یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَدَب - Abdullah Madni 1991


 
آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَدَب
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جُنید بَغْدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (شروع میں)خلیفہ بغداد کے درباری پہلوان اور پوری مُملکت کی شان تھے۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ چوبدار نے اطلاع دی کہ صحن کے دروازے پر صبح سے ایک لاغَر و نیم جان شخص برابر اِصرار کررہا ہے کہ میرا چیلنج جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )تک پہنچا دو ،میں اس سے کُشتی لڑنا چاہتا ہوں۔لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی مگر خلیفہ نے درباریوں سے باہمی مشورہ کے بعدکُشتی کے مقابلے کیلئے تاریخ و جگہ مُتَعَیَّن کردی۔
انوکھی کشتی مقابلے کی تاریخ آتے ہی بَغداد کا سب سے وسیع میدان لاکھوں تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ اعلان ہوتے ہی حضرت جُنید بَغْدادی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) تیار ہوکر اَکھاڑے میں اُتر گئے۔ وہ اجنبی بھی کمر کَس کر ایک کنارے کھڑا ہوگیا۔ لاکھوں تماشائیوں کیلئے یہ بڑا ہی حیرت انگیز منظر تھا ،ایک طرف شُہرت یافتہ پہلوان اور دوسری طرف کمزور و نَحیف شخص ۔

حضرت جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے جیسے ہی خَم ٹھونک کر زور آزمائی کیلئے پنجہ بڑھایا تواجنبی شخص نے دبی زبان سے کہا۔
کان قریب لائیے مجھے آپ سے کچھ کہنا ہے۔
نہ جانے اس آواز میں کیا سِحر تھا کہ سنتے ہی حضرت جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) پر ایک سکتہ طاری ہوگیا ۔ کان قریب کرتے ہوئے کہا ،فرمائیے!
اجنبی کی آواز گلوگیر ہوگئی۔ بڑی مشکل سے اتنی بات منہ سے نکل سکی۔ جُنید! میں کوئی پہلوان نہیں ہوں۔ زمانے کا ستایا ہوا ایک آلِ رسول ہوں ،سَیِّدہ فاطِمہ (رضی اللہ عنہا)کا ایک چھوٹا سا کنبہ کئی ہفتے سے جنگل میں پڑا ہوا فاقوں سے نیم جان ہے۔ چھوٹے چھوٹے بچے بھوک کی شدت سے بے حال ہوگئے ہیں۔ ہر روز صبح کو یہ کہہ کر شہر آتا ہوں کہ شام تک کوئی انتظام کر کے واپس لوٹوں گا لیکن خاندانی غیر ت کسی کے آگے منہ نہیں کھولنے دیتی۔ شرْم سے بھیک مانگنے کیلئے ہاتھ نہیں اٹھتے۔ میں نے تمہیں صرف اس امید پر چیلنج دیا تھا کہ آلِ رسول کی جو عقیدت تمہارے دل میں ہے۔ آج اس کی آبرو رکھ لو۔ وعدہ کرتا ہوں کہ کل میدانِ قِیامت میں ناناجان صلّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا۔
اجنبی شخص کے یہ چند جملے نِشتَرکی طرح حضرتِ جُنید(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) کے جِگَر میں پَیوست ہوگئے پلکیں آنسوؤں کے طوفان سے بوجَھل ہوگئیں، عالم گیر شُہرت و نامُوس کی پامالی کیلئے دل کی پیشکش میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں ہوئی۔
بڑی مشکل سے حضرتِ جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )نے جذبات کی طُغیانی پر قابو حاصل کرتے ہوئے کہا کِشْوَرِ عقیدت کے تاجدار! میری عزت و نامُوس کا اس سے بہترین مَصْرَف اور کیا ہوسکتا ہے کہ اسے تمہارے قدموں کی اُڑتی ہوئی خاک پر نثار کر دوں۔
اتنا کہنے کے بعد حضرتِ جُنید(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) خَم ٹھونک کر للکارتے ہوئے آگے بڑھے اور سچ مُچ کُشتی لڑنے کے انداز میں تھوڑی دیر پینتر ا بدلتے رہے ۔لیکن دوسرے ہی لمحے میں حضرتِ جُنید(رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) چاروں شانے چِت تھے اور سینے پر سَیِّدہ فاطِمہ زَہرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کاایک نحیف و ناتُواں شہزادہ فتح کا پرچم لہرا رہا تھا۔
ایک لمحے کیلئے سارے مجمع پر سکتے کی سی کیفیت طاری ہوگئی ۔ حیرت کا طِلِسْم ٹوٹتے ہی مجمع نے نحیف و ناتُواں سَیِّد کو گود میں اٹھا لیا۔ اور ہر طرف سے انعام و اِکرام کی بارش ہورہی تھی۔ رات ہونے سے پہلے پہلے ایک گمنام سَیِّد خلعت و انعامات کا بیش بہا ذخیرہ لیکر جنگل میں اپنی پناہ گاہ کی طرف لوٹ چکا تھا۔
حضرتِ جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )اکھاڑے میں چت لیٹے ہوئے تھے۔ ا ب کسی کوکوئی ہمدردی ان کی ذات سے نہیں رہ گئی تھی۔ آج کی شکست کی ذلتوں کا سُرُور ان کی روح پر ایک خمار کی طرح چھا گیا تھا۔
عشاء کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد حضرتِ جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )جب اپنے بستر پر لیٹے تو بار بار کان میں یہ الفاظ گونج رہے تھے۔ میں وعدہ کرتاہوں کہ کل قِیامت میں نانا جان سے کہہ کر تمہارے سر پر فتح کی دستار بندھواؤں گا۔
دستارِ ولایت کیا سَچ مُچ ایسا ہوسکتا ہے؟کیا میری قسمت کا ستارہ یک بیک اتنی بلندی پر پہنچ جائیگا کہ سرکار صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نورانی ہاتھوں کی بَرَکتیں میری پیشانی کو چُھولیں ۔ اپنی طرف دیکھتا ہوں تو کسی طرح اپنے آپ کو اس اعزاز کے قابل نہیں پاتا۔آہ ! اب جب تک زندہ رہوں گا قِیامت کیلئے ایک ایک دن گننا پڑیگا۔
یہ سوچتے سوچتے حضرتِ جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کی جیسے ہی آنکھ لگی ۔سوئی ہوئی قسمت انگڑائی لے کر جاگ اٹھی ۔سامنے شہدسے بھی میٹھے میٹھے آقامسکَراتے ہوئے تشریف لے آئے۔لب ہائے مبارَکہ کو جُنبِش ہوئی،رَحمت کے پھول جھڑنے لگے۔ الفاظ کچھ یوں ترتیب پائے:
جُنید اٹھو، قِیامت سے پہلے اپنے نصیبے کی سرفرازیوں کا نظارہ کرلو۔ نبی زادوں کے نامُوس کیلئے شکست کی ذلتوں کا انعام قِیامت تک قرض نہیں رکھا جائیگا۔سر اٹھاؤ، تمہارے لئے فتح و کرامت کی دَستار لیکر آیاہوں۔آج سے تمہیں عرفان و تَقَرُّب کی سب سے اونچی بِساط پر فائز کیا گیا۔ بارگاہ ِیَزدانی سے گروہِ اولیاء کی سَروَرِی کا اعزاز تمہیں مبارَک ہو۔
ان کَلِمات سے سرفراز فرمانے کے بعد سرکارِ مدینہ، سرورِ قلب و سینہ، فیض گنجینہ، صاحبِ معطر پسینہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے حضرت جُنیدبَغْدادی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )کو سینے سے لگالیا۔ اس عالمِ کیف بار میں اپنے شہزادوں کے جاں نثار پر وانے کو کیا عطافرمایا اس کی تفصیل نہیں معلوم ہوسکی۔ جاننے والے بس اتناہی جان سکے کہ صبح کو جب حضرتِ جُنید رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آنکھ کھلی تو پیشانی کی موجوں میں نور کی کرن لہرارہی تھی۔ سارے بغداد میں آپ کی ولایت کی دھوم مچ چکی تھی،خواب کی بات بادِصبانے گھر گھر پہنچادی تھی، کل کی شام جو پائے حِقارت سے ٹھکر ادیاگیا تھا آج صبح کو اس کی راہ گزر میں پلکیں بچھی جارہیں تھیں۔ایک ہی رات میں سارا عالم زِیر وزَبر ہوگیا تھا۔طلوعِ سَحر سے پہلے ہی حضرتِ جُنید بَغْدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے دروازے پر درویشوں کی بھیڑ جمع ہوگئی تھی۔ جونہی (آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ )باہر تشریف لائے خراج عقیدت کیلئے ہزاروں گردنیں جھک گئیں۔ خلیفہ بغداد نے اپنے سرکاتاج اتار کر قدموں میں ڈال دیا۔ سارا شہر حیرت و پشیمانی کے عالم میں سرجھکائے کھڑا تھا۔حضرت جُنید بَغْدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے مسکَراتے ہوئے ایک بار نظر اٹھائی اور(سامنے موجود عاشقانِ رسول کے)ہیبت سے لرزتے ہوئے دلوں کو سُکون بخش دیا۔ پاس ہی کسی گوشے سے آواز آئی گروہِ اَولیاء (رحمہم اللہ )کی سَروَری کا اعزاز مبارَک ہو، منہ پھیر کر دیکھا تو وہی نَحیف و نزار آلِ رسول فرطِ خوشی سے مسکَرارہا تھا۔ آلِ رسول کے اَدَب کی بَرَکت نے ایک پہلوان کولمحوں میں آسمانِ ولایت کا چاند بنادیا۔ ساری فضا سَیِّدالطائفہ کی مبارَک باد سے گونج اٹھی.
(زلف زنجیر مع لالہ زار ، انعام شکست ، ص ۶۲ تا ۷۲)