عقیدہ ختم نبوت اور محافظین ختم نبوت- abdullahmadni1991
*عقیدہ ختم نبوت اور محافظین ختم نبوت*
”حکمران ہوش کے ناخن لیں“
الحمد لله رب العالمين والصلوة والسلام على سيد الأنبياء والمرسلين خاتم النبين وعلى آله وأصحابه أجمعين أما بعد !
اللہ تبارک وتعالی نے تمام مخلوقات میں انسان کو اشرف المخلوقات بنایا پھر انسان کی ہدایت کے لیے اپنے انبیاء و رسل کو مبعوث فرمایا نبوت کا یہ سلسلہ چلتا رہا اور مختلف قوموں کی طرف مختلف رسول مبعوث ہوئے تاہم تمام انبیاء کرام ایک مخصوص قوم کی طرف مخصوص علاقے میں اور مخصوص وقت کے لیے تشریف لائے ان تمام انبیاء کرام کے بعد سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین بن کر اس دنیا میں جلوہ گر ہوئے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کے ساتھ ہی سلسلہ نبوت اپنے اختتام کو پہنچا۔اللہ نے آپ کو آخری نبی بنا کر مبعوث فرمایا آپ تمام انسانوں کے لئے قیامت تک کے لیے نبی بن کر تشریف لائے ۔قرآن کریم کی بے شمار آیات میں خالق کائنات عزوجل نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے آخری نبی ہونے کا اعلان فرمایا خود حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کا اعلان فرمایا أنا خاتم النيين لا نبي بعدى لہذا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ماننا اور عقیدہ ختم نبوت پر مکمل یقین رکھنا ہی ذریعہ نجات و مغفرت ہے
عقیدہ ختم نبوت کو اسلامی عقائد میں بنیادی حیثیت حاصل ہے قرآن پاک کی قطعی نصوص اس کی بنیاد اور احادیث مبارکہ اس کی حجت ہیں ۔اگر کوئی شخص تمام عقائد پر مکمل یقین رکھتا ہو لیکن عقیدہ ختم نبوت پر معمولی شک وشبہ اس کے دل میں ہو تو وہ مسلمان نہیں کہلا سکتا ایسا شخص دائرہ اسلام سے خارج کافر اور مرتد ہو جائے گا ۔
حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے جہاں اپنے آخری نبی ہونے کا اعلان کیا وہیں اپنی امت کو خبردار کیا اور فرمایا میرے بعد تیس کذاب ہونگے جو یہ گمان کرینگے کہ وہ نبی ہیں لیکن میں آخری نبی ہوں میرے بعد کوئی نبی نہیں ۔ حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو واضح کر دیا کہ ایسے لوگ ہونگے جو نبوت کا دعوی کریں گے چنانچہ پھر ہوا ایسا ہی مختلف ادوار میں مختلف کذاب ظاہر ہوئے خود زمانہ نبوی میں ایسے لوگ ظاہر ہوئے جن نے دعوی نبوت کیا چنانچہ اسود عنسی نے صنعا یمن میں دعوی نبوت کیا حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے وصال ظاہری سے پہلے اس کے واصل جہنم ہونے کی خبر دی کہ آج رات اسود عنسی مارا گیا ۔
پھر مسیلمہ کذاب اٹھا اور عقیدہ ختم نبوت پر حملہ آور ہوا تو دور صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ میں جنگ یمامہ میں بدری اور غیر بدری تمام صحابہ اس کے خلاف میدان میں آئے اور اسے واصل جہنم کر کے دم لیا ۔ اسی طرح مختلف کذاب مختلف ادوار میں ظاہر ہوئے لیکن محافظین ختم نبوت نے انہیں کچل کر ہی دم لیا ،انہیں مدعیان نبوت میں سے ایک کذاب دجال 1835میں پیدا ہوا جسے لوگ مرزا غلام احمد قادیانی کہتے اور اس کے پیرو کاروں کو قادیانی احمدی مرزائی اور لاہوری گروپ کہا جاتا ہے اور یہ بات بلکل یقینی ہے کہ یہ سب لوگ کافر مرتد اور زندیق ہیں ۔مرزا قادیانی نے بھی نبوت کا دعوی کیا نیز انبیاء کرام کی گستاخیاں کیں اور خود کو انبیاء سے افضل کہا اور جو اس کو نہ مانے اسے کافر کہا تو اس وقت بھی محافظین ختم نبوت میدان میں آئے اور اس کا تعاقب کیا ۔علماء کرام نے اہل اسلام کو اس کے فتنوں سے باخبر کیا اور مسلمانوں کو اس کے فتنوں سے بچایا۔تقریر ہو یا تحریر یا میدان مناظرہ و مباہلہ یا پھر سیاست و صحافت کا میدان ہر میدان میں اسکا تعاقب کر کے اسے شکست فاش دی مرزا غلام احمد قادیانی نے جب 22جولائی 1900میں ایک اشتہار کے ذریعے علماء اسلام کو مناظرہ کا چیلنج کیا تو تاجدار گولڑہ پیر مہر علی شاہ صاحب رحمہ اللہ نے اپنی خانقاہ کو چھوڑا اور لاہور بادشاہی مسجد پہنچے بار بار کے تقاضوں اور اعلانات کے باوجود مرزا قادیانی مناظرہ کے لیے نہیں آیا بلکہ راہ فرار اختیا کر کے اپنی شکست کو تسلیم کیا اور اہل اسلام کو فتح ملی ۔قیام پاکستان سے قبل علامہ عبد الحامد بدایونی نے پہلی بار آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ جلسہ میں مرزائیوں کو مسلم لیگ سے خارج کرنے کی قراداد پیش کی۔
قیام پاکستان کے بعد جب قادیانیوں کی ،شر انگیزیاں اور اسلام مخالف سازشیں اور کارستانیاں بڑھنے لگین تو 1953میں ایک عظیم الشان تحریک ختم نبوت چلی جس کا مرکز دارالعلوم حزب الاحناف لاہور تھا اسی تحریک ختم نبوت میں صرف لاہور میں دس ہزار عاشقان رسول نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا علماء و مشائخ نے قید و بند کی صعوبتیں برداش کیں علامہ سید احمد قادری اور عبد الستار خان نیازی کو اس تحریک کے چلانے کی پاداش میں سزائے موت سنائی گئی جوکہ بعد میں عمر قید میں تبدیل ہوئی۔
پھر 1974 میں جب 29مئی کو ملتان نشتر میڈیکل کالج کے طلباء کو قادیانیوں نے ربوہ اسٹیشن پر تشدد کیا تو پھر مسلمان سراپا احتجاج ہوئےایک بار پھر تحریک ختم نبوت اٹھی جس میں علماء و مشائخ کے ساتھ ساتھ مدارس کے طلباء بھی شریک ہوئے اس تحریک میں ،شاہ احمد نورانی اور عبد المصطفے ازھری رحمہ اللہ نے بہترین اور اہم کردار ادا کیا ۔
پارلیمنٹ میں قادیانیوں کے خلاف بحث کا آغاز شاہ احمد نورانی علیہ رحمہ کے ذریعے ہوا ۔قادیانی مسئلہ کے حل کے لیے پارلیمنٹ میں 137اجلاس ہوئے طویل ابحاث اور قادیانیوں پر نقد وجرح کے بعد آخر کار وہ وقت آیا کہ اہل حق کو فتح نصیب ہوئی اور 7ستمبر 1974کو فیصلہ ہوا قادیانیوں کو کافر قرار دیا گیا ۔یہ دور ذولفقار علی بھٹو کا دور تھا اور ذولفقار علی بھٹو نے اس فیصلہ کو اس صدی کا مشکل ترین فیصلہ قرار دیا ۔
تاہم اس کے بعد بھی قادیانیوں نے اپنے آپ کو کافر تسلیم نہیں کیا اور نا ہی آئین پاکستان کو مانا بلکہ وطن عزیز کے خلاف سازشوں میں مصروف ہوے ڈاکٹر عبد السلام قادیانی اس وقت وزیراعظم کا تھا مشیر استفعی دے کر بیرون ملک چلا گیا اور پوری زندگی پاکستان کے خلاف سازشوں میں شریک رہا ۔ قادیانی اس وقت تک اپنے آپ کو مسلمان کہتے اور شعائر اسلام کا استعمال کرتے اور ساتھ ساتھ اسلام مخالف سرگرمیوں میں بھی مصروف تھے ۔قادیانیوں کی ان اسلام مخالف سرگرمیوں کو روکنے کے لیے پھر 1984میں 26اپریل کو جنرل ضیاء الحق نے امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری کیا جس کے مطابق قادیانیت کی تبلیغ وتشہیر قادیانیوں کا خود کو مسلمان کہنا اذان دینا اور اپنی عبادت گاہ کو مسجد کہنا اور شعائر اسلام کو استعمال کرنا جرم قرار دیا گیا ۔اسی آرڈیننس میں قادیانیوں پر یہ پابندی بھی لگی کہ وہ قادیانی کے خلیفہ کو امیر المومنین اس کی بیوی کو ام المومنین اور اس کے گھر والوں کو اہل بیت نہیں کہیں گے کیونکہ وہ اصطلاحات جو حضور صلی علیہ وسلم یا آپ کے متعلق کسی کے لیے ہو اس کا دوسرے کے لیے استعمال درست نہیں ۔
یوں عام مسلمانوں کی قربانیوں اور علماء و مشائخ کی جہد مسلسل سے یہ مسئلہ حل ہوا جہاں وہ کافر قرار دیے جا چکے تھے اب ان پر شعائر اسلام کے استعمال پر بھی پابندی عائد ہوئی ۔
اس آرڈیننس کو قادیانیوں اور لاہوری مرزائیوں نے وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج بھی کیا کہ یہ قرآن و حدیث کے مخالف ہے اس کیس کی سماعت وفاقی شرعی عدالت کے پانچ رکنی بینچ نے کی اور یہ سماعت 25جولائی 1984سے 12اگست 1984تک جاری رہی 29اکتوبر 1984کو اس کیس کا فیصلہ آیا اور اس فیصلے میں اس آرڈیننس کو قرآن و حدیث کے مطابق قرار دیا گیا ۔
لیکن آج تک قادیانی اپنے آپ کو کافر تسلیم نہیں کرتے اور نہ آئین پاکستان کو مانتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے اور دنیا عالم کے آگے مسلمان بن کر پیش ہوتے ہیں اور اپنے آپ کو مظلوم ظاہر کرتے ہیں اور ہم مسلمانوں کو کافر کہتے ہیں ہمیشہ اس قانون کو بدلنے کی کوششیں کر رہے ہیں ۔ان کے یہ عمل آئین پاکستان کی کھلی توہین ہے
لیکن دوسری طرف مختلف حکومتوں کی طرف سے ان پر مہربابیاں اور کرم نوازیاں نظر آ رہی ہیں موجودہ پی ٹی آئی کی حکومت جب سے بنی اور عمران خان اقتدار میں آئے اور وزیراعظم کا عہدہ سنبھالا تب سے قادیانی کھل کر میدان میں نظر آنے لگے ،وہ اپنی تبلیغ بھی کرنے لگے اور مختلف مقامات پر اپنی عبادت گاہیں بھی تعمیر کرنے لگے خصوصا سندھ کے مختلف علاقوں میں وہ کام کرنے لگے ہیں اسی طرح کئی دفعہ انہیں اعلی عہدوں پر فائز کرنے کی کوشش بھی کی گی حالیہ دو دن قبل عمران خان صاحب نے وزیر مذہبی امور کو نیشنل کمیشن برائے اقلیت کی تشکیل نو کیلئے ہدایات جاری کرتے ہوئے یہ ہدایت بھی کی کہ اس میں قادیانیوں کو بھی شامل کیا جائے بدھ 29اپریل 2020کو روزنامہ 92نیوز نے اس خبر کو شائع کیا اور مختلف چینلز نے اس خبر کو نشر کیا تو مسلمانان پاکستان میں شدید غم و غصہ کی لہر دوڑی تب وزیرمذہبی امور اور کچھ دیگر وزراء نے اس خبر کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں لیکن اگلے دن 30اپریل کو 92نیوز نے وزیر مذہبی امور کے اس بیان کے خلاف بیان دے کر اس کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وزیر مذہبی امورنے حقائق سے چشم پوشی کی ہے حالانکہ ہمارے نمائندے کے پاس اس کی دستاویزات اور ثبوت موجود ہیں نمائندہ اس پر مکمل سٹینڈ لیتا ہے ۔
اس تمام صورت حال ہے واضح ہوتا ہے آخر کچھ تو معاملہ ہے لیکن سوال یہ ہے اگر اس کمیشن میں قادیانیوں کو شامل کیا جاتا ہے تو وہ کس شناخت اور مس حیثیت سے شامل ہونگے کیا آیا انہوںنے اپنے آپ کو کافر و مرتد مان لیا ہے ۔یا وہ مسلمان ہی ہونے کے دعوی دار ہیں قوی امکان بلکہ یقین یہی ہے کہ وہ اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلانے پر مضر ہونگے اور اپنے آپ کو کافر نہیں مانیں گے کہیں۔جب یہ خبر شائع ہوئی تو اسی وقت ربوہ ٹائم پر قادیانیوں نے خبر لگادی کہ احمدی مسلمز کو نیشنل کمیشن میں شامل کرنے کی اجازت دے دی گئی اس میں نا انہوں نے اپنے آپ کو کافر کہا اور نا ہی اقلیت کا لفظ اپنے لیے استعمال کیا جو اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ وہ اپنے آپ کو کافر تسلیم نہیں کر رہے اور اقلیت بھی قرار نہیں دے رہے۔
دوسری بات اور تشویشناک بات یہ ہے کہ اگر وہ اس کمیشن شامل ہوتے ہیں تو کیا امتناع قادیانیت آرڈیننس محفوظ رہے گا یقینا ہر گز نہیں بلکہ وہ پھر اپنے حقوق کے نام پر اس آرڈیننس کو ختم کروانے پر مضر ہونگے وہ اذانیں بھی کہیں گے نمازیں بھی اور مساجد کے نام پر عبادت گاہیں بھی تعمیر کریں گے تو کیا اس وقت انہیں روکا جائے گا کیا ایک مسلمان اس کو قبول کرے گا یقینا ہر گز نہیں بلکہ یہ امر اسلام اور مسلمانوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہوگا اور ملک ایک دفعہ پھر 1953اور 1974کی تحریکوں کی طرف بڑھے گا پھر حالات کو کنٹرول کرنا حکومت کے بس کی بات نہیں ہوگی کیونکہ مسلمان جیتا ہی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعظیم و حرمت کے لیے ہے ۔
دوسری بات اگر مخصوص نشستوں پر الیکشن لڑ کر قادیانی ایوانوں میں پہنچ گئے تو کیا خیال ہے 295cاور قادیانیوں کو کافر قرار دینے والا آئین پاکستان اور امتناع قادیانیت آرڈیننس محفوظ ہونگے !نہیں ہر گز نہیں بلکہ پھر وہ ان قوانین کے خلاف پارلیمنٹ میں ابحاث چھیڑنے کی کوشش کرینگے اور اگر بحث ایک دفعہ شروع ہوگی تو یاد رکھیں پھر موجودہ حکومت کو ایک موقع مل جائے گا ان قوانین کو تبدیل کرنے کا
اور اگر یہ حکومت یہ سمجھتی ہے کہ اولین ہم اس کمیشن میں دو مسلمانوں کو شال کر کے اس کے ساتھ قادیانی کو بٹھا کر یہ تاثر دیں کہ مسلمانوں نے انہیں تسلیم کر لیا ہے اور پھر انہیں ایوانوں اور اعلی عہدوں تک پہنچایا جائے تو مسلمان اس کو ہر گز برداش نہیں کرینگے پھر کہیں دوبارہ فیض آباد کہیند ہو کر اس حکومت کے لیے مشکل نہ بن جائے لہذا حکومت اور حکمرانوں خصوصا وزیراعظم عمران خان کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں ہمیں اقلیتوں سے کوئی تکلیف نہیں لیکن پہلے یہ قادیانی مرزائی اپنے آپ کو کافر مانیں تو سہی آخری بات عمران خان صاحب کے چاہنے والوں سے ہے کہ ہر معاملے میں ہر ایک کا دفاع نہیں کیا جاتا خصوصا جہاں کفر و اسلام کا معاملہ ہو لہذا اپنے ایمانوں کا دفاع کیجئے رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی ناموس پر پہرہ دیجئے کیونکہ قبر و حشر میں حضور سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہی کام آنا ہے خان صاحب(عمران خان نیازی وزیر اعظم پاکستان) نے نہیں.
سونا جنگل رات اندھیری چھائی بدلی کالی ہے
سونے والوں جاگتے رہیو چوروں کی رکھوالی ہے ۔