ولی اللہ کون۔۔۔۔؟
ولیاولی کون۔۔۔۔۔؟
سورہ یونس آیت 62 اور 63 میں اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے
اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَۚۖ(۶۲)الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَؕ(۶۳)
ترجمۂ کنز العر فان
سن لو! بیشک ا للہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ وہ جو ایمان لائے اور ڈرتے رہے۔
وَلِیُّ اللّٰہ کون؟
لفظِ ’’ولی‘‘ وِلَاءسے بناہے جس کا معنی قرب ا ور نصرت ہے۔ وَلِیُّ اللہ وہ ہے جو فرائض کی ادائیگی سے اللہ عَزَّوَجَلَّ کا قرب حاصل کرے اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت میں مشغول رہے اور اس کا دل اللہ تعالیٰ کے نورِ جلال کی معرفت میں مستغرق ہو ،جب دیکھے قدرتِ الٰہی کے دلائل کو دیکھے اور جب سنے اللہ عَزَّوَجَلَّ کی آیتیں ہی سنے اور جب بولے تو اپنے رب عَزَّوَجَلَّ کی ثناہی کے ساتھ بولے اور جب حرکت کرے، اطاعتِ الٰہی میں حرکت کرے اور جب کوشش کرے تو اسی کام میں کوشش کرے جو قربِ الٰہی کاذریعہ ہو، اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذکر سے نہ تھکے اور چشمِ دل سے خدا کے سوا غیر کو نہ دیکھے۔ یہ صفت اَولیاء کی ہے، بندہ جب اس حال پر پہنچتا ہے تو اللہ عَزَّوَجَلَّ اس کاولی و ناصر اور معین و مددگار ہوتا ہے
وَلِیُّ اللہ کی علامات:
علماء نے ’’ اللہ ‘‘ کی کثیر علامات بیان فرمائی ہیں ، جیسے متکلمین یعنی علمِ کلام کے ماہر علماء کہتے ہیں ’’ولی وہ ہے جو صحیح اور دلیل پر مبنی اعتقاد رکھتا ہو اور شریعت کے مطابق نیک اعمال بجالاتا ہو ۔
بعض عارفین نے فرمایا کہ ولایت قربِ الٰہی اور ہمیشہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ساتھ مشغول رہنے کا نام ہے،جب بندہ اس مقام پر پہنچتا ہے تو اس کو کسی چیز کا خوف نہیں رہتااور نہ کسی شے کے فوت ہونے کا غم ہوتا ہے۔
حضرت عبداللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا نے فرمایا کہ ولی وہ ہے جس کو دیکھنے سے اللہ تعالیٰ یاد آئے، یہی طبری کی حدیث میں بھی ہے۔
ابنِ زید نے کہا کہ ولی وہی ہے جس میں وہ صفت ہو جو اس سے اگلی آیت میں مذکور ہے۔ ’’ اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ كَانُوْا یَتَّقُوْنَ ‘‘ یعنی ایمان و تقویٰ دونوں کا جامع ہو۔
بعض علماء نے فرمایا کہ ولی وہ ہیں جو خالص اللہ کے لئے محبت کریں۔ اَولیاء کی یہ صفت بکثرت اَحادیث میں ذکر ہوئی ہے۔
بعض بزرگانِ دین نے فرمایا: ولی وہ ہیں جو طاعت یعنی فرمانبرداری سے قربِ الٰہی کی طلب کرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کرامت سے ان کی کار سازی فرماتا ہے یا وہ جن کی ہدایت کا د لیل کے ساتھ اللہ تعالیٰ کفیل ہو اور وہ اللہ تعالیٰ کا حقِ بندگی ادا کرنے اور اس کی مخلوق پر رحم کرنے کے لئے وقف ہوگئے ۔ ( خازن، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲ ، ۲ / ۳۲۲ - ۳۲۳ )
صدرُ الافاضل مفتی نعیم الدین مراد آبادی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’یہ معانی اور عبارات اگرچہ جداگانہ ہیں لیکن ان میں اختلاف کچھ بھی نہیں ہے کیونکہ ہر ایک عبارت میں ولی کی ایک ایک صفت بیان کردی گئی ہے جسے قربِ الٰہی حاصل ہوتا ہے یہ تمام صفات اس میں ہوتے ہیں ، ولایت کے درجے اور مَراتب میں ہر ایک اپنے درجے کے بقدر فضل و شرف رکھتا ہے۔ ( خزائن العرفان، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲ ، ص ۴۰۵ )
آیت لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ کے معنی:
مفسرین نے اس آیت کے بہت سے معنی بیان کئے ہیں ، ان میں سے 3 معنی درج ذیل ہیں :
( 1 )… مستقبل میں انہیں عذاب کا خوف نہ ہو گا اور نہ موت کے وقت وہ غمگین ہوں گے۔
( 2 )… مستقبل میں کسی ناپسندیدہ چیز میں مبتلاہونے کا خوف ہوگا اور نہ ماضی اور حال میں کسی پسندیدہ چیز کے چھوٹنے پر غمگین ہوں گے۔ ( البحرا لمحیط، البقرۃ، تحت الآیۃ: ۳۸ ، ۱ / ۳۲۳ ۔ جلالین مع صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۲ ، ۳ / ۸۸۰ )
( 3 )… قیامت کے دن ان پر کوئی خوف ہو گا اور نہ اس دن یہ غمگین ہوں گے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے ولیوں کو دنیا میں ان چیزوں سے محفوظ فرما دیا ہے کہ جو آخرت میں خوف اور غم کا باعث بنتی ہیں۔ ( 4 ) ان تین کے علاوہ مزید اَقوال بھی تَفاسیر میں مذکور ہیں۔
اولیاءِ کرام کی اَقسام:
اولیاءِ کرام کی کثیر اَقسام ہیں جیساکہ حضرت ابو درداء رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے مروی ہے ،بے شک انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام زمین کے اَوتاد تھے ، جب نبوت کا سلسلہ ختم ہوا تو اللہ تعالیٰ نے اُمتِ احمد صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ میں سے ایک قوم کو اُن کا نائب بنایا جنہیں اَبدال کہتے ہیں ، وہ حضرات (فقط) روزہ و نماز اور تسبیح وتقدیس میں کثرت کی وجہ سے لوگوں سے افضل نہیں ہوئے بلکہ اپنے حسنِ اَخلاق، وَرع و تقویٰ کی سچائی، نیت کی اچھائی، تمام مسلمانوں سے اپنے سینے کی سلامتی، اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا کے لیے حلم ، صبر اور دانشمندی ، بغیر کمزوری کے عاجزی اور تمام مسلمانوں کی خیر خواہی کی وجہ سے افضل ہو ئے ہیں۔ پس وہ انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے نائب ہیں۔ وہ ایسی قوم ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنی ذات پاک کے لئے منتخب اور اپنے علم اور رضا کے لئے خاص کر لیا ہے ۔ وہ 40 صدیق ہیں ، جن میں سے 30 رحمٰن عَزَّوَجَلَّ کے خلیل حضرت ابراہیم عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے یقین کی مثل ہیں۔ ان کے ذریعے سے اہلِ زمین سے بلائیں اور لوگوں سے مصیبتیں دور ہوتی ہیں ، ان کے ذریعے سے ہی بارش ہوتی اور رزق دیا جاتا ہے، ان میں سے کوئی اُسی وقت فوت ہوتا ہے جب اللہ تعالیٰ اس کی جانشینی کیلئے کسی کو پروانہ دے چکا ہوتا ہے۔ وہ کسی پر لعنت نہیں بھیجتے، اپنے ماتحتوں کو اَذیت نہیں دیتے ، اُن پر دست درازی نہیں کرتے ،اُنہیں حقیر نہیں جانتے ، خود پر فَوقیت رکھنے والوں سے حسد نہیں کرتے ، دنیا کی حرص نہیں کرتے ، دکھاوے کی خاموشی اختیار نہیں کرتے ، تکبرنہیں کرتے اور دکھاوے کی عاجزی بھی نہیں کرتے ۔ وہ بات کرنے میں تمام لوگوں سے اچھے اور نفس کے اعتبار سے زیادہ پرہیزگار ہیں ، سخاوت ان کی فطرت میں شامل ہے، اَسلاف نے جن (نامناسب ) چیزوں کو چھوڑا اُن سے محفوظ رہنا ان کی صفت ہے ، اُن کی یہ صفت جدا نہیں ہوتی کہ آج خشیت کی حالت میں ہوں اور کل غفلت میں پڑے ہوں بلکہ وہ اپنے حال پر ہمیشگی اختیا ر کرتے ہیں ، وہ اپنے اور اپنے ربّ عَزَّوَجَلَّ کے درمیان ایک خاص تعلق رکھتے ہیں ، جہاں تک دوسرے کسی کی رسائی نہیں۔ اُن کے دل اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا اور شوق میں آسمان کی طرف بلند ہوتے ہیں ، (پھر یہ آیت تِلاوت فرمائی) ’’ اُولٰٓىٕكَ حِزْبُ اللّٰهِؕ-اَلَاۤ اِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘ ( المجادلۃ: ۲۲ ) ترجمہ ٔ کنزُالعِرفان : یہ اللہ کی جماعت ہے، سن لو! اللہ کی جماعت ہی کامیاب ہے۔ ( نوادرُ الاصول، الاصل الحادی والخمسون، ۱ / ۲۰۹ ، الحدیث: ۳۰۱ )
حضرت شریح بن عبید رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’حضرت علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے پاس شام والوں کا ذکر ہوا تو ان سے عرض کی گئی کہ ان پر لعنت کیجئے۔ آپ نے ارشاد فرمایا: ’’نہیں ، میں نے حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اَبدال شام میں ہوں گے، وہ حضرات چالیس مرد ہیں ، جب ان میں ایک وفات پاتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کی جگہ دوسرے کو بدل دیتا ہے، ان کی برکت سے بارشیں برستی ہیں ، ان کے ذریعے دشمنوں پر فتح حاصل ہوتی ہے اور ان کی برکت سے شام والوں سے عذاب دور ہوتا ہے۔ ( مسند امام احمد، ومن مسند علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ، ۱ / ۲۳۸ ، الحدیث: ۸۹۶ )
اولیاءِ کرام کی اَقسام کے بارے میں اَکابر علماء و محدثین نے بڑا تفصیلی کلام فرمایا ہے ۔ علامہ سیوطی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے قطب، اَبدال وغیرہما کے وجود پر ایک کتاب تصنیف فرمائی ہے۔ علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی اس موضوع پر مشہور کتاب ’’جامع کراماتِ اولیاء‘‘ ضخیم ترین کتاب ہے۔ علامہ نبہانی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے کلام کی روشنی میں یہاں چند مشہور اَقسام بیان کی جاتی ہیں
( 1 )… اَقطاب۔ یہ قُطب کی جمع ہے۔ قطب اسے کہتے ہیں کہ جو خود یا کسی کے نائب کے طور پر حال اور مقام دونوں کا جامع ہو۔
( 2 )… اَئمہ ۔ یہ وہ حضرات ہیں کہ جو قطب کے انتقال کے بعد اس کے خلیفہ بنتے ہیں اور وہ قطب کیلئے وزیر کی طرح ہوتے ہیں۔ہر زمانے میں ان کی تعداد دو ہوتی ہے۔
( 3 )… اَوتاد۔ ہر زمانے میں ان کی تعداد چار ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے۔ ان میں سے ایک کے ذریعے اللہ تعالیٰ مشرق کی حفاظت فرماتا ہے ، دوسرے کے ذریعے مغرب کی ، تیسرے کے ذریعے شمال کی اور چوتھے کے ذریعے جنوب کی حفاظت فرماتا ہے اور ان میں سے ہر ایک کی اپنے حصے میں ولایت ہوتی ہے۔
( 4 )… اَبدال۔ ان کی تعداد سات ہوتی ہے، اس سے کم یا زیادہ نہیں ہوتے، اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے ساتوں برِّ اَعظم کی حفاظت فرماتا ہے، انہیں ابدال ا س لئے کہتے ہیں کہ جب یہ کسی جگہ سے کوچ کرتے ہیں اور کسی مَصلحت اور قربت کی وجہ سے اس جگہ اپنا قائم مقام چھوڑنے کا ارادہ کرتے ہیں تو وہاں ایسے آدمی کو نامزد کرتے ہیں کہ جو ان کا ہم شکل ہواور جو کوئی بھی اس ہم شکل کو دیکھے تو وہ اسے اصلی شخص ہی سمجھے حالانکہ وہ ایک روحانی شخصیت ہوتا ہے جسے ابدال میں سے کوئی بدل قصداً وہاں ٹھہرا تا ہے۔ جن اَولیاء میں یہ قوت ہوتی ہے ، انہیں ا بدال کہتے ہیں۔
( 5 )…رِجال ا لغیب ۔ اَہلُ اللہ کی اِصطلاح میں یہ وہ لوگ ہیں جو رب کی بارگاہ میں انتہائی عاجزی کا اظہار کرتے ہیں اور تجلیات ِ رحمٰن کے غلبے کے سبب آہستہ آواز کے سوا کچھ کلام نہیں کرتے، ہمیشہ اسی حال میں رہتے ہیں ، چھپے ہوئے ہوتے ہیں پہچانے نہیں جاتے، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے مُناجات نہیں کرتے اور اس کے سوا کسی کے مشاہدے میں مشغول نہیں ہوتے۔ بعض اوقات اس سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جو انسانی نگاہوں سے پوشیدہ ہوں اور کبھی اس کا اِطلاق نیک اور مومن جنات پر ہوتا ہے ۔ بعض اوقات ان سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جو ظاہری حواس سے علم اور رزق وغیرہ نہیں لیتے انہیں غیب سے یہ چیزیں عطا ہوتی ہیں۔ ( جامع کرامات اولیاء، القسم الاول فی ذکر مراتب الولایۃ۔۔۔ الخ، ۱ / ۶۹ ، ۷۴ )
مذکورہ آیت میں اللہ تعالیٰ نے ولی کی دو صِفات بیان فرمائی ہیں :
( 1 )… ولی وہ ہے جو ایمان کے ساتھ مُتَّصِف ہو۔ ایمان کا معنی ہے وہ صحیح اعتقاد جو قَطعی دلائل پر مبنی ہو۔
( 2 )… ولی کی دوسری صفت یہ ہے کہ وہ متقی ہو۔ تقویٰ کا معنی یہ ہے کہ جن کاموں کو کرنے کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا انہیں کرنا اور جن کاموں سے منع کیا ہے ان سے اِجتناب کرنا۔ ( صاوی، یونس، تحت الآیۃ: ۶۳ ، ۳ / ۸۸۰ ) اوراس کے ساتھ ساتھ ہر اس کام کیلئے کوشش کرنا جس میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا ہو اور ہر اُس کام سے بچنا جو اللہ عَزَّوَجَلَّ سے دور کرنے والا ہو۔
اولیاءِ کرام کے فضائل:
اولیاءِ کرام کے فضائل پر مشتمل 4 اَحادیث ملاحظہ ہوں
( 1 )… حضرت ابو ہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ ’’ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ’’جو میرے کسی ولی سے دشمنی کرے، اس سے میں نے لڑائی کا اعلان کردیا اور میرا بندہ کسی شے سے میرا اُس قدر قرب حاصل نہیں کرتا جتنا فرائض سے کرتا ہے اور میرا بندہ نوافل کے ذریعے سے ہمیشہ قرب حاصل کرتا رہتا ہے، یہاں تک کہ میں اسے محبوب بنا لیتا ہوں اور جب اس سے محبت کرنے لگتاہوں تو میں اس کے کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے اور میں اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ پکڑتا ہے اور اس کا پیر بن جاتا ہوں جس کے ساتھ وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے سوال کرے، تو اسے دوں گا اور پناہ مانگے تو پناہ دوں گا۔ ( بخاری، کتاب الرقاق، باب التواضع، ۴ / ۲۴۸ ، الحدیث: ۶۵۰۲ )
( 2 )… حضرت ابوہریرہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے ، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے محبت کرتا ہوں تم بھی اس سے محبت کرو چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے محبت کرتے ہیں ،پھر حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام آسمان میں ندا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے محبت کرتا ہے تم بھی اس سے محبت کرو تو آسمان والے بھی اس سے محبت کرتے ہیں ، پھر اس کے لیے زمین میں مقبولیت رکھ دی جاتی ہے ۔اور جب رب تعالیٰ کسی بندے سے ناراض ہوتا ہے تو حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام کو بلا کر ان سے فرماتا ہے کہ میں فلاں سے ناراض ہوں تو تم بھی اس سے ناراض ہوجائو چنانچہ حضرت جبرئیل عَلَیْہِ السَّلَام اس سے ناراض ہوجاتے ہیں ،پھر وہ آسمان والوں میں اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں سے ناراض ہے تم بھی اس سے ناراض ہوجائو تو آسمان والے اس سے نفرت کرتے ہیں پھر زمین میں اس کے لیے نفرت رکھ دی جاتی ہے۔ ( مسلم، کتاب البرّ والصلۃ والآداب، باب اذا احبّ اللہ عبداً حبّبہ الی عبادہ، ص ۱۴۱۷ ، الحدیث: ۱۵۷(۲۶۳۷) )
( 3 )… حضرت معاذ بن جبل رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، رسولُ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جو لوگ میرے جلال کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ان کے لیے نور کے منبر ہوں گے، انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شُہدا اُن پر رشک کریں گے۔ ( ترمذی، کتاب الزہد، باب ما جاء فی الحبّ فی اللہ، ۴ / ۱۷۴ ، الحدیث: ۲۳۹۷ )
( 4 )… حضرت عمر بن خطاب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا ’’ اللہ تعالیٰ کے کچھ ایسے بندے ہیں کہ وہ نہ انبیاء عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام ہیں اور نہ شُہدا ء ۔ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان کا ایسا مرتبہ ہوگا کہ قیامت کے دن انبیاءِ کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام اور شہدا اُن پر رشک کریں گے۔ لوگوں نے عرض کی، یا رسولَ اللہ ! صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، ارشاد فرمائیے یہ کون لوگ ہیں ؟ فرمایا کہ ’’یہ وہ لوگ ہیں جو محض رحمتِ الٰہی کی وجہ سے آپس میں محبت رکھتے ہیں ، نہ ان کا آپس میں رشتہ ہے، نہ مال کا لینا دینا ہے۔ خدا کی قسم! ان کے چہرے نور ہیں اور وہ خود بھی نور پر ہیں۔ جب لوگ خوف میں ہوں گے ، اس وقت اِنہیں خوف نہیں ہو گااور جب دوسرے غم میں ہوں گے تویہ غمگین نہ ہوں گے۔‘‘ اور حضورپُر نور ( صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ) نے یہ آیت پڑھی۔
’’ اَلَاۤ اِنَّ اَوْلِیَآءَ اللّٰهِ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ ‘‘ ( یونس: ۶۲ )
ترجمہ ٔ کنزُالعِرفان :سن لو! بیشک اللہ کے ولیوں پر نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔ ( ابوداؤد، کتاب الاجارۃ، باب فی الرہن، ۳ / ۴۰۲ ، الحدیث: ۳۵۲۷ )