یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

آخرت میں کامیابی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔




آخرت میں کامیابی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔؟
آدمی کو چاہئے کہ وہ فلاح و کامیابی کے راستے پر چلے اور وہاں تک پہنچے جہاں نیک لوگ پہنچے اور اس کا سب سے بہترین راستہ فوری طور ر اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا اور آئندہ کے لئے نیک اعمال کرنا ہے۔
امام محمد غزالی        رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ        فرماتے ہیں ’’زندگی کی ہر گھڑی بلکہ ہر سانس ایک نفیس جوہر ہے جس کا کوئی بدل نہیں ،وہ اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ تجھے ابدی سعادت تک پہنچا دے اور دائمی بدبختی سے بچا لے ا س لئے ا س سے زیادہ نفیس جوہر اور کیا ہو سکتا ہے، اگر تم اسے غفلت میں ضائع کر دو گے توواضح نقصان اٹھاؤ گے اور اگر اسے گناہ میں صرف کرو گے تو واضح طور پر ہلاک ہو جاؤ گے۔ اب اگر تم ا س مصیبت پر نہیں روتے تو یہ تمہاری جہالت ہے اور جہالت کی مصیبت تمام مصیبتوں سے بڑ ھ کر ہے۔ (افسوس) لوگ غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں ،جب موت آئے گی تووہ جاگ جائیں گے ،اس وقت ہر مفلس کو اپنے اِفلاس کا اور ہر مصیبت زدہ کو اپنی مصیبت کا علم ہو جائے گا لیکن ا س وقت اس کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔       (        احیاء علوم الدین، کتاب التوبۃ، الرکن الاول فی نفس التوبۃ، بیان انّ وجوب التوبۃ عام فی الاشخاص۔۔۔ الخ،        ۴ / ۱۵)   
    
گناہوں سے کیسے بچا جائے۔۔۔۔۔۔؟
مزید فرماتے ہیں ’’جب تم ان تین دہشت ناک باتوں پر ہمیشگی اختیار کرو گے اور رات دن کے ہر حصے میں ان کی یاد تازہ کرتے رہو گے تو تمہیں گناہوں سے ضرور سچی اور خالص توبہ نصیب ہو جائے گی:       
(1)…گناہوں کی حد درجہ برائی بیان کر  
(2)…       اللہ  تعالیٰ کی سزا کی شدت، دردناک عذاب، اس کی ناراضی اور ا س کے غضب و جلال کاذکر کر       
(3)…       اللہ        تعالیٰ کے غضب و عذاب کی سختی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کمزوری اور ناتوانی کو یاد کرنا کہ جو شخص سورج کی تپش، سپاہی کے تھپڑ اور چیونٹی کے ڈنک کو برداشت نہیں کر سکتا تو وہ نارِ جہنم کی تپش، عذاب کے فرشتوں کے کوڑوں کی مار، لمبی گردنوں والے بختی اونٹوں کی طرح لمبے اور زہریلے سانپوں کے ڈنک اور خچر جیسے بچھوؤں کے ڈنک کیسے برداشت کر سکے گا۔        (       منہاج العابدین، العقبۃ الثانیۃ: عقبۃ التوبۃ، ص       ۳۳)       

گناہ کرنے والے غور کریں :     
بندوں کو چاہئے کہ غور کریں اور بدیوں اور گناہوں سے بچیں کیونکہ ہر ایک عمل لکھا جاتا ہے اور روزِ قیامت وہ نامۂ اعمال تمام مخلوق کے سامنے پڑھا جائے گا تو گناہ کتنی رسوائی کا سبب ہوں گے      اللہ عَزَّوَجَلَّ     پناہ دے۔ اسی کے پیشِ نظر امام محمد غزالی      رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     نے زبان کی حفاظت کے متعلق فرمایا: حضرت عطا بن ا بی رباح      رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ      فرماتے ہیں : تم سے پہلے لوگ فضول کلام کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ لوگ      کتابُ اللہ     ، سنت ِ رسول، نیکی کی دعوت دینے، برائی سے منع کرنے اور اپنی ایسی حاجت جس کے سوا کوئی چارہ ہی نہ ہو کے علاوہ کلام کو فضول شمار کرتے تھے۔ کیا تم اس بات کا انکار کرتے ہو کہ تمہارے دائیں بائیں دو محافظ فرشتے کراماً کاتبین بیٹھے ہیں      
’’      مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ      ‘‘     (     ق:     ۱۸)     
ترجمہ     کنزُالعِرفان     :کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔     
کیا تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی کہ تمہارا نامۂ اعمال جب کھولا جائے گا جو دن بھرصادر ہونے والی باتوں سے بھرا ہو گا، اور ان میں زیادہ تر وہ باتیں ہوں گی جن کا نہ تمہارے دین سے کوئی تعلق ہو گا نہ دنیا سے۔ایک صحابی      رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      فرماتے ہیں ’’میرے ساتھ کوئی شخص بات کرتا ہے ،اسے جواب دینا شدید پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے زیادہ میری خواہش ہوتی ہے لیکن میں اس خوف سے اسے جواب نہیں دیتا کہ کہیں یہ فضول کلام نہ ہو جائے     (     احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، بیان عظیم خطر اللسان وفضیلۃ الصمت، الآفۃ الثانیۃ فضول الکلام،      ۳ / ۱۴۱) 
اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورہ الانعام آیت 70 میں ارشاد فرماتا ہے {     وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا    :    اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جنہوں نے اپنا دین ہنسی مذاق اور کھیل بنا لیا۔}     ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    ، آپ ان لوگوں سے معاشرتی تعلقات اور میل جول چھوڑ دیں جنہوں     نے اپنے دین کو ہنسی مذاق اور کھیل بنا لیا اوراس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا اور اس کی محبت     ان کے دلوں پر غالب آ گئی اور اے حبیب!     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    ، آپ قرآن کے ذریعے انہیں نصیحت کریں تاکہ کوئی جان اپنے دنیوی برے اعمال کی وجہ سے آخرت میں ثواب سے محروم اورہلاکت کے سپرد نہ کردی جائے، قیامت کے دن         اللہ     تعالیٰ کے سوا نہ اس ہلاک ہونے والے کا کوئی مددگار ہو گا اورنہ ہی سفارشی اور اگر وہ پکڑے جانے والا شخص اپنے     عذاب سے چھٹکارے کے بدلے میں سارے معاوضے دیدے تو وہ اس سے نہ لیے جائیں گے ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہیں     ان کے اعمال کی وجہ سے ہلاکت کے سپرد کردیا گیا اور ان کے لئے ان کے کفر کے سبب کھولتے ہوئے پانی کا مشروب اور دردناک عذاب ہے۔     (    خازن، الانعام، تحت الآیۃ:     ۷۰    ،     ۲     /     ۲۵    -    ۲۶    )    
گناہوں پر اصرار حالت کفر میں موت کا سبب بن سکتا ہے:    
                    علامہ اسماعیل حقی     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     اس آیت کے تحت فرماتے ہیں ’’ یاد رکھیں کہ جس طرح     اللہ     تعالیٰ کی آیتوں     کا انکار کرنا اور ان کا مذاق اڑانا کفر ہے اور کفر کی سزا جہنم کا دائمی دردناک عذاب ہے اسی طرح کسی مسلمان کا گناہوں پر     اصرار کرنا بھی ایسا عمل ہے جس سے اس کی موت کفر کی حالت میں ہو سکتی ہے۔ حضرت ابو اسحاق فزاری         رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     فرماتے ہیں ’’ایک شخص اکثر ہمارے پاس بیٹھا کرتا اور اپنا آدھا چہرہ ڈھانپ کر رکھتا تھا، ایک دن میں نے اس سے کہا کہ تم ہمارے پاس بکثرت بیٹھتے ہو اوراپنا آدھا چہرہ ڈھانپ کر رکھتے ہو ،مجھے ا س کی وجہ بتاؤ۔ اس نے کہا: میں کفن چور تھا، ایک دن ایک عورت کو دفن کیا گیا تو میں اس کی قبر پر آیا، جب میں نے ا س کی قبر کھود کر اس کے کفن کو کھینچا تو ا س نے ہاتھ اٹھا کر میرے چہرے پر تھپڑ مار دیا۔ پھر اس شخص نے اپناچہرہ دکھایا تو اس پر پانچ انگلیوں کے نشان تھے۔ میں نے اس سے کہا: اس کے بعد کیا ہوا؟ اس نے کہا :پھر میں نے ا س کا کفن چھوڑ دیا اور قبر بند کر کے اس پر مٹی ڈال دی اور میں نے دل میں پختہ ارادہ کر لیا کہ جب تک زندہ رہوں گا کسی کی قبر نہیں کھودوں گا۔ حضرت ابو اسحاق فزاری         رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     فرماتے     ہیں ’’میں نے یہ واقعہ امام اوزاعی     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     کو لکھ کر بھیجا تو انہوں نے مجھے لکھا کہ اس سے پوچھو: جن مسلمانوں کا انتقال ہوا کیاان کا چہرہ قبلے کی طرف تھا ؟میں نے اس کے بارے میں اُ س کفن چور سے پوچھا تو اس نے جواب دیا ’’ان     میں سے زیادہ تر لوگوں کا چہرہ قبلے سے پھرا ہوا تھا۔ میں نے اس کا جواب امام اوزاعی         رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     کو لکھ کر بھیجا تو انہوں     نے مجھے تحریر بھیجی جس پر تین مرتبہ    ’’    اِنَّا         لِلّٰہِ         وَاِنَّا         اِلَیْہِ         رَاجِعُونْ    ‘‘         لکھا ہوا تھا اور ساتھ میں یہ تحریر تھا ’’جس کا چہرہ قبلے سے پھرا ہو اتھا اس کی موت دینِ اسلام پر نہیں ہوئی ،تم     اللہ     تعالیٰ سے اس کے عفو، مغفرت اور اس کی رضا طلب کرو۔     (    روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ:     ۷۰    ،     ۳     /     ۵۱    )    
موت کے وقت مسلمان اور کافر کے حالات :           
   حدیثِ پاک میں مسلمان اور کافر دونوں کی موت کے حالات بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ           رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ     سے روایت ہے، نبی اکرم      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ           نے ارشاد فرمایا ’’جب مسلمان کی موت قریب ہوتی ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑے لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں :اے روح! تو راضی خوشی حالت میں اور ا س حال میں نکل کہ      اللہ      تعالیٰ تم سے راضی ہے،تُو      اللہ      تعالیٰ کی رحمت اور اس کے رزق سے اپنے پروردگار کی طرف نکل جو ناراض نہیں ہے۔پھر روح عمدہ خوشبودار مشک کی طرح خارج ہوتی ہے اور فرشتے اسے اسی وقت اٹھا کر آسمان کے دروازے پر لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں :یہ کتنی اچھی خوشبو ہے جو زمین سے آئی ہے۔ اس کے بعد اُسے مسلمانوں کی روحوں کے پاس لے کر آتے ہیں۔وہ روحیں اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتی ہیں جو کسی گئے ہوئے شخص کے واپس آنے پر خوش ہوتا ہے اور وہ روحیں ا س سے دریافت کرتی ہیں : دنیا میں پیچھے رہنے      والا فلاں شخص کیسے کام کرتا ہے؟ پھر روحیں کہتی ہیں :ابھی ٹھہروا ور اسے چھوڑ دو، یہ دنیا کے غم میں ہے۔ یہ روح کہتی ہے: کیا      وہ شخص تمہارے پاس نہیں تھا؟           (یعنی دنیا سے تو وہ آچکا تو کیا تمہارے پاس نہیں ہے؟)      روحیں کہتی ہیں :     (اگر وہ دنیا سے آچکا اور ہمارے      پاس نہیں ہے تو پھر)           وہ جہنم میں گیا ہو گا۔اور جب کافر کی موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے بوریے کا ایک ٹکڑا ڈالے آ کر کہتے      ہیں : اے روح!تو           اللہ     تعالیٰ کے عذاب کی طرف نکل کیونکہ تو      اللہ     تعالیٰ سے ناراض ہے اور     اللہ      تعالیٰ تجھ سے ناراض ہے، اس      کے بعد وہ جلے ہوئے بدبودار مردار کی طرح نکلتی ہے حتّٰی کہ فرشتے اسے زمین کے دروازے پر لاتے ہیں تو فرشتے پوچھتے ہیں :یہ کیا بدبو ہے، یہاں تک کہ اسے کافروں کی روحوں میں لے جاتے ہیں۔      (     سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب ما یلقی بہ المؤمن من الکرامۃ۔۔۔ الخ، ص     ۳۱۳     ، الحدیث:      ۱۸۳۰     )           
قبر و حشر کی تنہائی کے ساتھی بنانا عقلمندی ہے:         
            یاد رہے کہ مرنے کے بعد انسان قبر میں اکیلا ہو گااور دنیا کے مال و متاع،اہل و عیال ،عزیز رشتہ دار اور دوست احباب میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ قبر میں نہ جائے گا بلکہ یہ سب اسے قبر کے تاریک گڑھے میں تنہا اور اکیلا چھوڑ کر چلے جائیں گے، اسی طرح میدانِ حشر میں بھی انسان اس طرح اکیلا ہو گا کہ اس وقت اس کا ساتھ دینے کی بجائے ہر ایک اس سے بے نیا ز ہو کر اپنے انجام کی فکر میں مبتلا ہو گا ، یونہی بارگاہِ الٰہی میں اپنے اعمال کا حساب دینے بھی یہ تنہا حاضر ہو گا لہٰذا دانائی یہی ہے کہ دنیا کی زندگی میں رہتے ہوئے اپنے ایسے ساتھی بنا لئے جائیں جو قبر کی وحشت انگیز تنہائی میں اُنْسِیَّت اور غمخواری کا باعث ہوں اور قیامت کے دن نفسی نفسی کے ہولناک عالم میں تسکین کا سبب بنیں اور یہآخرت میں کامیابی کیسے حاصل ہو سکتی ہے۔۔۔۔۔۔؟
آدمی کو چاہئے کہ وہ فلاح و کامیابی کے راستے پر چلے اور وہاں تک پہنچے جہاں نیک لوگ پہنچے اور اس کا سب سے بہترین راستہ فوری طور ر اپنے سابقہ گناہوں سے توبہ و استغفار کرنا اور آئندہ کے لئے نیک اعمال کرنا ہے۔
امام محمد غزالی        رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ        فرماتے ہیں ’’زندگی کی ہر گھڑی بلکہ ہر سانس ایک نفیس جوہر ہے جس کا کوئی بدل نہیں ،وہ اس بات کی صلاحیت رکھتا ہے کہ تجھے ابدی سعادت تک پہنچا دے اور دائمی بدبختی سے بچا لے ا س لئے ا س سے زیادہ نفیس جوہر اور کیا ہو سکتا ہے، اگر تم اسے غفلت میں ضائع کر دو گے توواضح نقصان اٹھاؤ گے اور اگر اسے گناہ میں صرف کرو گے تو واضح طور پر ہلاک ہو جاؤ گے۔ اب اگر تم ا س مصیبت پر نہیں روتے تو یہ تمہاری جہالت ہے اور جہالت کی مصیبت تمام مصیبتوں سے بڑ ھ کر ہے۔ (افسوس) لوگ غفلت کی نیند سوئے ہوئے ہیں ،جب موت آئے گی تووہ جاگ جائیں گے ،اس وقت ہر مفلس کو اپنے اِفلاس کا اور ہر مصیبت زدہ کو اپنی مصیبت کا علم ہو جائے گا لیکن ا س وقت اس کا ازالہ نہیں ہو سکے گا۔       (        احیاء علوم الدین، کتاب التوبۃ، الرکن الاول فی نفس التوبۃ، بیان انّ وجوب التوبۃ عام فی الاشخاص۔۔۔ الخ،        ۴ / ۱۵)       
گناہوں سے کیسے بچا جائے۔۔۔۔۔۔؟
مزید فرماتے ہیں ’’جب تم ان تین دہشت ناک باتوں پر ہمیشگی اختیار کرو گے اور رات دن کے ہر حصے میں ان کی یاد تازہ کرتے رہو گے تو تمہیں گناہوں سے ضرور سچی اور خالص توبہ نصیب ہو جائے گی:       
(1)…گناہوں کی حد درجہ برائی بیان کرنا۔       
(2)…       اللہ        تعالیٰ کی سزا کی شدت، دردناک عذاب، اس کی ناراضی اور ا س کے غضب و جلال کاذکر کرنا۔       
(3)…       اللہ        تعالیٰ کے غضب و عذاب کی سختی کو سامنے رکھتے ہوئے اپنی کمزوری اور ناتوانی کو یاد کرنا کہ جو شخص سورج کی تپش، سپاہی کے تھپڑ اور چیونٹی کے ڈنک کو برداشت نہیں کر سکتا تو وہ نارِ جہنم کی تپش، عذاب کے فرشتوں کے کوڑوں کی مار، لمبی گردنوں والے بختی اونٹوں کی طرح لمبے اور زہریلے سانپوں کے ڈنک اور خچر جیسے بچھوؤں کے ڈنک کیسے برداشت کر سکے گا۔        (       منہاج العابدین، العقبۃ الثانیۃ: عقبۃ التوبۃ، ص       ۳۳)       

گناہ کرنے والے غور کریں :     
بندوں کو چاہئے کہ غور کریں اور بدیوں اور گناہوں سے بچیں کیونکہ ہر ایک عمل لکھا جاتا ہے اور روزِ قیامت وہ نامۂ اعمال تمام مخلوق کے سامنے پڑھا جائے گا تو گناہ کتنی رسوائی کا سبب ہوں گے      اللہ عَزَّوَجَلَّ     پناہ دے۔ اسی کے پیشِ نظر امام محمد غزالی      رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     نے زبان کی حفاظت کے متعلق فرمایا: حضرت عطا بن ا بی رباح      رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ      فرماتے ہیں : تم سے پہلے لوگ فضول کلام کو ناپسند کرتے تھے۔ وہ لوگ      کتابُ اللہ     ، سنت ِ رسول، نیکی کی دعوت دینے، برائی سے منع کرنے اور اپنی ایسی حاجت جس کے سوا کوئی چارہ ہی نہ ہو کے علاوہ کلام کو فضول شمار کرتے تھے۔ کیا تم اس بات کا انکار کرتے ہو کہ تمہارے دائیں بائیں دو محافظ فرشتے کراماً کاتبین بیٹھے ہیں      
’’      مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْهِ رَقِیْبٌ عَتِیْدٌ      ‘‘     (     ق:     ۱۸)     
ترجمہ     کنزُالعِرفان     :کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیار نہ بیٹھا ہو۔     
کیا تمہیں اس بات سے حیا نہیں آتی کہ تمہارا نامۂ اعمال جب کھولا جائے گا جو دن بھرصادر ہونے والی باتوں سے بھرا ہو گا، اور ان میں زیادہ تر وہ باتیں ہوں گی جن کا نہ تمہارے دین سے کوئی تعلق ہو گا نہ دنیا سے۔ایک صحابی      رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      فرماتے ہیں ’’میرے ساتھ کوئی شخص بات کرتا ہے ،اسے جواب دینا شدید پیاس کے وقت ٹھنڈے پانی سے زیادہ میری خواہش ہوتی ہے لیکن میں اس خوف سے اسے جواب نہیں دیتا کہ کہیں یہ فضول کلام نہ ہو جائے     (     احیاء علوم الدین، کتاب آفات اللسان، بیان عظیم خطر اللسان وفضیلۃ الصمت، الآفۃ الثانیۃ فضول الکلام،      ۳ / ۱۴۱) 
اللہ تعالیٰ قرآن مجید کی سورہ الانعام آیت 70 میں ارشاد فرماتا ہے {     وَ ذَرِ الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَهُمْ لَعِبًا وَّ لَهْوًا    :    اور ان لوگوں کو چھوڑ دو جنہوں نے اپنا دین ہنسی مذاق اور کھیل بنا لیا۔}     ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    ، آپ ان لوگوں سے معاشرتی تعلقات اور میل جول چھوڑ دیں جنہوں     نے اپنے دین کو ہنسی مذاق اور کھیل بنا لیا اوراس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں دنیا کی زندگی نے دھوکے میں ڈال دیا اور اس کی محبت     ان کے دلوں پر غالب آ گئی اور اے حبیب!     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    ، آپ قرآن کے ذریعے انہیں نصیحت کریں تاکہ کوئی جان اپنے دنیوی برے اعمال کی وجہ سے آخرت میں ثواب سے محروم اورہلاکت کے سپرد نہ کردی جائے، قیامت کے دن         اللہ     تعالیٰ کے سوا نہ اس ہلاک ہونے والے کا کوئی مددگار ہو گا اورنہ ہی سفارشی اور اگر وہ پکڑے جانے والا شخص اپنے     عذاب سے چھٹکارے کے بدلے میں سارے معاوضے دیدے تو وہ اس سے نہ لیے جائیں گے ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہیں     ان کے اعمال کی وجہ سے ہلاکت کے سپرد کردیا گیا اور ان کے لئے ان کے کفر کے سبب کھولتے ہوئے پانی کا مشروب اور دردناک عذاب ہے۔     (    خازن، الانعام، تحت الآیۃ:     ۷۰    ،     ۲     /     ۲۵    -    ۲۶    )    
گناہوں پر اصرار حالت کفر میں موت کا سبب بن سکتا ہے:    
                    علامہ اسماعیل حقی     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     اس آیت کے تحت فرماتے ہیں ’’ یاد رکھیں کہ جس طرح     اللہ     تعالیٰ کی آیتوں     کا انکار کرنا اور ان کا مذاق اڑانا کفر ہے اور کفر کی سزا جہنم کا دائمی دردناک عذاب ہے اسی طرح کسی مسلمان کا گناہوں پر     اصرار کرنا بھی ایسا عمل ہے جس سے اس کی موت کفر کی حالت میں ہو سکتی ہے۔ حضرت ابو اسحاق فزاری         رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     فرماتے ہیں ’’ایک شخص اکثر ہمارے پاس بیٹھا کرتا اور اپنا آدھا چہرہ ڈھانپ کر رکھتا تھا، ایک دن میں نے اس سے کہا کہ تم ہمارے پاس بکثرت بیٹھتے ہو اوراپنا آدھا چہرہ ڈھانپ کر رکھتے ہو ،مجھے ا س کی وجہ بتاؤ۔ اس نے کہا: میں کفن چور تھا، ایک دن ایک عورت کو دفن کیا گیا تو میں اس کی قبر پر آیا، جب میں نے ا س کی قبر کھود کر اس کے کفن کو کھینچا تو ا س نے ہاتھ اٹھا کر میرے چہرے پر تھپڑ مار دیا۔ پھر اس شخص نے اپناچہرہ دکھایا تو اس پر پانچ انگلیوں کے نشان تھے۔ میں نے اس سے کہا: اس کے بعد کیا ہوا؟ اس نے کہا :پھر میں نے ا س کا کفن چھوڑ دیا اور قبر بند کر کے اس پر مٹی ڈال دی اور میں نے دل میں پختہ ارادہ کر لیا کہ جب تک زندہ رہوں گا کسی کی قبر نہیں کھودوں گا۔ حضرت ابو اسحاق فزاری         رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     فرماتے     ہیں ’’میں نے یہ واقعہ امام اوزاعی     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     کو لکھ کر بھیجا تو انہوں نے مجھے لکھا کہ اس سے پوچھو: جن مسلمانوں کا انتقال ہوا کیاان کا چہرہ قبلے کی طرف تھا ؟میں نے اس کے بارے میں اُ س کفن چور سے پوچھا تو اس نے جواب دیا ’’ان     میں سے زیادہ تر لوگوں کا چہرہ قبلے سے پھرا ہوا تھا۔ میں نے اس کا جواب امام اوزاعی         رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ     کو لکھ کر بھیجا تو انہوں     نے مجھے تحریر بھیجی جس پر تین مرتبہ    ’’    اِنَّا         لِلّٰہِ         وَاِنَّا         اِلَیْہِ         رَاجِعُونْ    ‘‘         لکھا ہوا تھا اور ساتھ میں یہ تحریر تھا ’’جس کا چہرہ قبلے سے پھرا ہو اتھا اس کی موت دینِ اسلام پر نہیں ہوئی ،تم     اللہ     تعالیٰ سے اس کے عفو، مغفرت اور اس کی رضا طلب کرو۔     (    روح البیان، الانعام، تحت الآیۃ:     ۷۰    ،     ۳     /     ۵۱    )    
موت کے وقت مسلمان اور کافر کے حالات :           
   حدیثِ پاک میں مسلمان اور کافر دونوں کی موت کے حالات بیان کئے گئے ہیں ، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ           رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ     سے روایت ہے، نبی اکرم      صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ           نے ارشاد فرمایا ’’جب مسلمان کی موت قریب ہوتی ہے تو رحمت کے فرشتے سفید ریشمی کپڑے لے کر آتے ہیں اور کہتے ہیں :اے روح! تو راضی خوشی حالت میں اور ا س حال میں نکل کہ      اللہ      تعالیٰ تم سے راضی ہے،تُو      اللہ      تعالیٰ کی رحمت اور اس کے رزق سے اپنے پروردگار کی طرف نکل جو ناراض نہیں ہے۔پھر روح عمدہ خوشبودار مشک کی طرح خارج ہوتی ہے اور فرشتے اسے اسی وقت اٹھا کر آسمان کے دروازے پر لے جاتے ہیں اور کہتے ہیں :یہ کتنی اچھی خوشبو ہے جو زمین سے آئی ہے۔ اس کے بعد اُسے مسلمانوں کی روحوں کے پاس لے کر آتے ہیں۔وہ روحیں اُس شخص سے بھی زیادہ خوش ہوتی ہیں جو کسی گئے ہوئے شخص کے واپس آنے پر خوش ہوتا ہے اور وہ روحیں ا س سے دریافت کرتی ہیں : دنیا میں پیچھے رہنے      والا فلاں شخص کیسے کام کرتا ہے؟ پھر روحیں کہتی ہیں :ابھی ٹھہروا ور اسے چھوڑ دو، یہ دنیا کے غم میں ہے۔ یہ روح کہتی ہے: کیا      وہ شخص تمہارے پاس نہیں تھا؟           (یعنی دنیا سے تو وہ آچکا تو کیا تمہارے پاس نہیں ہے؟)      روحیں کہتی ہیں :     (اگر وہ دنیا سے آچکا اور ہمارے      پاس نہیں ہے تو پھر)           وہ جہنم میں گیا ہو گا۔اور جب کافر کی موت آتی ہے تو عذاب کے فرشتے بوریے کا ایک ٹکڑا ڈالے آ کر کہتے      ہیں : اے روح!تو           اللہ     تعالیٰ کے عذاب کی طرف نکل کیونکہ تو      اللہ     تعالیٰ سے ناراض ہے اور     اللہ      تعالیٰ تجھ سے ناراض ہے، اس      کے بعد وہ جلے ہوئے بدبودار مردار کی طرح نکلتی ہے حتّٰی کہ فرشتے اسے زمین کے دروازے پر لاتے ہیں تو فرشتے پوچھتے ہیں :یہ کیا بدبو ہے، یہاں تک کہ اسے کافروں کی روحوں میں لے جاتے ہیں۔      (     سنن نسائی، کتاب الجنائز، باب ما یلقی بہ المؤمن من الکرامۃ۔۔۔ الخ، ص     ۳۱۳     ، الحدیث:      ۱۸۳۰     )           
قبر و حشر کی تنہائی کے ساتھی بنانا عقلمندی ہے:         
            یاد رہے کہ مرنے کے بعد انسان قبر میں اکیلا ہو گااور دنیا کے مال و متاع،اہل و عیال ،عزیز رشتہ دار اور دوست احباب میں سے کوئی بھی اس کے ساتھ قبر میں نہ جائے گا بلکہ یہ سب اسے قبر کے تاریک گڑھے میں تنہا اور اکیلا چھوڑ کر چلے جائیں گے، اسی طرح میدانِ حشر میں بھی انسان اس طرح اکیلا ہو گا کہ اس وقت اس کا ساتھ دینے کی بجائے ہر ایک اس سے بے نیا ز ہو کر اپنے انجام کی فکر میں مبتلا ہو گا ، یونہی بارگاہِ الٰہی میں اپنے اعمال کا حساب دینے بھی یہ تنہا حاضر ہو گا لہٰذا دانائی یہی ہے کہ دنیا کی زندگی میں رہتے ہوئے اپنے ایسے ساتھی بنا لئے جائیں جو قبر کی وحشت انگیز تنہائی میں اُنْسِیَّت اور غمخواری کا باعث ہوں اور قیامت کے دن نفسی نفسی کے ہولناک عالم میں تسکین کا سبب بنیں اور یہ ساتھی نیک اعمال ہیں جیسا کہ حضرت انس بن مالک    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ   سے روایت ہے، نبی کریم    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا ’’ میت کے ساتھ تین چیزیں جاتی ہیں ، دو واپس لوٹ آتی ہیں اور ایک ا س کے ساتھ باقی رہتی ہے، اس کے اہل و عیال، اس کا مال اور ا س کا عمل اس کے ساتھ جاتے ہیں اور اس کے اہل و عیال اور ا س کا مال واپس لوٹ آتے ہیں اور ا س کا عمل باقی رہتا ہے   (   بخاری، کتاب الرقاق، باب سکرات الموت،    ۴ / ۲۵۰   ، الحدیث:    ۶۵۱۴   )   
موت سے غافل رہنے والوں کو نصیحت:        
اس آیتِ کریمہ میں موت سے غافل رہنے والوں کے لئے بھی بہت عبرت ہے کیونکہ ہر انسان سے موت کا وعدہ بھی کیا گیا ہے اور یہ بہر صورت آکر ہی رہے گی۔ تاجدارِ رسالت    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    ، صحابۂ      کرام     رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم     اور دیگر بزرگانِ دین     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ     موت کو بکثرت یاد کیا کرتے اور لوگوں کو اس کی یاد دلایا کرتے تھے ، چنانچہ        
حضرت ابو سعید خدری         رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ    سے روایت ہے، رسولِ اکرم     صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے ارشاد فرمایا: جب میں اپنی آنکھیں جھپکتا ہوں تو مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ میری پلکیں ملنے سے پہلے میری روح قبض کر لی جائے گی۔ میں جب نظر اٹھاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ نظر نیچی کرنے سے پہلے میرا وصال ہو جائے گا،میں جب کوئی لقمہ منہ میں ڈالتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لقمہ گلے سے اترتے وقت میرے لئے موت کا سبب بن جائے گا۔اے آدم کی اولاد!اگر تم عقل رکھتے ہو تو اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرو۔ اس ذات کی قسم !جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ’’    اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍۙ-وَّ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ    ‘‘بیشک جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور آنے والی ہے اور تم (    اللہ         عَزَّوَجَلَّ    ) کو عاجز نہیں کرسکتے۔    (    در منثور، الانعام، تحت الآیۃ:     ۱۳۴    ،    ۳ / ۳۶۱-۳۶۲    ، شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ،     ۷ / ۳۵۵    ، الحدیث:     ۱۰۵۶۴    )        
حضرت ابوبکر صدیق         رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ     اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے ’’کہاں گئے وہ لوگ جن کے چہرے خوبصورت تھے اور چمکتے تھے اور وہ اپنی جوانیوں پر فخر کرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ بادشاہ جنہوں نے شہر تعمیر کئے اور ان کے گرد دیواریں بنا کر ان کو محفوظ کیا؟ کہاں ہیں وہ جو لڑائی کے میدان میں غالب آتے تھے؟ زمانے نے انہیں کمزور اور ذلیل کردیا اور وہ قبروں کی تاریکیوں میں چلے گئے، جلدی جلدی کرو اور نجات تلاش کرو ،نجات تلاش کرو۔    (    احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ،     ۵ / ۲۰۱    )        
حضرت سمیط     رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ    فرماتے ہیں ’’اے اپنی طویل صحت پر دھوکے میں مبتلا شخص! کیا تونے کسی کو بیماری کے بغیر مرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ اے وہ شخص! جو طویل مہلت کی وجہ سے دھوکے میں ہے! کیا تو نے کسی کو سامان کے بغیر گرفتار نہیں دیکھا؟ اگر تو اپنی عمر کی طوالت کے بارے میں سوچے تو سابقہ لذتیں بھول جائے، تم لوگ صحت کے دھوکے میں ہو یا عافیت کے دھوکے میں ، زیادہ دن گزارنے پر اکڑتے ہو یا موت سے بے خوف ہو یا موت کے فرشتے پر تمہیں جرأت ہے، بے شک جب موت کا فرشتہ آئے گا تو تمہاری مالی ثَروت اور تمہاری جماعت تمہیں نہیں بچاسکے گی، کیا تم نہیں جانتے کہ موت کی گھڑی سختیوں اور ندامت کی گھڑی ہے ۔     اللہ     تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے بعد کے لیے عمل کرتا ہے۔     اللہ     تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے آنے سے پہلے اپنے نفس کو ترس کی نگاہ سے دیکھے۔    (    احیاء علوم     الدین    ، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ،     ۵ / ۱۹۹    )        
اللہ     تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی موت کو یاد رکھے اور موت کے بعد کے لئے تیاری کرتا رہے۔ اٰمین
موت کے لئے ہر وقت تیار رہیں :      
 موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے اس لئے ہر وقت موت کیلئے تیار رہنا چاہیے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیک اعمال میں مصروف رہنا چاہیے۔ حضرت عبداللہ بن عباس  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا    سے روایت ہے، حضورِ اقدس  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو۔ (1) اپنے بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ (2) اپنی بیماری سے پہلے صحت کو۔ (3)اپنی محتاجی سے پہلے مالداری کو۔ (4)اپنی مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ (5) اپنی موت سے پہلے زندگی کو۔    (   مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ،    ۵ / ۴۳۵   ، الحدیث:    ۷۹۱۶   )      
            حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے وعظ میں فرماتے ’’جلدی کرو جلدی کرو کیونکہ یہ چند سانس ہیں ، اگر رک گئے تو تم وہ اعمال نہیں کر سکو گے جو تمہیں    اللہ    تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔    اللہ    تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنے نفس کی فکر کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر روتا ہے   (   احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل۔۔۔ الخ، بیان المبادرۃ الی العمل وحذر آفۃ التاخیر،    ۵ / ۲۰۵   )   ۔

توبہ اور نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب:     
   مسلمان کے لئے نصیحت ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال میں مصروف ہو جائے۔ نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب حدیثِ پاک میں بھی دی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو   ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ      سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت  صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ  نے ارشاد فرمایا ’’ چھ چیزوں کے ظاہر ہونے  سے پہلے نیک عمل کرنے میں سبقت کرو، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، دھوئیں ، دجال، دابۃُ الارض، تم میں سے کسی ایک کی موت یا سب کی موت      (یعنی قیامت )      سے پہلے۔           (     مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی بقیۃ من احادیث الدجال، ص     ۱۵۷۹     ، الحدیث:      ۱۲۸(۲۹۴۷)     )     
                      اور امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ      فرماتے ہیں ’’ توبہ میں تاخیر کرنا سخت نقصان دہ ہے، کیونکہ گناہ سے ابتداء ً قَساوتِ قلبی پیدا ہوتی ہے،      پھر رفتہ رفتہ گناہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان کفرو گمراہی اور بد بختی میں مبتلا ہو جاتا ہے ، کیا تم ابلیس      اور بلعم بن باعوراء کا واقعہ بھول گئے، ان سے ابتدا میں ایک ہی گناہ صادر ہوا تھا، آخر نتیجہ یہ ہو اکہ وہ کفر میں مبتلا ہو گئے اور ہمیشہ کے لیے تباہ حال لوگوں میں شامل ہوگئے۔ ان کے انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے تم ڈرتے رہو اور تم پر لازم ہے کہ توبہ کے بارے میں اپنے اندر بیداری اور جانْفشانی پیدا کرو،     ( اگر تم نے جلد توبہ کر لی) تو عنقریب تمہارے دل سے گناہوں کے اصرار کی بیماری کا قَلع قَمع ہو جائے گا اور گناہوں کے بوجھ سے تمہاری گردن آزاد ہو جائے گی اور گناہوں کی وجہ سے دل میں جو قساوت اور سختی پیدا ہوتی ہے ا س سے ہر گز بے خوف نہ ہو بلکہ ہر وقت اپنے حال پر نظر رکھو، اپنے نفس کو گناہوں پر ٹوکتے رہو اور اس کا محاسبہ کرتے رہو اور توبہ و استغفار کی طرف سبقت و جلدی کرو اور ا س میں کسی قسم کی سستی اور کوتاہی نہ کرو کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں اور دنیا کی زندگی محض دھوکہ اور فریب ہے۔      (     منہاج العابدین، العقبۃ الثانیۃ، ص     ۳۵     -     ۳۶     )     

موت سے غافل رہنے والوں کو نصیحت:        
اس آیتِ کریمہ میں موت سے غافل رہنے والوں کے لئے بھی بہت عبرت ہے کیونکہ ہر انسان سے موت کا وعدہ بھی کیا گیا ہے اور یہ بہر صورت آکر ہی رہے گی۔ تاجدارِ رسالت    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، صحابۂ کرام رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اور دیگر بزرگانِ دین رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ موت کو بکثرت یاد کیا کرتے اور لوگوں کو اس کی یاد دلایا کرتے تھے ، چنانچہ        
حضرت ابو سعید خدری  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، رسولِ اکرم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے ارشاد فرمایا: جب میں اپنی آنکھیں جھپکتا ہوں تو مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ میری پلکیں ملنے سے پہلے میری روح قبض کر لی جائے گی۔ میں جب نظر اٹھاتا ہوں تو مجھے لگتا ہے کہ نظر نیچی کرنے سے پہلے میرا وصال ہو جائے گا،میں جب کوئی لقمہ منہ میں ڈالتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ یہ لقمہ گلے سے اترتے وقت میرے لئے موت کا سبب بن جائے گا۔اے آدم کی اولاد!اگر تم عقل رکھتے ہو تو اپنے آپ کو مُردوں میں شمار کرو۔ اس ذات کی قسم !جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے ’’    اِنَّ مَا تُوْعَدُوْنَ لَاٰتٍۙ-وَّ مَاۤ اَنْتُمْ بِمُعْجِزِیْنَ ‘‘بیشک جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ ضرور آنے والی ہے اور تم (    اللہ         عَزَّوَجَلَّ    ) کو عاجز نہیں کرسکتے۔    (    در منثور، الانعام، تحت الآیۃ:     ۱۳۴    ،    ۳ / ۳۶۱-۳۶۲    ، شعب الایمان، الحادی والسبعون من شعب الایمان۔۔۔ الخ،     ۷ / ۳۵۵    ، الحدیث:     ۱۰۵۶۴    )        
حضرت ابوبکر صدیق رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے ’’کہاں گئے وہ لوگ جن کے چہرے خوبصورت تھے اور چمکتے تھے اور وہ اپنی جوانیوں پر فخر کرتے تھے؟ کہاں ہیں وہ بادشاہ جنہوں نے شہر تعمیر کئے اور ان کے گرد دیواریں بنا کر ان کو محفوظ کیا؟ کہاں ہیں وہ جو لڑائی کے میدان میں غالب آتے تھے؟ زمانے نے انہیں کمزور اور ذلیل کردیا اور وہ قبروں کی تاریکیوں میں چلے گئے، جلدی جلدی کرو اور نجات تلاش کرو ،نجات تلاش کرو۔    (    احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ،     ۵ / ۲۰۱    )        
حضرت سمیط رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’اے اپنی طویل صحت پر دھوکے میں مبتلا شخص! کیا تونے کسی کو بیماری کے بغیر مرتے ہوئے نہیں دیکھا؟ اے وہ شخص! جو طویل مہلت کی وجہ سے دھوکے میں ہے! کیا تو نے کسی کو سامان کے بغیر گرفتار نہیں دیکھا؟ اگر تو اپنی عمر کی طوالت کے بارے میں سوچے تو سابقہ لذتیں بھول جائے، تم لوگ صحت کے دھوکے میں ہو یا عافیت کے دھوکے میں ، زیادہ دن گزارنے پر اکڑتے ہو یا موت سے بے خوف ہو یا موت کے فرشتے پر تمہیں جرأت ہے، بے شک جب موت کا فرشتہ آئے گا تو تمہاری مالی ثَروت اور تمہاری جماعت تمہیں نہیں بچاسکے گی، کیا تم نہیں جانتے کہ موت کی گھڑی سختیوں اور ندامت کی گھڑی ہے ۔الل  تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے بعد کے لیے عمل کرتا ہے۔  اللہ تعالیٰ اس بندے پر رحم فرمائے جو موت کے آنے سے پہلے اپنے نفس کو ترس کی نگاہ سے دیکھے۔    (    احیاء علوم     الدین    ، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل وفضیلۃ قصر الامل۔۔۔ الخ،     ۵ / ۱۹۹    )        
اللہ تعالیٰ ہر مسلمان کو یہ توفیق عطا فرمائے کہ وہ اپنی موت کو یاد رکھے اور موت کے بعد کے لئے تیاری کرتا رہے۔ اٰمین
موت کے لئے ہر وقت تیار رہیں :      
 موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں ہے اس لئے ہر وقت موت کیلئے تیار رہنا چاہیے اور ہر وقت گناہوں سے دور اور نیک اعمال میں مصروف رہنا چاہیے۔ حضرت    عبداللہ    بن عباس    رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا    سے روایت ہے، حضورِ اقدس    صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   نے ارشاد فرمایا ’’پانچ چیزوں کو پانچ سے پہلے غنیمت جانو۔ (1) اپنے بڑھاپے سے پہلے جوانی کو۔ (2) اپنی بیماری سے پہلے صحت کو۔ (3)اپنی محتاجی سے پہلے مالداری کو۔ (4)اپنی مصروفیت سے پہلے فراغت کو۔ (5) اپنی موت سے پہلے زندگی کو۔    (   مستدرک، کتاب الرقاق، نعمتان مغبون فیہما کثیر من الناس۔۔۔ الخ،    ۵ / ۴۳۵   ، الحدیث:    ۷۹۱۶   )      
            حضرت حسن بصری رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ اپنے وعظ میں فرماتے ’’جلدی کرو جلدی کرو کیونکہ یہ چند سانس ہیں ، اگر رک گئے تو تم وہ اعمال نہیں کر سکو گے جو تمہیں اللہ تعالیٰ کے قریب کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم فرمائے جو اپنے نفس کی فکر کرتا ہے اور اپنے گناہوں پر روتا ہے   (   احیاء علوم الدین، کتاب ذکر الموت وما بعدہ، الباب الثانی فی طول الامل۔۔۔ الخ، بیان المبادرۃ الی العمل وحذر آفۃ التاخیر،    ۵ / ۲۰۵   )   ۔

توبہ اور نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب:     
   مسلمان کے لئے نصیحت ہے کہ وہ جلد سے جلد اپنے گناہوں سے سچی توبہ کر کے نیک اعمال میں مصروف ہو جائے۔ نیک اعمال میں سبقت کرنے کی ترغیب حدیثِ پاک میں بھی دی گئی ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہ  رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ  سے روایت ہے، تاجدارِ رسالت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ     نے ارشاد فرمایا ’’ چھ چیزوں کے ظاہر ہونےسے پہلے نیک عمل کرنے میں سبقت کرو، سورج کے مغرب سے طلوع ہونے، دھوئیں ، دجال، دابۃُ الارض، تم میں سے کسی ایک کی موت یا سب کی موت      (یعنی قیامت )   سے پہلے۔  (     مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعۃ، باب فی بقیۃ من احادیث الدجال، ص     ۱۵۷۹     ، الحدیث:      ۱۲۸(۲۹۴۷)     )     
                      اور امام محمد غزالی رَحْمَۃُاللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ      فرماتے ہیں ’’ توبہ میں تاخیر کرنا سخت نقصان دہ ہے، کیونکہ گناہ سے ابتداء ً قَساوتِ قلبی پیدا ہوتی ہے،      پھر رفتہ رفتہ گناہ کا انجام یہ ہوتا ہے کہ انسان کفرو گمراہی اور بد بختی میں مبتلا ہو جاتا ہے ، کیا تم ابلیس      اور بلعم بن باعوراء کا واقعہ بھول گئے، ان سے ابتدا میں ایک ہی گناہ صادر ہوا تھا، آخر نتیجہ یہ ہو اکہ وہ کفر میں مبتلا ہو گئے اور ہمیشہ کے لیے تباہ حال لوگوں میں شامل ہوگئے۔ ان کے انجام کو مد نظر رکھتے ہوئے تم ڈرتے رہو اور تم پر لازم ہے کہ توبہ کے بارے میں اپنے اندر بیداری اور جانْفشانی پیدا کرو،  ( اگر تم نے جلد توبہ کر لی)   تو عنقریب تمہارے دل سے گناہوں کے اصرار کی بیماری کا قَلع قَمع ہو جائے گا اور گناہوں کے بوجھ سے تمہاری گردن آزاد ہو جائے گی اور گناہوں کی وجہ سے دل میں جو قساوت اور سختی پیدا ہوتی ہے ا س سے ہر گز بے خوف نہ ہو بلکہ ہر وقت اپنے حال پر نظر رکھو، اپنے نفس کو گناہوں پر ٹوکتے رہو اور اس کا محاسبہ کرتے رہو اور توبہ و استغفار کی طرف سبقت و جلدی کرو اور ا س میں کسی قسم کی سستی اور کوتاہی نہ کرو کیونکہ موت کا وقت کسی کو معلوم نہیں اور دنیا کی زندگی محض دھوکہ اور فریب ہے۔      (     منہاج العابدین، العقبۃ الثانیۃ، ص     ۳۵     -     ۳۶     )