شبِ قدر کی فضیلت
علاماتِ شب قدر:
حضرتِ سَیِّدُنا عبادَہ بن صامت رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے بارگاہِ رسالت میں شبِ قدر کے بارے میں سوال کیا تو سرکارِ مدینۂ منوّرہ ، سردارِ مکّۂ مکرّمہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا: ’’ شب قدر رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں یعنی اِکیسو یں ، تئیسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں یا اُنتیسویں شب میں تلاش کرو ۔تو جو کوئی اِیمان کے ساتھ بہ نیتِ ثواب اِس مبارَک رات میں عبادت کرے ، اُس کے اگلے پچھلے گناہ بخش دئیے جا تے ہیں ۔ اُس کی علامات میں سے یہ بھی ہے کہ وہ مبارَک شب کھلی ہوئی ، روشن اور بالکل صاف وشفاف ہوتی ہے، اِس میں نہ زیادہ گرمی ہوتی ہے نہ زیادہ سردی بلکہ یہ رات معتدل ہوتی ہے، گویا کہ اِس میں چاند کھلا ہوا ہوتا ہے، اِس پوری رات میں شیاطین کو آسمان کے ستارے نہیں مارے جا تے ۔مزید نشانیوں میں سے یہ بھی ہے کہ اِس رات کے گزرنے کے بعد جو صبح آتی ہے اُس میں سورج بغیر شعاع کے طلوع ہوتا ہے اور وہ ایسا ہوتا ہے گویا کہ چودھویں کا چاند ۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ اِس دِن طلوعِ آفتاب کے ساتھ شیطان کو نکلنے سے روک دیا ہے۔ ‘‘ (اِس ایک دِن کے علاوہ ہر روز سورج کے ساتھ ساتھ شیطان بھی نکلتا ہے) (مُسند اِمام احمد ج۸ص۴۰۲، ۴۱۴حدیث۲۲۷۷۶، ۲۲۸۲۹)
شب قدر کی پوشیدگی کی حکمت:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو!حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں یا آخری رات میں سے چاہے وہ 30 ویں شب ہو کوئی ایک رات شب قدر ہے ۔اِس رات کو مخفی(یعنی پویشدہ) رکھنے میں ایک حکمت یہ بھی ہے کہ مسلمان اِس رات کی جستجو (یعنی تلاش ) میں ہر رات اللہ عَزَّوَجَلَّ کی عبادت میں گزارنے کی کوشِش کریں کہ نہ جا نے کون سی رات، شب قدر ہو۔
سمندر کا پانی میٹھا لگا(حکایت) :
حضرتِ سَیِّدُنا عثمان ابن ابی الْعاص رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُکے غلام نے اُن سے عرض کی: ’’ اے آقا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) ! مجھے کشتی بانی کرتے ایک عرصہ گزرا، میں نے سمندر کے پانی میں ایک ایسی عجیب بات محسوس کی۔ ‘‘ پوچھا: ’’ وہ عجیب بات کیا ہے ؟ ‘‘ عرض کی: ’’ اے میرے آقا(رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ) !ہر سال ایک ایسی رات بھی آتی ہے کہ جس میں سمندر کا پانی میٹھا ہوجا تا ہے۔ ‘‘ آپ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُنے غلام سے فرمایا: ’’ اِس بار خیال رکھنا جیسے ہی رات میں پانی میٹھا ہو جا ئے مجھے مطلع کرنا۔ ‘‘ جب رَمضان کی ستائیسویں رات آئی تو غلام نے آقا سے عرض کی کہ ’’ آقا! آج سمندر کا پانی میٹھا ہوچُکا ہے۔ ‘‘
(تفسِیرِ عزیزی ج۳ص۲۵۸، تفسیر کبیر ج۱۱ص۲۳۰)
اللہ ربُّ العزّت عَزَّوَجَلَّکی اُن پر رَحمت ہو اور اُن کے صَدقے ہماری بے حساب مغفِرت ہو۔
اٰمِیْن بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
ہمیں علامات کیوں نظر نہیں آتیں ؟:
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! شب قدر کی مُتَعَدِّدعلامات کا ذِکر گزرا ۔ ہمارے ذِہن میں یہ سوال اُبھر سکتا ہے کہ ہماری عمر کے کافی سال گزرے ہر سال شب قدر آتی اور تشریف لے جا تی ہے مگر ہمیں تو اب تک اِس کی علامات نظر نہیں آئیں ؟اِ س کے جواب میں علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام فرماتے ہیں : اِن باتوں کا تَعَلُّق کشف و کرامت سے ہے، انہیں عام آدَمی نہیں دیکھ سکتا۔صِرف وُہی دیکھ سکتا ہے جس کو بصیرت (یعنی قلبی نظر) کی نعمت حاصل ہو۔ہر وَقت معصیت کی نجا ست میں لت پت رہنے والا گنہگار اِنسان اِن نظاروں کوکیسے دیکھ سکتا ہے! ؎
آنکھ والا ترے جوبن کا تماشا دیکھے
دِیدۂِ کور کو کیا آئے نظر کیا دیکھے
طاق راتوں میں ڈھونڈو:
اُمّ الْمُؤمِنِین حضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاسے رِوایت ہے: نبیوں کے سرتاج ، صاحب معراج صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ شب قدر، رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں (یعنی اِکیسویں ، تیئسویں ، پچیسویں ، ستائیسویں اوراُنتیسویں راتوں ) میں تلاش کرو۔ ‘‘
( بُخاری ج۱ص۶۶۱حدیث۲۰۱۷)
آخری سا ت راتوں میں تلاش کرو:
حضرتِ سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ عمررَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا رِوایت کرتے ہیں : بحرو بر کے بادشاہ ، دو عالم کے شہنشاہ ، اُمت کے خیر خواہ، آمنہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے
مہر و ماہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم کے بعض صحابۂ کرام رِضوانُ اللہ تعالٰی عَلَیْہِم اجْمَعِیْن کو خواب میں آخری سات راتوں میں شبِ قدر دِکھائی گئی۔ میٹھے میٹھے آقا، مکی مَدَنی مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’ میں دیکھتا ہوں کہ تمہارے خواب آخری سات راتوں میں مُتَّفِق ہوگئے ہیں ۔ اِس لئے اِس کا تلاش کرنے والا اِسے آخری سات راتوں میں تلاش کرے۔ ‘‘ ( بُخاری ج۱ص۶۶۰حدیث۲۰۱۵)
لیلۃُ الْقدر پوشیدہ کیوں ؟:
اے مسلمان بھائیوں بھائیو! اللہ عَزَّوَجَلَّ کی سُنَّتِ کریمہ ہے کہ اُس نے بعض اَہم ترین مُعاملات کو اپنی مَشِیَّت سے بندوں پر پوشیدہ رکھا ہے۔ جیسا کہ منقول ہے: ’’ اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رِضاکو نیکیوں میں ، اپنی ناراضیکو گناہوں میں اور اپنے اَولیا رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکواپنے بندوں میں پوشیدہ رکھا ہے ۔ ‘‘ (اَخلاقُ الصالحین ص ۵۶) اِس کا خلاصہ ہے کہ بندہ چھوٹی سمجھ کر کوئی نیکی نہ چھوڑے۔کیونکہ وہ نہیں جا نتا کہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کس نیکی پر راضی ہو گا، ہوسکتا ہے بظاہر چھوٹی نظر آنے والی نیکی ہی سے اللہ عَزَّوَجَلَّ راضی ہو جا ئے ۔ مَثَلاً قیامت کے روز ایک گنہگار شخص صرف اِس نیکی کے عوض بخش دیا جا ئے گا کہ اُس نے ایک پیاسے کتے کو دُنیا میں پانی پلادیا تھا۔اِسی طرح اپنی ناراضی کو گناہوں میں پوشیدہ رکھنے کی حکمت یہ ہے کہ بندہ کسی گناہ کو چھوٹا تَصَوُّر کرکے کر نہ بیٹھے ، بس ہر گناہ سے بچتا رہے ۔کیوں کہ وہ نہیں جا نتا کہ اللہ تَبَارَکَ وَتَعَالٰیکس گناہ سے ناراض ہوجا ئے گا۔اِسی طرح اَولیارَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکو بندوں میں اِس لئے پوشیدہ رکھا ہے کہ اِنسان ہر نیک حقیقی پابند شرع مسلمان کی رِعایَت و تعظیم بجا لائے کیونکہ ہوسکتا ہے کہ ’’ وہ ‘‘ وَلیُّ اللہ ہو۔ جب ہم نیک لوگوں کی دل سے تعظیم کیا کریں گے، بد گمانی سے بچتے رہیں گے اور ہر مسلمان کو اپنے سے اچھا تصور کرنے لگیں گے تو ہمارا معاشرہ بھی صحیح ہوجا ئے گا اور اِنْ شَآءَ اللہ عَزَّ وَجَلَّہماری عاقبت بھی سنور جا ئے گی۔
حکمتوں کے مَدَنی پھول:
امام فخر الدین رازی رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ ’’ تفسیرکبیر ‘‘ میں فرماتے ہیں : اللہ عَزَّوَجَلَّ نے شبِ قدر کو چند وجوہ کی بنا پر پوشیدہ رکھا ہے۔ اوّل یہ کہ جس طرح دیگر اشیا کو پوشیدہ رکھا، مَثَلاً اللہ عَزَّوَجَلَّ نے اپنی رِضا کو اطاعتوں میں پوشیدہ فرمایا تاکہ بندے ہر اطاعت میں رَغبت حاصِل کریں ۔ اپنے غضب کو گناہوں میں پوشیدہ فرمایا کہ ہر گناہ سے بچتے رہیں ۔ اپنے ولی کو لوگوں میں پوشیدہ رکھا تا کہ لوگ سب کی تعظیم کریں ، قبولیت دعا کو دعاؤں میں پوشیدہ رکھا کہ سب دعاؤں میں مُبالغہ کریں اور اسمِ اعظم کو اَسما میں پوشیدہ رکھا کہ سب اسما کی تعظیم کریں ۔اور صلوۃِ وسطیٰ کو نمازوں میں پوشیدہ رکھا کہ تمام نمازوں پر محافظت(یعنی ہمیشگی اختیار) کریں اور قبولِ تو بہ کوپوشیدہ رکھاکہ بندہ توبہ کی تمام اَقسام پر ہمیشگی اختیار کرے، اور موت کا وَقت پوشیدہ رکھا کہ مُکلَّف (بندہ) خوف کھاتا رہے۔ اسی طرح شبِ قدر کوبھی پوشیدہ رکھا کہ َرمَضان الْمُبارَک کی تمام راتوں کی تعظیم کرے۔ دوسرے یہ کہ گویا اللہ عَزَّوَجَلَّارشاد فرماتا ہے: ’’ اگر میں شب قدر کو مُعَیَّن(Fix) کر (کے تجھ پر ظاہر فرما) دیتا اور یہ کہ میں گناہ پر تیری جُرْأَت بھی جا نتا ہوں تواگرکبھی شہوت تجھے اِس رات میں معصیت کے کنارے لا چھوڑتی اور تو گناہ میں مبتلا ہوجا تا تو تیرا اِس رات کو جا ننے کے باوُجود گناہ کرنا لاعلمی کے ساتھ گناہ کرنے سے بڑھ کر سخت ہوتا، پس اِس وجہ سے میں نے اِسے پوشیدہ رکھا ۔ تیسرے یہ کہ میں نے اِس رات کو پوشیدہ رکھا تاکہ بندہ اِس کی طلب میں محنت کرے اور اِس محنت کا ثواب کمائے۔ چوتھے یہ کہ جب بندے کو شب قدر کا تعین حاصِل نہ ہوگا تو رَمَضانُ الْمُبارَک کی ہر رات میں اللہ عَزَّوَجَلَّ کی اطاعت میں کوشش کرے گا اِس امید پر کہ ہوسکتا ہے یہی رات شبِ قدر ہو۔ (تفسِیرِ کبیر ج۱۱ص۲۹ مُلَخَّصاً )
سال میں کوئی سی بھی رات شب قدر ہو سکتی ہے:
شبِ قَدْر کے تَعَیُّن میں علمائے کرام رَحِمَہُمُ اللہُ السَّلَام کا کافی اِختلاف پایا جا تا ہے ۔یہاں تک کہ بعض بزرگوں رَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰیکے نزدیک شَبِ قدر پورے سال میں پھرتی رہتی ہے، مَثَلاً فَقِیْہُ الْاُمَّۃحضرتِ سَیِّدُنا عبدُاللہ ابنِ مَسْعُودرَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا فرمان ہے: شبِ قدر وہی شخص پاسکتا ہے جو پورے سال کی راتوں پر توجُّہ رکھے ۔ (تفسیر کبیر ج۱۱ص۲۳۰) اِس قول کی تائِید کرتے ہوئے امامُ الْعارِفین سَیِّدُنا شیخ مُحی الدّین ابنِ عربی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی فرماتے ہیں کہ میں نے شَعْبانُ المُعَظَّمکی پندرہویں شب (یعنی شبِ بَرَاء ت ) اور ایک بار شَعْبانُ المُعَظَّم ہی کی اُنیسویں شب میں شبِ قَدرپائی ہے۔ نیز رَمَضانُ الْمُبارَک کی تیرہویں شب اور اٹھارہویں شب میں بھی دیکھی، اور مختلف سالوں میں رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی ہر طاق رات میں اِسے پایا ہے۔مزید فرماتے ہیں : اگر چہ زیادہ تر شبِ قدر رَمضان شریف میں ہی پائی جا تی ہے تاہم میرا تجربہ تو یہی ہے کہ یہ پورا سال گھومتی رہتی ہے۔ یعنی ہر سال کیلئے اِس کی کوئی ایک ہی رات مخصوص نہیں ہے۔ (اِتحافُ السّادَۃ ج۴ص۳۹۲ ملخّصاً)
امام اعظم، امام شافعی اور صاحِبین کے اقوال:
سَیِّدُنا اِمامِ اعظم اَبو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے اِس بارے میں دو قول منقول ہیں : {۱} لیلۃُ الْقَدْر رَمَضانُ الْمُبارَک ہی میں ہے لیکن کوئی رات مُعَیَّن(Fix) نہیں {۲} سَیِّدُنا امام اعظم ابو حنیفہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کا ایک مشہور قول یہ ہے کہ لَیْلَۃُ الْقَدْر پورا سال گھومتی رہتی ہے، کبھی ماہِ رَمَضانُ المبارَک میں ہوتی ہے اور کبھی دوسرے مہینوں میں ۔ یہی قول سَیِّدُنا عبدُ اللہ ابنِ عباس، سَیِّدُنا عبد اللہ ابن مسعود اور سَیِّدُناعکرمہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُم اَجْمَعِیْن سے بھی منقول ہے ۔ (عُمدۃُ القاری ج۸ ص ۲۵۳ تحتَ الحدیث ۲۰۱۵)
سَیِّدُنا امام شافِعی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی کے نزدیک ’’ شبِ قدر ‘‘ رَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے میں ہے اور اس کی رات مُعَیَّن (Fix) ہے ، ا س میں قیامت تک تبدیلی نہیں ہوگی۔(اَیضاً)
سَیِّدُنا امام ابویوسف اور سَیِّدُنا امام محمد رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا کے نزدیکلیلۃُ الْقَدْر رَمَضانُ الْمُبارَک ہی میں ہے لیکن کوئی رات مُعَیَّن(Fix) نہیں ۔اور ان کاایک قول یہ ہے کہ رَمَضانُ الْمُبارَک کی آخِری پندرہ راتوں میں لَیْلَۃُ الْقَدْر ہوتی ہے۔ (اَیضاً)
شب قدر بدلتی رہتی ہے:
سَیِّدُنا امامِ مالک رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے نزدیک شبِ قدررَمَضانُ الْمُبارَک کے آخری عشرے کی طاق راتوں میں ہوتی ہے۔مگر کوئی ایک رات مخصوص نہیں ، ہر سال اِن طاق راتوں میں گھومتی رہتی ہے، یعنی کبھی اِکیسویں شب لَیْلَۃُ القَدْرہوجا تی ہے توکبھی تئیسویں ، کبھی پچیسویں تو کبھی ستائیسویں اور کبھی کبھی اُنتیسویں شب بھی شبِ قدر ہوجا یا کرتی ہے۔ (عمدۃُ القاری ج۱ص۳۳۵)
شیخ ابو الحسن شاذِلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الولی اورشب قدر:
سلسلۂ قادریہ شاذِلیہ کے عظیم پیشوا حضرتِ سَیِّدُنا شیخ ابُو الْحَسن شاذِلی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ الوالی (متوفّٰی656ھ) فرماتے ہیں : ’’ جب کبھی اتوار یا بُدھ کو پہلا روزہ ہوا تَو اُنتیسویں شب ، اگرپیر کا پہلا روزہ ہو ا تو اکیسویں شب، اگر پہلا روزہ منگل یاجمعہ کو ہوا تو ستائیسویں شب اگر پہلا روزہ جمعرات کو ہوا تو پچیسویں شب اور اگر پہلاروزہ ہفتے کو ہوا تو میں نے تئیسویں شب میں شَبِ قَدْر کوپایا۔ ‘‘ (تفسِیرِ صاوی ج۶ص۲۴۰۰)
ستائیسویں رات شب قدر:
اگرچہ بزرگانِ دین اور مفسرین و محدّثینرَحِمَہُمُ اللہُ تَعَالٰی اَجْمَعِیْن کا شبِ قدر کے تعین میں اِختلاف ہے، تاہم بھاری اکثریت کی رائے یہی ہے کہ ہر سال ماہِ رَمَضانُ الْمُبارَک کی ستائیسویں شب ہی شب قدر ہے۔ سیّد الانصار، سیِّدُالقراء، حضرتِ سَیِّدُنا اُبَیِّ بْنِ کَعْب رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ کے نزدیک ستائیسویں شبِ رَمضان ہی ’’ شب قدر ‘‘ ہے۔(مسلم ص۳۸۳حدیث۷۶۲)
حضرتِ سَیِّدُنا شاہ عبد العزیز محدّث دِہلوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی بھی فرماتے ہیں کہ شب قدر رَمضان شریف کی ستائیسویں رات ہوتی ہے۔ اپنے بَیان کی تائید کیلئے اُنہوں نے دو دلائل بَیان فرمائے ہیں : {۱} ’’ لَیْلَۃُ الْقَدْر‘ ‘ میں نو حروف ہیں اور یہ کلمہ سُوْرَۃُ الْقَدْر میں تین مرتبہ ہے، اِس طرح ’’ تین ‘‘ کو ’’ نو ‘‘ سے ضرب دینے سے حاصلِ ضرب ’’ ستائیس ‘‘ آتا ہے جو کہ اِس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ شبِ قدر ستائیسویں رات ہے۔ {۲} اِس سورئہ مبارَکہ میں تیس کلمات (یعنی تیس الفاظ) ہیں ۔ ستائیسواں کلمہ ’’ ھِیَ ‘‘ ہے جس کا مرکز لَیْلَۃُ الْقَدْر ہے۔ گویا اللہ تَبَارَکَ وَ تَعَالٰی کی طرف سے نیک لوگوں کیلئے یہ اِشارہ ہے کہ َرمضان شریف کی ستائیسویں شبِ قَدْر ہوتی ہے۔(تَفسِیر عَزیزی ج۳ص۲۵۹ ملخّصاً)
گویا شب قدر حاصل کر لی:
فرمانِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم: جس نے ’’ لَآ اِلٰہَ اِلَّااللہُ الْحَلِیْمُ الْکَرِیْمُ ، سُبحٰنَ اللہ ِ رَبِّ السَّمٰوٰتِ السَّبْعِ وَرَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیْم ‘‘ ترجمہ :یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کے سِوا کوئی عِبادت کے لائِق نہیں جو حِلم وکرم والا ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ پاک ہے جو ساتوں آسمانوں اور بڑےعرش کامالک ہے۔
تین مرتبہ پڑھا تو اُس نے گویا شب قدر حاصل کر لی۔(ابنِ عَساکِر ج۶۵ ص۲۷۶) ہو سکے تو ہررات تین بار یہ دُعا پڑھ لینی چاہئے۔
رِضائے الٰہیعَزَّ وَجَلَّ کے خواہشمندو! ہوسکے تو سارا ہی سال ہر رات اہتمام کے ساتھ کچھ نہ کچھ نیک عمل کرلینا چاہیے کہ نہ جا نے کب شب قدر ہوجا ئے ۔ ہر رات میں دو فرض نَمازیں آتی ہیں ، دیگر نَمازوں کے ساتھ ساتھ مغرب و عِشا کی نَمازوں کی جماعت کابھی خوب اِہتمام ہونا چاہئے کہ اگر شب قدر میں ان دونوں کی جماعت نصیب ہوگئی تو اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّبیڑا ہی پارہے ، بلکہ اسی طرح پانچوں نمازوں کے ساتھ ساتھ روزانہ عشا و فجر کی جماعت کی بھی خصو صِیَّت کے ساتھ عادت ڈال لیجئے۔ دو فرامینِ مصطَفٰے صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم ملاحظہ ہوں : {۱} جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی اُس نے گویا آدھی رات قیام کیااور جس نے فجر کی نماز باجماعت ادا کی اُس نے گویا پوری رات قیام کیا۔ (مُسلم ص ۳۲۹ حدیث۶۵۶) {۲} ’’ جس نے عشا کی نماز باجماعت پڑھی تحقیق اُس نے لَیْلَۃُ الْقَدْر سے اپنا حصہ حاصل کرلیا۔ ‘‘ (مُعجَم کبیر ج۸ص۱۷۹حدیث۷۷۴۵)
اللہ عَزَّوَجَلَّکی رَحمت کے متلاشیو! اگر تمام سال یہی عادتِ جماعت رہی تو شب قدر میں بھی اِن دونوں نَمازوں کی جماعتاِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّنصیب ہوجا ئے گی اور رات بھر سونے کے باوُجود اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّروزانہ کی طرح شب قدر میں بھی گویا ساری رات کی عبادت کرنے والے قرار پائیں گے۔
شب قدر کی دُعا:
اُمّ الْمُؤمِنِینحضرتِ سَیِّدَتُنا عائِشہ صدیقہ رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہَارِوایَت فرماتی ہیں : میں نے بارگاہِ رسالت صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم میں عرض کی : ’’ یارَسُولَ اللہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ!اگر مجھے شب قدر کا علم ہوجا ئے تو کیا پڑھوں ؟ ‘‘ فرمایا: اِس طرح دُعا ما نگو: اَللّٰھُمَّ اِنَّکَ عَفُوٌّ تُحِبُّ الْعَفْوَ فَاعْفُ عَنِّی ۔ یعنی اےاللہ عَزَّوَجَلَّ!بیشک تو معاف فرمانے والا ہے اور معافی دینا پسند کرتا ہے لہٰذا مجھے مُعاف فرما دے ۔ ( تِرمذی ج۵ص۳۰۶حدیث۳۵۲۴)
میٹھے میٹھے اِسلامی بھائیو! کاش !ہم روزانہ رات یہ دُعا کم ازکم ایک بار ہی پڑھ لیا کریں کہ کبھی تو شَب قدر نصیب ہو جا ئے گی۔ اور ستائیسویں شب تو یہ دُعا بارہا پڑھنی چاہئے۔
شب قدر کے نوافل:
حضرت سَیِّدُنا اِسمٰعیل حقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی ’’ تفسیرِ رُوْحُ الْبَیان ‘‘ میں یہ رِوایت نقل کرتے ہیں : جو شبِ قدر میں اِخلاصِ نیت سے نوافل پڑھے گااُس کے اگلے پچھلے گناہ مُعاف ہوجا ئیں گے۔ (رُوْحُ البَیان ج۱۰ص۴۸۰)
سرکار مدینہ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ جب رَمَضانُ المُبارککے آخری دس دِن آتے تو عبادت پر کمر باند ھ لیتے، ان میں راتیں جا گا کرتے اور اپنے اہل کو جگایا کرتے۔ ( ابنِ ماجہ ج۲ص۳۵۷حدیث۱۷۶۸)
حضرت سَیِّدُنا اِسمٰعیل حقی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللہِ القَوِی نقل کرتے ہیں کہبزرگان دین رَحِمَہُمُ اللہُ الْمُبِیْناس عشرے کی ہر رات میں دورکعت نفل شبِ قدر کی نیت سے پڑھا کرتے تھے ۔ نیز بعض اکابر سے منقول ہے کہ جو ہررات دس آیات اِس نیت سے پڑھ لے تو اس کی برکت اور ثواب سے محروم نہ ہوگا ۔
میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو!یقینا یہ رات منبعِ برکات ہے ۔ چنانچہ حضرت سَیِّدُنا اَنس بن مالک رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : ایک بارجبماہِ رَمضان شریف تشریف لایاتوحضورِ انور ، شافِعِ مَحشر ، مدینے کے تاجور ، باِذنِ ربِّ اکبر غیبوں سے باخبر محبوبِ داوَر صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا: ’’ تمہارے پاس یہ مہینا آیا ہے جس میں ایک رات ایسی بھی ہے جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے جو شخص اِس رات سے محروم رہ گیا ، گویا تمام کی تمام بھلائی سے محروم رہ گیا اور اِس کی بھلائی سے محروم نہیں رہتا مگر وہ شخص جو حقیقۃً محروم ہے۔ ‘‘ (ابنِ مَاجَہ ج۲ص۲۹۸حدیث۱۶۴۴)
اے ہمارے پیارے پیار ےاللہ عَزَّوَجَلَّ!اپنے پیارے حبیب صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کے طفیل ہم گناہ گاروں کو لَیْلَۃُ الْقَدْر کی برکتوں سے مالا مال کر اور زیادہ سے زیادہ اپنی عبادَت کی توفیق مرحمت فرما۔ اٰمِیْن بِجا ہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلہٖ وَسَلَّم
لَیْلَۃُ الْقَدْر میں مَطْلَعِ الْفَجْرِ حق
مانگ کی استِقامت پہ لاکھوں سلام (حدائقِ بخشِش ص۲۹۹)