جنگِ بدر کا پس منظر۔
جنگِ بدر کا پس منظر:
قریش کی اسلام:
اسلام نے مکہ کی سرزمین میں اعلان حق کیا تو معاشرے کے مخلص ترین افراد ایک ایک کرکے داعی اسلام کے ہاتھ پر بیعت کرنے لگے۔ وہ لوگ جن کے مفادات پرانے نظام سے وابستہ تھے تشدد پر اتر آئے نتیجہ ہجرت تھا۔ لیکن تصادم اس کے باوجود بھی ختم نہ ہوا۔ اسلام مدینہ میں تیزی سے ترقی کر رہا تھا اور یہ بات قریش مکہ کے لیے بہت تکلیف دہ تھی اور وہ مسلمانوں کو ختم کرنے کے منصوبے بناتے رہتے تھے اور مسلمان ہر وقت مدینہ پر حملے کا خدشہ رکھتے تھے۔ اس صورت حال کی نزاکت کا یہ عالم تھا کہ صحابہ ہتھیار لگا کر سوتے تھے اور خود کو حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بھی اسی طرح کی حفاظتی تدابیر اختیار کرتے تھے۔
تجارتی شاہراہ کا مسلمانوں کی زد میں ہونا:
قریش مکہ نے مدینہ کی اس اسلامی ریاست پر حملہ کرنے کا اس لیے بھی فیصلہ کیا کہ وہ شاہراہ جو مکہ سے شام کی طرف جاتی تھی مسلمانوں کی زد میں تھی۔ اس شاہراہ کی تجارت سے اہل مکہ لاکھوں اشرفیاں سالانہ حاصل کرتے تھے۔ اس کا اندازہ ہمیں اس واقعہ سے ہوتا ہے کہ بنو اوس کے مشہور سردار سعد بن معاذ جب طواف کعبہ کے لیے گئے تو ابوجہل نے خانہ کعبہ کے دروازے پر انہیں روکا اور کہا تو ہمارے دین کے مرتدوں کو پناہ دو اور ہم تمہیں اطمینان کے ساتھ مکے میں طواف کرنے دیں؟ اگر تم امیہ بن خلف کے مہمان نہ ہوتے تو یہاں سے زندہ نہیں جاسکتے تھے۔ یہ سن کر سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا۔
’’خدا کی قسم اگر تم نے مجھے اس سے روکا تو میں تمہیں اس چیز سے روک دوں گا جو تمہارے لیے اس سے اہم تر ہے یعنی مدینہ کے پاس سے تمہارا راستہ۔‘‘
اشاعت دین میں رکاوٹ:
حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم اور ان کے ساتھیوں کو مدینہ میں تبلیغ کرنے کی پوری آزادی تھی اور اسلام کے اثرات دور دراز علاقوں میں پہنچ رہے تھے۔ جنوب کے یمنی قبائل میں سے بھی بعض سلیم الفطرت لوگ مشرف بہ اسلام ہو گئے تھے اور ان کی کوششوں سے بحرین کا ایک سردار عبدالقیس مدینہ کی طرف آ رہا تھا کہ قریش مکہ نے راستے میں اسے روک دیا۔ اس سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جب تک خدا پرستی اور شرک میں ایک چیز ختم نہیں ہو جائے گی، کشمکش ختم نہیں ہوسکتی۔
عمر بن الحضرمی کا قتل:
رجب 2 ھ میں حضرت محمدصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے عبداللہ بن حجش کی قیادت میں بارہ آدمیوں پر مشتمل ایک دستہ اس غرض سے بھیجا کہ قریش کے تجارتی قافلوں کی نقل و حرکت پر نگاہ رکھے۔ اتفاق سے ایک قریشی قافلہ مل گیا اور دونوں گروہوں کے درمیان میں جھڑپ ہو گئی جس میں قریش مکہ کا ایک شخص عمر بن الحضرمی مقتول ہوا اور دو گرفتار ہوئے۔ جب عبد اللہ حضورصلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے پاس پہنچے تو آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اس واقعہ پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا۔ جنگی قیدی رہا کر دیے گئے اور مقتول کے لیے خون بہا ادا کیا۔ اس واقعہ کی حیثیت سرحدی جھڑپ سے زیادہ نہ تھی چونکہ یہ جھڑپ ایک ایسے مہینے میں ہوئی جس میں جنگ و جدال حرام تھا۔ اس لیے قریش مکہ نے اس کے خلاف خوب پروپیگنڈہ کیا اور قبائل عرب کو بھی مسلمانوں کے خلاف اکسانے کی کوشش کی۔ عمرو کے ورثا نے بھی مقتول کا انتقام لینے کے لیے اہل مکہ کو مدینہ پر حملہ کرنے پر اکسایا۔
مدینہ کی چراگاہ پر حملہ:
مکہ اور مدینہ کے درمیان میں کشیدگی بڑھتی جا رہی تھی اس سلسلے میں یہ واقعہ قابل ذکر ہے کہ ایک مکی سردار کرز بن جابر فہری نے مدینہ کے باہر مسلمانوں کی ایک چراگاہ پر حملہ کرکے رسول اللہ کے مویشی لوٹ لیے۔ یہ ڈاکہ مسلمانوں کے لیے کھلا چیلنج تھا۔ چند مسلمانوں نے کرز کا تعاقب کیا لیکن وہ بچ نکلا۔
اسلامی ریاست کے خاتمہ کا منصوبہ:
قریش مکہ نے اسلامی ریاست کو ختم کرنے کا فیصلہ کرکے جنگ کی بھرپور تیاریاں شروع کر دیں۔ افرادی قوت کو مضبوط بنانے کے لیے انہوں نے مکہ مکرمہ کے گردونواح کے قبائل سے معاہدات کیے اور معاشی وسائل کو مضبوط تر کرنے کے لیے یہ فیصلہ کیا گیا کہ اس مرتبہ جو تجارتی قافلہ شام بھیجا جائے اس کا تمام منافع اسی غرض کے لیے وقف ہو۔ چنانچہ ابوسفیان کو اس قافلے کا قائد مقرر کیا گیا اور مکہ مکرمہ کی عورتوں نے اپنے زیور تک کاروبار میں لگائے۔ اسلامی ریاست کے خاتمے کے اس منصوبے نے مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے درمیان میں کشیدگی میں بہت اضافہ کر دیا۔
ابو سفیان کا قافلہ:
جب ابوسفیان کا مذکورہ بالا قافلہ واپس آ رہا تھا تو ابوسفیان کو خطرہ محسوس ہوا کہ کہیں یہ قافلہ راستے ہی میں نہ لوٹ لیا جائے چنانچہ اس نے ایک ایلچی کو بھیج کر مکہ سے امداد منگوائی۔ قاصد نے عرب دستور کے مطابق اپنے اونٹ کی ناک چیر دی اور رنگ دار رومال ہلا کر واویلا کیا اور اعلان کیا کہ ابوسفیان کے قافلے پرحملہ کرنے کے لیے محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم بڑھا چلا آ رہا ہے۔ اس لیے فوراً امداد کے لیے پہنچو۔ اہل مکہ سمجھے کہ قریش کا قافلہ لوٹ لیا گیا ہے۔ سب لوگ انتقام کے لیے نکل کھڑے ہوئے۔ راستے میں معلوم ہوا کہ یہ قافلہ صحیح سلامت واپس آ رہا ہے۔ لیکن قریش کے مکار سرداروں نے فیصلہ کیا کہ اب مسلمانوں کا ہمیشہ کے لیے کام ختم کرکے ہی واپس جائیں گے۔ نیز حضرمی کے ورثاء نے حضرمی کا انتقام لینے پر اصرار کیا۔ چنانچہ قریشی لشکر مدینہ کی طرف بڑھتا چلا گیا اور بدر میں خیمہ زن ہو گیا۔
اسیران جنگ کے ساتھ سلوک:
آنحضرت نے اسیران جنگ کا صحابہ میں تقسیم کرکے انہیں آرام سے رکھنے کا حکم دیا۔ صحابہ کرام نے اپنے قائد کے فرمان پر اس حد تک عمل کیا کہ خود کھجوریں کھا کر قیدیوں کو کھانا کھلایا۔ صحابہ کرام سے ان کے بارے میں مشورہ طلب کیا گیا تو حضرت عمر فاروق نے انہیں قتل کر کے دشمن کی قوت توڑنے کی تجویز پیش کی حضرت ابوبکر نے فدیہ لے کر چھوڑ دینے کا مشورہ دیا۔ آنحضرت نے حضرت ابوبکر سے اتفاق کرتے ہوئے اسیران جنگ کو فدیہ لے کر چھوڑ دیا جو قیدی غربت کی وجہ سے فدیہ ادا نہیں کر سکتے تھے اور پڑھے لکھے تھے انہیں دس مسلمانوں کو پڑھنا لکھنا سکھانے کے عوص رہا کر دیا گیا۔ یہ قیدی حسن سلوک سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ ان میں سے بہت سے مشرف بہ اسلام ہوئے جن میں عباس بن عبد المطلب اور عقیل بن ابوطالب شامل تھے۔
مسلمانوں کی کامیابی کے اسباب:
غزوہ بدر میں مسلمان قریش کے مقابلے میں ایک تہائی سے بھی کم تھے۔ قریش کے پاس اسلحہ بھی مسلمانوں سے زیادہ تھا۔ اس کے باوجود کامیابی نے مسلمانوں کے قدم چومے۔ اس کے چند اسباب مندرجہ ذیل ہیں
نصرت الہی
غزوہ بدر میں مسلمانوں کا سب سے بڑا اور اصل سبب نصرت الہی تھا۔ اللہ تبارک و تعالٰی سے حضور نبی اکرم نے دعا فرمائی تھی:
” اے خدا! یہ قریش ہیں اپنے سامان غرور کےساتھ آئے ہیں تاکہ تیرے رسول کو جھوٹا ثابت کریں۔ اے اللہ اب تیری وہ مدد آجائے جس کا تو نے مجھ سے وعدہ فرمایا۔ اے اللہ ! اگر آج یہ مٹھی بھر جماعت ہلاک ہوگئی تو پھر روئے زمین پر تیری عبادت کہیں نہیں ہوگی “
اس کے جواب میں اللہ تعالٰیٰ نے فتح کی بشارت دی اور ایک ہزار فرشتوں سے امداد فرمائی سوره الانفال میں غزوه بدر کی تفصیل موجود ہے۔
ذوق شہادت
اسلام نے مسلمانوں کے جو عقائد مقرر تھے ان میں عقیدہ آخرت کو بنیادی حیثیت حاصل ہے۔ مسلمان موت کے بعد آنے والی ابدی زندگی کے لیے اس زندگی کو قربان کرنے کے لیے تیار ہوتا ہے۔ شہادت کی موت اس کے نزدیک موت نہیں ابدی زندگی ہے۔ اس عقیدہ نے مسلمانوں کو بے جگری سے لڑنے پر آمادہ کیا اور موت جس سے ہر انسان خائف ہوتا ہے۔ مسلمانوں اسے خوشی سے قبول کرنے کے لیے تیار تھے۔
بہتر انتظام
اسلامی لشکر اپنے سالار اعظم محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم پر جان چھڑکنے کو تیار تھا۔ ہر شخص اپنے قائد کے ہر حکم کو بلا چوں چراں مانتا تھا۔ مسلمان آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ادنٰی سے اشارے پر حرکت میں آجاتے تھے۔ لہذا ان کا تنظیمی ڈھانچہ اپنے حریفوں سے بہتر تھا۔ اس کے برعکس لشکر کفار کئی ایک سرداروں کی کمان میں تھا اور ان سرداروں میں اتحاد عمل پیدا ہونا بہت مشکل تھا۔ چنانچہ جب قریش نے مل کر حملہ کیا تو اسے مسلمانوں نے روک لیا لیکن مسلمانوں کے منظم حملے کو قریش نہ روک سکے۔
مشہور قریشی سرداروں کی موت
عام لڑائی کے آغازسے پہلے تین نامور قریشی سردار میدان میں آئے اور انہوں نے نہایت متکبرانہ انداز میں مدمقابل طلب کیے لیکن وہ تینوں مقتول ہوئے۔ عتبہ، ولید اور شیبہ قریش کے بہت ہی بہادر سردار سمجھے جاتے تھے۔ ان کے قتل سے قریش کے حوصلے پست ہو گئے۔ بعد میں ابوجہل کی ہلاکت نے رہی سہی کسر پوری کر دی۔
قریش کی صفوں میں انتشار
قبائلی نظام جہاں بھی ہوگا اتحاد کامل پیدا ہونا ناممکن ہے۔ قبائلی کبر و غرور تنظیم کا دشمن ہوتا ہے۔ قریشی لشکر بھی اس اصول سے مسثنیٰ نہ تھا۔ اس وجہ سے مکہ سے آنے والے لشکر میں اتحاد کا فقدان تھا۔
دشمن میں بددلی اور اختلاف رائے
اگرچہ لشکر قریشی خاندانی شرافت کو برقرار رکھنے کے لیے میدان جنگ میں آ گیا لیکن اس مسئلہ پر ان کے درمیان میں اختلاف رائے اور بددلی پائی جاتی تھی۔ ابوسفیان جب اپنے قافلے کو بچا کر نکل گیا تو اس نے پیغام بھیجا کہ جنگ کیے بغیر واپس لوٹ آؤ لیکن ابوجہل نہ مانا۔ اس پر بنی زہرہ اور بنی عدی واپس لوٹ گئے۔ بنو ہاشم سے مغرور قریشی سرداروں نے کہا۔ ’’اے بنو ہاشم ! اگرچہ تم ہمارے ساتھ چلے آئے لیکن تمہارا دل تو محمد صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے ساتھ ہے۔‘‘ اس پر بنی ہاشم میں ایک گروہ طالب بن ابی طالب کی سرکردگی میں واپس لوٹ گیا۔ حکیم بن حزام اور عتبہ نے بھی جنگ نہ کرنے کا مشورہ دیا لیکن ابوجہل اور حضرمی کے خاندان کے اصرار پر معرکہ کارزار گرم ہو کر رہا اور سرداروں نے بادل ناخواستہ اس جنگ میں شرکت کی۔ اسی سلسلے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ بعض قریشی پکار پکار کر کہہ رہے تھے کہ ہمیں محسوس ہوتا ہے کہ آسمان سے ہم پر بلائیں نازل ہو رہی ہیں۔ ان کے بعض افراد نے ایسے خواب دیکھے تھے جن میں ان کی تباہی کی خبر دی گئی تھی۔ ان تمام چیزوں کی حقیقت یہ تھی کہ جو لوگ اسلام کی حقانیت کو سمجھتے تھے اور انہیں معلوم تھا کہ ہم ’’خدا کا مقابلہ‘‘ کرنے جا رہے ہیں۔ اس لیے وہ خواب دیکھتے تھے کہ ان خوابوں کے عام چرچوں سے لشکر قریش میں اندر ہی اندر بددلی پھیلی ہوئی تھی۔
متفرق وجوہات
مسلمانوں کی کامیابی کی بعض دیگر وجوہات بھی تھیں۔ مثلاً نیز قریش کو لڑائی کے وقت سورج سامنے پڑتا تھا اور اس سے ان کی آنکھیں چندھیا رہی تھیں۔ جنگ سے چند گھنٹے پہلے بارش ہوئی جس نے قریش کے پڑاؤ کے قریب کیچڑ پیدا کر دیا جب کہ مسلمانوں کا پڑاؤ ریتلی زمین پر تھا اور انہیں اس سے فائدہ پہنچا کہ ریت جم گئی ایسی تمام چیزوں کو مسلمانوں نے اپنے لیے غیبی امداد سمجھا اور قریش مکہ نے اسے برے شگون لیے اور ان کے حوصلے پست ہوتے چلے گئے۔
غزوہ بدر کے اثرات
جنگ بدر حق و باطل کے درمیان میں فیصلہ کن معرکہ تھا اس کی اہمیت و اثرات کا اندازہ مندرجہ ذیل امور سے ہو سکتا ہے۔
حق و باطل کا فیصلہ
اللہ تعالٰی نے مسلمانوں کے ساتھ وعدہ فرمایا تھا کہ تجارتی قافلہ اور قریشی لشکر میں ایک ضرور مفتوح ہو گیا۔ ابوجہل اور دیگر قریشی سرداروں نے مکہ سے روانہ ہونے سے پہلے خانہ کعبہ کا پردہ پکڑ کر دعا کی تھی کہ ’’خدایا دونوں گروہوں میں سے جو بہتر ہے اس کو فتح عطا کراور جو برسر ظلم ہو اسے تباہ کر‘‘ چنانچہ غزوہ بدر میں اللہ تعالٰی نے فیصلہ فرما دیا کہ کون حق ہے اور باطل پر کون ہے۔
قریش کے غرور کا سر نیچا
میدان بدر میں آنے والے قریشی لشکر کی حالت یہ تھی کہ وہ اکڑتا ہوا اور لوگوں کو نمائش کرتا ہوا بڑھ رہا تھا۔ ان کا ارادہ تھا کہ بدر میں لگنے والے میلے میں لوگ ہماری قوت دیکھیں گے تو پورے عرب پر ہمارا رعب طاری ہو جائے گا۔ لیکن جنگ نے غرور کا سر نیچا کر دیا۔
اسلام ایک عظیم قوت
غزوہ بدر میں اسلام کی فتح نے اسلامی حکومت کو عرب کی ایک عظیم قوت بنا دیا۔ ایک مغربی مورخ کے الفاظ ہیں:
’’بدر سے پہلے اسلام محض ایک مذہب ۔۔۔۔ تھا مگر بدر کے بعد ہو مذہب ریاست بلکہ خود ریاست بن گیا۔‘‘
مدینہ میں اسلام کی مزید اشاعت
مدینہ میں بنو اوس اور بنو خزرج قبائل کے بہت سے لوگوں نے ابھی تک اسلام قبول نہیں کیا تھا اور وہ ہوا کا رخ دیکھ رہے تھے۔ 313 کے ہاتھوں ایک ہزار قریشی سرداروں کی شکست نے ان پر لات و منات و عزی اور ہبل کی قوت کا کھوکھلا پن واضح کر دیا ۔
منافقین کا گروہ
غزوہ بدر کے نتیجہ کے طور پر بہت سے ایسے لوگوں نے بھی اسلام قبول کر لیا جو فی الحقیقت اسلام کے قائل نہ ہوئے تھے۔ بلکہ دل سے اس کے دشمن تھے۔ اس کے نتیجہ کے طور پر منافقین کا گروہ پیدا ہو گیا تھا۔ جو بعد میں مسلمانوں کے اندر گھس کر خلاف اسلام سرگرمیوں میں مصروف رہا۔ عبد اللہ بن ابی ’’رئیس المنافقین‘‘ نے بھی جنگ بدر کے بعد مسلمان ہونے کا اعلان کر دیا۔
یہودیوں کے ساتھ تصادم
یہودی اب تک یہ امید لگائے بیٹھے تھے کہ مسلمان قریش مکہ کے ہاتھوں ختم ہو جائیں گے اور مدینہ پر ان کی سیادت حسب سابق قائم ہو جائے گی لیکن اس جنگ کے نتیجہ نے انہیں سیخ پا کر دیا چنانچہ یہودی سردار مکہ گئے اور "اشراف عرب" کے مرنے پر روئے۔ ماتم کیا اور قریش کو ازسر نو مدینہ پر حملہ کرنے کی ترغیب دلائی اور امداد کا وعدہ کیا۔ اس طرح یہودیوں کے ساتھ بھی مسلمانوں کے تصادم کا آغاز ہو گیا۔
ابوسفیان کی سرداری
قریش مکہ کے بڑے بڑے سردار اس جنگ میں مارے گئے۔ صرف ابوسفیان بچا تھا جو اس جنگ میں شریک نہیں ہوا تھا اس لیے قریش کی قیادت ابو سفیان کے ہاتھوں میں آگئی۔ بنو امیہ کے اقتدار کی جدوجہد کے پس منظر میں ابوسفیان کو بڑا دخل حاصل تھا۔ مکہ پہنچ کر ابوسفیان اور اس کی بیوی ھندہ نے انتقامی جذبات کو بھڑکایا اور مدینہ پر ازسرنو دوسرے حملے کے منصوبے بنانے شروع کر دیے۔ اور اس کے بعد اسلام کے خلاف تمام جنگوں میں کفار مکہ کی قیادت اس نے کی۔
غزوہ سویق واحد
غزوہ بدر کے بعد سویق واحد کے غزوات اسی غزوہ کا نتیجہ ہے۔ اس میں قریش نے اپنے مقتولین کا بدلہ لینے کے لیے مدینہ پر حملے کیے۔
غزوہ بدر کی اہمیت
غزوہ بدر اسلام اور کفر کا پہلا اور اہم ترین تصادم ہے اس سے دنیا پر واضح ہو گیا کہ نصرت الہی کی بدولت مومنین اپنے سے کئی گناہ فوج کو شکست دے سکتے ہیں۔ اللہ تعالٰی نے قرآن پاک میں سو مومنوں کو ہزار کافروں پر فتح کی بشارت دی۔ غزوہ بدر میں شامل مسلمانوں نے جس قوت ایمانی کا مظاہرہ کیا اس کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ باپ بیٹے کے خلاف اور بیٹا باپ کے خلاف۔ بھانجا ماموں کے خلاف اور چچا بھتیجے کے خلاف میدان میں آیا۔ حضرت عمر نے اپنے ماموں کو اپنے ہاتھ سے قتل کیا۔ حضرت ابوبکر کے صاحبزادے عبد الرحمن نے جو قریش کی طرف سے جنگ میں شریک ہوئے تھے۔ اسلام لانے کے بعد ایک دفعہ حضرت ابوبکر کو بتایا کہ جنگ میں ایک مرتبہ آپ میری زد میں آ گئے تھے لیکن میں نے آپ پر وار کرنا پسند نہ کیا۔ حضرت ابوبکر نے فرمایا خدا کی قسم اگر تم میری زد میں آجاتے تو کبھی لحاظ نہ کرتا۔ حضرت حذیفہ کا باب عتبہ بن ربیعہ لشکر قریش کا سپہ سالار تھا اور سب سے پہلے قتل ہونے والوں میں شامل تھا۔ اس جنگ کاایک اور پہلو یہ ہے کہ مسلمانوں نے بہت نظم و ضبط سے دشمن کا مقابلہ کیا اور اپنی صفیں نہیں ٹوٹنے دیں۔ جنگ کے خاتمے پر خدا اور رسول کے حکم کے تحت مال غنیمت کی تقسیم ہوئی۔ مال غنیمت کی اتنی پر امن اور دیانت دارانہ تقسیم کی مثال کم ہی ملتی تھی۔ القصہ مسلمانوں کے تقوی اور اطاعت رسول کی وجہ سے ان کی برتری روز روشن کی طرح ثابت ہو گئی اور کفار کے حوصلے پست ہوئے۔ جب کی مسلمانوں کا اللہ پر توکل بہت بڑھ گیا۔
حوالہ جات
1 الرحيق المختوم، صفی الرحمٰن مبارک پوری، الناشر: دار الهلال - بيروت، الطبعة الأولى
2 معجم اللغة العربية المعاصرة، أحمد مختار عبد الحميد عمر بمساعدة فريق عمل، عالم الكتب، الطبعة الأولى، 1429هـ-2008م