یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

Showing posts with label آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَدَب. Show all posts
Showing posts with label آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَدَب. Show all posts

" کیا بارش کا پانی برکات والا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟"


بارش کے بارے میں اہم معلومات پر مشتمل مضمون

محرر : عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
00923313654057

" کیا بارش کا پانی برکات والا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔۔؟"

وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الْحَصِیْدِۙ

(۹) (پ۲۶، ق : ۹)

ترجمۂ : اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اُتارا تو اس سے باغ اُگائے اور اناج کہ کاٹا جاتا ہے  ۔


*بارش کا پانی جمع کرنے کا طریقہ*

بارش کے پانی کو حاصل کرنے کے لیے بارش  شروع ہوتے ہی پانی جمع کرنا شروع نہ کیا جائے  کیونکہ فَضا میں گَرد و غُبار، دُھواں اور کیمیاوی عَناصِر وغیرہ ہوتے ہیں ۔  ابتِدائی برسات اِن کو بہا کر زمین کی طرف لاتی ہے ۔  جب کچھ دیر بارش برس جاتی ہے تو یہ آلُودگیاں ختم ہو جاتی ہیں، اب کھلی فَضا میں چوڑے مُنہ کا برتن (پتیلا، تھال وغیرہ) رکھ کر بارش کا  پانی جمع کر لیں اور صاف بوتلوں میں بھر کر محفوظ کر لیں اِنْ شَآءَاللہ عَزَّوَجَلَّ مریضوں کے لیے کارآمد رہے گا  بلکہ سبھی کو تَبَرُّکاً پینا چاہیے کہ قرآنِ پاک میں اس کو مبارَک پانی قرار دیا گیا ہے چنانچہ خُدائے رحمٰن عَزَّوَجَلَّ  کا فرمانِ عالیشان ہے :  

وَ نَزَّلْنَا مِنَ السَّمَآءِ مَآءً مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِهٖ جَنّٰتٍ وَّ حَبَّ الْحَصِیْدِۙ(۹) (پ۲۶، ق : ۹)

ترجمۂ : اور ہم نے آسمان سے برکت والا پانی اُتارا تو اس سے باغ اُگائے اور اناج کہ کاٹا جاتا ہے  ۔

آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَدَب - Abdullah Madni 1991


 
آلِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا اَدَب
 
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جُنید بَغْدادی رضی اللہ تعالیٰ عنہ (شروع میں)خلیفہ بغداد کے درباری پہلوان اور پوری مُملکت کی شان تھے۔ ایک دن دربار لگا ہوا تھا کہ چوبدار نے اطلاع دی کہ صحن کے دروازے پر صبح سے ایک لاغَر و نیم جان شخص برابر اِصرار کررہا ہے کہ میرا چیلنج جُنید (رضی اللہ تعالیٰ عنہ )تک پہنچا دو ،میں اس سے کُشتی لڑنا چاہتا ہوں۔لوگوں کو بڑی حیرت ہوئی مگر خلیفہ نے درباریوں سے باہمی مشورہ کے بعدکُشتی کے مقابلے کیلئے تاریخ و جگہ مُتَعَیَّن کردی۔
انوکھی کشتی مقابلے کی تاریخ آتے ہی بَغداد کا سب سے وسیع میدان لاکھوں تماشائیوں سے کھچا کھچ بھر گیا۔ اعلان ہوتے ہی حضرت جُنید بَغْدادی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ ) تیار ہوکر اَکھاڑے میں اُتر گئے۔ وہ اجنبی بھی کمر کَس کر ایک کنارے کھڑا ہوگیا۔ لاکھوں تماشائیوں کیلئے یہ بڑا ہی حیرت انگیز منظر تھا ،ایک طرف شُہرت یافتہ پہلوان اور دوسری طرف کمزور و نَحیف شخص ۔