الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی رحمہ اللہ کا تعارف
" شیخ الاسلام خواجہ قمر الدین سیالوی رحمہ اللہ کا تعارف
الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی سید المرسلین
ہر دور میں لوگوں کی ہدایت اور دین مصطفے کی نشر واشاعت کے لیے اللہ رب العزت کےکچھ خاص لوگوں کا ظہور ہوتا ہے جو اپنے اقوال وافعال اور تحریر سے لوگوں کے دلوں میں محبت خدا اور عشق مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کا بیج بوتے ہیں اور پھر اسکی آبیاری بھی کرتے ہیں ان ہستیوں کا وجود اپنے اپنے دور میں مینارہ نور ثابت ہوتا ہے ان کے وجود سے سوکھے پتے سر سبز ہوجاتے اور مرجائے ہوئے پھول کھلنے لگتے ہیں اور باغ لہلہانے لگتے ہیں ۔جو ان ہستیوں کےقریب ہوتا ہے وہ خدا و مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب تر ہوجاتا ہے ۔ان کا دیدار اللہ کی یاد دلاتا ہے ۔اور ان کی نگاہ ناز سے دلوں کے زنگ دھل جاتے ہیں ۔لوگ ان کی زیارت صحبت اور وعظ و نصیحت سے جہاں اپنی زندگیاں سنوارتے ہیں وہیں اپنی عاقبت کا سامان بھی کرتے ہیں ۔
انہی ہستیوں میں ایک نمایاں اور عظیم نام شیخ الاسلام قمر الملت والدین خواجہ قمر الدین سیالوی علیہ الرحمہ کا
ہے
🌹تاریخ ولادت اور چند خصوصیات ۔
آپ 14جولائی 1904بمطابق 21جمادی الاولی 1324ھ کو سیال شریف ضلع سرگودھا کے ایک عظیم علمی روحانی گھرانے میں پیدا ہوئے اور آغوش ولایت میں پرورش پائی ۔
آپ علوم شریعت کے ماہر اور علوم طریقت کے جامع ،معقول ومنقول اصول و فروع پر حاوی ہونے کے ساتھ ساتھ زہد وعبادت میں بھی خاص مقام حاصل تھا ۔آپکو دینی علوم وفنون میں مہارت تامہ اور بصیرت کاملہ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ سیاست میں بھی ماہر تھے بلکہ سیاست آپ کے دربار کی لونڈی تھی ۔ آپ کو تورات زبور انجیل پر بھی کامل دسترس حاصل تھی بے شمار عیسائیوں سے آپ کے مختلف موضوعات پر مناظرے بھی ہونے اور بے شمار عیسائی آپ کے دست مبارک پر اسلام کی دولت سے مالا مال ہوئے ۔
:🌹حصول تعلیم🌹
ابتدائی تعلیم آپ نے مدرسہ ضیاء شمس العلوم سیال شریف سے حاصل کی اسی دوران کنز الدقائق کے ایک مشکل مقام کی شرح تحریر کی جسے دیکھ کر بڑے بڑے علماء حیران رہ گئے اسی شرح کو دیکھ کر آپ کو آپ کے والد ماجد حضرت ثالث خواجہ ضیا الدین رحمہ اللہ نے مزید تعلیم کے حصول کے لیے حضرت علامہ معین الدین اجمیری کے پاس اجمیر شریف مدرسہ عثمانیہ دارالخیر اجمیر شریف بھیجا انہی کے حلقہ درس سے آپ نے دورہ حدیث شریف پڑھا اور سند حدیث بھی حاصل کی ۔
🌹: آپ کی بے مثال خدمات🌹
جب آپ کی عمر تقریبا چوبیس سال تھی تو آپ کے والد ماجد کا انتقال ہوگیا اور آپ مسند سجادگی پر متمکن ہوئے اور بڑی جوانمردی سے اپنے فرائض سر انجام دے اور آستانہ عالیہ کی زمداریوں کو سنبھالا دور دراز سے طلباء و علماء آپ کی خدمت میں حاضر ہوتے آپ انکی علمی پیاس بجھاتے اور دارالعلوم ضیاء شمس الاسلام کی سرپرستی فرماتے ۔
آپ رحمہ اللہ تعالی کی قیام پاکستان اور تعمیر وطن کے لیے خدمات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور آپ کی یہ خدمات ہر ایک پر واضح اور ظاہر ہیں انگریزوں نے اس کام سے آپبکو روکنے کے لئے اور پاکستان کی حمایت سے پیچھے رہنے کے لیے پہلے پہل مال و متاع کی لالچ دی جب اس میں کامیاب نا ہوسکے تو دھمکیاں دینے پر اتر آئے مگر آپ نے کسی چیز کی پروا کے بغیر تحریک پاکستان کے لئیے اپنا کام جاری رکھا 1946کے انتخابات جو کہ فیصلہ کن انتخابات تھے اس وقت آپ نے مسلم لیگ کی حمایت کی اور قریہ قریہ گاؤں گاؤں سفر کر کے مسلم لیگ کا پیغام پہنچایا ۔
1946بنارس میں آل انڈیا سنی کانفرنس میں مریدوں سمیت شرکت کر کے مسلم لیگ کی حمایت کا سر عام اعلان کیا ۔
اس تحریک اور وطن کے قیام کی خاطر کام کرنے کی پاداش میں آپ کو انگریز حکومت نے گرفتار کر کے گوبر اور گندگی سے بھری کوٹھری میں بند رکھا جہاں نا بیٹھا جاسکتا تھا اور نا نماز ادا کی جاسکتی تھی ۔
قیام پاکستان کے بعدوطن عزیز میں اسلامی قانون اور نظام مصطفی کے نفاز کے لیے بھی ہمیشہ اپنی کوششوں کو جاری رکھا اس کے لیے آپ نے قیام پاکستان کے بعد سب سے پہلے قائداعظم رحمہ اللہ تعالی کو خط لکھا اور یاد دہانی کروائی کہ ملک میں اسلامی نظام نافذ کیا جائے ۔جس کے جواب میں قائداعظم نے لکھا آپ اطمینان رکھیں پاکستان میں یقینی طور پر اسلامی قانون نافز ہوگا ۔
قائداعظم کے انتقال کے بعد لیاقت علی خان سے دو گھنٹے کی ملاقات کی اور اس پر یہ واضح کرتے ہوئے کہ اسلامی قانون کے نفاذ میں لیت ولعل کروگے تو مٹ جاؤ گے اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کیا ۔
آپ نے ایک خط ذولفقار علی بھٹو کو لکھا جب وہ وزیراعظم تھے کہ اسلامی نظام کے نفاذ کی مخالفت کرنے کی وجہ سے تماس ملک کے وزیراعظم رہنے کے حقدار نہیں یا تو یہ عہدہ چھوڑ دو یا توبہ تائب ہو کر اسلامی قانون کو فی الفور نافذ کرو
آپ نے اسی شرط پر ضیاء الحق کی تائید و حمایت کی ۔جب ضیاءالحق نے اسلامی نظریاتی کونسل بنائی تو اس کا عہدہ بھی اسی لیے سنھالا کہ اس کے ذریعے نفاذ شریعت کی راہیں ہموار کرنے کا موقع ملے گا اور یہ کار خیر ہے ۔
آپ نے 1953کی تحریک ختم نبوت میں بھی حصہ لیا اور شاندار قردار ادا کیا اسی طرح 1974کی تحریک ختم نبوت میں بھی علماء و مشائخ کی سرپرستی فرمائی اور عملا اس تحریک میں شامل رہے جس کے نتیجےمیں قادیانیوں کو آئینی طور پر کافر قرار دیا گیا۔
1970میں جب ملک میں کئی قسم کے فتنے اٹھ چکے اور سوشلزم کا فتنہ عروج پر تھا جسے بھٹو نے مقبولیت بخشی تھی اس وقت ان حالات میں عام انتخابات کا اعلان ہوا تمام جماعتوں نے تیاریاں شروع کئیں تو اس وقت جو عالم خواب کے مزے لے رہے تھے وہ اس ملک کا سواد اعظم مسلک اہلسنت کے لوگ تھے ۔اس وقت جمیعت علما ءاسلام کی سنی کانفرنس جو دار السلام ٹوبہ ٹیک سنگھ میں ہوئی میں آپ کو جمیعت کا نیا صدر منتخب کیا گیا آپ کے اس منصب پر ہی اہلسنت میں بیداری کی لہر دوڑی میدان سیاست میں آپ کے قدم رنجہ فرمانے سے اہلسنت کا جمود ٹوٹا اور آپ کی محنت کا نتیجہ تھا کہ جمیعت نے پہلی دفعہ آپ کی زیر صدارت قومی اسمبلی کی نشتیں حاصل کئیں ۔
🌹 عشق مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم 🌹
اللہ رب العزت نے آپ کو عشق مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کی لازوال دولت سے بھی نوازا تھا ۔عشق مصطفے کا یہ عالم تھا کہ جب کہیں نام مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم نظر آتا تو بدن پر لرزہ طاری ہوجاتا اور سر جھک جایا کرتا تھا ۔اور چہرے کا رنگ زرد ہوجاتا جب کہیں نقش نعل پاک دیکھتے تو اس کو چومتے اور اس نقش کے نیچے سر جھکا کر دیر تک کھڑے رہتے ۔موذن اذان میں جب حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کا نام لیتا تو سن کر جوابا عشق و مستی میں انگھوٹے چوم کر آنکھوں پر لگاتے اور یہ پڑھتے تھے قرۃ عینی بتراب اقدام کلابک یا رسول الله
آپ نے عمر بھر کبھی سبز جوتا نہیں پہنا اور ناہی سبز رنگ کی لنگی استعمال کی اور نا ہی کبھی سبز گھاس پر چلے بلکہ اپنے مریدین کو بھی ان سے منع فرماتے اور کہا کرتے روضہ مبارک کا رنگ سبز ہے اور ایسا کرنے سے بے ادبی لازم آتی ہے ۔
شیخ الاسلام جب پہلی مرتبہ روضہ اطہر پر حاضر ہوئے تو اس وقت آپ کے پاس قیمتی پتھر ہیرے جوہرات اور یاقوت وغیر تھے جو وہیں روضہ انور پر نذرانہ کر دیے ۔
آپ نے مدینہ منورہ میں ایک بوڑھی عورت کی مدد حاصل کی جو آپ کو مدینہ منورہ کے سادات کے گھروں تک لے جاتی اور آپ ان سادات مدینہ منورہ کی خدمت کرتے ۔
اللہ پاک آپ رحمہ اللہ تعالی کے عشق مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم کے صدقے ایسا لا زوال عشق عطا فرمائے ۔آمین
🌹 آپ کا وصال🌹
حضرت خواجہ قمر الدین سیالوی علیہ 18جولائی 1981 کی ایک صبح سرگودھا سے چند میل دور ٹریفک حادثے شدید زخمی ہوئے دو دن بعد اسی حادثے کے باعث 20جولائی بمطابق 17رمضان المبارک 1401ھ کو انتقال فرما گئے آپ کے وصال کی خبر بجلی کی طرح پھیلی مریدین و متوسلین سیال شریف آپ کے آخری دیدار کے لیے جمع ہونے لگے ۔تونسہ شریف کے سجادہ نشین خواجہ غلام معین الدین تونسوی نے آپ کی نماز جنازہ کی امامت کروائی اور آپ کو 21جولائی کو آپ کے والد مکرم خواجہ ضیا الدین سیالوی رحمہ اللہ تعالی کے قدموں میں سپرد خاک کیا گیا ۔ریڈیو و اخبارات مطابق تقریبا پچاس ہزار سے زائد افراد نے جنازہ میں شرکت کی ۔
غزالی زمان رازی دوراں حضرت علامہ سید احمد سعید کاظمی علیہ الرحمہ نے آپ کے انتقال کو دنیائے اسلام کے لیے انتہائی المناک سانحہ قرار دیتے ہوئے فرمایا آپ کے وصال سے جو خلاء پیدا ہوئی اس کا پر ہونا ممکن نہیں ۔میرا خیال ہے عزالی زمان کی یہ بات بلکل حقیقت ہے کہ آپ کے وصال کے بعد آپ جیسی کوئی ہستی نا ہوئی جو اس خلاء کو پر کر سکے ۔
اللہ پاک کی ان پر رحمتیں نازل ہوں اور ان کے وسیلہ سے اللہ کی بارگاہ میں التجا ہے مولا ان کے صدقے ہماری مغفرت فرماء ۔آمین آمین یا رب العالمین
محمد ضیاء السلام قادری مدنی تحریر:
17رمضان المبارک 1441ھ بمطابق 11مئی 2020بروز پیر