھوئیں کے خوفناک بادل نظر آرہے تھے۔ اسی مایوسی اور ناامیدی کی خطرناک فضا میں ایک دم شہنشاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی نگاہ رحمت ان پاپیوں کی طرف متوجہ ہوئی۔ اور ان مجرموں سے آپ نے پوچھا کہ
’’بولو! تم کو کچھ معلوم ہے ؟کہ آج میں تم سے کیا معاملہ کرنے والا ہوں ۔‘‘
اس دہشت انگیز اور خوفناک سوال سے مجرمین حواس باختہ ہو کر کانپ اُٹھے لیکن جبین رحمت کے پیغمبرانہ تیور کو دیکھ کر اُمید و بیم کے محشر میں لرزتے ہوئے سب یک زبان ہوکر بولے کہ اَخٌ کَرِیْمٌ وَابْنُ اَخٍ کَرِیْمٍ آپ کرم والے بھائی اور کرم والے باپ کے بیٹے ہیں ۔
سب کی للچائی ہوئی نظریں جمال نبوت کا منہ تک رہی تھیں ۔اور سب کے کان شہنشاہ نبوت کا فیصلہ کن جواب سننے کے منتظر تھے کہ اک دم دفعۃً فاتح مکہ نے اپنے کریمانہ لہجے میں ارشاد فرمایا کہ
لَاتَثْرِیْبَ عَلَیْکُمُ الْیَوْمَ فَاذْھَبُوْا اَنْتُمُ الطُّلَقَآءُ(المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۴۹ ]) (زرقانی ج ۲ ص ۳۲۸)
آج تم پر کوئی الزام نہیں ، جاؤ تم سب آزاد ہو۔
بالکل غیرمتوقع طورپر ایک دم اچانک یہ فرمان رسالت سن کر سب مجرموں کی آنکھیں فرط ندامت سے اشکبار ہوگئیں اور ان کے دلوں کی گہرائیوں سے جذبات شکریہ کے آثار آنسوؤں کی دھار بن کر ان کے رخسار پر مچلنے لگے اور کفار کی زبانوں پر لَااِلٰہَ اِلَّا اللہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے نعروں سے حرم کعبہ کے درودیوار پر ہر طرف انوار کی بارش ہونے لگی۔ ناگہاں بالکل ہی اچانک اور دفعۃً ایک عجیب انقلاب برپا ہوگیا کہ سماں ہی بدل گیا، فضا ہی پلٹ گئی اور ایک دم ایسا محسوس ہونے لگا کہ ؎
جہاں تاریک تھا، بے نور تھا اور سخت کالا تھا
کوئی پردے سے کیا نکلا کہ گھر گھر میں اجالا تھا
کفار نے مہاجرین کی جائدادوں ، مکانوں ، دکانوں پر غاصبانہ قبضہ جمالیا تھا۔ اب وقت تھا کہ مہاجرین کو ان کے حقوق دلائے جاتے اور ان سب جائدادوں ، مکانوں ، دکانوں اورسامانوں کو مکہ کے غاصبوں کے قبضوں سے واگزار کرکے مہاجرین کے سپرد کیے جاتے۔ لیکن شہنشاہ رسالت نے مہاجرین کو حکم دے دیا کہ وہ اپنی کل جائدادیں خوشی خوشی مکہ والوں کو ہبہ کردیں ۔
اللہ اکبر!اے اقوام عالم کی تاریخی داستانو!بتاؤکیا دنیا کے کسی فاتح کی کتاب زندگی میں کوئی ایسا حسین و زریں ورق ہے؟ اے دھرتی!خدا کے لئے بتا؟ اے آسمان!للہ بول۔ کیا تمہارے درمیان کوئی ایسا فاتح گزرا ہے؟ جس نے اپنے دشمنوں کے ساتھ ایسا حسن سلوک کیا ہو؟ اے چاند اور سورج کی چمکتی اور دوربین نگاہو!کیا تم نے لاکھوں برس کی گردش لیل و نہار میں کوئی ایسا تاجدار دیکھا ہے؟ تم اس کے سوا اور کیا کہو گے؟ کہ یہ نبی جمال و جلال کا وہ بے مثال شاہکار ہے کہ شاہان عالم کے لئے اس کا تصور بھی محال ہے۔ اس لئے ہم تمام دنیا کوچیلنج کے ساتھ دعوت نظارہ دیتے ہیں کہ
چشم اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعت شانِ رَفَعْنَا لَکَ ذِکْرَکَ دیکھے
دوسرا خطبہ:
فتح مکہ کے دوسرے دن بھی آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ایک خطبہ دیا جس میں حرم کعبہ کے احکام و آداب کی تعلیم دی کہ حرم میں کسی کا خون بہانا، جانوروں کا مارنا، شکار کرنا، درخت کاٹنا، اذخر کے سوا کوئی گھاس کاٹنا حرام ہے اور اللہ عَزَّ وَجَلَّنے گھڑی بھر کے لئے اپنے رسول عَلَیْہِ السَّلام کو حرم میں جنگ کرنے کی اجازت دی پھر قیامت تک کے لئے کسی کو حرم میں جنگ کی اجازت نہیں ہے۔ اللہ عَزَّ وَجَلَّنے اس کو حرم بنادیا ہے۔ نہ مجھ سے پہلے کسی کے لئے اس شہر میں خونریزی حلال کی گئی نہ میرے بعد قیامت تک کسی کے لئے حلال کی جائے گی۔( صحیح البخاری، کتاب المغازی، باب ۵۵، الحدیث : ۴۳۱۳، ص۱۱۰ والسیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب دخول الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم الحرم، ص۴۷۴ والمواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۴۷ ((بخاری ج۲ ص ۶۱۷ فتح مکہ)
انصار کو فراق رسول ﷺ کا ڈر:
انصار نے قریش کے ساتھ جب رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّوصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے اس کریمانہ حسن سلوک کو دیکھا اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکچھ دنوں تک مکہ میں ٹھہر گئے تو انصار کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ شاید رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّوصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَپر اپنی قوم اور وطن کی محبت غالب آگئی ہے کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ مکہ میں اقامت فرمالیں اور ہم لوگ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے دور ہوجائیں جب حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو انصار کے اس خیال کی اطلاع ہوئی تو آپ نے فرمایا کہ معاذاللہ !اے انصار!
اَلْمَحْیَا مَحْیَاکُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُکُمْ) السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب تعطیم الاصنام، ص۴۷۵ ((سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۴۱۶)
اب تو ہماری زندگی اور وفات تمہارے ہی ساتھ ہے۔
یہ سن کر فرط مسرت سے انصار کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے اور سب نے کہا کہ یارسول اللہ !(عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)ہم لوگوں نے جو کچھ دل میں خیال کیا یا زبان سے کہا اس کا سبب آپ کی ذات مقدسہ کے ساتھ ہمارا جذبہ عشق ہے ۔ کیونکہ آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی جدائی کا تصور ہمارے لئے ناقابل برداشت ہورہا تھا۔( شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۵۹ ((زرقانی ج ۲ص ۳۳۳ و سیرت ابن ہشام ج ۲ص ۴۱۶)
کعبہ کی چھت پر اذان:
جب نماز کا وقت آیا تو حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے حضرت بلال رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو حکم دیا کہ کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اذان دیں ۔ جس وقت اللہ اَکْبَرُ اللہ اَکْبَرُ کی ایمان افروز صدا بلند ہوئی تو حرم کے حصار اور کعبہ کے درودیوار پر ایمانی زندگی کے آثار نمودار ہوگئے مگر مکہ کے وہ نومسلم جو ابھی کچھ ٹھنڈے پڑ گئے تھے اذان کی آواز سن کر ان کے دلوں میں غیرت کی آگ پھر بھڑک اٹھی۔ چنانچہ روایت ہے کہ حضرت عتاب بن اُسید نے کہا کہ خدا نے میرے باپ کی لاج رکھ لی کہ اس آواز کو سننے سے پہلے ہی اس کو دنیا سے اٹھا لیا اور ایک دوسرے سردار قریش کے منہ سے نکلا کہ ’’اب جینا بے کار ہے۔‘‘ ( شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۸۴ ((اصابہ تذکرہ عتاب بن اسید ج۲ص ۴۵۱ و زرقانی ج۲ ص ۳۴۶)
مگر اس کے بعد حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے فیض صحبت سے حضرت عتاب بن اسید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کے دل میں نور ایمان کا سورج چمک اٹھا اور وہ صادق الایمان مسلمان بن گئے۔ چنانچہ مکہ سے روانہ ہوتے وقت حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے انہی کو مکہ کا حاکم بنا دیا۔(السیرۃ النبویۃ لابن ھشام، باب دخول الرسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم الحرم، ص۴۷۴ملخصاً والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃحنین، ج۳، ص۴۹۸ملخصاً)(سیرت ابن ہشام ج۲ ص ۴۱۳وص۴۴۰)
بیعت ِاسلام:
اس کے بعد حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکوہ صفا کی پہاڑی کے نیچے ایک بلند مقام پر بیٹھے اور لوگ جوق در جوق آکر آپ کے دست حق پرست پر اسلام کی بیعت کرنے لگے۔ مردوں کی بیعت ختم ہوچکی تو عورتوں کی باری آئی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَہر بیعت کرنے والی عورت سے جب وہ تمام شرائط کا اقرار کرلیتی تو آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَاس سے فرما دیتے تھے کہ’’قَدْ بَایَعْتُکِ‘‘ میں نے تجھ سے بیعت لے لی۔ حضرت بی بی عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاکا بیان ہے کہ خدا کی قسم!آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے ہاتھ نے بیعت کے وقت کسی عورت کے ہاتھ کو نہیں چھوا۔ صرف کلام ہی سے بیعت فرما لیتے تھے۔ ( صحیح البخاری، کتاب الشروط، باب مایجوز من الشروط۔۔۔الخ((بخاری ج۱ ص ۳۷۵ کتاب الشروط)
انہی عورتوں میں نقاب اوڑھ کر ہندبنت عتبہ بن ربیعہ بھی بیعت کے لئے آئیں جو حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کی بیوی اور حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کی والدہ ہیں ۔ یہ وہی ہند ہیں جنہوں نے جنگ ِ اُحد میں حضرت حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کا شکم چاک کرکے ان کے جگر کو نکال کر چبا ڈالا تھا اور ان کے کان ناک کو کاٹ کر اورآنکھ کو نکال کر ایک دھاگہ میں پرو کر گلے کا ہار بنایا تھا۔ جب یہ بیعت کے لئے آئیں تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسے نہایت دلیری کے ساتھ گفتگو کی۔ ان کا مکالمہ حسب ذیل ہے۔
رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّوصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ تم خدا کے ساتھ کسی کو شریک مت کرنا۔
ہند بنت عتبہ یہ اقرار آپ نے مردوں سے تو نہیں لیا لیکن بہرحال ہم کو منظور ہے۔
رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ چوری مت کرنا۔
ہند بنت عتبہ میں اپنے شوہر(ابوسفیان)کے مال میں سے کچھ لے لیا کرتی ہوں ۔معلوم نہیں یہ بھی جائز ہے یا نہیں ؟
رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا۔
ہندبنت عتبہ ہم نے تو بچوں کو پالا تھا اور جب وہ بڑےہوگئے تو آپ نے جنگ بدر میں ان کو مارڈالا۔ اب آپ جانیں اور وہ جانیں ۔ ( تاریخ الطبری، الجزء۲، ص۳۷۔۳۸، مختصراً ۔المکتبۃ الشاملۃ) (طبری ج۳ ص ۶۴۳ مختصراً)
بہرحال حضرت ابوسفیان اور ان کی بیوی ہند بنت عتبہ دونوں مسلمان ہوگئے ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما) لہٰذا ان دونوں کے بارے میں بدگمانی یا ان دونوں کی شان میں بدزبانی روافض کا مذہب ہے۔ اہل سنت کے نزدیک ان دونوں کا شمار صحابہ اور صحابیات رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اجمعین کی فہرست میں ہے۔
ابتداء میں گو ان دونوں کے ایمان میں کچھ تذبذب رہاہو مگر بعد میں یہ دونوں صادق الایمان مسلمان ہوگئے اور ایمان ہی پر ان دونوں کا خاتمہ ہوا۔ ( رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُما)
حضرت بی بی عائشہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَاکا بیان ہے کہ ہند بنت عتبہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَابارگاہ نبوت میں آئیں اور یہ عرض کیا کہ یارسول اللہ ! عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَروئے زمین پر آپ کے گھر والوں سے زیادہ کسی گھر والے کا ذلیل ہونا مجھے محبوب نہ تھا۔ مگر اب میرا یہ حال ہے کہ روئے زمین پر آپ کے گھروالوں سے زیادہ کسی گھروالے کا عزت دار ہونا مجھے پسند نہیں ۔) صحیح البخاری، کتاب مناقب الانصار، باب ذکر ھند بنت عتبۃ بن ربیعۃ رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہا، الحدیث : ۳۸۲۵، ج۲، ص۵۶۷) (بخاری ج۱ ص ۵۳۹باب ذکر ہند بنت عتبہ)
اسی طرح حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کے بارے میں محدث ابن عساکر کی ایک روایت ہے کہ یہ مسجدحرام میں بیٹھے ہوئے تھے اور حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَسامنے سے نکلے تو انہوں نے اپنے دل میں یہ کہا کہ کونسی طاقت ان کے پاس ایسی ہے کہ یہ ہم پر غالب رہتے ہیں تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کے دل میں چھپے ہوئے خیال کو جان لیا اور قریب آکر آپ نے ان کے سینے پرہاتھ مارا اور فرمایا کہ ہم خدا کی طاقت سے غالب آجاتے ہیں ۔ یہ سن کر انہوں نے بلند آواز سے کہا کہ ’’میں شہادت دیتا ہوں کہ بے شک آپ اللہ کے رسول ہیں ۔‘‘ اور محدث حاکم اور ان کے شاگرد امام بیہقی نے حضرت ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے یہ روایت کی ہے کہ حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکو دیکھ کر اپنے دل میں کہا کہ ’’کاش!میں ایک فوج جمع کرکے دوبارہ ان سے جنگ کرتا‘‘ادھر ان کے دل میں یہ خیال آیا ہی تھا کہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے آگے بڑھ کر ان کے سینہ پر ہاتھ مارا اور فرمایا کہ ’’اگر تو ایسا کرے گا تو اللہ تَعَالٰیتجھے ذلیل و خوار کردے گا۔‘‘ یہ سن کر حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ توبہ و استغفار کرنے لگے اور عرض کیا کہ مجھے اس وقت آپ کی نبوت کا یقین حاصل ہوگیاکیونکہ آپ نے میرے دل میں چھپے ہوئے خیال کو جان لیا۔(شرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۸۵(
(زرقانی ج ۲ ص ۳۴۶)
یہ بھی روایت ہے کہ جب سب سے پہلے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان پر اسلام پیش فرمایا تھا تو انہوں نے کہا تھاکہ پھر میں اپنے معبود عزیٰ کو کیا کروں گا؟ تو حضرت عمر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے برجستہ فرمایا تھا کہ ’’تم عزیٰ پر پاخانہ پھر دینا‘‘ چنانچہ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے جب عزیٰ کو توڑنے کے لئے حضرت خالد بن الولید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو روانہ فرمایا توساتھ میں حضرت ابوسفیان رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو بھی بھیجا اور انہوں نے اپنے ہاتھ سے اپنے معبود عزیٰ کو توڑ ڈالا۔ یہ محمد بن اسحاق کی روایت ہے اور ابن ہشام کی روایت یہ ہے کہ عزیٰ کو حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے توڑا تھا۔( شرح الزرقانی علی المواھب، باب ھدم مناۃ، ج۳، ص۴۸۷۔۴۹۱) واللہ اعلم۔ (زرقانی ج۲ ص ۳۴۹)
بت پرستی کا خاتمہ:
گزشتہ اوراق میں ہم تحریر کرچکے کہ خانہ کعبہ کے تمام بتوں اور دیواروں کی تصاویر کو توڑ پھوڑ کر اور مٹاکر مکہ کو تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے بت پرستی کیلعنت سے پاک کر ہی دیا تھا لیکن مکہ کے اطراف میں بھی بت پرستی کے چند مراکز تھے یعنی لات، مناۃ، سواع، عزیٰ یہ چند بڑے بڑے بت تھے جو مختلف قبائل کے معبود تھے۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے صحابہ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمکے لشکروں کو بھیج کر ان سب بتوں کو توڑ پھوڑ کر بت پرستی کے سارے طلسم کو تہس نہس کردیا اور مکہ نیز اس کے اطراف و جوانب کے تمام بتوں کو نیست و نابود کردیا۔(المواھب اللدنیۃ مع شرح الزرقانی، ہدم العزیٰ وسواع ومناۃ، ج۳، ص۴۸۷۔۴۹۰ ) (زرقانی ج ۲ص ۳۴۷تا ص ۳۴۹)
اس طرح بانی کعبہ حضرت خلیل اللہ عَلَیْہِ الصَّلَاۃُ وَالسَّلَامکے جانشین حضور رحمۃٌ للعالمین صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے اپنے مورث اعلیٰ کے مشن کو مکمل فرما دیا اور درحقیقت فتح مکہ کا سب سے بڑا یہی مقصد تھا کہ شرک و بت پرستی کا خاتمہ اور توحید خداوندی کا بول بالا ہوجائے۔ چنانچہ یہ عظیم مقصد بحمدہ تعالیٰ بدرجہ اتم حاصل ہوگیا کہ ؎
آنجا کہ بود نعرہ کفارو مشرکاں اکنوں خروش نعرہ اللہ اکبر است
چند ناقابل معافی مجرمین:
جب مکہ فتح ہوگیا تو حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے عام معافی کا اعلان فرمادیا۔ مگر چند ایسے مجرمین تھے جن کے بارے میں تاجداردوعالم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے یہ فرمان جاری فرما دیا کہ یہ لوگ اگر اسلام نہ قبول کریں تو یہ لوگ جہاں بھی ملیں قتل کردیئے جائیں خواہ وہ غلاف کعبہ ہی میں کیوں نہ چھپے ہوں ۔ ان مجرموں میں سے بعض نے تو اسلام قبول کرلیا اور بعض قتل ہوگئے ان میں سے چند کا مختصر تذکرہ تحریر کیا جاتا ہے :
(۱)’’عبدالعزیٰ بن خطل‘‘ یہ مسلمان ہوگیا تھا اس کو حضورصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے زکوٰۃ کے جانور وصول کرنے کے لئے بھیجا اور ساتھ میں ایک دوسرے مسلمان کو بھی بھیج دیاکسی بات پر دونوں میں تکرار ہوگئی تو اس نے اس مسلمان کو قتل کردیا اور قصاص کے ڈر سے تمام جانوروں کو لے کر مکہ بھاگ نکلا اور مرتد ہوگیا۔ فتح مکہ کے دن یہ بھی ایک نیزہ لے کر مسلمانوں سے لڑنے کے لئے گھر سے نکلا تھا۔ لیکن مسلم افواج کا جلال دیکھ کر کانپ اٹھا اور نیزہ پھینک کر بھاگا اور کعبہ کے پردوں میں چھپ گیا۔ حضرت سعید بن حریث مخزومی اور ابوبرزہ اسلمی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمانے مل کر اس کو قتل کردیا۔(مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ، ج۲، ص۲۹۶) (زرقانی ج ۲ ص ۳۲۲)
(۲)’’ حویرث بن نقید‘‘یہ شاعر تھااور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ہجو لکھا کرتا تھا اور خونی مجرم بھی تھا۔ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے اس کو قتل کیا۔
(۳)’’مقیس بن صبابہ ‘‘اس کو نمیلہ بن عبداللہ نے قتل کیا۔ یہ بھی خونی تھا۔
(۴)’’حارث بن طلاطلہ‘‘یہ بھی بڑا ہی موذی تھا۔ حضرت علی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے اس کو قتل کیا۔
(۵)’’ قریبہ‘‘یہ ابن خطل کی لونڈی تھی۔ رسول اللہ عَزَّوَجَلَّ و صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی ہجو گایا کرتی تھی یہ بھی قتل کی گئی۔(مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ، ج۲، ص۳۰۰، ۳۰۴ ملخصاً(
مکہ سے فرار ہوجانے والے:
چار اشخاص مکہ سے بھاگ نکلے تھے ان لوگوں کا مختصر تذکرہ یہ ہے :
(۱)’’عکرمہ بن ابی جہل‘‘یہ ابوجہل کے بیٹے ہیں ۔ اس لئے ان کی اسلام دشمنی کا کیا کہنا؟ یہ بھاگ کریمن چلے گئے لیکن ان کی بیوی ’’اُمِ حکیم‘‘ جو ابوجہل کی بھتیجی تھیں انہوں نے اسلام قبول کرلیااوراپنے شوہر عکرمہ کے لئے بارگاہ رسالت میں معافی کی درخواست پیش کی۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے معاف فرمادیا۔ اُمِ حکیم خود یمن گئیں اور معافی کا حال بیان کیا۔ عکرمہ حیران رہ گئے اور انتہائی تعجب کے ساتھ کہا کہ کیا مجھ کو محمد(صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ)نے معاف کردیا! بہرحال اپنی بیوی کے ساتھ بارگاہ رسالت میں مسلمان ہوکر حاضر ہوئے حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے جب ان کو دیکھا تو بے حد خوش ہوئے اور اس تیزی سے ان کی طرف بڑھے کہ جسم اطہر سے چادر گر پڑی۔ پھر حضرت عکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنَّے خوشی خوشی حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے دست حق پرست پر بیعت اسلام کی۔ (الموطاء للامام مالک، کتاب النکاح، باب نکاح المشرک اذا اسلمت زوجتہ قبلہ، الحدیث : ۱۱۸۰، ج۲، ص۹۴وشرح الزرقانی علی المواھب، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۲۴، ۴۲۵ ملخصاً) (موطا امام مالک کتاب النکاح وغیرہ)
(۲)’’صفوان بن امیہ‘‘یہ امیہ بن خلف کے فرزند ہیں ۔ اپنے باپ امیہ ہی کی طرح یہ بھی اسلام کے بہت بڑے دشمن تھے۔ فتح مکہ کے دن بھاگ کر جدہ چلے گئے۔ حضرت عمیر بن وہب رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے دربار رسالت میں ان کی سفارش پیش کی اور عرض کیا کہ یارسول اللہ !(عَزَّوَجَلَّ وصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ) قریش کا ایک رئیس صفوان مکہ سے جلاوطن ہوا چاہتا ہے۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کو بھی معافی عطا فرما دی اور امان کے نشان کے طورپر حضرت عمیررَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو اپنا عمامہ عنایت فرمایا۔ چنانچہ وہ مقدس عمامہ لے کر ’’جدہ‘‘گئے اور صفوان کو مکہ لے کر آئے صفوان جنگ حنین تک مسلمان نہیں ہوئے ۔لیکن اس کے بعد اسلام قبول کرلیا۔ ( مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ، ج۲، ص۲۹۹ملخصاً) (طبری ج ۳ ص ۶۴۵)
(۳)’’کعب بن زہیر‘‘یہ ۹ھ میں اپنے بھائی کے ساتھ مدینہ آکر مشرف بہ اسلام ہوئے اور حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی مدح میں اپنا مشہور قصیدہ ’’بانت سعاد‘‘ پڑھا۔
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے خوش ہوکر ان کو اپنی چادر مبارک عنایت فرمائی۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی یہ چادر مبارک حضرت کعب بن زہیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کے پاس تھی۔ حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے اپنے دورسلطنت میں ان کو دس ہزار درہم پیش کیا کہ یہ مقدس چادر ہمیں دے دو۔ مگر انہوں نے صاف انکار کردیا اور فرمایا کہ میں رسول اللہ عَزَّ وَجَلَّوصَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکی یہ چادر مبارک ہرگز ہرگز کسی کو نہیں دے سکتا۔ لیکن آخر حضرت امیر معاویہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ نے حضرت کعب بن زہیر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کی وفات کے بعد ان کے وارثوں کو بیس ہزار درہم دے کر وہ چادر لے لی اور عرصہ دراز تک وہ چادر سلاطین اسلام کے پاس ایک مقدس تبرک بن کر باقی رہی۔ ( مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب نہم ، ج۲، ص۳۰۱، ۳۳۸) (مدارج ج۲ ص ۳۳۸)
(۴)’’وحشی‘‘یہی وہ وحشی ہیں جنہوں نے جنگ ِ اُحد میں حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکے چچا حضرت حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو شہید کردیا تھا۔یہ بھی فتح مکہ کے دن بھاگ کر طائف چلے گئے تھے مگر پھر طائف کے ایک وفد کے ہمراہ بارگاہِ رسالت میں حاضر ہوکر مسلمان ہوگئے۔ حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ان کی زبان سے اپنے چچا کے قتل کی خونی داستان سنی اور رنج و غم میں ڈوب گئے مگر ان کو بھی آپ نے معاف فرما دیا۔ لیکن یہ فرمایا کہ وحشی! تم میرے سامنے نہ آیاکرو۔ حضرت وحشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَکو اس کا بے حد ملال رہتا تھا۔ پھر جب حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کی خلافت کے زمانے میں مسیلمۃ الکذاب نے نبوت کا دعویٰ کیا اور لشکر اسلام نے اس ملعون سے جہاد کیا تو حضرت وحشیرَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ بھی اپنا نیزہ لے کرجہاد میں شامل ہوئے اور مسیلمۃ الکذاب کو قتل کردیا۔ حضرت وحشی رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ اپنی زندگی میں کہا کرتے تھے کہ قَتَلْتُ خَیْرَ النَّاسِ فِی الْجَاھِلِیَّۃِ وَقَتَلْتُ شَرَّالنَّاسِ فِی الْاِسْلَامِ۔ یعنی میں نے دور جاہلیت میں بہترین انسان (حضرت حمزہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ)کو قتل کیااوراپنے دور اسلام میں بدترین آدمی (مسیلمۃ الکذاب) کو قتل کیا۔ انہوں نے درباراقدس میں اپنے جرائم کا اعتراف کرکے عرض کیا کہ کیا خدا مجھ جیسے مجرم کو بھی بخش دے گا؟ تو یہ آیت نازل ہوئی کہ
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰۤى اَنْفُسِهِمْ لَا تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَةِ اللّٰهِؕ-اِنَّ اللّٰهَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًاؕ-اِنَّهٗ هُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ(۵۳)( پ۲۴، الزمر : ۵۳) (زمر)
یعنی اے حبیب آپ فرمادیجئے کہ اے میرے بندو!جنہوں نے اپنی جانوں پر حد سے زیادہ گناہ کرلیا ہے اللہ کی رحمت سے ناامید مت ہوجاؤ۔ اللہ تمام گناہوں کو بخش دے گا۔ وہ یقینا بڑا بخشنے والااور بہت مہربان ہے۔ (مدارج النبوت ، قسم سوم ، باب ہفتم ، ج۲، ص۳۰۱، ۳۰۲ملخصاً) (مدارج النبوۃ ج ۲ص ۳۰۲)
مکہ کا انتظام:
حضور صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مکہ کا نظم و نسق اور انتظام چلانے کے لئے حضرت عتاب بن اسید رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو مکہ کا حاکم مقرر فرما دیا اور حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَ کو اس خدمت پر مامور فرمایا کہ وہ نومسلموں کو مسائل و احکام اسلام کی تعلیم دیتے رہیں ۔ ( مدارج النبوت، قسم سوم، باب ہشتم، ج۲، ص۳۲۴، ۳۲۵ والمواہب اللدنیۃ وشرح الزرقانی، باب غزوۃ حنین، ج۳، ص۴۹۸۔۴۹۹ ((مدارج النبوۃ ج ۲ ص ۳۲۴)
اس میں اختلاف ہے کہ فتح کے بعد کتنے دنوں تک حضورِ اقدس صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے مکہ میں قیام فرمایا۔ ابوداود کی روایت ہے کہ سترہ دن تک آپ مکہ میں مقیم رہے۔ اور ترمذی کی روایت سے پتا چلتا ہے کہ اٹھارہ دن آپ کا قیام رہا۔ لیکن امام بخاری رَحْمَۃُ اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِنے حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُماسے روایت کی ہے کہ انیس دن آپ مکہ میں ٹھہرے۔(بخاری ج۲ ص ۶۱۵)
ان تینوں روایتوں میں اس طرح تطبیق دی جاسکتی ہے کہ ابوداود کی روایت میں مکہ میں داخل ہونے اور مکہ سے روانگی کے دونوں دنوں کو شمار نہیں کیا ہے اس لئے سترہ دن مدتِ اقامت بتائی ہے اور ترمذی کی روایت میں مکہ میں آنے کے دن کو توشمار کرلیا۔ کیونکہ آپ صبح کو مکہ میں داخل ہوئے تھے اور مکہ سے روانگی کے دن کو شمار نہیں کیا ۔کیونکہ آپ صبح سویرے ہی مکہ سے حنین کے لئے روانہ ہوگئے تھے اور امام بخاری کی روایت میں آنے اور جانے کے دونوں دنوں کو بھی شمار کرلیا گیا ہے۔ اس لئے انیس دن آپ مکہ میں مقیم رہے۔ ( المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۴۸۵۔۴۸۶) واللہ تَعَالٰی اعلم۔
اسی طرح اس میں بڑا اختلاف ہے کہ مکہ کونسی تاریخ میں فتح ہوا؟ اور آپ کس تاریخ کو مکہ میں فاتحانہ داخل ہوئے؟ امام بیہقی نے۱۳رمضان، امام مسلم نے ۱۶رمضان، امام احمدنے۱۸رمضان بتایا اور بعض روایات میں ۱۷ رمضان اور ۱۸ رمضان بھی مروی ہے۔ مگر محمد بن اسحاق نے اپنے مشائخ کی ایک جماعت سے روایت کرتے ہوئے فرمایا کہ ۲۰رمضان ۸ھ کو مکہ فتح ہوا۔ ( المواہب اللدنیۃ و شرح الزرقانی، باب غزوۃ الفتح الاعظم، ج۳، ص۳۹۶۔۳۹۷) (زرقانی ج۲ ص ۲۹۹)