مولانا امام احمد رضا خان بریلوی رحمۃ اللّٰہ علیہ اور فن تفسیر: - Abdullah Madni 1991
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلّی علٰی رسولہ الکریم ط اعلٰی حضرت عظیم البرکت قدس سرہ ان ہستیوں میں سے ہیں جن کے لئے اللہ تعالٰی نے فرمایا !
افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علٰی نور من ربہ
یہ شرح صدر ہی تو تھا کہ قلیل عرصہ میں جملہ علوم و فنون سے فراغت پالی ورنہ عقل کب باور کر سکتی ہے کہ چودہ سال کی عمر میں علوم و فنون ازبر ہوں
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
( یہ سعادت بزور بازو نہیں ملتی جب تک کہ بخشنے والا خداوند تعالٰی نہ عطا کرے )
اور یہ علوم و فنون صرف ازبر نہ تھے بلکہ ہر فن پر مبسوط تصانیف موجود ہیں اور وہ بھی کسی سے مستعار نہیں بلکہ قلم رضوی کے اپنے آب دار موتی ہیں اور تحقیق کے ایسے بہتے ہوئے بحر ذخار کو دیکھ کر بڑے بڑے محققین انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں۔ آپ کو قلم کا بادشاہ کہا جاتا ہے ۔
تجربہ اور شواہد بتاتے ہیں کہ جس بندہ خدا کو جس فن کی مہارت نصیب ہو وہ دوسرے فن میں ہزاورں ٹھوکریں کھاتا ہے مثلاً امام بخاری قدس سرہ کو دیکھیئے کہ دنیائے اسلام نے فن حدیث کا انہیں ایسا امام مانا ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی لیکن فقہاء کے کے استنباط اور تاریخی حیثیت سے آپ کو وہ مرتبہ حاصل نہیں جو فن حدیث میں ہے لیکن اعلٰٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کی یہ خصوصیت ہے کہ فن کے ماہرین نے مانا ہے کہ آپ ہر فن میں مہارت تامہ رکھتے ہیں چناچہ شاعروں نے آپ کو امام اشعراء سمجھا ، فقہاء نے آپ کو وقت کا ابو حنیفہ مانا، محدثین نے امیر الحدیث وغیرہ وغیرہ اس لئے خود اعلٰٰی حضرت قدس سرہ نے اپنے لئے فرمایا اور بجا فرمایا ۔
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
اس وقت فقیر کا موضوع سخن فن تفسیر ہے واضح کروں گا کہ آپ اس فن کے بھی مسلم امام ہیں اگرچہ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے پورے قرآن پاک کی کوئی تفسیر نہیں لکھی لیکن حق یہ ہے کہ اگر آپ کی تصانیف کا بالاستیعاب مطالعہ کر کے تفسیری عبارات جمع کئے جائیں تو ایک مبسوط تفسیر معرض وجود میں آ سکتی ہے چنانچہ فقیر اویسی غفر لہ نے اس کام کا آغاز کر رکھا ہے اللہ تعالٰی اس کے اہتمام کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
شرائط فن تفسیر
امام جلال الملۃ والدین حضرت علامہ سیوطی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ نے اتقان میں لکھا ہے کہ مفسّر اس وقت تفسیر قرآن لکھنے اور بیان کرنے کا حق رکھتا ہے جب چودہ فنون کی مہارت حاصل کر لے ۔ ورنہ تفسیر نہیں تحریف قرآن کا مرتکب ہو گا ۔ اس قاعدہ پر اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ، نہ صرف ان چودہ فنون کے ماہر ہیں بلکہ پچاس فنون پر کامل دسترس رکھتے ہیں بلکہ بعض فنون پرآپ کی درجنوں تصانیف ہیں ، یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ کو مستقل طور پر تفسیر لکھنے کا موقعہ نہیں ملا لیکن آپ کی تصانیف سے قرآنی ابحاث کی ایک ضخیم تفسیر تیار ہو سکتی ہے اور فقیر اویسی نے اس کے اکثر اجزاء کو جمع کیا ہوا ہے بنام تفسیر امام احمد رضا ،، خدا کرے کوئی بندہ اس کی اشاعت کیلئے کمر بستہ ہو جائے ۔ (آمین)
علاوہ ازیں تفاسیر پر آپ کی عربی حواشی کے اسماء ملتے ہیں مثلاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الزلال الانقی من بحر سفینۃ اتقی
حاشیہ تفسیر بیضاوی شریف
حاشیہ عنایت القاضی شرح تفسیر بیضاوی
حاشیہ معالم التنزیل
حاشیہ الاتقان فی علوم القرآن سیوطی
حاشیہ الدر المنثور (سیوطی)
حاشیہ تفسیر خازن
علاوہ ازیں بعض آیات اور سورتوں پر آپ کی متعدد تصانیف موضوع تفسیر پر ملتی ہیں جنہیں ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ نے جمع فرمایا ہے چند ایک کے اسماء درج ہیں !
انوار العلم فی معنٰٰی میعارواستجب لکم فارسی زبان میں ہے 1327ء تک غیر مطبوع تھی اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے تحقییق فرمائی ہے کہ اجابت دعا کے کیا کیا معنٰی ہے ۔ اثر ظاہر نہ ہونا دیکھ کر بے دل ہونا حماقت ہے ۔
االصصام علی مشک فی آیۃ علوم الارحام اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے پادریوں کا رد فرمایا ہے اردو زبان میں طبع شدہ موجود ہے ۔
۔انباء الحی ان کتاب المصون تبیان لکل شئی عربی ،اردو زبان میں ہے اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے ثابت فرمایا ہے کہ قرآن مجید اشیائے عالم کی ہر چیز کا مفصل بیان ہے ۔
النفحۃ الفائحہ من مسلک سورۃ الفاتحہ اردو زبان میں ہے اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے سورۃ فاتحہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کو ثابت فرمایا ہے ۔
نائل الراح فی فرق الریح والریاح فارسی زبان میں ہے۔
مذکورہ رسائل صرف تفسیر سے متعلق ہیں ۔ بعض اوقات کسی مسئلہ کے متعلق استفسار پر آپ نے تفسیری نقطہ نگاہ سے حل فرمایا دراصل آپ کو عالم دنیا سے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے فتاوٰی کے جوابات سے فرصت کم ملی ورنہ اگر اس طرف توجّہ دیتے تو تفسیر کا ایک جز ہزاروں صفحات پر پھیلتا۔ صرف بسم اللہ شریف کی تقریر پر مختصر سے وقت میں آپ کا ایک طویل مضمون موجود ہے جو آپ نے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر بریلی شریف میں بیان فرمایا تھا جو سوانح اعلٰی حضرت میں صفحہ 98 سے شروع ہو کر صفحہ 112 تک ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح پھر دوسرا وعظ صفحہ 112 سے شروع ہو کر صفحہ 131 تک ختم ہوا یہ بھی تقریر کے رنگ میں ہوا جو تحریر کے میدان میں کوسوں دور سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اتنے صفحات کا مضمون بیان کر جانا کسی مرد میدان کا کام ہے اور وہ بھی مفسّرانہ رنگ میں اور پھر تفسیر سورہ والضحٰی لکھی تو سینکڑوں صفحات پھیلا دئیے ۔ جس کی ایک ایک سطر کئی تفاسیر کے مجموعے کو دامن میں لئے ہوئے ہے ۔
آپ کے تلامذہ کو رشک ہوگا کہ ایسے بحر بے پایاں کے قلم سے جس طرح فقہ اور حدیث اور دیگر فنون کے دریا بہائے گئے ہیں کچھ تفسیری نوٹ بھی آپ کی یادگار ہوں تو زہے قسمت اگر چہ اجمالی طور پر ہی سہی ، چناچہ صدر الشریعۃ حضرت مولانا حکیم امجد علی صاحب مصنف بہار شریعت قدس سرہ کو اللہ تعالٰٰی اپنی خاص رحمتوں سے نوازے ،انہوں نے اہلسنت پر احسان عظیم فرمایا کہ اعلٰٰی حضرت قدس سرہ کی عدیم الفرصتی کے باوجود قرآن مجید کا ترجمہ لکھوا ہی لیا چناچہ سوانح نگار حضرات قرآن مجید کے ترجمے کے متعلق یوں لکھتے ہیں کہ صدر الشریعۃ حضرت مولانا حکیم امجد علی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ترجمہ قرآن کی ضرورت پیش کرتے ہوئے اعلٰٰی حضرت سے گزارش کی آپ نے وعدہ تو فرمالیا لیکن دوسرے مشاغل دینیہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی ، جب حضرت صدر الشریعۃ کی جانب سے اصرار بڑھا تو اعلٰٰی حضرت نے فرمایا
چوں کہ ترجمے کے لیے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے اس لئے آپ رات کو سونے کے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت کے وقت آجایا کریں ۔ چنانچہ حضرت صدر الشریعۃ ایک دن قلم و دوات لے کر حاضر ہو گئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہوگیا۔ ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلٰی حضرت زبانی طور پر ترجمہ آیۃ کریمہ کا فرماتے جاتے اور حضرت صدر الشریعۃ لکھتے جاتے لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں تھا کہ آپ پہلے کتب تفسیر و حدیث و لغت کو ملاحظہ فرماتے اور آیات کو سوچتے پھر ترجمہ بیان فرماتے قرآن مجید کافی البدیہہ برجستہ ترجمہ زبانی طور پر اس طرح بولتے جاتے تھے جیسے کوئی پختہ یاداشت یاداشت کا حافظ اپنی قوّت حافظ پر بغیر زور ڈالے قرآن شریف پڑھتا چلا جاتا ہے۔ علمائے کرام جب دوسری تفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ اعلٰی حضرت کا یہ برجستہ فی البدیہہ ترجمہ تفاسیر معتبرہ کے بالکل عین مطابق ہے ،الغرض اسی قلیل وقت میں ترجمہ کا کام ہوتا رہا پھر وہ مباراک ساعت بھی آئی کہ قرآن مجید کا ترجمہ ختم ہو گیا اور حضرت صدر الشریعت کی کوشش بلیغ کی بدولت سنّیت کو کنز الایمان کی دولت عظمٰی نصیب ہوئی۔ ( فجزاء اللہ تعالٰی عنا و عن جمیع اہل السنۃ جزاء کثیرا و اجرا جزیلا )
حضرت محمد کچھوچھوی سیّد محمد صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ اعلٰی حضرت کے علم قرآن کا اندازہ اس اردو ترجمہ سے کیجیئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کو کوئی مثال سابق نہ عربی زبان میں ہے نہ فارسی میں ہے اور نہ اردو میں اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اس جگہ لایا نہیں جا سکتا جو یہ بظاہر ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن مجید کی تفسیر ہے اور اردو زبان میں روح قرآن ہے بلکہ فقیر اویسی کا ذوق یوں گواہی دیتا ہے ۔
ہست قرآن بزبان اردوی
ہمچوں مثنوی بزبان پہلوی
اس ترجمہ کی شرح میں حضرت صدر الافاضل استاذ العلماء مولانا نعیم الدین علیہ الرحمۃ حاشیہ پر فرماتے ہیں کہ دوران شرح میں ایسا کئی بار ہوا کہ اعلٰی حضرت کے استعمال کردہ لفظ کے مقام استنباط کی تلاش میں دن پر دن گذرے اور رات پر رات کٹتی رہی اور بالآخر ماخذ ملا تو ترجمہ کا لفظ اٹل ہی نکلا اعلٰی حضرت خود حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالٰی کے فارسی ترجمہ کو سراہا کرتے تھے ۔ لیکن اگر حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اردوزبان کے اس ترجمے کو پاتے تو فرماہی دیتے کہ
ترجمہ قرآن شئی دیگر است و علم القرآن شئی دیگر ست
۔۔۔۔۔۔۔۔علمائے دیوبند نہ صرف حریف بلکہ وہ آپ کو ہر معاملے میں ترچھی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن وہ بھی اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے کہ واقعی اعلٰی حضرت کا قرآن مجید کا ترجمہ بالکل صحیح اور درست ہے ۔ اور آپ کے ترجمے کے مقابلے میں موجود دور کے تمام اردو تراجم کو دیکھا جائے تو ان میں سینکڑوں غلطیاں ہیں اس لئے محققین نے اس کو دیکھ کر ذیل کی آرا قائم فرمائی ہیں ۔
ترجمہ اعلٰی حضرت تفاسیر معتبرہ قدیمہ کے مطابق ہے ۔
اپنی تفویض کے مسلک اسلم کا عکس ہے ۔
اصحاب تاویل کے مذہب سالم کا موید ہے ۔
زبان کی روانی اور سلامت میں بے مثل ہے ۔
عوامی لغات و بازاری زبان سے یکسر پاک ہے ۔
قرآن پاک کے اصل منشاء مراد کو بتایا ہے ۔
آیات ربّانی کے انداز خطاب کو پہنچا ہے ۔
قرآن کے مخصوص محاوروں کی نشاندہی کرتا ہے ۔
قادر مطلق کی روائے عزت و جلال میں نقص و عیب کا دھبہ لگانے والوں کیلئے تیغ بران ہے ۔
حضرات انبیاء علیہم السلام کی عظمت و حرمت کا محافظ و نگہبان ہے ۔
عام مسلمین کیلئے بامحاورہ اردو میں سادہ ترجمہ ہے ۔
لیکن علماء کرام و مشائخ عظام کیلئے معرفت کا امنڈتا ہوا سمندر ہے ۔
بس اتنا ہی سمجھ لیجئے کہ قرآن حکیم قادر مطلق جل جلالہ کا مقدس کلام ہے اور کنزالایمان اس کا مہذب ترجمان ہے ۔
فقیر نے جہاں بھی آپ کی تصانیف میں تحقیق مفسرانہ دیکھی تو رازی و غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما کے قلم سے آفرین و تحسین سنی اختصار کے پیش نظر چند ایک نظائر مشتے نمونہ خر وار ملاحظہ ہوں جو آپ کی تصنیف سے اخذ کئے گئے ہیں ۔
پیشانی کا داغ
سائل نے صرف اتنا استفسار کیا کہ بعض نمازیوں کو بہ کثرت نماز کے نام یا پیشانی پر جو سیاہ داغ ہو جاتا ہے اس سے نمازی کو قبر و حشر میں خداوند کریم جل جلالہ کی پاک رحمت کا حصہ ملتا ہے یا نہیں اور زید کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کے دل میں بغض کا سیاہ داغ ہوتا ہے اس کی شامت اس کی ناک یا پیشانی پر کالا داغ ہوتا ہے ، یہ قول زید کا باطل ہے یا نہیں اس کے جواب میں اعلٰی حضرت قدس سرہ کے قلم کو جنبش آئی تو چھ صفحات مفسرانہ حیثیت سے لکھے اور ثابت فرمایا کہ اس نشانی کے متعلق چار قول ماثور ہیں اور ہر ایک کا حکم جدا جدا اور آیت سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود کا ایسا مفہوم ادا فرمایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان اوہام کا ازالہ فرمایا جو پیشانی کے داغ کو سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود میں سمجھتے ہیں ۔
یہ مضمون سوانح احمد رضا میں چند صفحات پر پھیلا ہوا ہے جو نہایت قابل مطالعہ ہے اور تمام تحقیق تفاسیر معتبرہ کے حوالہ جات سے مزین ہے ۔
آیت میثاق
واذ اخذ اللہ میثاق النبیین الخ سے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت مطلقہ پر گفتگو فرماتے ہوئے آخر میں تحریر فرمایا اقول و باللہ التوفیق پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس مضمون کو قرآن کریم نے کس قدر مہتمم بالشان ٹھرایا اور طرح طرح سے موکد فرمایا!
اوّلا۔۔۔۔ انبیاء علیہم السلام معصومین ہیں زنہار حکم الٰہی کے خلاف ان سے کوئی کام صادر نہیں ہوتا کہ رب تعالٰی بہ طریق امر انہیں فرماتا کہ اگر وہ نبی تمہارے پاس آئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا مگر اس پر اکتفاء نہ فرمایا بلکہ ان سے عہد و پیمان لیا یہ عہد عہد است بر بکم کا دوسرا پیمان تھا جیسے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاکہ ظاہر ہو کہ تمام ما سوائے اللہ پر پہلا فرض ربوبیّت الٰہیہ کا اذعان ہے پھر اس کے برابر رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وبارک و شرف و بجل وعظم )
ثانیا۔۔۔۔ اس عہد کو لام قسم سے موکد فرمایا لتومنن بہ التنصرنہ جس طرح نوابوں سے بیعت سلاطین لی جاتی ہے ۔ امام سبکی رحمۃ اللہ تعالٰٰی علیہ فرماتے ہیں۔
مسئلہ ۔۔۔ بیعت اس آیت سے ماخوذ ہوئی ہے۔
ثالثاً۔۔۔۔ نون تاکید
رابعاً۔۔۔وہ بھی ثقیلہ لا کر ثقل تاکید اور دو بالا فرمایا ۔
خامساً۔۔۔۔یہ کمال اہتمام ملاحظہ کیجیئے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام ابھی جواب نہ دینے پائیں کہ خود ہی تقدیم فرماکر پوچھتے ہیں اقررتم کیا اس امر پر اقرار لاتے ہیں یعنی کمال و تعجیل و تسجیل مقصود ہے۔
سادساً۔۔۔ اس قدر پر بھی بس نہ فرمائی بلکہ ارشاد فرمایا واخذتم علٰٰی ذالکم اصری خالی اقرار ہی نہیں بلکہ اس پر میرا بھاری ذمّہ لو۔
سابعاً۔۔۔ علیہ یا علی ھذا کی جگہ علٰی ذالکم فرمایا کہ بعد اشارت عظمت ہو۔ ثامناً۔۔۔۔ اور ترقی ہوئی کہ فاشھدوا ایک دوسرے پر گواہ ہو جائے۔ حالانکہ معاذ اللہ اقرار کر کے مکر جانا ان پاک مقدّس جنابوں سے معقول نہ تھا ۔
تاسعاً۔۔۔۔کمال یہ ہے کہ صرف ان کی گواہی پر اکتفاء نہ ہوا بلکہ فرمایا انا معکم من الشاھدین میں خود بھی تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔
ّعاشراً۔۔۔۔سب سے زیادہ نہایت کار یہ ہے کہ اس عظیم جلیل تاکیدوں کے بعد بآنکہ انبیاء علیہم السلام کو عصمت عطا فرمائی یہ سخت شدید تہدید بھی فرمادی گئی کہ فمن تولٰی بعد ذالک فاولئک ھم الفٰسقون اب جو اس اقرار سے پھرے گا فاسق ٹھہرے گا
اللہ اللہ یہ وہی اعتنائے تام و اہتمام تمام ہے جو باری تعالٰٰی کو اپنی توحید کے بارے میں منظور ہوا کہ ملائکہ معصومین کے حق میں بیان فرماتا ہے ومن یقل منھم انی الہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم کذالک نجزی الظالمین ، جو ان میں سے کہے گا کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں اس کو جہنم کی سزا دیں گے ہم ایسے ہی سزا دیتے ہیں ستم گروں کو گویا اشارہ فرماتے ہیں
جس طرح ہمیں ایمان کے جز اول لاالہ الا اللہ کا اہتمام ہے یوں ہی جز دوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعتنائے تام ہے کہ میں تمام جہانوں کا خدا کہ ملائکہ مقربین بھی میری بندگی سے سر نہیں پھیر سکتے اور میرا محبوب سارے عالم کا رسول ومقتداء کہ انبیائے مرسلین بھی اس کی بیعت و خدمت کے محیط دائرہ میں داخل ہوئے اور اس سے قبل اس آیۃ کا تبصرہ کئی صفحات پر فرمایا تبصرہ کر کے پھر معتبرہ تفاسیر اور محققین علمائے کرام کی تصانیف کے خلاصہ کو دریا کوزہ کی مثالی قائم فرمائی ۔
کلی علم غیب
اور یہ صرف اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا حصہ تھا کہ جب اعدائے دین نے شان نبوت ولایت پر ہاتھ ڈالا تو اعلٰی حضرت کا قلم ڈھال بنا اور مذہب مہذب اہل سنت کے جمیع مسائل کو قرآنی اصول کے مطابق ڈھالنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ حقیقت کو نصف النہار سے ذیادہ آشکارا فرمایا چنانچہ علم غیب کلی اہل سنت اور مخالفین کے مابین نزاع کا ایک اہم مسئلہ ہے اعلٰی حضرت قدس سرہ جب گویا ہوئے تو جلال الملت والدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰٰی علیہ کو بھی ساتھ لیا۔
چنا نچہ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے علم غیب کلی کا دعوٰٰی یوں تحریر فرمایا : بے شک حضرت عزت و عظمت نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام اوّلین وآخرین کا علم عطا فرمایا مشرق تا مغرب عرش تا فرش سب انہیں دکھایا ملکوت السموت والارض کا شاہد بنایا روز اوّل سے روز آخرت یعنٰی روز قیامت تک کے سب ماکان وما یکون انہیں بتائے اشائے مذکورہ سے کوئی ذرّہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم سے باہر نہ رہا، علم حبیب کریم علیہ افضل الصلواۃ التسلیم ان سب کو محیط ہوا نہ صرف اجمالاً بلکہ ہر صغیر و کبیر ہر رطب و یابس جو پتہ گرتا ہے زمین کی اندھیروں میں جو دانہ کہیں پڑا ہے سب کو جدا جدا تفصیلاً جان لیا الحمد للہ حمداً کثیرا بلکہ یہ جو کچھ بیان ہوا ہر گز ہر گز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پورا علم نہیں صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وسلم و علٰی وآلہ واصحابہ اجمعین و بارک وکرم وسلم بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم سے ایک چھوٹا حصّہ ہے ہنوز اعاطہ علم محمدی میں وہ ہزار در ہزار بے حد و بے کنار سمندر لہرا رہے ہیں جن کی حقیقت وہ جانیں یا ان کا عطا کرنے والا مالک و مولا جل و علا ( و الحمد للہ العلٰی الاعلٰٰی ) کتب حدیث و تصانیف علمائے قدیم و حدیث میں اس کے دلائل کا بہت شافی و بیان وانی ہے اس کے بعد آپ علم غیب کے مسئلہ کو قرآنی آیات سے ثابت فرما کر آخر میں اصول قرآنی پو بحث فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ۔
عبارت اعلٰی حضرت قدس سرہ
اور اصول میں مبرہن ہو چکا کہ نکرہ حیز نفی میں مفید عموم ہے اور لفظ کل تو ایسا عام ہے کہ کبھی خاص ہو کر مستعمل ہی نہیں ہوتا اور عام افادہ استغراق میں قطعی ہے اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گے بے دلیل شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں ورنہ شریعت سے مان اٹھ جائے نہ حدیث آحاد اگر چہ کیسی اعلٰی درجہ کی صحیح ہو عموم قرآن کی تخصیص تراخی نسخ ہے اور اخبار کا نسخ نا ممکن اور تخصیص عقلی عام کو قطعت سے نازل نہیں کرتی نہ اس کے اعتماد پر کسی ظنی سے تخصیص ہو سکے تو بحمدللہ کیسے نص صریح قطعی سے روشن ہوا کہ ہمارے حضور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ عزوجل نے تمام موجودات جملہ ماکان ومایکون الٰی یوم القیامۃ جمیع مندرجات لوح محفوظ کا علم دیا اور شرق و غرب سماء وارض عرض فرش میں کوئی ذرّہ حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سے باہر نہ رہا ۔
جو کچھ اعلٰٰی حضرت قدس سرہ نے اصول تفسیر کے طور پو اپنا مسلک واضح فرمایا وہی اصول امام سیوطی سینکڑوں سال پہلے بیان فرماگئے چنانچہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :-
العالم یستغرق الصالح من غیر حصرو صیغۃ کل مبتداۃ وما والمعروف بال و اسم الجنس المضاف والنکرۃ فی سیاق العفی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ العالم الباقی فی عمومہ من خاص القرآن ما کان مخصصاً لعموم السنۃ و ھو عزیز قال این الحصار انما یرجع فی النسخ الٰٰی نقل صریح عن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰٰٰٰٰی علیہ وآلہ وسلم وعن اصحابی یقول آیۃ کذا نسخت کذا قال و حکم بہ عند وجود التعارض المقطوع بہ سع علم التاریخ یعرف التقدم و المتاخر قال ولا یعتمد فی النسخ قول عوام المفسرین بل ولا اجتھاد المجتھدین من غیر نقل صحیح ولا معارضۃ بینۃ لان النسخ یتضمن دفع حکم و اثبات حکم۔۔۔ نقرر--- فی عھدہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم الصعتمد فیہ النقل والتاریخ دون الرای اوالاجتھاد قال والناس فی ھذا بین طرفی نقیض فمن قائل لا یقبل فی النسخ اخبار الاحاد العدول و من ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یکتفی فیہ بقول مفسر او مجتھد والصواب خلاف قولھما ۔ ۔ ۔ اذا سیق العام للمدح الذم فھل ھو باق علٰی عمومہ فیہ مذاھب احدھا نعم اذ لا صارف عنہ ولا تنافی بین العموم و بین المدح و الذم ۔۔ الخ
تبحر فی فن التفسیر کے نمونے
بالاستعیاب تو نہیں چند آیات کے نمونے تفسیری حیثیت سے فقیر یہاں عرض کرتا ہے۔
فتاوٰی افریقہ 17 میں ہے سائل نے عبد المصطفٰٰے نام رکھنے کے متعلق سوال لکھا تو اعلٰی حضرت قدس سرہ نے عبد المصطفٰے نام رکھنے کے جواز میں آیۃ وانکحو الایمٰی منکم منکم والصالحین من عبادکم سے استدلال فرمایا اس کے بعد تفسیر القرآن بالحدیث کے قاعدہ پر آیات کی تفسیر اور اپنے موضوع کو احادیث مبارکہ کے چند حوالہ جات سے مزین فرمایا پھر اس کے بعد تفسیر القرآن بالقرآن جو تفسیر کا اعلٰی درجہ ہے آیت مذکورہ کیلئے یٰعبادی الذین اسرفوا سے استشہاد فرمایا ۔ آپ کے استدلال پر فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر کو سامنے رکھئے تو یقین آئیگا کی اعلٰی حضرت قدس سرہ طرز استدلال میں امام رازی ہیں۔
اسی فتاوٰی افریقہ 19 میں سائل نے سوال کیا کہ آپ نے اپنی بعض تصانیف میں اہل اسلام کو مخاطب فرمایا کیا آپ کا خدا تعالٰی سے کوئی تعلق نہیں جب کہ آپ دوسروں کو تمہارا خدا کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ۔ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے صرف اسی ایک چھوٹے سوال پر اختصاراً دس آیات اور دس احادیث سے جواب مرحمت فرمایا جو آپ کی قرآن دانی کا بین ثبوت ہے ۔
اسی فتاوٰی افریقہ میں بد مذاہب سے بیزاری کے متعلق درجنوں آیات سے استدلال کے بعد متعدد احادیث مبارکہ سے استشہاد فرمایا ۔
اسی فتاوٰی افریقہ کے صفحہ 13 پر آیۃ وسیلہ کا بیان مفصّل مفسّر فرمایا کہ جس میں وسیلہ کی تمام شقوں کی تفصیل پھر اس پر اسلاف صالحین کے ارشادات کی تزنین کے بعد پیری مریدی کی تمام اقسام واضح فرمائیں جن میں سچے اور جھوٹے پیروں اور فقیروں کی پہچان آسان فرمادی جو اسلاف صالحین کی تصانیف میں یکجا کہیں اسی تحقیق کے ساتھ نہ ملے گی پھر کمال یہ ہے کہ صرف ایک جملہ کی تحقیق پر کتاب کے کئی صفحات ُپر فرمائے امام فخر الدین رازی قدس سرہ کو ناقدین نے معاف نہ فرمایا کہا امام موصوف آیت کے مضمون کو اتنا طول دیتے ہیں کہ فن تفسیر کا رنگ بکھر جاتا ہے لیکن ہمارے امام ممدوح کا مضمون اتنا پر بہار ہے کہ جتنا طویل ہوتا گیا اتنا فن تفسیر اجاگر ہوتا چلا گیا ہے ۔ اگر وہی ناقدین ہمارے امام ممدوح کے مضمون کو دیکھ لیتے تو قلم رضا کو چوم لیتے ۔
اکثر مفسّرین صرف ناقل ہوتے ہیں استنباط کرنے والے گنتی کے چند ملیں گے لیکن اعلٰی حضرت قدس سرہ کو اللہ کی طرف سے تائید غیبی نصیب تھی کہ آیت کی تفسیر میں نقول معتبرہ کے ساتھ احادیث مبارکہ سے جب استنباط فرماتے تو دریا بہا دیتے چنانچہ آیت ان اشکر لی ولوالدیک کی تفسیر میں حقوق الاولاد علی الوالد اسّی حقوق گنائے جو سب کے سب آیت کی تفسیر سے متعلق اور احادیث مبارکہ سے مستنبط ہیں ۔ صرف اسی مضمون پر ایک رسالہ مشعلۃ الارشاد تیار ہو گیا ۔
اس کے علاوہ اور درجنوں بحثیں آیت کی تفسیر میں لائے جنہیں پڑھنے کے بعد تصدیق ہوتی ہے کہ اعلٰٰی حضرت کا تبحر فی فن التفسیر بے مثال ہے ۔
اجمالی آیات کی تفسیر میں مفسرین کا ہمیشہ اختلاف چلا آرہا ہے لیکن مفسرین کی عادت رہی ہے کہ اپنے موقف کو دلائل سے ثابت کرتے وقت زیادہ سے زیادہ درجنوں دلائل قائم کئے لیکن اعلٰی حضرت قدس سرہ کا طرز نرالہ ہے کہ جب اپنے موقف کی توضیح فرماتے ہیں تو سنکڑوں دلائل و براہین حوالہ قلم فرماتے ہیں چنانچہ تجلی الیقین کی تصنیف آپ کے شہسوار قلم ہونے کی جیتی جاگتی دلیل ہے کہ منکرین نے جب آقائے کونین ماوائے ثقلین رحمت کل ہادی سبل سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افضیلت کا انکار کیا تو درجنوں آیات قرآنیہ مع حوالہ جات تفاسیر مستندہ اور درجنوں احادیث صحیحہ اور اقوال اور اسلاف صالحین کی تصانیف سے استدلال فرمایا اس تصنیف اعلٰی حضرت قدس سرہ کو یوں انعام نصیب ہوا کہ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت بشارت سے نوازا جس کا ذکر امام اہلسنّت نے تجلی الیقین کے آخر میں خود بیان فرمایا ہے ۔
صرف ایک آیت پر سینکڑوں صفحات پر کتاب لکھ دی جو پوری کتاب تفاسیر کے حوالہ جات کے علاوہ اپنے استنباطات کے ساتھ اصول تفسیر سے موضوع کو مضبوط و موثوق فرمایا مثلاً آیت ممتحنہ کی تفسیر الحجۃ الموتمنہ قابل مطالعہ کتاب ہے ۔
مختلف مسائل پر تفاسیر لکھنے بیٹھے تو تفاسیر کے حوالہ جات کے ڈھیر لگا دیئے چنانچہ ما اھل لغیر اللہ بہ کی توثیق میں تفاسیر معتبرہ کے حوالہ جات لکھوائے حیات اعلٰی میں 36 تفاسیر کی عبارت لکھوائیں پھر بھی فرمایا ان کے علاوہ اور بھی ہیں ۔
تفسیر میں قرآنی نکات بیان فرمائے تو خود مفسرین حیرت میں آگئے ملفوظ شریف حصہ چہارم میں فرمایا کہ ساتویں آسمان سات زمینیں دنیا ہیں اور ان سے وراء سدرۃ المنتہٰی ہے عرش، کرسی اور آخرت ۔ دار دنیا شہادت ہے اور دار آخرت غیب، غیب کی کنجیوں کو مفاتیح اور شہادت کی کنجیوں کو مقالید کہتے ہیں ۔ قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے و عندہ مفاتیح الغیب لا یعلمھما الا ھو ، اور دوسری جگہ ارشاد ربّانی ہے لہ مقالید السموت والارض ،مفاتیح کا حرف اوّل میم م اور آخری حرف حا ح اور مقالید کا پہلا حرف اور آخری حرف ہ ہے مرکب کرنے سے نام اقدس ظاہر ہوتا ہے یعنٰٰی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی سے یا تو اس طرف اشارہ ہے کہ غیب و شہادت کی کنجیاں سب اسے دی گئی ہیں یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی شے ان کے حکم سے باہر نہیں ۔
دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی دل و جان نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہاں نہیں
یا اس طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ مفاتیح و مقالید غیب و شہادت سے حجرہ خفا یا عدم میں مقفل تھی ، مفاتیح مقلاد جس سے ان کا قفل کھولا گیا اور میدان ظہور میں لایا گیا۔ وہ ذات ۔ ۔ ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر یہ تشریف نہ لاتے تو سب اسی طرح مقفل حجرہ یا خفا میں رہتے ۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ بھی نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ بھی نہ ہو
جان ہیں وہ جہاں کی ، جان ہے تو جہاں ہے ۔
اعلٰی حضرت قدس سرہ کا تبحر فی فن التفسیر سمجھئے یا کرامت کہ خلاف عادت قرآن کی آیات برجستہ مخالف کو جواب دیا ، چنانچہ ایک رافضی نے کہا کہ انا من المجرمین منتقمون کے عدد 1202 ہیں اور یہی عدد ابو بکر ، عمر ، عثمان کے ہیں (معاذ اللہ ) اعلٰی حضرت قدس سرہ یہ سن کر بے قرار ہو گئے فوراً بلا تاخیر برجستہ کئی جوابات بیان فرمائے وہ جوابات سنئے !
(رافضی لعنہم اللہ تعالٰی ) کی بناء مذہب ایسے اوہام بے سرو پا پر ہے ۔
اوّلا ۔ ۔ ۔ ۔ ہر آیت عذاب کے عدد اسماء اخیار سے مطابق کر سکتے ہیں اور ہر آیت ثواب کے اسماء کفار سے کہ اسماء میں وسعت وسیعہ ہے ۔ رافضی نے آیت کو ادھر پھیرا کوئی ناصبی ادھر پھیرے گا اور ( رافضی ناصبی) دونوں ملعون ہیں ۔
امیر المؤمنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نام پاک میں الف نہیں لکھا جاتا تو عدد بارہ سو ایک ہیں نہ کہ دو ۔
(1) ہاں رافضی ۔ ۔ ۔ بارہ سو دو ( 1202 ) عدد کا ہے کہ ابن سباد رافضہ
(2) ہاں رافضی ۔ ۔ ۔ ۔ بارہ سو عدد ان کے ہیں ، ابلیس، یزید، ابن زیاد، شیطان ، الطاق کلینی بابویہ قمی طوسی حلی ۔
(3)ہاں رافضی ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے :
ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعاً لست منھم فی شئے ۔
بے شک جنہوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور شیعہ ہو گئے اے نبی تمہیں ان سے کچھ علاقہ نہیں ۔ ( سورۃ الانعام رکوع 2 )
اس آیۃ کریمہ کے عدد 2828 ہیں اور یہی عدد ہیں ، روافض اثناءعشریہ شیطانیہ اسماعیلیہ ، کے ۔ اور اگر اپنی طرح سے اسماعیلیہ میں الف چاھئے تو یہی عدد ہے روافض اثناء عشیریہ نصیریہ و اسماعیلیہ ، کے ۔
(4) ہاں اور رافضی ۔ ۔ ۔ ۔! اللہ تعالٰٰی فرماتا ہے
لھم اللعنۃ و لھم سوء الدار
ان کیلئے لعنت ہے اور ان کیلئے ہے برا گھر (سورۃ الرعد رکوع 2 )
اس کے عدد 644 ہیں اور یہی عدد ہیں شیطان الطاق طوسی حلی کے ۔
(5) نہیں اور رافضی !۔ ۔ ۔ ۔بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اولئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم ، ۔ (سورۃ الحدید رکوع 3 )
اس کے اعداد 1445 ہیں اور یہی عدد ہیں ابوبکر ، عمر ، عثمان، علی ، سعید کے ۔
(6)نہیں اور رافضی !۔ ۔ ۔ ۔بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اولئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم و نورھم ،
وہی اپنے رب کے حضور صدیق وشہید ہیں ان کیلئے ان کا ثواب اور ان کا نور (سورۃ الحدید رکوع 3 )
اس کے اعداد 1792 اور یہی عدد ہیں ابو بکر ، عمر ، عثمان ، طلحہ، زبیر ، سعید کے ۔
(7) نہیں اور رافضی !۔۔۔۔۔۔ بلکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے
والذین امنوا باللہ ورسلہ اولئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم و نورھم ،
جو لوگ ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق و شہید ہیں ان کیلئے ان کا ثواب اور ان کا نور (سورۃ الحدید رکوع 3 )
اور یہی عدد ہیں صدیق ، فاروق ، ذوانورین ، علی، طلحہ ،زبیر ، سعید، ابوعبیدہ، عبد الرحمٰن بن عوف کے ۔
آخر میں فرمایا ، الحمد للہ آیۃ کریمہ کا تمام کمال جملہ مدح بھی پورا ہو گیا اور حضرات عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھم اجمعین کے اسماء طیبہ بھی سب آگئے جس میں اصلاً تکلف و تصنع کو دخل نہیں ۔ چند دنوں سے آنکھ دکھتی ہے ۔ یہ تمام آیات عذاب و اسماءاشرار و آیات مدح و اسماء اخیار کے عدد محض خیال میں مطابق کئے جس میں صرف چند منٹ صرف ہوئے اگر لکھ کر اعداد جوڑے جائے تو مطابقتوں کی بہار نظر آتی مگر بعونہ تعالٰٰی اس قدر بھی کافی ہے ۔ واللہ الحمد واللہ اعلم (فقیر احمد رضا قادری غفر لہ)
اس فتوے کو نقل کر کے مستفتی نے لکھا ہے ، شیعہ رافضی کا ماشاء اللہ ولیہ نہیں بلکہ قیمہ ہو گیا ۔
اب مجال دم زون نہیں فقیر نے یہ کرامت اعلٰٰی حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملّت امام اہل سنّت و جماعت چشم خود ملاحظہ کی کہ چند لمحوں میں ان تمام آیات و اعداد کی مطابقت زبان فیض و الہام ترجمان سے فرمائی ۔ یہ رات کا وقت تھا قریب نصف گزر چکی تھی ۔
واللہ باللہ عدد اخیار و اشرار کے اسماء بلا سوچے اور بے تامل کئے فر ما دئیے کہ فقیر سوا اس کے اور کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ یہ اعلٰی حضرت کی کرامت کا اظہار بہ ذریعہ القائے ربّانی و الہام سبحانی تھا ۔ (حیات اعلٰٰی حضرت 149 ، 150 )
فصلی اللہ تعالٰٰی علٰٰی حبیبہ سیّد المر سلین و علٰٰی آلہ و اصحابہ اجمعین فاخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمینبسم اللہ الرحمٰن الرحیم
نحمدہ و نصلّی علٰی رسولہ الکریم ط اعلٰی حضرت عظیم البرکت قدس سرہ ان ہستیوں میں سے ہیں جن کے لئے اللہ تعالٰی نے فرمایا !
افمن شرح اللہ صدرہ للاسلام فھو علٰی نور من ربہ
یہ شرح صدر ہی تو تھا کہ قلیل عرصہ میں جملہ علوم و فنون سے فراغت پالی ورنہ عقل کب باور کر سکتی ہے کہ چودہ سال کی عمر میں علوم و فنون ازبر ہوں
ایں سعادت بزور بازو نیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ
( یہ سعادت بزور بازو نہیں ملتی جب تک کہ بخشنے والا خداوند تعالٰی نہ عطا کرے )
اور یہ علوم و فنون صرف ازبر نہ تھے بلکہ ہر فن پر مبسوط تصانیف موجود ہیں اور وہ بھی کسی سے مستعار نہیں بلکہ قلم رضوی کے اپنے آب دار موتی ہیں اور تحقیق کے ایسے بہتے ہوئے بحر ذخار کو دیکھ کر بڑے بڑے محققین انگشت بدنداں ہو جاتے ہیں۔ آپ کو قلم کا بادشاہ کہا جاتا ہے ۔
تجربہ اور شواہد بتاتے ہیں کہ جس بندہ خدا کو جس فن کی مہارت نصیب ہو وہ دوسرے فن میں ہزاورں ٹھوکریں کھاتا ہے مثلاً امام بخاری قدس سرہ کو دیکھیئے کہ دنیائے اسلام نے فن حدیث کا انہیں ایسا امام مانا ہے کہ جس کی نظیر نہیں ملتی لیکن فقہاء کے کے استنباط اور تاریخی حیثیت سے آپ کو وہ مرتبہ حاصل نہیں جو فن حدیث میں ہے لیکن اعلٰٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ کی یہ خصوصیت ہے کہ فن کے ماہرین نے مانا ہے کہ آپ ہر فن میں مہارت تامہ رکھتے ہیں چناچہ شاعروں نے آپ کو امام اشعراء سمجھا ، فقہاء نے آپ کو وقت کا ابو حنیفہ مانا، محدثین نے امیر الحدیث وغیرہ وغیرہ اس لئے خود اعلٰٰی حضرت قدس سرہ نے اپنے لئے فرمایا اور بجا فرمایا ۔
ملک سخن کی شاہی تم کو رضا مسلم
جس سمت آگئے ہو سکے بٹھا دیئے ہیں
اس وقت فقیر کا موضوع سخن فن تفسیر ہے واضح کروں گا کہ آپ اس فن کے بھی مسلم امام ہیں اگرچہ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے پورے قرآن پاک کی کوئی تفسیر نہیں لکھی لیکن حق یہ ہے کہ اگر آپ کی تصانیف کا بالاستیعاب مطالعہ کر کے تفسیری عبارات جمع کئے جائیں تو ایک مبسوط تفسیر معرض وجود میں آ سکتی ہے چنانچہ فقیر اویسی غفر لہ نے اس کام کا آغاز کر رکھا ہے اللہ تعالٰی اس کے اہتمام کی توفیق عطا فرمائے (آمین)
شرائط فن تفسیر
امام جلال الملۃ والدین حضرت علامہ سیوطی رحمۃاللہ تعالٰی علیہ نے اتقان میں لکھا ہے کہ مفسّر اس وقت تفسیر قرآن لکھنے اور بیان کرنے کا حق رکھتا ہے جب چودہ فنون کی مہارت حاصل کر لے ۔ ورنہ تفسیر نہیں تحریف قرآن کا مرتکب ہو گا ۔ اس قاعدہ پر اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ، نہ صرف ان چودہ فنون کے ماہر ہیں بلکہ پچاس فنون پر کامل دسترس رکھتے ہیں بلکہ بعض فنون پرآپ کی درجنوں تصانیف ہیں ، یہ علیحدہ بات ہے کہ آپ کو مستقل طور پر تفسیر لکھنے کا موقعہ نہیں ملا لیکن آپ کی تصانیف سے قرآنی ابحاث کی ایک ضخیم تفسیر تیار ہو سکتی ہے اور فقیر اویسی نے اس کے اکثر اجزاء کو جمع کیا ہوا ہے بنام تفسیر امام احمد رضا ،، خدا کرے کوئی بندہ اس کی اشاعت کیلئے کمر بستہ ہو جائے ۔ (آمین)
علاوہ ازیں تفاسیر پر آپ کی عربی حواشی کے اسماء ملتے ہیں مثلاً۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
الزلال الانقی من بحر سفینۃ اتقی
حاشیہ تفسیر بیضاوی شریف
حاشیہ عنایت القاضی شرح تفسیر بیضاوی
حاشیہ معالم التنزیل
حاشیہ الاتقان فی علوم القرآن سیوطی
حاشیہ الدر المنثور (سیوطی)
حاشیہ تفسیر خازن
علاوہ ازیں بعض آیات اور سورتوں پر آپ کی متعدد تصانیف موضوع تفسیر پر ملتی ہیں جنہیں ملک العلماء علامہ ظفر الدین بہاری رحمۃ اللہ علیہ نے جمع فرمایا ہے چند ایک کے اسماء درج ہیں !
انوار العلم فی معنٰٰی میعارواستجب لکم فارسی زبان میں ہے 1327ء تک غیر مطبوع تھی اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے تحقییق فرمائی ہے کہ اجابت دعا کے کیا کیا معنٰی ہے ۔ اثر ظاہر نہ ہونا دیکھ کر بے دل ہونا حماقت ہے ۔
االصصام علی مشک فی آیۃ علوم الارحام اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے پادریوں کا رد فرمایا ہے اردو زبان میں طبع شدہ موجود ہے ۔
۔انباء الحی ان کتاب المصون تبیان لکل شئی عربی ،اردو زبان میں ہے اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے ثابت فرمایا ہے کہ قرآن مجید اشیائے عالم کی ہر چیز کا مفصل بیان ہے ۔
النفحۃ الفائحہ من مسلک سورۃ الفاتحہ اردو زبان میں ہے اس میں اعلٰی حضرت فاضل بریلوی قدس سرہ نے سورۃ فاتحہ سے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فضائل کو ثابت فرمایا ہے ۔
نائل الراح فی فرق الریح والریاح فارسی زبان میں ہے۔
مذکورہ رسائل صرف تفسیر سے متعلق ہیں ۔ بعض اوقات کسی مسئلہ کے متعلق استفسار پر آپ نے تفسیری نقطہ نگاہ سے حل فرمایا دراصل آپ کو عالم دنیا سے مختلف گوشوں سے آئے ہوئے فتاوٰی کے جوابات سے فرصت کم ملی ورنہ اگر اس طرف توجّہ دیتے تو تفسیر کا ایک جز ہزاروں صفحات پر پھیلتا۔ صرف بسم اللہ شریف کی تقریر پر مختصر سے وقت میں آپ کا ایک طویل مضمون موجود ہے جو آپ نے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے موقع پر بریلی شریف میں بیان فرمایا تھا جو سوانح اعلٰی حضرت میں صفحہ 98 سے شروع ہو کر صفحہ 112 تک ختم ہوتا ہے۔ اسی طرح پھر دوسرا وعظ صفحہ 112 سے شروع ہو کر صفحہ 131 تک ختم ہوا یہ بھی تقریر کے رنگ میں ہوا جو تحریر کے میدان میں کوسوں دور سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود اتنے صفحات کا مضمون بیان کر جانا کسی مرد میدان کا کام ہے اور وہ بھی مفسّرانہ رنگ میں اور پھر تفسیر سورہ والضحٰی لکھی تو سینکڑوں صفحات پھیلا دئیے ۔ جس کی ایک ایک سطر کئی تفاسیر کے مجموعے کو دامن میں لئے ہوئے ہے ۔
آپ کے تلامذہ کو رشک ہوگا کہ ایسے بحر بے پایاں کے قلم سے جس طرح فقہ اور حدیث اور دیگر فنون کے دریا بہائے گئے ہیں کچھ تفسیری نوٹ بھی آپ کی یادگار ہوں تو زہے قسمت اگر چہ اجمالی طور پر ہی سہی ، چناچہ صدر الشریعۃ حضرت مولانا حکیم امجد علی صاحب مصنف بہار شریعت قدس سرہ کو اللہ تعالٰٰی اپنی خاص رحمتوں سے نوازے ،انہوں نے اہلسنت پر احسان عظیم فرمایا کہ اعلٰٰی حضرت قدس سرہ کی عدیم الفرصتی کے باوجود قرآن مجید کا ترجمہ لکھوا ہی لیا چناچہ سوانح نگار حضرات قرآن مجید کے ترجمے کے متعلق یوں لکھتے ہیں کہ صدر الشریعۃ حضرت مولانا حکیم امجد علی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ نے ترجمہ قرآن کی ضرورت پیش کرتے ہوئے اعلٰٰی حضرت سے گزارش کی آپ نے وعدہ تو فرمالیا لیکن دوسرے مشاغل دینیہ کثیرہ کے ہجوم کے باعث تاخیر ہوتی رہی ، جب حضرت صدر الشریعۃ کی جانب سے اصرار بڑھا تو اعلٰٰی حضرت نے فرمایا
چوں کہ ترجمے کے لیے میرے پاس مستقل وقت نہیں ہے اس لئے آپ رات کو سونے کے وقت یا دن میں قیلولہ کے وقت کے وقت آجایا کریں ۔ چنانچہ حضرت صدر الشریعۃ ایک دن قلم و دوات لے کر حاضر ہو گئے اور یہ دینی کام بھی شروع ہوگیا۔ ترجمہ کا طریقہ یہ تھا کہ اعلٰی حضرت زبانی طور پر ترجمہ آیۃ کریمہ کا فرماتے جاتے اور حضرت صدر الشریعۃ لکھتے جاتے لیکن یہ ترجمہ اس طرح پر نہیں تھا کہ آپ پہلے کتب تفسیر و حدیث و لغت کو ملاحظہ فرماتے اور آیات کو سوچتے پھر ترجمہ بیان فرماتے قرآن مجید کافی البدیہہ برجستہ ترجمہ زبانی طور پر اس طرح بولتے جاتے تھے جیسے کوئی پختہ یاداشت یاداشت کا حافظ اپنی قوّت حافظ پر بغیر زور ڈالے قرآن شریف پڑھتا چلا جاتا ہے۔ علمائے کرام جب دوسری تفاسیر سے تقابل کرتے تو یہ دیکھ کر حیران رہ جاتے کہ اعلٰی حضرت کا یہ برجستہ فی البدیہہ ترجمہ تفاسیر معتبرہ کے بالکل عین مطابق ہے ،الغرض اسی قلیل وقت میں ترجمہ کا کام ہوتا رہا پھر وہ مباراک ساعت بھی آئی کہ قرآن مجید کا ترجمہ ختم ہو گیا اور حضرت صدر الشریعت کی کوشش بلیغ کی بدولت سنّیت کو کنز الایمان کی دولت عظمٰی نصیب ہوئی۔ ( فجزاء اللہ تعالٰی عنا و عن جمیع اہل السنۃ جزاء کثیرا و اجرا جزیلا )
حضرت محمد کچھوچھوی سیّد محمد صاحب رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں کہ اعلٰی حضرت کے علم قرآن کا اندازہ اس اردو ترجمہ سے کیجیئے جو اکثر گھروں میں موجود ہے اور جس کو کوئی مثال سابق نہ عربی زبان میں ہے نہ فارسی میں ہے اور نہ اردو میں اور جس کا ایک ایک لفظ اپنے مقام پر ایسا ہے کہ دوسرا لفظ اس جگہ لایا نہیں جا سکتا جو یہ بظاہر ترجمہ ہے مگر در حقیقت وہ قرآن مجید کی تفسیر ہے اور اردو زبان میں روح قرآن ہے بلکہ فقیر اویسی کا ذوق یوں گواہی دیتا ہے ۔
ہست قرآن بزبان اردوی
ہمچوں مثنوی بزبان پہلوی
اس ترجمہ کی شرح میں حضرت صدر الافاضل استاذ العلماء مولانا نعیم الدین علیہ الرحمۃ حاشیہ پر فرماتے ہیں کہ دوران شرح میں ایسا کئی بار ہوا کہ اعلٰی حضرت کے استعمال کردہ لفظ کے مقام استنباط کی تلاش میں دن پر دن گذرے اور رات پر رات کٹتی رہی اور بالآخر ماخذ ملا تو ترجمہ کا لفظ اٹل ہی نکلا اعلٰی حضرت خود حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالٰی کے فارسی ترجمہ کو سراہا کرتے تھے ۔ لیکن اگر حضرت شیخ سعدی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اردوزبان کے اس ترجمے کو پاتے تو فرماہی دیتے کہ
ترجمہ قرآن شئی دیگر است و علم القرآن شئی دیگر ست
۔۔۔۔۔۔۔۔علمائے دیوبند نہ صرف حریف بلکہ وہ آپ کو ہر معاملے میں ترچھی نگاہ سے دیکھتے تھے لیکن وہ بھی اعتراف کئے بغیر نہ رہ سکے کہ واقعی اعلٰی حضرت کا قرآن مجید کا ترجمہ بالکل صحیح اور درست ہے ۔ اور آپ کے ترجمے کے مقابلے میں موجود دور کے تمام اردو تراجم کو دیکھا جائے تو ان میں سینکڑوں غلطیاں ہیں اس لئے محققین نے اس کو دیکھ کر ذیل کی آرا قائم فرمائی ہیں ۔
ترجمہ اعلٰی حضرت تفاسیر معتبرہ قدیمہ کے مطابق ہے ۔
اپنی تفویض کے مسلک اسلم کا عکس ہے ۔
اصحاب تاویل کے مذہب سالم کا موید ہے ۔
زبان کی روانی اور سلامت میں بے مثل ہے ۔
عوامی لغات و بازاری زبان سے یکسر پاک ہے ۔
قرآن پاک کے اصل منشاء مراد کو بتایا ہے ۔
آیات ربّانی کے انداز خطاب کو پہنچا ہے ۔
قرآن کے مخصوص محاوروں کی نشاندہی کرتا ہے ۔
قادر مطلق کی روائے عزت و جلال میں نقص و عیب کا دھبہ لگانے والوں کیلئے تیغ بران ہے ۔
حضرات انبیاء علیہم السلام کی عظمت و حرمت کا محافظ و نگہبان ہے ۔
عام مسلمین کیلئے بامحاورہ اردو میں سادہ ترجمہ ہے ۔
لیکن علماء کرام و مشائخ عظام کیلئے معرفت کا امنڈتا ہوا سمندر ہے ۔
بس اتنا ہی سمجھ لیجئے کہ قرآن حکیم قادر مطلق جل جلالہ کا مقدس کلام ہے اور کنزالایمان اس کا مہذب ترجمان ہے ۔
فقیر نے جہاں بھی آپ کی تصانیف میں تحقیق مفسرانہ دیکھی تو رازی و غزالی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہما کے قلم سے آفرین و تحسین سنی اختصار کے پیش نظر چند ایک نظائر مشتے نمونہ خر وار ملاحظہ ہوں جو آپ کی تصنیف سے اخذ کئے گئے ہیں ۔
پیشانی کا داغ
سائل نے صرف اتنا استفسار کیا کہ بعض نمازیوں کو بہ کثرت نماز کے نام یا پیشانی پر جو سیاہ داغ ہو جاتا ہے اس سے نمازی کو قبر و حشر میں خداوند کریم جل جلالہ کی پاک رحمت کا حصہ ملتا ہے یا نہیں اور زید کا کہنا یہ ہوتا ہے کہ جس شخص کے دل میں بغض کا سیاہ داغ ہوتا ہے اس کی شامت اس کی ناک یا پیشانی پر کالا داغ ہوتا ہے ، یہ قول زید کا باطل ہے یا نہیں اس کے جواب میں اعلٰی حضرت قدس سرہ کے قلم کو جنبش آئی تو چھ صفحات مفسرانہ حیثیت سے لکھے اور ثابت فرمایا کہ اس نشانی کے متعلق چار قول ماثور ہیں اور ہر ایک کا حکم جدا جدا اور آیت سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود کا ایسا مفہوم ادا فرمایا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے اس کے ساتھ ساتھ ان اوہام کا ازالہ فرمایا جو پیشانی کے داغ کو سیماھم فی وجوھھم من اثر السجود میں سمجھتے ہیں ۔
یہ مضمون سوانح احمد رضا میں چند صفحات پر پھیلا ہوا ہے جو نہایت قابل مطالعہ ہے اور تمام تحقیق تفاسیر معتبرہ کے حوالہ جات سے مزین ہے ۔
آیت میثاق
واذ اخذ اللہ میثاق النبیین الخ سے حضور اکرم صل اللہ علیہ وآلہ وسلم کی فضیلت مطلقہ پر گفتگو فرماتے ہوئے آخر میں تحریر فرمایا اقول و باللہ التوفیق پھر یہ بھی دیکھنا ہے کہ اس مضمون کو قرآن کریم نے کس قدر مہتمم بالشان ٹھرایا اور طرح طرح سے موکد فرمایا!
اوّلا۔۔۔۔ انبیاء علیہم السلام معصومین ہیں زنہار حکم الٰہی کے خلاف ان سے کوئی کام صادر نہیں ہوتا کہ رب تعالٰی بہ طریق امر انہیں فرماتا کہ اگر وہ نبی تمہارے پاس آئے اس پر ایمان لانا اور اس کی مدد کرنا مگر اس پر اکتفاء نہ فرمایا بلکہ ان سے عہد و پیمان لیا یہ عہد عہد است بر بکم کا دوسرا پیمان تھا جیسے کلمہ طیبہ لا الہ الا اللہ کے ساتھ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تاکہ ظاہر ہو کہ تمام ما سوائے اللہ پر پہلا فرض ربوبیّت الٰہیہ کا اذعان ہے پھر اس کے برابر رسالت محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ایمان ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم وبارک و شرف و بجل وعظم )
ثانیا۔۔۔۔ اس عہد کو لام قسم سے موکد فرمایا لتومنن بہ التنصرنہ جس طرح نوابوں سے بیعت سلاطین لی جاتی ہے ۔ امام سبکی رحمۃ اللہ تعالٰٰی علیہ فرماتے ہیں۔
مسئلہ ۔۔۔ بیعت اس آیت سے ماخوذ ہوئی ہے۔
ثالثاً۔۔۔۔ نون تاکید
رابعاً۔۔۔وہ بھی ثقیلہ لا کر ثقل تاکید اور دو بالا فرمایا ۔
خامساً۔۔۔۔یہ کمال اہتمام ملاحظہ کیجیئے کہ حضرات انبیاء علیہم السلام ابھی جواب نہ دینے پائیں کہ خود ہی تقدیم فرماکر پوچھتے ہیں اقررتم کیا اس امر پر اقرار لاتے ہیں یعنی کمال و تعجیل و تسجیل مقصود ہے۔
سادساً۔۔۔ اس قدر پر بھی بس نہ فرمائی بلکہ ارشاد فرمایا واخذتم علٰٰی ذالکم اصری خالی اقرار ہی نہیں بلکہ اس پر میرا بھاری ذمّہ لو۔
سابعاً۔۔۔ علیہ یا علی ھذا کی جگہ علٰی ذالکم فرمایا کہ بعد اشارت عظمت ہو۔ ثامناً۔۔۔۔ اور ترقی ہوئی کہ فاشھدوا ایک دوسرے پر گواہ ہو جائے۔ حالانکہ معاذ اللہ اقرار کر کے مکر جانا ان پاک مقدّس جنابوں سے معقول نہ تھا ۔
تاسعاً۔۔۔۔کمال یہ ہے کہ صرف ان کی گواہی پر اکتفاء نہ ہوا بلکہ فرمایا انا معکم من الشاھدین میں خود بھی تمھارے ساتھ گواہوں میں ہوں۔
ّعاشراً۔۔۔۔سب سے زیادہ نہایت کار یہ ہے کہ اس عظیم جلیل تاکیدوں کے بعد بآنکہ انبیاء علیہم السلام کو عصمت عطا فرمائی یہ سخت شدید تہدید بھی فرمادی گئی کہ فمن تولٰی بعد ذالک فاولئک ھم الفٰسقون اب جو اس اقرار سے پھرے گا فاسق ٹھہرے گا
اللہ اللہ یہ وہی اعتنائے تام و اہتمام تمام ہے جو باری تعالٰٰی کو اپنی توحید کے بارے میں منظور ہوا کہ ملائکہ معصومین کے حق میں بیان فرماتا ہے ومن یقل منھم انی الہ من دونہ فذالک نجزیہ جہنم کذالک نجزی الظالمین ، جو ان میں سے کہے گا کہ میں اللہ کے سوا معبود ہوں اس کو جہنم کی سزا دیں گے ہم ایسے ہی سزا دیتے ہیں ستم گروں کو گویا اشارہ فرماتے ہیں
جس طرح ہمیں ایمان کے جز اول لاالہ الا اللہ کا اہتمام ہے یوں ہی جز دوم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اعتنائے تام ہے کہ میں تمام جہانوں کا خدا کہ ملائکہ مقربین بھی میری بندگی سے سر نہیں پھیر سکتے اور میرا محبوب سارے عالم کا رسول ومقتداء کہ انبیائے مرسلین بھی اس کی بیعت و خدمت کے محیط دائرہ میں داخل ہوئے اور اس سے قبل اس آیۃ کا تبصرہ کئی صفحات پر فرمایا تبصرہ کر کے پھر معتبرہ تفاسیر اور محققین علمائے کرام کی تصانیف کے خلاصہ کو دریا کوزہ کی مثالی قائم فرمائی ۔
کلی علم غیب
اور یہ صرف اعلٰی حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ کا حصہ تھا کہ جب اعدائے دین نے شان نبوت ولایت پر ہاتھ ڈالا تو اعلٰی حضرت کا قلم ڈھال بنا اور مذہب مہذب اہل سنت کے جمیع مسائل کو قرآنی اصول کے مطابق ڈھالنے کی نہ صرف کوشش کی بلکہ حقیقت کو نصف النہار سے ذیادہ آشکارا فرمایا چنانچہ علم غیب کلی اہل سنت اور مخالفین کے مابین نزاع کا ایک اہم مسئلہ ہے اعلٰی حضرت قدس سرہ جب گویا ہوئے تو جلال الملت والدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰٰی علیہ کو بھی ساتھ لیا۔
چنا نچہ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے علم غیب کلی کا دعوٰٰی یوں تحریر فرمایا : بے شک حضرت عزت و عظمت نے اپنے حبیب کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو تمام اوّلین وآخرین کا علم عطا فرمایا مشرق تا مغرب عرش تا فرش سب انہیں دکھایا ملکوت السموت والارض کا شاہد بنایا روز اوّل سے روز آخرت یعنٰی روز قیامت تک کے سب ماکان وما یکون انہیں بتائے اشائے مذکورہ سے کوئی ذرّہ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم سے باہر نہ رہا، علم حبیب کریم علیہ افضل الصلواۃ التسلیم ان سب کو محیط ہوا نہ صرف اجمالاً بلکہ ہر صغیر و کبیر ہر رطب و یابس جو پتہ گرتا ہے زمین کی اندھیروں میں جو دانہ کہیں پڑا ہے سب کو جدا جدا تفصیلاً جان لیا الحمد للہ حمداً کثیرا بلکہ یہ جو کچھ بیان ہوا ہر گز ہر گز محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا پورا علم نہیں صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وسلم و علٰی وآلہ واصحابہ اجمعین و بارک وکرم وسلم بلکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علم سے ایک چھوٹا حصّہ ہے ہنوز اعاطہ علم محمدی میں وہ ہزار در ہزار بے حد و بے کنار سمندر لہرا رہے ہیں جن کی حقیقت وہ جانیں یا ان کا عطا کرنے والا مالک و مولا جل و علا ( و الحمد للہ العلٰی الاعلٰٰی ) کتب حدیث و تصانیف علمائے قدیم و حدیث میں اس کے دلائل کا بہت شافی و بیان وانی ہے اس کے بعد آپ علم غیب کے مسئلہ کو قرآنی آیات سے ثابت فرما کر آخر میں اصول قرآنی پو بحث فرماتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں ۔
عبارت اعلٰی حضرت قدس سرہ
اور اصول میں مبرہن ہو چکا کہ نکرہ حیز نفی میں مفید عموم ہے اور لفظ کل تو ایسا عام ہے کہ کبھی خاص ہو کر مستعمل ہی نہیں ہوتا اور عام افادہ استغراق میں قطعی ہے اور نصوص ہمیشہ ظاہر پر محمول رہیں گے بے دلیل شرعی تخصیص و تاویل کی اجازت نہیں ورنہ شریعت سے مان اٹھ جائے نہ حدیث آحاد اگر چہ کیسی اعلٰی درجہ کی صحیح ہو عموم قرآن کی تخصیص تراخی نسخ ہے اور اخبار کا نسخ نا ممکن اور تخصیص عقلی عام کو قطعت سے نازل نہیں کرتی نہ اس کے اعتماد پر کسی ظنی سے تخصیص ہو سکے تو بحمدللہ کیسے نص صریح قطعی سے روشن ہوا کہ ہمارے حضور صاحب قرآن صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اللہ عزوجل نے تمام موجودات جملہ ماکان ومایکون الٰی یوم القیامۃ جمیع مندرجات لوح محفوظ کا علم دیا اور شرق و غرب سماء وارض عرض فرش میں کوئی ذرّہ حضور صلی اللہ تعالٰٰی علیہ وآلہ وسلم سے باہر نہ رہا ۔
جو کچھ اعلٰٰی حضرت قدس سرہ نے اصول تفسیر کے طور پو اپنا مسلک واضح فرمایا وہی اصول امام سیوطی سینکڑوں سال پہلے بیان فرماگئے چنانچہ حضرت علامہ جلال الدین سیوطی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :-
العالم یستغرق الصالح من غیر حصرو صیغۃ کل مبتداۃ وما والمعروف بال و اسم الجنس المضاف والنکرۃ فی سیاق العفی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ العالم الباقی فی عمومہ من خاص القرآن ما کان مخصصاً لعموم السنۃ و ھو عزیز قال این الحصار انما یرجع فی النسخ الٰٰی نقل صریح عن رسول اللہ صلی اللہ تعالٰٰٰٰٰی علیہ وآلہ وسلم وعن اصحابی یقول آیۃ کذا نسخت کذا قال و حکم بہ عند وجود التعارض المقطوع بہ سع علم التاریخ یعرف التقدم و المتاخر قال ولا یعتمد فی النسخ قول عوام المفسرین بل ولا اجتھاد المجتھدین من غیر نقل صحیح ولا معارضۃ بینۃ لان النسخ یتضمن دفع حکم و اثبات حکم۔۔۔ نقرر--- فی عھدہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلم الصعتمد فیہ النقل والتاریخ دون الرای اوالاجتھاد قال والناس فی ھذا بین طرفی نقیض فمن قائل لا یقبل فی النسخ اخبار الاحاد العدول و من ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یکتفی فیہ بقول مفسر او مجتھد والصواب خلاف قولھما ۔ ۔ ۔ اذا سیق العام للمدح الذم فھل ھو باق علٰی عمومہ فیہ مذاھب احدھا نعم اذ لا صارف عنہ ولا تنافی بین العموم و بین المدح و الذم ۔۔ الخ
تبحر فی فن التفسیر کے نمونے
بالاستعیاب تو نہیں چند آیات کے نمونے تفسیری حیثیت سے فقیر یہاں عرض کرتا ہے۔
فتاوٰی افریقہ 17 میں ہے سائل نے عبد المصطفٰٰے نام رکھنے کے متعلق سوال لکھا تو اعلٰی حضرت قدس سرہ نے عبد المصطفٰے نام رکھنے کے جواز میں آیۃ وانکحو الایمٰی منکم منکم والصالحین من عبادکم سے استدلال فرمایا اس کے بعد تفسیر القرآن بالحدیث کے قاعدہ پر آیات کی تفسیر اور اپنے موضوع کو احادیث مبارکہ کے چند حوالہ جات سے مزین فرمایا پھر اس کے بعد تفسیر القرآن بالقرآن جو تفسیر کا اعلٰی درجہ ہے آیت مذکورہ کیلئے یٰعبادی الذین اسرفوا سے استشہاد فرمایا ۔ آپ کے استدلال پر فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر کو سامنے رکھئے تو یقین آئیگا کی اعلٰی حضرت قدس سرہ طرز استدلال میں امام رازی ہیں۔
اسی فتاوٰی افریقہ 19 میں سائل نے سوال کیا کہ آپ نے اپنی بعض تصانیف میں اہل اسلام کو مخاطب فرمایا کیا آپ کا خدا تعالٰی سے کوئی تعلق نہیں جب کہ آپ دوسروں کو تمہارا خدا کے الفاظ سے یاد کرتے ہیں ۔ اعلٰی حضرت قدس سرہ نے صرف اسی ایک چھوٹے سوال پر اختصاراً دس آیات اور دس احادیث سے جواب مرحمت فرمایا جو آپ کی قرآن دانی کا بین ثبوت ہے ۔
اسی فتاوٰی افریقہ میں بد مذاہب سے بیزاری کے متعلق درجنوں آیات سے استدلال کے بعد متعدد احادیث مبارکہ سے استشہاد فرمایا ۔
اسی فتاوٰی افریقہ کے صفحہ 13 پر آیۃ وسیلہ کا بیان مفصّل مفسّر فرمایا کہ جس میں وسیلہ کی تمام شقوں کی تفصیل پھر اس پر اسلاف صالحین کے ارشادات کی تزنین کے بعد پیری مریدی کی تمام اقسام واضح فرمائیں جن میں سچے اور جھوٹے پیروں اور فقیروں کی پہچان آسان فرمادی جو اسلاف صالحین کی تصانیف میں یکجا کہیں اسی تحقیق کے ساتھ نہ ملے گی پھر کمال یہ ہے کہ صرف ایک جملہ کی تحقیق پر کتاب کے کئی صفحات ُپر فرمائے امام فخر الدین رازی قدس سرہ کو ناقدین نے معاف نہ فرمایا کہا امام موصوف آیت کے مضمون کو اتنا طول دیتے ہیں کہ فن تفسیر کا رنگ بکھر جاتا ہے لیکن ہمارے امام ممدوح کا مضمون اتنا پر بہار ہے کہ جتنا طویل ہوتا گیا اتنا فن تفسیر اجاگر ہوتا چلا گیا ہے ۔ اگر وہی ناقدین ہمارے امام ممدوح کے مضمون کو دیکھ لیتے تو قلم رضا کو چوم لیتے ۔
اکثر مفسّرین صرف ناقل ہوتے ہیں استنباط کرنے والے گنتی کے چند ملیں گے لیکن اعلٰی حضرت قدس سرہ کو اللہ کی طرف سے تائید غیبی نصیب تھی کہ آیت کی تفسیر میں نقول معتبرہ کے ساتھ احادیث مبارکہ سے جب استنباط فرماتے تو دریا بہا دیتے چنانچہ آیت ان اشکر لی ولوالدیک کی تفسیر میں حقوق الاولاد علی الوالد اسّی حقوق گنائے جو سب کے سب آیت کی تفسیر سے متعلق اور احادیث مبارکہ سے مستنبط ہیں ۔ صرف اسی مضمون پر ایک رسالہ مشعلۃ الارشاد تیار ہو گیا ۔
اس کے علاوہ اور درجنوں بحثیں آیت کی تفسیر میں لائے جنہیں پڑھنے کے بعد تصدیق ہوتی ہے کہ اعلٰٰی حضرت کا تبحر فی فن التفسیر بے مثال ہے ۔
اجمالی آیات کی تفسیر میں مفسرین کا ہمیشہ اختلاف چلا آرہا ہے لیکن مفسرین کی عادت رہی ہے کہ اپنے موقف کو دلائل سے ثابت کرتے وقت زیادہ سے زیادہ درجنوں دلائل قائم کئے لیکن اعلٰی حضرت قدس سرہ کا طرز نرالہ ہے کہ جب اپنے موقف کی توضیح فرماتے ہیں تو سنکڑوں دلائل و براہین حوالہ قلم فرماتے ہیں چنانچہ تجلی الیقین کی تصنیف آپ کے شہسوار قلم ہونے کی جیتی جاگتی دلیل ہے کہ منکرین نے جب آقائے کونین ماوائے ثقلین رحمت کل ہادی سبل سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی افضیلت کا انکار کیا تو درجنوں آیات قرآنیہ مع حوالہ جات تفاسیر مستندہ اور درجنوں احادیث صحیحہ اور اقوال اور اسلاف صالحین کی تصانیف سے استدلال فرمایا اس تصنیف اعلٰی حضرت قدس سرہ کو یوں انعام نصیب ہوا کہ حبیب کبریا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے زیارت بشارت سے نوازا جس کا ذکر امام اہلسنّت نے تجلی الیقین کے آخر میں خود بیان فرمایا ہے ۔
صرف ایک آیت پر سینکڑوں صفحات پر کتاب لکھ دی جو پوری کتاب تفاسیر کے حوالہ جات کے علاوہ اپنے استنباطات کے ساتھ اصول تفسیر سے موضوع کو مضبوط و موثوق فرمایا مثلاً آیت ممتحنہ کی تفسیر الحجۃ الموتمنہ قابل مطالعہ کتاب ہے ۔
مختلف مسائل پر تفاسیر لکھنے بیٹھے تو تفاسیر کے حوالہ جات کے ڈھیر لگا دیئے چنانچہ ما اھل لغیر اللہ بہ کی توثیق میں تفاسیر معتبرہ کے حوالہ جات لکھوائے حیات اعلٰی میں 36 تفاسیر کی عبارت لکھوائیں پھر بھی فرمایا ان کے علاوہ اور بھی ہیں ۔
تفسیر میں قرآنی نکات بیان فرمائے تو خود مفسرین حیرت میں آگئے ملفوظ شریف حصہ چہارم میں فرمایا کہ ساتویں آسمان سات زمینیں دنیا ہیں اور ان سے وراء سدرۃ المنتہٰی ہے عرش، کرسی اور آخرت ۔ دار دنیا شہادت ہے اور دار آخرت غیب، غیب کی کنجیوں کو مفاتیح اور شہادت کی کنجیوں کو مقالید کہتے ہیں ۔ قرآن عظیم میں ارشاد ہوتا ہے و عندہ مفاتیح الغیب لا یعلمھما الا ھو ، اور دوسری جگہ ارشاد ربّانی ہے لہ مقالید السموت والارض ،مفاتیح کا حرف اوّل میم م اور آخری حرف حا ح اور مقالید کا پہلا حرف اور آخری حرف ہ ہے مرکب کرنے سے نام اقدس ظاہر ہوتا ہے یعنٰٰی محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی سے یا تو اس طرف اشارہ ہے کہ غیب و شہادت کی کنجیاں سب اسے دی گئی ہیں یعنی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کوئی شے ان کے حکم سے باہر نہیں ۔
دو جہاں کی بہتریاں نہیں کہ امانی دل و جان نہیں
کہو کیا ہے وہ جو یہاں نہیں مگر اک نہیں کہ وہاں نہیں
یا اس طرف اشارہ ہو سکتا ہے کہ مفاتیح و مقالید غیب و شہادت سے حجرہ خفا یا عدم میں مقفل تھی ، مفاتیح مقلاد جس سے ان کا قفل کھولا گیا اور میدان ظہور میں لایا گیا۔ وہ ذات ۔ ۔ ۔ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اگر یہ تشریف نہ لاتے تو سب اسی طرح مقفل حجرہ یا خفا میں رہتے ۔
وہ جو نہ تھے تو کچھ بھی نہ تھا وہ جو نہ ہوں تو کچھ بھی نہ ہو
جان ہیں وہ جہاں کی ، جان ہے تو جہاں ہے ۔
اعلٰی حضرت قدس سرہ کا تبحر فی فن التفسیر سمجھئے یا کرامت کہ خلاف عادت قرآن کی آیات برجستہ مخالف کو جواب دیا ، چنانچہ ایک رافضی نے کہا کہ انا من المجرمین منتقمون کے عدد 1202 ہیں اور یہی عدد ابو بکر ، عمر ، عثمان کے ہیں (معاذ اللہ ) اعلٰی حضرت قدس سرہ یہ سن کر بے قرار ہو گئے فوراً بلا تاخیر برجستہ کئی جوابات بیان فرمائے وہ جوابات سنئے !
(رافضی لعنہم اللہ تعالٰی ) کی بناء مذہب ایسے اوہام بے سرو پا پر ہے ۔
اوّلا ۔ ۔ ۔ ۔ ہر آیت عذاب کے عدد اسماء اخیار سے مطابق کر سکتے ہیں اور ہر آیت ثواب کے اسماء کفار سے کہ اسماء میں وسعت وسیعہ ہے ۔ رافضی نے آیت کو ادھر پھیرا کوئی ناصبی ادھر پھیرے گا اور ( رافضی ناصبی) دونوں ملعون ہیں ۔
امیر المؤمنین عثمان غنی رضی اللہ تعالٰی عنہ کے نام پاک میں الف نہیں لکھا جاتا تو عدد بارہ سو ایک ہیں نہ کہ دو ۔
(1) ہاں رافضی ۔ ۔ ۔ بارہ سو دو ( 1202 ) عدد کا ہے کہ ابن سباد رافضہ
(2) ہاں رافضی ۔ ۔ ۔ ۔ بارہ سو عدد ان کے ہیں ، ابلیس، یزید، ابن زیاد، شیطان ، الطاق کلینی بابویہ قمی طوسی حلی ۔
(3)ہاں رافضی ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ عزوجل فرماتا ہے :
ان الذین فرقوا دینھم وکانوا شیعاً لست منھم فی شئے ۔
بے شک جنہوں نے اپنا دین ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور شیعہ ہو گئے اے نبی تمہیں ان سے کچھ علاقہ نہیں ۔ ( سورۃ الانعام رکوع 2 )
اس آیۃ کریمہ کے عدد 2828 ہیں اور یہی عدد ہیں ، روافض اثناءعشریہ شیطانیہ اسماعیلیہ ، کے ۔ اور اگر اپنی طرح سے اسماعیلیہ میں الف چاھئے تو یہی عدد ہے روافض اثناء عشیریہ نصیریہ و اسماعیلیہ ، کے ۔
(4) ہاں اور رافضی ۔ ۔ ۔ ۔! اللہ تعالٰٰی فرماتا ہے
لھم اللعنۃ و لھم سوء الدار
ان کیلئے لعنت ہے اور ان کیلئے ہے برا گھر (سورۃ الرعد رکوع 2 )
اس کے عدد 644 ہیں اور یہی عدد ہیں شیطان الطاق طوسی حلی کے ۔
(5) نہیں اور رافضی !۔ ۔ ۔ ۔بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اولئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم ، ۔ (سورۃ الحدید رکوع 3 )
اس کے اعداد 1445 ہیں اور یہی عدد ہیں ابوبکر ، عمر ، عثمان، علی ، سعید کے ۔
(6)نہیں اور رافضی !۔ ۔ ۔ ۔بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اولئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم و نورھم ،
وہی اپنے رب کے حضور صدیق وشہید ہیں ان کیلئے ان کا ثواب اور ان کا نور (سورۃ الحدید رکوع 3 )
اس کے اعداد 1792 اور یہی عدد ہیں ابو بکر ، عمر ، عثمان ، طلحہ، زبیر ، سعید کے ۔
(7) نہیں اور رافضی !۔۔۔۔۔۔ بلکہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے
والذین امنوا باللہ ورسلہ اولئک ھم الصدیقون والشھداء عند ربھم لھم اجرھم و نورھم ،
جو لوگ ایمان لائے اللہ اور اس کے رسولوں پر وہی اپنے رب کے نزدیک صدیق و شہید ہیں ان کیلئے ان کا ثواب اور ان کا نور (سورۃ الحدید رکوع 3 )
اور یہی عدد ہیں صدیق ، فاروق ، ذوانورین ، علی، طلحہ ،زبیر ، سعید، ابوعبیدہ، عبد الرحمٰن بن عوف کے ۔
آخر میں فرمایا ، الحمد للہ آیۃ کریمہ کا تمام کمال جملہ مدح بھی پورا ہو گیا اور حضرات عشرہ مبشرہ رضی اللہ تعالٰٰی عنھم اجمعین کے اسماء طیبہ بھی سب آگئے جس میں اصلاً تکلف و تصنع کو دخل نہیں ۔ چند دنوں سے آنکھ دکھتی ہے ۔ یہ تمام آیات عذاب و اسماءاشرار و آیات مدح و اسماء اخیار کے عدد محض خیال میں مطابق کئے جس میں صرف چند منٹ صرف ہوئے اگر لکھ کر اعداد جوڑے جائے تو مطابقتوں کی بہار نظر آتی مگر بعونہ تعالٰٰی اس قدر بھی کافی ہے ۔ واللہ الحمد واللہ اعلم (فقیر احمد رضا قادری غفر لہ)
اس فتوے کو نقل کر کے مستفتی نے لکھا ہے ، شیعہ رافضی کا ماشاء اللہ ولیہ نہیں بلکہ قیمہ ہو گیا ۔
اب مجال دم زون نہیں فقیر نے یہ کرامت اعلٰٰی حضرت عظیم البرکت مجدد دین و ملّت امام اہل سنّت و جماعت چشم خود ملاحظہ کی کہ چند لمحوں میں ان تمام آیات و اعداد کی مطابقت زبان فیض و الہام ترجمان سے فرمائی ۔ یہ رات کا وقت تھا قریب نصف گزر چکی تھی ۔
واللہ باللہ عدد اخیار و اشرار کے اسماء بلا سوچے اور بے تامل کئے فر ما دئیے کہ فقیر سوا اس کے اور کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کہ یہ اعلٰی حضرت کی کرامت کا اظہار بہ ذریعہ القائے ربّانی و الہام سبحانی تھا ۔ (حیات اعلٰٰی حضرت 149 ، 150 )
فصلی اللہ تعالٰٰی علٰٰی حبیبہ سیّد المر سلین و علٰٰی آلہ و اصحابہ اجمعین فاخر دعوانا ان الحمد للہ ربّ العالمین
تحریر عبداللہ ہاشم عطاری مدنی 03313654057