حضرت سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بارگاہ رسالتﷺمیں۔ Abdullah Madni 1991
حضرت شیخ سید احمد کبیر رفاعی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ بارگاہ رسالتﷺمیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ولی کبیر و امام شہیر حضرت سید احمد ابن رفاعی رضی اﷲ عنہ کے لئے نبی کریمﷺ کا اپنی قبر شریف سے دست مبارک کو باہر نکالنے کے بارے میں سوال ہوا ہے کہ آیا وہ واقعہ ممکن ہے یا نہیں؟ اور کیا اس مشہور روایت کی سندیں عالی و صحیح ہیں یا نہیں؟ میں نے اسی سوال کے جواب میں یہ کتابچہ تحریر کیا ہے اور اس کا نام رکھا ہے
’’الشرف المحتم فیما من اﷲ بہ علی ولیہ السید احمد الرفاعی رضی اﷲ عنہ من تقبیل ید النبی صلی اﷲ علیہ دیوسلم‘‘
سب سے پہلے جو کہنا چاہتا ہوں وہ یہ ہے کہ ہمارے نزدیک نبی کریمﷺ کی حیات اور تمام دوسرے انبیاء کی حیات قطعی و یقینی ہے اور اس یقین کے لئے ہمارے پاس یقینی دلائل و براہین ہیں۔ صحیح روایتیں اور متواتر خبریں ہیں، خود میں نے حیات الانبیاء کے موضوع پر ایک خاص کتاب تصنیف کی ہے جس میں دلائل و اخبار کو تفصیل سے ذکر کیاہے۔
یہاں میں ان دلائل میں سے چند ایک کا ذکر کرنا چاہوں گا۔ امام ابو نعیم نے ’’الحلیۃ‘‘ میں حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ سے روایت کیا ہے کہ
’’ان النبی صلی اﷲ علیہ وسلم مر بقبر موسیٰ علیہ الصلوٰۃ والسلام وہو قائم یصلی فیہ‘‘
یعنی نبی کریمﷺ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی قبر کے پاس سے گزرے تو پایا کہ وہ قبر میں کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔
امام ابو یعلی نے اپنی مسند میں حضرت انس رضی اﷲ عنہ سے حدیث بیان کی ہے کہ
’’الانبیاء احیاء فی قبورہم یصلون‘‘
یعنی انبیاء اپنی قبروں میں زندہ ہیں، نماز پڑھتے ہیں
اور یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے ہمارے نبی سیدنا محمدﷺ کے لئے مرتبۂ نبوت و شہادت دونوں اکھٹا کردیا ہے، یعنی دونوں مرتبے آپﷺ کی ذات میں جمع ہوگئے ہیں اور اس کی دلیل امام بخاری اور امام بیہقی کی روایت کردہ وہ حدیث ہے جسے ان حضرات نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے تخریج کیا ہے کہ: نبی کریمﷺ اپنے مرض وفات میں فرمایا کرتے تھے کہ
’’لم ازل اجد الم الطعام الذی اکلت بخیبر فہذا او ان انقطاع ابہری من ذالک السم‘‘
میں اب بھی خیبر میں کھائے گئے (زہریلے) کھانے کی تکلیف محسوس کرتا ہوں، اس زہر کے اثر سے ’’ابہری‘‘ رگ کے منقطع ہونے کا وقت آگیا ہے۔
لہذا نص قرآنی کے مطابق آپﷺ کی حیات ثابت شدہ ہے، کیونکہ فرمان الٰہی ہے کہ
’’لاتحسبن الذین قتلوا فی سبیل اﷲ امواتا بل احیاء عند ربہم یرزقون‘‘
اﷲ کی راہ میں مارے جانے والوں کو مردہ مت سمجھو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں، رزق پا رہے ہیں۔
انبیائے کرام شہداء سے اس بات کے زیادہ حقدار ہیں اور ہمارے نبی کریمﷺ تمام انبیاء کرام صلوٰۃ اﷲ وسلامہ علیہم اجمعین سے زیادہ حق رکھتے ہیں اور آپﷺ کی یہ احقیت ان فضائل و خصائص کے سبب ہے جو اﷲ تعالیٰ نے آپ کو عطا کئے ہیں، نہایت ثقہ محدثین نے انبیاء کی حیات کو مستقلا موضوع بنایا ہے، بعض انبیاء علیہم السلام کو خود ہمارے نبیﷺ نے باحیات دیکھا ہے اور آپﷺ نے ہی ہمیں خبر دی ہے اور بلاشبہ ان کی خبر سچی ہے کہ ہمارے درود آپﷺ پر پیش کئے جاتے ہیں اور ہمارے سلام آپ تک پہنچائے جاتے ہیں اور آپﷺ اس کا جواب دیتے ہیں جو سلام پیش کرتا ہے۔
البارزی سے نبی کریمﷺ کی حیات کے بارے میں پوچھا گیا تو جواب دیا کہ
“آپﷺ باحیات ہیں، امام حرہ میں حضرت سعید بن مسیب رضی اﷲ عنہ قبر رسولﷺ سے ایک گونج سن کر ہی نماز کے اوقات کو جانتے تھے”
’’احبار مدینہ‘‘ میں زبیر بن بکار نے حضرت سعید بن مسیب سے روایت کیا ہے
“میں ایام حرۃ میں مزار رسولﷺ سے اذان و اقامت کی آواز سنتا رہتا تھا، یہاں تک کہ لوگ واپس آگئے”
عفیف الدین یافعی فرماتے ہیں کہ
’’یہ طے شدہ ہے کہ جو چیز انبیائے کرام کیلئے بطور معجزہ جائز ہے وہ سب اولیاء کے لئے بطور کرامت بلا شرط چیلنج جائز ہے‘‘
اور فرماتے ہیں کہ اور یہ ایسی بات ہے کہ اس بات کا انکار صرف جاہل شخص ہی کرے گا، حیات انبیاء کے سلسلے میں علماء کے بے شمار اقوال ہیں لیکن میں اتنے ہی پر اکتفا کرتا ہوں، چونکہ حیات انبیاء ثابت ہے اور اولیاء کا انبیائے کرام کے کلام کو سننا اور ان کی زیارت کرنا بھی صحیح ہے، لہذا سیدی سید احمد ابن رفاعی رضی اﷲ عنہ کے لئے نبی کریمﷺ کے دست مبارک کا قبر شریف سے باہر آنا بھی ممکن ہے اور اس میں یا تو کجی و گمراہی والا شبہ کرے گا یا ایسا منافق جس کے دل پر اﷲ نے مہر لگادی ہے، اس صفت و خوبی یا س کے مثل کا انکار سوئے خاتمہ کا سبب ہوتا ہے۔ اﷲ ہماری حفاظت فرمائے، کیونکہ اس میں دائمی معجزہ اور کھلی کرامت کا انکار ہے۔
ہم سے ہمارے شیخ، شیخ الاسلام کمال الدین امام کاملیہ نے روایت کی ہے، انہوں نے ہمارے مشائخ کے شیخ امام علامہ شیخ شمس الدین جزری سے، انہوں نے اپنے شیخ امام زین الدین مراعی سے، انہوں نے شیخ الشیوخ شجاع و محدث و واعظ و فقیہ و مقرر و مفسر، امام و مقتدا و حجت شیخ عزالدین احمد فاروقی سے، انہوں نے اپنے والد استاد اصیل علامہ جلیل شیخ ابو اسحاق فقرائے ابراہیم فاروقی سے، اور انہوں نے اپنے والد امام فقہاء و محدثین شیخ فقرائے اکابر و علمائے عاملین شیخ عز الدین عمر ابوالفرج قدس اﷲ سرہم اجمعین سے روایت کیا ہے۔ فرماتے ہیں کہ 555ھ کے حج میں، میں اپنے شیخ و ملجا اور اپنے سردار ابو العباس قطب و غوث شیخ سید احمد رفاعی حسینی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ تھا۔ اس سال آپ کو اﷲ تعالیٰ کی جانب سے حج کی سعادت حاصل ہوئی تھی، جب حضرت رفاعی مدینہ پہنچے تو نبی کریمﷺ کے حجرے کے سامنے کھڑے ہوکر لوگوں کی موجودگی میں بلند آواز سے عرض کیا۔ السلام علیک یا جدی یعنی اے میرے جد آپ پر سلام ہوتو حضورﷺ نے فرمایا وعلیک السلام یا ولدی اے میرے بیٹے تم پر بھی سلامتی ہو اور اس (جواب) کو مسجد نبوی میں موجود ہر شخص نے سنا اور یہ سن کر سیدنا احمد رفاعی پر جذب طاری ہوگیا۔ آپ تھرا اٹھے، آپ کا رنگ زرد پڑگیا، گریہ و زاری کرتے ہوئے گھٹنے کے بل کھڑے ہوگئے اور دیر تک سسکیاں لیتے رہے پھر عرض کیا اے جد کریمﷺ
فی حالۃ البعد روحی کنت ارسلہا
تقبل الارض عنی وہی نائبتی
وہذہ دولۃ الاشباح قد حضرت
فامدد یمینک کی تحظی بہا شفتی
اے جد کریم! دوری کی حالت میں اپنی روح و خیال کو بھیجا کرتا ہے جو میری نیابت میں آستاں بوسی کرتے تھے اور آج یہ دور افتادہ خود در دولت پر حاضر ہے لہذا آپ اپنے دست کرم کو دراز فرمائیں تاکہ میرے لب دست بوسی کی سعادت حاصل کرسکیں۔
تو رسول اﷲﷺ نے اپنے معطر دست مبارک کو قبر انور شریف سے باہر نکالا، جسے نوے ہزار زائرین کے ہجوم میں امام رفاعی نے چوما، یہ سارے لوگ دست مبارک کو دیکھ رہے تھے، اس وقت مسجد میں حجاج کرام کے درمیان شیخ حیات بن قیس حرانی، شیخ عبدالقادر جیلی (حضرت غوث اعظم مقیم) بغداد، شیخ خمیس اور شیخ عدی بن مسافر شامی وغیرہ بھی موجود تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے ہم سب کو ان حضرات کے علوم و اسرار سے نفع بخشے، ہم نے بھی ان حضرات کے ساتھ حضورﷺ کے پاکیزہ دست مبارک کی زیارت کی اور اسی دن شیخ حیات بن قیس حرانی نے سید احمد کبیر رفاعی سے خرقہ خلافت حاصل کیا اور آپ کے مریدین و مسترشدین میں شامل ہوگئے۔
ایک دوسرے طریقے سے مجھ سے روایت کیا ہے۔ شیخ محمد علی نے ان سے شیخ ابی الرجال یونینی بعلبکی نے، ان سے شیخ عبداﷲ بطائحی قادری نے، ان سے شیخ علی بن ادریس یعقوبی نے اور ان سے ان کے شیخ قطب یگانہ و غوث زمانہ شیخ عبدالقادر جیلی بغدادی نے روایت کیا ہے۔ فرمایا کہ اس محفل کرامت میں، میں بھی موجود تھا جس میں اﷲ تعالیٰ نے نبی کریمﷺ کی دست بوسی کے ذریعہ شیخ احمد کبیر رفاعی کی کرامت و بزرگی کا اظہار کیا۔ یعقوبی کہتے ہیں کہ میں نے اپنے شیخ حضرت جیلانی سے عرض کیا: حضور حاضرین کو اس کرامت و بزرگی سے حسد نہیں ہوا تو یہ سوال سن کر حضرت غوث صمدانی رونے لگے اور جواب دیا۔ اے ابن ادریس اس پر تو ملاء اعلیٰ (فرشتوں) نے بھی رشک کیا ہے۔ ایک اور طریقے سے، مجھ سے امام قوصی نے بیان کیاہے۔ ان سے شیخ قطب الدین خزانچی نے، ان سے شیخ رکن الدین سنجاری نے، ان سے ان کے شیخ عدی بن مسافر نے اور ان کے خادم شیخ علی بن موہوب نے بیان کیا ہے، دونون فرماتے ہیں کہ:
حج والے سال ہم مسجد نبوی میں تھے تو دیکھا کہ شیخ احمد بن رفاعی رضی اﷲ عنہ حجرہ طیبہ کی طرف رخ کرکے کھڑے ہیں اور کچھ عرض کررہے ہیں جسے بہت سے حضرات نے یاد رکھا اور نقل کیا ہے اور جیسے ہی آپ کی گفتگو ختم ہوئی، فورا اﷲ کے رسولﷺ کا دستِ مبارک قبر شریف سے باہر نکلا اور شیخ رفاعی نے اس کا بوسہ دیا۔ ہم جملہ حاضرین کے ساتھ اس (روح پرور اور ایمان افروز) منظر کو دیکھ رہے تھے (شیخ عدی کے خادم) ابن موہوب کہتے ہیں کہ : خدا کی قسم! گویا اب بھی وہ نظارہ میرے سامنے ہے، جب سفید گورا معتدل ہاتھ قبر مبارک سے باہر نکلا جس کی انگلیاں خوب لمبی لمبی تھیں، گویا بجلی چمک رہی ہو، حرم و اہل حرم گویا سبھی رقص کناں ہوں۔
لوگ سلطان محمدی اور جلال احمدی سے اس قدر مرعوب و لرزاں و ترساں تھے اور (اس معجزۂ گرامی) سے اس طرح حیرت زدہ تھے گویا قیامت آنے والی ہو۔ لوگ حیرت و دہشت میں بے قرار و بے اختیار اٹھ بیٹھ رہے تھے۔ کبھی اﷲ کی تکبیر وبڑھائی بولتے تو کبھی حضورﷺ پر صلوٰۃ و سلام بھیجتے۔
یہ بات معروف ہے کہ حضرت رفاعی کی یہ منقبت مسلمانوں کے درمیان درجہ تواتر کو پہنچ چکی ہے۔ اس کی سندیں عالی اور بلند مرتبہ ہیں اور اس کی روایتیں صحیح ہیں۔ تمام راویوں کا اس کی صحت و صداقت پر اتفاق ہے، اور اس کا انکار منافقت کی نشانیوں میں سے ہے۔
فائدہ: اگر یہ کہا جائے کہ کیا اس فضل و منقبت کے سبب سید احمد (رفاعی) رضی اﷲ عنہ اور دوسرے زائرین صحابہ کے زمرے میں داخل ہوگئے؟ کیونکہ ان حضرات کو نبی کریمﷺ کی رویت حاصل ہوئی ہے۔
جواب: ہمارے اساتذہ کے موقف کے مطابق زمرۂ صحابیت میں ان کا دخول محل نظر ہے اور صحیح تر یہ ہے کہ یہ لوگ داخل نہیں ہیں۔ یہی رائے سنجاوی وغیرہ کی ہے کیونکہ صحابیت کا ثبوت حضورﷺ کی ظاہری دنیوی حیات سے متعلق ہے اور یہ حیات اخروی ہے، دنیوی نہیں ہے اور دنیا کے احکام بھی اس سے متعلق نہیں ہیں۔
یہ واقعہ بھی ثابت شدہ ہے کہ جب سید احمد کبیر رفاعی رضی اﷲ عنہ نے دوبارہ حج فرمایا اور اسی سال میں ان کا وصال بھی ہوا تھا تو انہوںنے روضہ مبارک علی ساکنہا افضل الصلوٰۃ والسلام کے سامنے کھڑے ہوکر انتہائی عاجزی و خاکساری سے عرض کیا یعنی اگر کہا گیا کہ تم نے زیارت کی تو کیا لے کر لوٹے؟ تو اے بزرگ ترین رسولﷺ ہم کیا جواب دیں گے؟
تو قبر انور سے ایک آواز آئی جسے مسجد میں موجود ہر شخص نے سنا۔
اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں، کیونکہ حبیب خداﷺ ہر ایک کو اس کی زبان میں مخاطب کرتے تھے، جب حمیری نے پوچھا ’’ہل من امبر صیام فی امسفر‘‘ تو آپﷺ نے بھی حمیری لہجے میں جواب دیا اور لام تعریف کی جگہ میم استعمال فرمایا تھا اور یہ مشہور و معروف بات ہے، سید احمد رفاعی کو بھی آپﷺ کا جواب اسی قبیل سے تھا ۔
میں (امام سیوطی) اﷲ تعالیٰ کے لئے جس بات کو مانتا ہوں اور جس پر عقیدہ رکھتا ہوں وہ یہ ہے کہ سید احمد ابن رفاعی فاطمی حسینی رضی اﷲ عنہ معرفت الٰہی میں پائیدار پہاڑ کی مانند تھے، عظیم ترین سردار تھے، بہت بڑے ولی تھے اور سنت کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا بحر بے کنار تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ اولیاء اﷲ اور گروہ صوفیا کے ایسے مستند سردار تھے جن کی ذات پر طریقت کا خاتمہ ہوجاتا ہے، جن کی عظمت پر علماء والیاء کا اجماع واقع ہے۔ ان کے تمام معاصر اولیاء نے ان کی سربراہی میں اور ان کے تقدم کا اعتراف کیا ہے۔ آپ کے زمانے کے اکابر مشائخ نے آپ کے پرچم رشد وہدایت کے نیچے راہ سلوک طے کیا ہے۔ آپ نبیﷺ کی سنت پر پختگی کے ساتھ کاربند اور ان کی اتباع میں خوب راسخ قدم تھے۔ آپﷺ کی ذات پر تواضع اور حسن اخلاق کا خاتمہ ہوگیا۔
اﷲ تعالیٰ حضرت سید احمد ابن رفاعی رضی اﷲ عنہ کے علوم، روحانی امداد سے اور حال وقال سے مستفیض فرمائے اور ہمیں ان کے اور ان کے ولی دوستوں کے زمرے میں اور اپنے نبیﷺ کے لواء کے سائے میں رکھے۔
وسلام علی المرسلین والحمدﷲ رب العالمین