یوم آزادی اور میرے جذبات
"یوم آزادی اور میرے جذبات"
تحریر: علامہ عبداللہ ھاشم مدنی
اسلامی مہینے کے اعتبار سے یوم آزادی پاکستان 27 رمضان 1368 ھ کو ہے اس ملک پاکستان کو اسلام کے نام پر بنایا گیا تھا مگر فی زمانہ اسی ملک میں جس کو اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا تھا اسلامی احکامات کو پسِ پشت ڈالا جا رہا تھا اور اسلام دشمن کو آزادی دی جا رہی ہے کبھی قادیانیوں کو قومی اقلیت میں شامل کرنے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی کرتار پور سے سکھوں کو پاکستان میں داخلہ کی اجازت دی جاتی ہے کبھی سکھوں کے لیے اعلٰی گردوارے تعمیر کئے جاتے ہیں اور مسلمانوں کی مساجد اور مذہبی تہوار کو کرونا وائرس کی آڑ میں بند کیا جاتا ہے کبھی اسلام دشمنی میں یہ اسلام سے جاھل حکمران ملک کے جید مشائخ و علماء کو جیلوں میں قید کرواتے ہے تو کبھی فیض آباد میں سادہ لوح مسلمانوں پر شیلنگ اور فائرنگ کر کے شہید کیا جاتا ہے تو کبھی نا اہل لوگوں کو حکومت میں شامل کیا جاتا ہے اسی طرح کبھی اپنے آپ کو اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھنے والے فواد چودھری جسے وزراء مشائخ و علماء پر زبان درازی کرتے ہیں اس سب کے باوجود میں پُر امن پاکستانی شہری ہونے کے ثبوت میں کہتا ہوں کہ
مجھے فخر ہے کہ میں پاکستانی ہوں۔ یہ وطن میری
شناخت، میری پہچان ہے اور دنیا بھر میں میرا مان بھی۔ اس لفظ "پاکستانی" سے میرا وہ رشتہ ہے جو کسی تتلی کا پروں سے، پنچھی کا اڑان سے، اور کسی شخص کا اپنے نام سے ہوتا ہے۔
یہ شناخت میرے آباء نے بڑی تگ و دو، جدوجہد، اور قربانیوں کے بعد حاصل کی ہے اور اب اسے برقرار رکھنا اور اس پر فخر کرنا میرے لیے اتنا ہی اہم ہے جتنا اپنے آباء کے چھوڑے ہوئے ترکے اور وراثت پر اپنا حق سمجھنا۔ اور صرف میرا ہی کیوں، یہ تو ہر اس شخص کا حق ہے جو اس مملکتِ خداداد میں پیدا ہوا ہے، اور اپنے ساتھ یہ پہچان رکھتا ہے۔
گذشتہ 73 سالوں میں اس ملک میں جو نسلیں پیدا اور جوان ہوئی ہیں، ان کی سوچ، سمجھ اور خیالات میں بتدریج کئی تبدیلیاں رونما ہوئی ہیں جن میں یقیناً بڑی حد تک پاکستان کے حالات، مختلف ادوار میں پیش آنے والے واقعات، سیاسی، معاشرتی و معاشی مسائل و صورتحال اور بنیادی سہولتوں کی عدم فراہمی اور روز مرّہ مسائل کا بڑی حد تک عمل دخل ہے۔
آج کی نسل پاکستان سے محبّت تو ضرور کرتی ہے کہ یہ وہ چیز ہے جو ان کے خون اور گھٹّی میں شامل ہے لیکن محبّت کا وہ جنون اور عشق جو دیوانگی کی حد تک ہمیں اپنے سے پچھلی نسل میں نظر آتا تھا، آج مفقود ہے۔
کسی سیانے کا قول ہے کہ محبّت قربانی مانگتی ہے، عشق صلے سے بے پرواہ ہوتا ہے، اور پیار دینے اور دیے جانے کا نام ہے۔ اور اگر اس پہلو سے پرکھا جائے تو سب سے پہلے جو سوال پیدا ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ ہم اس ملک کو کیا دے رہے ہیں؟ اجتماعی سطح پر یہ سوال اٹھانے سے پہلے آئیے ذرا انفرادی طور پر خود سے یہ سوال پوچھیں۔
ملک بھر میں صفائی، گندگی، اور بلدیاتی اداروں کی نااہلیوں پر تبصرہ کرتے ہم خود بھی ایسے ہی لوگوں میں شاملِ ہیں جو گاڑی میں سفر کرتے ہوئے کھڑکی کھول کر ریپر اور تھیلیاں باہر سڑک پر پھینک دیتے ہیں۔ ٹریفک جام میں پھنسنے پر ٹریفک پولیس کو برا بھلا کہتے کہتے ہم خود بھی کئی گاڑیوں کا راستہ روکتے خود پہلے نکل جانے کا راستہ تلاش کرتے ہیں۔ رشوت کو برا کہتے اور رشوت لینے والے افسروں اور اداروں پر لعنت ملامت کرتے ہم خود بھی ڈرائیونگ لائسنس، پاسپورٹ یا دیگر کاغذات بنوانے، یہاں تک کہ ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر (جو کہ سراسر ہماری غلطی ہوتی ہے) چالان کروانے کے بجائے رشوت دینے پر آمادہ ہو جاتے ہیں۔
تعلیم کے معیار اور تعلیمی اداروں میں تفریق پر ماتم کرتے ہم خود اس سسٹم میں تبدیلی لانے کے بجائے کوچنگ سینٹرز اور پرائیویٹ ٹیوشن کے کلچر کر فروغ دینے کا سب سے بڑا ذریعہ ہیں۔ بجلی کے بحران پر آنسو بہانے کے ساتھ ساتھ کنڈا سسٹم پر اپنے گھروں میں اے سی چلانے اور بجلی چوری کے مرتکب ہونے والے بھی تو ہم ہی ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ اکثریت میری اس بات سے اتّفاق نہ کرے اور ماضی کی حکومتوں، اور ان کی پالیسیوں کے علاوہ حکومتِ وقت کی نااہلیوں کو ان تمام مسائل کا سبب قرار دے۔ مجھے اس نقطے سے بھی کلّی اختلاف نہیں کہ یہ بھی ایک روشن حقیقت ہے تاہم اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ بحیثیتِ پاکستانی، ہم سب بھی اپنے قومی اور شہری فرائض سے غفلت کے مرتکب ہوتے چلے آ رہے ہیں اور اب تو یہ معاملہ سنگینی کی انتہائی حدوں کو چھونے لگا ہے۔
اور اگر اس غفلت کی بنیادی وجوہات پر نظر دوڑائی جائے تو سب سے پہلی بات جو میری سمجھ میں آتی ہے وہ یہ کہ ہم نے اس ملک کو اپنا سمجھنا چھوڑ دیا ہے۔ ہم انفرادی حیثیتوں میں صرف اپنے گھروں کی چاردیواری کو اپنا سمجھتے ہیں اور اس چار دیواری سے باہر کیا ہو رہا ہے اور کیا ہونا چاہیے، نہ تو اس میں اپنے کردار کی اہمیت کو سمجھتے ہیں اور نہ ہی اسے اہم بنانا چاہتے ہیں۔ ملک کو اپنی ذمہ داری سمجھنا تو دور، ہم نے شاید اسے اپنا ماننا بھی چھوڑ دیا ہے۔ ہر بات کی ذمہ داری دوسروں پر، اداروں پر، معاشرے پر، میڈیا پر، سیاسی رہنماؤں پر، اور حکومت پر ڈال کر ہم اپنے فرائض سے غافل کیسے ہو سکتے ہیں؟
مسائل کے حل کی طرف سب سے پہلا اور ابتدائی اقدام تو یہ ہے کہ ہم معاشرے کے اس سیٹ اپ میں اپنے کردار اور اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ اپنے انفرادی کردار کو نبھاتے ہوئے پھر ہمیں یہ دیکھنا ہو گا کہ اس سسٹم میں کیسے مثبت تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ یہ کہہ دینا کہ "اب اس ملک کا کچھ نہیں ہو سکتا"، بہت آسان ہے، لیکن اس بگاڑ کو سدھارنے کے لیے پہلا قدم بڑھانا ایک دشوار گزار مرحلہ ہے جو یقیناً بہت ہمت، صبر، اور تحّمل کا متقاضی ہے۔ اور یہ قدم صرف وہی لوگ اٹھا سکتے ہیں جن میں اس وطن سے سچیّ محبّت کا جذبہ ہے، جو اس شناخت اور اس پہچان کو اپنی رگِ جاں سے بھی قریب جانتے ہیں۔
اس سال 27 رمضان 1441 ھ me 73 واں یومِ آزادی نزدیک ہے تو کیوں نہ اس موقع پر خود سے سوال کریں کہ کیا ہمیں اپنے پاکستانی ہونے پر فخر ہے؟ یا کیا ہم اس پہچان پر واقعی فخر کرنا چاہتے ہیں؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو یقین جانیے کہ راستہ صاف اور منزل نزدیک ہے۔ اٹھیے! اور اس یومِ آزادی پر اپنے ملک و ملّت کے ساتھ ساتھ خود سے بھی یہ تجدیدِ عہدِ وفا کیجے کہ "یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہی ہیں پاسباں اس کے"۔
یہاں تک تو ہم نے عوام پاکستان کے بارے میں بات کی اب
آخر میں ہم ریاستِ مدینہ کا دعویٰ کرنے والے حکمران کو کہنا چاہئے گے اگر تم اس ملک میں ترقی و معاشی حالات کو بہتر کرنا چاہتے ہو تو پاکستان میں اسلامی نظامِ حیات کو نافذ کروائے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ریاستِ مدینہ میں نافذ کیا تھا اور اسی نظام کو دیکھ کر غیر مسلم مسلمان ہو جاتے تھے اس کے بغیر نہ ہی ترقی ہو سکتی ہے اور نہ ہی معاشی حالات بہتر ہو سکتے ہیں ۔
آخر میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالی عوام پاکستان کو اپنی اخلاقی ذمّہ داری کو سمجھنے کو توفیق عطا ہو اور حکمران پاکستان کو صرف ریاستِ مدینہ کی باتیں کرنے کے بجائے اس پیارے اسلامی جمہوریہ پاکستان میں حقیقی ریاستِ مدینہ نافذ کروانے کی سعادت نصیب فرمائے ۔آمین۔