یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

کیا نبّی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب عطا کیا گیا۔۔۔۔۔۔؟- Abdullah Madni 1991


کیا نبّی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو علم غیب عطا کیا گیا۔۔۔۔۔۔۔؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہر چیز کا خالق و مالک اللہ تعالیٰ ہے ' عالم الغیب ہے اپنے رسولوں میں سے جسے چاہتا ہے غیب کا علم عطا فرماتا ہے ۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں اہلسنّت کا عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ جل جلالہ، نے اپنے پیارے حبیب شب اسریٰ کے دولہا کو اپنے رسولوں میں سے چن لیا اور علم غیب کے خزانے عطا فرمائے اور حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام بفضلہ تعالیٰ عالم ماکان وما یکون ہیں۔
ع۔۔۔۔۔۔ ملکوت و ملک میں کوئی شے نہیں وہ جو تجھ پہ عیاں نہیں
جبکہ مخالفین کا عقیدہ باطلہ ہے کہ (معاذ اللہ) انہیں دیوار کے پیچھے کا بھی علم نہیں ۔ اہلسنّت کی تائید میں قرآن و حدیث کی روشنی میں دلائل ملاحظہ ہوں:
قرآن پاک: وما کان اللہ لیطلعکم علی الغیب ولکن اللہ یجتبی من رسلہ من یشآء (سورۃ آل عمران ، پارہ ٤ ، رکوع ١٨، آیت١٧٩)
    اللہ کی شان یہ نہیں کہ اے عام لوگو تمہیں غیب کا علم دے دے ہاں اللہ چن لیتا ہے اپنے رسولوں سے جسے چاہے ۔
عالم الغیب فلا یظھر علی غیبہ احداo الا من ارتضیٰ من رسول ۔    غیب کا جاننے والا تو اپنے غیب پر کسی کو مسلط نہیں کرتا سوائے اپنے پسندیدہ رسولوں کے۔(پ٢٩، سورہ جن ، رکوع ٢، آیت ٢٦،٢٧)
    وما ھو علی الغیب بضنین (پ٣٠، ع٦، سورہ التکویر آیت ٢٤)
    اور یہ نبی غیب بتانے میں بخیل نہیں ۔
حدیث شریف: امیر المومنین حضرت سیدنا عمر فاروق اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہم میں ایک جگہ قیام فرمایا پھر ہم کو ابتدائے پیدائش سے لے کر جنتیوں کے اپنی منزلوں میں پہنچنے اور دوزخیوں کے اپنی منزلوں میں پہنچنے تک کی تمام خبریں دیں ۔ جس نے یاد رکھا اُس نے یاد رکھا اور جو بھول گیا وہ بھول گیا ۔(بخاری شریف کتاب بدء الخلق ص ٤٥٣، مشکوٰۃ شریف ص ٥٠٦)
اور کوئی  غیب  کیا  تم  سے   نہاں  ہو   بھلا
 جب نہ خدا  ہی  چھپا  تم  پہ  کروڑوں  درود
اوّل و آخر سب کچھ جانے دیکھے بعید و  قریب
غیب کی خبریں  دینے  والا  اللہ  کا  وہ  حبیب
جن آیات میں علم غیب کی نفی ہے اُس سے مراد یہ ہے کہ آپ ؐذاتی طور پر علم غیب نہیں جانتے بلکہ اللہ کی عطا سے جانتے ہیں ۔ بد مذہب لوگ صرف انہی آیات (جن میں ذاتی علم غیب کی نفی ہے) کا سہارا لے کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔
علم غیب پر اعتراضات او ر ان کے جوابات:
اعتراض نمبر١: علم غیب خدا کی صفت ہے اس میں کسی کو شریک کرنا شرک ہے۔
جواب: ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر علم غیب کا مالک ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم غیب عطا فرمایا ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کی عطا سے علم غیب جانتے ہیں۔
اعتراض نمبر٢: اگر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم تھا تو خیبر میں زہر آلود گوشت کیوں کھایا؟
جواب: ایک یہودی نے زہر آلود بھنی ہوئی بکری حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی خدمت میں بطور ہدیہ پیش کی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اس کے گوشت میں سے بازو لیا اور کچھ گوشت تناول فرمایا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے ساتھ صحابہ کرام علیہم الرضوان نے بھی گوشت کھایا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ کھانے سے ہاتھ اُٹھا لو او ر اس یہودن کو بلا کر لاؤ۔ جب یہودن آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ اس بکری کے گوشت میں تو نے زہر ملایا! تو وہ بولی آپ کو کس نے خبر دی ۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا یہ جو میرے ہاتھ میں بکری کا بازو (دستی )ہے اس نے مجھے بتایا وہ عورت کہنے لگی ہاں! میں نے کہا اگر آپ سچے نبی ہیں تو یہ گوشت آپ کو نقصان نہیں دے گا۔ آپ نے اس عورت کو معاف فرما دیا اور جن صحابہ کرام نے گوشت کھایا تھا وہ شہید ہو گئے۔ (مشکوٰۃ شریف)غور کریں کہ گوشت جانتا تھا کہ مجھ میں زہر ملا ہوا ہے اور بقول معترض اللہ تعالیٰ کے پیارے محبو ب کو اس کی خبر نہیں تھی (معاذ اللہ)حقیقت یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم تھا کہ اس میں زہر ملا ہوا ہے اور یہ بھی علم تھا کہ یہ مجھے کوئی کسی قسم کا نقصان نہ دے گا اور گوشت کھانے میں یہ حکمت تھی کہ اُس یہودن کو پتہ چل جائے کہ میں اللہ کا سچا نبی ہوں اگر آپ گوشت تناول نہ فرماتے تو اس یہودن کو کیسے یقین ہونا تھا؟ اور اس میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل تھی کہ آپ یہ گوشت تناول فرما لیں تا کہ بوقت ظاہری وصال اس کا اثر لوٹ آئے اور آپ کو شہادت کا مرتبہ بھی عطا فرمایا جائے۔
اعتراض نمبر٣: منافقین دھوکے سے ستر (٧٠) صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو لے گئے اور اُن کو شہید کر دیا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم غیب تھا تو ستر صحابہ کو کیوں بھیجا؟
جواب: حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم غیب تھا کہ ان کے مقدر میں اللہ تعالیٰ نے شہادت لکھی ہوئی ہے اور ان کی شہادت کا وقت آ گیا ہے ۔ اس لئے آپ نے اُن صحابہ کو بھیجا جنہوں نے شہید ہونا تھا ۔ جو معترض اعتراض کرتے ہیں وہ یہ بتائیں کہ بقول ان کے اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم نہیں تھا تو اس وقت اللہ تعالیٰ نے وحی کیوں نازل نہیں فرمائی کہ اے پیارے محبوب (ؐ) ان ستر صحابہ کو نہ بھیجنا یہ شہید ہو جائیں گے؟
اللہ تعالیٰ کے کئی انبیاء کرام کو اُن کی قوم نے ناحق شہید کر دیا۔ اللہ تعالیٰ تو سب کچھ جانتا ہے پھر اس نے اپنے انبیاء کرام کو ایسی قوموں کی طرف کیوں بھیجا؟ اللہ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے علم غیب پر اعتراض کرنے والو جواب دو؟
اعتراض ٤: حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہو گیا جگہ جگہ تلاش کیا نہ ملا پھر اونٹ کے نیچے سے ہار برآمد ہوا ۔ اگر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم غیب ہوتا تو آپ پہلے ہی بتا دیتے۔
جواب: بیان نہ کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ علم نہ تھا ۔ نہ بتانے میں بہت سی حکمتیں شامل تھیں۔ جو نبی آسمانوں کے ستاروں کی تعداد جانتا ہے جو نبی اپنے تمام اُمتیوں کی نیکیوں کی تعداد جانتا ہے ' وہ نبی اونٹ کے نیچے پڑے ہوئےہا ر کو بھی جانتا ہے لیکن بتایا اس لئے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رضا یہ تھی کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ہار گم ہو اور مسلمان ہار کی تلاش میں رُک جائیں اور ظہر کا وقت آ جائے پھر مسلمانوں کو طہارت اور وضو کے لئے پانی کی ضرورت پڑے تو پانی میسر نہ ہونے پر اُمت محمدیہ کی بہتری اور آسانی کیلئے آیت تیمم نازل ہو ۔ اگر اس وقت ہار کے بارے میں بتا دیا جاتا تو آیت تیمم نازل نہ ہوتی۔
اعتراض نمبر٥: غار ثور میں سانپ نے سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو ڈس لیا اگر حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم غیب ہوتا تو آپ پہلے بتا دیتے۔
جواب: یہاں بھی نہ بتانے میں بہت سی حکمتیں پوشیدہ تھیں ۔
نمبر١: سانپ نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی زیارت سے مشرف ہونا تھا۔
نمبر٢: سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو جاں نثاری کا صلہ ملنا تھا۔
نمبر٣: سانپ کے ڈسنے کی جگہ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے اپنا لعاب دہن لگا کر یہ معجزہ ظاہر فرمانا تھا کہ میرا لعاب دہن دافع بلا' حاجت روا اور مشکل کشا ہے ۔
نمبر٤: بوقت وصال سانپ کے زہر کے اثر کی وجہ سے حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو شہادت کا مرتبہ ملنا تھا۔
اعتراض نمبر٦: حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر تہمت لگی تو آپ نے بغیر وحی کے کچھ نہ فرمایا۔ آپ وحی کے آنے سے پہلے پریشان رہے اگر علم غیب ہوتا تو آپ پر یشان کیوں ہوتے؟
جواب: حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو علم تھا کہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا پر غلط تہمت لگائی گئی ہے ۔ آپ کا اس بارے میں فوراً ارشاد نہ فرمانے میں یہ حکمت پوشیدہ تھی کہ آپ کو معلوم تھا کہ اللہ تعالیٰ خود سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کی شان میں آیات نازل فرمائے گا۔ اس سلسلہ میں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ مبارکہ ہے کہ ''اللہ کی قسم! میں اپنی بیوی کی پاکیزگی بالیقین جانتا ہوں''۔ (بخاری شریف جلد٢، ص ٥١٥)
حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم اس تہمت کی وجہ سے پریشان نہیں ہوئے بلکہ چند روز آپ نے انتظار فرمایا اور خاموشی اختیار کی صرف اس لئے کہ میری زوجہ مطہرہ کی پاکی کے متعلق خود خالق کائنات رب العالمین ارشاد فرمائے۔ اگر آیات کے نزول کا انتظار نہ فرمایا جاتا اور پہلے ہی اپنی زوجہ محترمہ کی پاک دامنی کا آپ اظہار فرما دیتے تو منافقین کہتے کہ اپنی اہل خانہ کی حمایت کی ہے اور مسلمانوں کو تہمت کے مسائل اور مقدمات کی تحقیق کے طریقہ کار کا پتہ نہ چلتا۔
اعتراض نمبر٧: حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کوعلم غیب نہیں تھا بلکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بتانے سے آپ کو پتہ چلتا تھا۔ (معاذ اللہ)
جواب: حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم امام الانبیاء ہیں۔ جہاں خدا کی خدائی ہے وہاں حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی بادشاہی ہے ۔ حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام کے محتاج نہیں تھے بلکہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ کے اُمتی اور خادم ہیں۔حضرت جبرائیل علیہ السلام تو اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق وحی لے کر آتے تھے ۔ نظام قدرت کے تحت یہ سلسلہ جاری رہا۔پیارے آقا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے والو یہ بتاؤکہ کیا اللہ تعالیٰ اپنے نبی کی طرف وحی بھیجنے کے لئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کا محتاج تھا؟ کیا وہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے خود کلام نہیں کرسکتا تھا؟ اسی طرح کیا اللہ تعالیٰ ماں باپ کے وسیلے کے بغیر اولاد عطا نہیں کرسکتا ؟اللہ تعالیٰ ذاتی طور پر ہر چیز کا مالک ومختار ہے لیکن ہر کام اس کے مقرر کردہ قا نونِ قدرت کے مطابق ہوتا ہے۔بے شمار احادیث مبارکہ ایسی ہیں جن میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بغیر وحی کے اپنے عطائی علم غیب کا اظہار فرمایا ہے ان میں سے دو حدیث مبارکہ بطور حوالہ پیش خدمت ہیں۔
نمبر١:حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک چاندنی رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا سر مبارک میری گود میں تھا میں نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کیا کسی کی نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر بھی ہیں؟آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''ہاںعمر کی ''(نیکیاں آسمان کے ستاروں کے برابر ہیں)میں نے عرض کیا کہ (میرے باپ حضرت )ابوبکر کی نیکیوں کا کیا حال ہے ؟تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''عمر کی ساری نیکیاں ابو بکر کی ایک نیکی جیسی ہیں۔(مشکوٰۃ شریف ج سوم باب مناقب ابوبکر)
آسمان کے ستارے کتنے ہیں یہ بھی غیب کی بات ہے اور جو شخص نیکیاں کرتا ہے اس کی نیکیاں کتنی ہیں یہ بھی غیب کی بات ہے اگر سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کا یہ عقیدہ ہوتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم علم غیب نہیں جانتے تو کبھی ایسا سوال نہ کرتیں۔سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے سوال کرتے ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فوراًبغیر وحی کے اپنے عطائی علم غیب سے جواب ارشاد فرما یا۔
نمبر ٢:حضرت سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا دو قبروں پر گزرہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''اِن دونوں کو عذاب ہو رہا ہے اور کسی بڑے گناہ کے سبب نہیں (بلکہ) ان میں ایک پیشاب (کی چھینٹوں)سے احتیاط نہیں کرتا تھا اور دوسرا شخص چغل خورتھا''۔پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک تازہ (سبز) شاخ منگوا کر اس کو درمیان سے چیر کر دونوں قبروں پر لگا دیا۔صحابہ کرام نے عرض کیا کہ یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم آپ نے ایسا کیوں کیا؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ ''یہ شاخیں جب تک خشک نہ ہوں گی ان کے عذاب میں تحفیف ہوتی رہے گی''۔
(صحیح بخاری ،صحیح مسلم،مشکوٰۃ باب الاداب الخلاء پہلی فصل)
قبر کا معاملہ بالکل غیب اور پوشیدہ ہوتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کے پیارے محبوب صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عالم دنیا میں کھڑے ہوکر عالم برزخ کی خبر دے رہے ہیںاور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ بھی جانتے ہیں کہ ان کو عذاب کیوں ہورہا ہے ۔یہ سب کچھ آپ نے بغیر وحی کے اپنے عطائی علم غیب سے ارشاد فرمایا۔
قرآن پاک میںحضرت سیدنا عیسیٰ علیہ السلام فرماتے ہیں وانبئکم بما تاکلون وما تدخرون فی بیوتکم (پارہ ٣ ، سورہ آل عمران)
اورمیں تمہیں بتاتا ہوں جو تم کھاتے اور جو اپنے گھروں میں جمع کر تے ہو۔
سیدنا عیسیٰ علیہ السلام یہ غیب کی باتیں حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وحی کے ذریعے نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ عطائی علم غیب سے بتاتے تھے۔
اسی طرح قرآن پاک میں حضرت سیدنا موسیٰ علیہ السلام اور حضرت خضر علیہ السلام کا واقعہ موجود ہے۔ حضرت خضر علیہ السلام پر وحی نازل نہیں ہوئی کہ آپ یہ کام کریں بلکہ آپ نے اللہ تعالیٰ کے عطا کردہ عطائی علم غیب سے سب کچھ کیا۔
اعتراض کرنے والے بدعقیدہ کتنے گستاخ ہیں کہ وہ ایک خادم اور اُمتی کو امام الانبیاء حضور نبی اکرم نور مجسم شفیع معظم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم پر فضیلت دے رہے ہیں۔ (معاذ اللہ' استغفر اللہ)
اعتراض نمبر٨: جس چیز کے بارے میں پتہ چل جائے ' وہ غیب نہیں رہتی۔ اسی طرح اگر اللہ تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب کو کچھ بتایا تو وہ غیب نہ رہا۔
جواب: اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے کہ میں اپنے رسولوں میں سے جسے چن لوں اُسے غیب کا علم عطا فرماتا ہوں (پارہ ٢٩، آیت ٢٧)
ہر غیب کو ذاتی طور پر جاننے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔ اُس کی عطا سے اُس کے پیارے محبوب امام الانبیاء بھی غیب جانتے ہیں۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم جانتے ہیں وہ ہم نہیں جانتے ہمارے لئے وہ غیب ہے۔ بقول منکرین جس چیز کے بارے پتہ چل جائے وہ غیب نہیں رہتی تو منکرو بتاؤ اللہ تعالیٰ کو ہر چیز کا پتہ ہے وہ ہر چیز کو ذاتی طور پر جانتا ہے پھر اللہ تعالیٰ کے پاس بھی علم غیب نہ رہا؟

                                 عقل ہوتی تو خدا سے نہ لڑائی لیتے
                              یہ گھٹائیں اُسے منظور  بڑھانا   تیرا

یاد رکھیں کہ حضور نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم غیب پر ہمیشہ کفار اور منافقین نے اعتراضات کیئے آج تک کسی صحیح العقیدہ امتی نے آپ کے علم غیب کا انکار نہیں کیا۔