یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

" سیرتِ حضرت عمر فاروق اعظم رضي اللّٰہ عنہ"



تحریر: عبداللہ ہاشم عطاری مدنی

03313654057 


" سیرتِ  حضرت  عمر فاروق اعظم رضي اللّٰہ عنہ"

فاروقِ اعظم کا نسب :

آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا نسب کچھ یوں   ہے:   ’’ عمر بن خطاب بن نفيل بن عبد العزى بن رياح بن عبد اللہ بن قُرْطْ بن رَزَاح بن عدي بن كعب بن لؤي قرشي عدوي ۔ ‘‘  کعب بن لؤی پر جاکر نویں   پشت میں   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا نسب دو عالم کے مالِک و مختار ،  مکی مَدَنی سرکار صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے نسب سے جا ملتا ہے.( اسد الغابۃ ،  عمر بن خطاب ،  ج۴ ،  ص۱۵۶۔)

حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکو یہ عظیم سعادت حاصل ہے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا نسب نویں   پشت میں   حضرت سیِّدُنا کعب بن لؤی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہپر جاکر سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن ، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کے نسب مبارک سے جا ملتا ہے۔


فاروقِ اعظم کے قبیلے کی شرف یابی:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ قبیلہ عدی بن کعب سے تعلق رکھتے تھے جو قریش کا عدنانی قبیلہ تھا۔ اس قبیلے کی شرافت وبزرگی نے اسے ہاشم ،  امیہ ،  تیم اور مخزوم جیسے ممتاز قبائل میں   شامل کردیا تھا۔اگرچہ اس قبیلے کے پاس کوئی مذہبی یا سیاسی منصب ومرتبہ نہیں   تھا اور نہ ہی مال ودولت میں   وہ ان قبیلوں   کے مساوی تھے البتہ عزت  ،  شرف اور بزرگی میں   وہ قبیلہ بنی عبد شمس کے مقابل تھے۔یہی وجہ تھی کہ ان دونوں   قبائل میں   سالہا سال سے منافرت (دشمنی)قائم تھی۔آپ کے قبیلے والے تعداد میں   تھوڑے اور بڑے قبائل کے حریف نہ ہونے کی وجہ سے علم وحکمت و دور اندیشی میں   اپنا ایک خاص مقام ومرتبہ رکھتے تھے۔ نیز امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو آپ کے اسی علم وحکمت کے سبب سفارت کاری اور عدالت کے ضروری عہدے دے دیے گئے۔یہی وجہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے خاندان میں   حضرت سیِّدُنا زید بن عمرو بن نفیل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ جیسی عظیم شخصیات پیدا ہوئیں   جنہوں   نے اپنے حکمت ودانش مندی سے بت پرستی ترک کردی ،  بتوں   کا ذبیحہ کھانا چھوڑ دیااور پکے موحد (  اللہ1کی توحید کے قائل)بن گئے۔( اخبار مکۃ للازرقی ، ذکر رباع بنی عدی بن کعب ،  ج۲ ،  ص۲۵۸ ،  ریاض النضرۃ ،  ج۲ ،  ص۳۳۷۔)


فاروقِ اعظم کا نام نامی اسم گرامی:

دورِ جاہلیت اور دورِاسلام دونوں   میں   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا نام  ’’ عمر  ‘‘  ہی رہا۔  ’’ عمر ‘‘   کے معنی ہیں    ’’ آباد رکھنے والا ‘‘   یا  ’’ آباد کرنے والا ‘‘  ۔حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سبب چونکہ اسلام آباد ہونا تھا اس لیے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے پہلے ہی آپ کو ’’  عمر ‘‘   نام عطا فرمادیا اور اسلام آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے سبب آباد ہوالہٰذا آپ اسم بامسمی ہیں  ۔  ’’ انسانی زندگی کی مدت  ‘‘  کو بھی ’’  عمر ‘‘   کہتے ہیں   یعنی  ’’ جسم کی آبادی کا زمانہ ‘‘  ۔ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا عہدِ خلافت چونکہ اِسلام کی آبادی کا زمانہ ہے اِس اعتبار سے بھی آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اِسم بامسمی ہوئے۔(      مرآۃ المناجیح ،  ج۸ ،  ص۳۶۰ ،  ریاض النضرۃ  ، ج۱ ، ص۲۷۲۔)


آسمانوں   ،  انجیل ،  تورات اور جنت میں   آپ کا نام:

مروی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کانام آسمانوں   میں    ’’ فاروق ‘‘   انجیل میں    ’’ کافی ‘‘   تورات میں    ’’ مَنْطَقُ الْحَق ‘‘   اور جنت میں    ’’ سراج ‘‘   ہے۔( ریاض النضرۃ  ، ج۱ ، ص۲۷۳۔)


بارگاہِ رسالت سے عطا کردہ نام:

اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے فرماتی ہیں  :   ’’ سَمَّى رَسُوْلُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ  وَسَلَّم عُمَرَ الْفَاُروْقَ یعنی رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا نام  ’’ فاروق ‘‘   رکھا۔ (تھذیب الاسماء  ،  عمر بن الخطاب ،  ج۲ ،  ص۳۲۵۔)


فاروقِ اعظم کی کنیت:

آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی کنیت  ’’ ابو حفص ‘‘   ہے اگرچہ آپ کی اولاد میں   سے کسی کا نام ’’  حفص ‘‘   نہیں   ہے۔(مستدرک حاکم  ،  کتاب معرفۃ الصحابۃ ،  ذکر مناقب ابی حذیفہ ،  ج۴ ،  ص۲۳۹ ،  حدیث: ۵۰۴۲ ملتقطا۔(

فاروقِ اعظم کو بارگاہِ رسالت سے کنیت عطا ہوئی:

(الحدیث...1)   حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہدو جہاں   کے تاجور ،  سلطانِ بحرو بَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے بدر کے دن اعلان فرمایا کہ تم میں   سے جو کوئی عباس سے ملے تو اُن سے اعراض کرے کیونکہ انہیں   ہم سے جنگ کرنے کے لیے زبردستی لایا گیا ہے۔ ‘‘  حضرت سیِّدُنا ابو حذیفہ بن عتبہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے یہ سنا تو فرط جذبات سے کہنے لگےکہ  ’’ ہم اپنے آباء ،  بھائیوں   اور رشتہ داروں   کو تو قتل کریں   اور عباس کو چھوڑ دیں  ہم ضرور اسے قتل کریں   گے۔ ‘‘  رسول اللہصَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمتک جب یہ بات پہنچی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ارشاد فرمایا:   ’’ یَا اَبَا حَفْصٍ! یُضْرَبُ وَجْهُ عَمِّ رَسُولِ اللہِ صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ بِالسَّیْفِ؟ یعنی اے ابو حفص!کیا رسول اللہ کے چچا پر تلواراٹھائی جائے گی؟ ‘‘  آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے جلال میں   ارشاد فرمایا:   ’’ یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم! مجھے حکم ارشاد فرمائیے میں   ابو حذیفہ کی گردن اڑادوں   گا۔ ‘‘  بہرحال بعد میں   حضرت سیِّدُنا ابو حذیفہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اس بات پر بہت شرمندہ ہوئے اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ فرمایا کرتے تھےکہ  ’’ بدر کے دن جو بات میں   نے کی تھی اس کے سبب میں   خوف زدہ رہتا ہوں   اور خواہش کرتا ہوں   کہ کاش! مجھے شہادت نصیب ہوجائے اور میری شہادت اس بات کا کفارہ ہوجائے ۔ ‘‘   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی یہ خواہش پوری ہوگئی اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ جنگِ یمامہ میں   شہید ہو گئے۔

جنگِ بدر کے دن حسن اَخلاق کے پیکر ،  محبوبِ رَبِّ اکبر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اسی کنیت  ’’ ابو حفص  ‘‘   کے ساتھ پکارااور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے خود ارشاد فرمایا:   ’’ اِنَّہُ لَاَوَّلُ یَوْمٍ كَنَّانِیْ فِيْهِ رَسُولُ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ بِاَبِیْ حَفْصٍ یعنی یہ وہ پہلا دن تھا جب اللہ عَزَّ وَجَلَّ کےمحبوب ،  دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے خود مجھے ابو حفص کنیت عطا فرمائی۔ ‘‘ (مستدرک  حاکم ،  کتاب معرفۃ الصحابۃ ،  ذکر مناقب ابی حذیفہ ،  ج۴ ،  ص۲۳۹ ،  حدیث: ۵۰۴۲)


(الحدیث۔۔۔2)   حضرت سیِّدُنا زید بن ابی اوفی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ ایک بار مسجد نبوی میں   نورکے پیکر ،  تمام نبیوں   کے سَروَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے ارشاد فرمایا:   ’’ قَدْ كُنْتَ شَدِیْدَ الشَّغْبِ عَلَیْنَا اَبَا حَفْصٍ فَدَعَوْتُ اللہَ اَنْ یُّعِزَّ الدِّیْنَ بِكَ اَوْ بِاَبِیْ جَھْلٍ فَفَعَلَ اللہُ ذٰلِكَ بِكَ یعنی اے ابو حفص! اسلام لانے سے قبل تم ہم پر بہت سخت تھے  ،  پھر میں   نے رب عَزَّ وَجَلَّ سے دعا کی کہ وہ تمہارے ذریعے یا ابو جہل کے ذریعے دین کو عزت عطافرمائے تو   اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے تمہارے ذریعے دین کو عزت عطا فرمائی۔  ‘‘( معجم کبیر ،   زید بن ابی اوفی اسلمی ،  ج۵ ،  ص۲۲۰ ،  حدیث: ۵۱۴۶۔)


فاروقِ اعظم کی کنیت بامسمی ہے:


 عربی زبان میں    ’’ حفص ‘‘  شیر کے بچے کو کہتے ہیں   ،  اسی لیے شیر کی کنیت  ’’ ابو حفص ‘‘   ہے۔ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ بھی چونکہ اسلام کے شیر ہیں   اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے قبولِ اسلام سے لے کر وصالِ ظاہری تک جتنا فائدہ آپ کی ذات سے اِسلام کو ہوا اِتنا کسی اور خلیفہ یا حاکم سے نہ ہوا اِس وجہ سے آپ کی یہ کنیت آپ پر کلیۃ ً صادق آتی ہےاور آپ کو  ’’ ابو حفص ‘‘   کہا جاتاہے۔( مناقب امیر المؤمنین عمر بن الخطاب ،  الباب الثانی ،  ص۱۴۔)


فاروقِ اعظم  کے القابات

(1)…لقب  ’’ فاروق ‘‘  

(2)…لقب  ’’ امیر المؤمنین ‘‘

(3)…لقب  ’’ مُتَمِّمُ الْاَرْبَعِیْن ‘‘امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن ارشاد فرماتے ہیں  :   ’’ حضرت عمرفاروقِ اَعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاس وقت ایما ن لائے جب کل مرد و عورت ۳۹ مسلمان تھے۔ آپ چالیسویں   مسلمان ہیں   ، اسی واسطے آپ کا نام ’’ مُتَمِّمُ الْاَرْبَعِیْن ‘‘  ہے یعنی چالیس مسلمانوں   کے پورا کرنے والے۔ ‘‘ (ملفوظات اعلی حضرت ،  ص۳۹۷۔)

(4)…لقب ’’ اَعْدَلُ الْاَصْحَاب ‘‘ 

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سب سے زیادہ عدل وانصاف فرمانے والے تھے ،  اسی سبب سے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو  ’’ اَعْدَلُ الْاَصْحَاب ‘‘   کہا جاتا تھا اور خود رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو ’’ اَعْدَل ‘‘  (سب سے زیادہ عدل وانصاف کرنے والا) ارشاد فرمایا۔ چنانچہ ،

 حضرت سیِّدُنا شداد رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ سیِّدُ الْمُبَلِّغِیْن ، رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے ارشاد فرمایا:   ’’ اَبُوْبَكْرٍ اَرَقُّ اُمَّتِیْ وَاَرْحَمُهَا وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ اَخْیَرُ اُمَّتِیْ وَاَعْدَلُھَا وَعُثْمَانُ اَحْیٰی اُمَّتِیْ وَاَكْرَمُهَا وَعَلِیُّ  بْنُ اَبِیْ طَالِبٍ اَلُبُّ اُمَّتِیْ وَاَشْجَعُهَا یعنی ابوبکر میری امت میں   سب سے زیادہ نرم و رحم دل اور عمر بن خطاب میری امت میں   سب سے بہتر و سب سے زیادہ عدل وانصاف کرنے والے اور عثمان میری امت میں   سب سے زیادہ با حیا اور عزت دار جبکہ علی بن ابی طالب میری امت میں   سب سے زیادہ عقل مند اور سب سے زیادہ بہادر ہیں  ۔ ‘‘ (اتحاف الخیرۃ المھرۃ ،  کتاب المناقب ،   فیما اشترک فیہ۔۔۔الخ ،  ج۹ ،  ص۲۱۴ ،  حدیث: ۸۸۴۷ ملتقطا۔)

(5)…لقب  ’’ امام العادلین ‘‘   

آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنے دورِ خلافت میں   عدل وانصاف کا ایسا عظیم الشان نظام قائم فرمایا کہ قیامت تک اِنْ شَا ءَ اللّٰہ عَزَّ وَجَلَّ تمام حکمران اس سے فیض یاب ہوتے رہیں   گے۔ اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بعد آنے والے کئی حکمرانوں   نے آپ ہی کے عدل وانصاف سے عدل کرنا سیکھا۔اسی وجہ سے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو  ’’ امام العادلین  ‘‘  کہا جاتا ہے۔اعلی حضرت ،  عظیم البرکت ،  امام اہلسنت ،  مجدددین وملت  ،  عاشق ماہ نبوت ،  پروانۂ شمع رسالت ،  مولانا شاہ امام احمد رضان خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن نے بھی  ’’ فتاویٰ رضویہ شریف ‘‘   میں   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اس لقب سے یاد فرمایا ہے۔( فتاویٰ رضویہ ،  ج۶ ،  ص۵۳۱۔)

(6)…لقب  ’’ غَیْظُ الْمُنَافِقِیْن ‘‘ 

قرآن مجید پارہ ۲۶ سورۃ الفتح آیت نمبر ۲۹میں   صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کی خصوصیات کو واضح طور پر بیان فرمایا گیا ہے ،  جوپہلی خصوصیت بیان کی گئی ہے وہ ہے ’’ اَشِدَّآءُ عَلَی الْکُفَّارِ ‘‘   یعنی صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  کفار کے معاملے میں   بہت سخت ہیں  ۔ کفر کی بدترین قسم منافقت ہے ،  جس کا ظاہر ایمان اور باطن کفر ہووہ منافق ہے۔ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی یہ شان تھی کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنی خداداد فہم وفراست سے فوراً منافقین کو پہچان لیتے اور اِن کی ہر طرح سے پکڑ فرماتے نیزان کی اِسلام دشمنی کو بالکل ناکام بنادیتے ۔ یہی وجہ ہے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو  ’’ غَیْظُ الْمُنَافِقِیْن ‘‘   کہا جانے لگا یعنی منافقین پر بہت سختی فرمانے والے۔چنانچہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا مشہور واقعہ ہے کہ ایک یہودی اور منافق رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے پاس فیصلہ کروانے گئے تونبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمنے یہودی کے حق میں   فیصلہ فرمادیا۔اس کے بعد منافق نے فاروقِ اعظم کی بارگاہ سے فیصلہ کرانے پر اصرار کیا ،  جب آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اس کے متعلق علم ہوا تو رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکا فیصلہ  نہ ماننے کے سبب اس منافق کی گردن تن سے جدا کردی۔( تفسیر مدارک ،  پ۵ ،  النساء ،  تحت الآیۃ: ۵۹ ،  ص۲۳۴ ملخصا ،  درمنثور ،  پ۵ ،  النساء ،  تحت الآیۃ: ۶۰ ،  ج۲ ،  ص۵۸۲۔)


(7)…لقب ’’ سَیِّدُ الْمُحَدَّثِیْن ‘‘   اور اس کی وجہ

آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو  ’’ سَیِّدُ الْمُحَدَّثِیْن ‘‘   بھی کہا جاتاہے۔  ’’ مُحَدَّث ‘‘  عربی زبان میں   اس شخص کو کہا جاتاہے جسے صحیح اور درست بات کا الہام(یعنی رب تعالی کی طرف سے اشارہ) ہو۔ چُنانچہ حضرت سیِّدُنا ابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے: اللہ عَزَّ وَجَلَّکے پیارے حبیب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا:   ’’ پچھلی اُمتوں   میں   کچھ لوگ مُحَدَّث ہوتے تھے ،  اگر میری امت میں   ان میں   سے کوئی ہوگا تووہ بلا شبہ عمر بن خطاب ہے۔ ‘‘ (بخاری ،  کتاب فضائل اصحاب النبی ،  باب مناقب عمر بن الخطاب۔۔۔الخ ،  ج۲ ،  ص۵۲۷ ،  حدیث: ۳۶۸۹۔)


(8)…لقب ’’ مُراد رسول ‘‘  اور اس کی وجہ

آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو  ’’ مرادِ رسول ‘‘   بھی کہا جاتاہے۔کیونکہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ خود رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی مراد ہیں   اور آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے انہیں   اپنے رب عَزَّ وَجَلَّسے مانگا ۔چنانچہ  اُمّ المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے روایت ہے کہ شَفِیْعُ الْمُذْنِبِیْن ،  اَنِیْسُ الْغَرِیْبِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بارے میں   یوں   دعا فرمائی:   ’’ اَللّٰہُمَّ اَعِزَّ الْاِسْلَامَ بِعُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ خَاصَّۃً یعنی اے   اللہ عَزَّ وَجَلَّ! خصوصاًعمر بن خطاب (رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ) سے اسلام کو عزت عطا فرما۔( ابن ماجہ ،  کتاب السنۃ ،  فضل عمر رضی اللہ تعالی عنہ ،  ج۱ ،  ص۷۷ ،  حدیث:  ۱۰۵۔)


(9)…لقب  ’’ مِفْتَاحُ الْاِسْلَام ‘‘   اور اس کی وجہ

اللہ عَزَّ وَجَلَّنے آپ کو ’’ مفتاح الاسلام ‘‘  بنایا ہے:

حضرت سیِّدُنا عبد اللہ  بن عباس رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ دو جہاں   کے تاجور ،  سلطانِ بحرو بَر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ایک دن امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو دیکھ کر مسکرادیئے اور ارشاد فرمایا:   ’’ اے ابن خطاب ! تمہیں   معلوم ہے میں   کیوں   مسکرایا؟ ‘‘   عرض کیا:  ’’  اَللہُ وَرَسُوْلُہُ اَعْلَم یعنی   اللہ عَزَّ وَجَلَّ اور اس کا رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  ہی بہتر جانتے ہیں  ۔ ‘‘  فرمایا:   ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے عرفات کی رات تمہاری طرف شفقت و رحمت کی نظر فرمائی اور تمہیں   مِفْتَاحُ الْاِسْلَام (یعنی اسلام کی چابی) قرار دیا۔ ‘‘ (ریاض النضرۃ  ، ج۱ ، ص۳۰۸۔)

(10)…لقب  ’’ شہید المحراب ‘‘   اور اس کی وجہ

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا ایک لقب  ’’ شَھِیْدُ الْمِحْرَاب ‘‘   بھی ہے ،  اس کی وجہ بھی بالکل ظاہر ہے کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہپر قاتلانہ حملہ نماز فجر میں   اس وقت ہوا جب آپ نے اِمامت شروع کروائی یقیناً اُس وقت آپ محراب میں   موجود تھے اور اُسی سے آپ کی شہادت ہوئی اسی لیے آپ کو  ’’ شَھِیْدُ الْمِحْرَاب ‘‘   کہا جاتا ہے۔آپ کی شہادت کے تفصیلی واقعات اسی کتاب میں   وصال کے باب میں   ملاحظہ کیجئے۔

(11)…لقب  ’’ شیخ الاسلام ‘‘   

 حضرت علامہ عبدالرؤف مناوی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی  اس حدیث مبارکہ کی شرح میں   فرماتے ہیں  :   ’’ یعنی اس شخص نے سیِّدُنا صدیق اکبر وسیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی برائی کرکے اسلام کی برائی کی ہے اور اس میں   عیب نکالا ہے کیونکہ یہ دونوں   شیخ الاسلام ہیں   اور ان ہی کے ذریعے دین کی بنیادیں   قائم ہیں   ،  گویا ان کی برائی کرنا اسلام کی برائی کرنا ہے  ،  قتل کا حکم اس شخص کے لیے جو ان کی شان میں   ایسی توہین آمیز بکواس کرے جو کفریات پر مشتمل ہو۔ ‘‘  


القاباتِ فاروقِ اعظم بزبان اعلی حضرت:


اعلیٰ حضرت ،  عظیم البرکت ،  امامِ اہلسنت ،  مجددِدین وملت  ،  عاشقِ ماہ نبوت ،  پروانۂ شمعِ رسالت ،  مولانا شاہ امام احمد رضا خان عَلَیْہِ رَحمَۃُ الرَّحْمٰن نے فتاویٰ رضویہ شریف میں   امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اِن گیارہ القابات کے ساتھ یاد فرمایا ہے:  (1) امیر المؤمنین (2) غیظ المنافقین (3) امام العادلین (4) اسلام کی عزت (5) اسلام کی شوکت (6) اسلام کی قوت (7) اسلام کی دولت (8)اسلام کے تاج (9) اسلام کی معراج (10) عِزُّ الْاِسْلَامِ وَالْمُسْلِمِیْن یعنی اسلام اور مسلمانوں   کی عزت (11) سَیِّدُ الْمُحَدَّثِیْن ۔


القابات فاروقِ اعظم بزبان امیر دعوتِ اسلامی:


عاشقِ اعلی حضرت ،  امیر اہلسنت ،  شیخ طریقت ،  حضرت علامہ مولانا ابوبلال محمد الیاس عطار قادری رضوی ضیائی دَامَتْ بَرَکَاتُہُمُ الْعَالِیَہ نے اپنے رسالے ’’ کراماتِ فاروقِ اعظم ‘‘   میں   امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو اُن کے چالیسویں   نمبر پر مسلمان ہونے کی عظیم نسبت سے اِن چالیس اَلقابات کے ساتھ یاد فرمایا ہے: (1) امیر المؤمنین (2) وزیرِ رسالت مآب (3)آسمانِ صحابیت کے دَرَخشاں   ماہتاب (4) نظامِ عدل کے روشن آفتاب (5)حامیٔ دینِ متین (6) ناصرِ دینِ مبین (7) محسنِ اُمّت (8) گوہرِ نایاب (9) فیضانِ نبوت سے فیض یاب (10) خلیفۂ رسالت مآب (11) بارگاہِ نبوت سے فیض یاب (12) آسمانِ رِفعت کے دَرَخشاں   ماہتاب (13) مُحِبُّ الْمُسْلِمِیْن (14) غَیْظُ الْمُنَافِقِیْن (15)  اِمَامُ الْعَادِلِیْن (16) مُتَمِّمُ الْاَرْبَعِیْن (17) فاتحِ اعظم (18) وزیرِ شہنشاہِ نبوت (19)  رکنِ قصرِ ملت (20) جانشینِ رسولِ مقبول (21)  گلشنِ صحابیت کے مہکتے پھول (22) جانشینِ پیغمبر (23) وزیرِ نبی اَطہر (24) منبعِ علم وہنر (25) نگاہِ نبوت سے فیض یافتہ(26) بارگاہِ رسالت سے تربیت یافتہ (27) مدعائے رسول (28) رفیقِ رسول (29) مُشِیْرِ رَسُوْل (30) جانثارِ رسول (31) محبوبِ جنابِ صادق وامین (32)  سَیِّدُالْخَائِفِیْنْ (33) کرامت وعدل کی اعلی مثال (34) صاحبِ عظمت وجلال (35) حُجَّۃُ اللہِ عَلَی الْعَالَمِیْن (36) وزیرِ سَیِّدُ الْمُرْسَلِیْن (37) اللہ1 اور اس کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے پیارے (38) آسمانِ ہدایت کے چمکتے دمکتے ستارے (39) دکھی دل کے سہارے (40) غلامانِ مصطفےٰ کی آنکھوں   کے تارے ۔


فاروقِ اعظم کی پیدائش :


آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ عام الفیل کے تیرہ سال بعد پیدا ہوئے  ،  یوں   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی تاریخ ولادت ۵۸۳ عیسوی تقریباً ۴۱سال قبل ہجرت ہے۔حضرت سیِّدُنا صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ عام الفیل کے ڈھائی سال بعد پیدا ہوئے یوں   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سیِّدُنا صدیق اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے عمر میں   تقریباً ساڑھے دس سال چھوٹے ہیں   اور سرکارِ مدینہ ،  قرارِ قلب وسینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم چونکہ عام الفیل کے سال دنیا میں   تشریف لائے یوں   آپ رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم سے عمر میں   تقریباً تیرہ سال چھوٹے ہیں  ۔


خلفائے راشدین کے پیشے :


 ’’ حضرات انبیائے کرام عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی طرح خلفائے اربعہ رِضْوَانُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِمْ اَجْمَعِیْن  بھی کسب کیاکرتے تھے۔ چنانچہ ،  امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناابوبکرصدّیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکپڑو ں   کی تجارت کرتے تھے۔ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکھالوں   کاکام کرتے تھے۔ امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُناعثمان غنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ تاجر تھے۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہخوردونوش کی اشیاء ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جاکر فروخت کرتے اور امیرالمؤمنین حضرت سیِّدُنا علی المرتضیٰ کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم مزدُوری کیاکرتے تھے۔ ‘‘   اصلاح اعمال ،  ج۱ ،  ص۷۴۸۔ مکتبۃ المدینہ دعوتِ اسلامی)


حضرت کی ازواج اور ان سے اولاد :

(1)…پہلا نکاح اور اس سے اولاد: 

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا پہلا نکاح حضرت سیدتنا زینب بنت مظعون رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  ‘‘  سے ہواجو حضرت سیِّدُنا عثمان بن مظعون ،  حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن مظعون اور حضرت سیِّدُنا ابو عمرو قدامہ بن مظعون رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُم کی سگی بہن ہیں  ۔ان کی کنیت  ’’ اُم عبد اللہ بن عمر ‘‘  ہے ،  ان کو  ’’ ریطہ بنت مظعون  ‘‘   بھی کہا جاتا ہے ۔ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  سے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی لاڈلی شہزادی اور تمام مسلمانوں   کی ماں   حضرت سیدتنا حفصہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  ،  حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاور حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہپیدا ہوئے۔( الاصابۃ ،  کتاب النساء ،  زینب بنت مظعون ،  ج۸ ،  ص۱۶۳ ،  الرقم:  ۱۱۲۵۶ ، عبدالرحمن بن اکبر۔۔۔الخ ،  ج۴ ،  ص۲۸۵ ،  الرقم: ۵۱۸۹۔)

(2)…دوسرا نکاح اور اس سے اولاد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا دوسرا نکاح حضرت سیدتنا جمیلہ بنت ثابت بن اقلح رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاسےہوا۔زمانہ جاہلیت میں   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  کا نام  ’’ عاصیہ ‘‘   تھا حسن اَخلاق کے پیکر ،  محبوبِ رَبِّ اکبر صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  نے تبدیل فرماکر ’’ جمیلہ  ‘‘   نام رکھ دیا۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو اللہ عَزَّ وَجَلَّکے محبوب ،  دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  سے بیعت ہونے کاشرف بھی حاصل ہوا۔ان سے صرف ایک بیٹے حضرت سیِّدُنا عاصم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہپیدا ہوئےاسی وجہ سے حضرت جمیلہ بنت ثابت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کو ’’ اُمّ عاصم  ‘‘   بھی کہاجاتا ہے ،  جو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی کنیت ہے۔( طبقات کبری ،  ومن النساء۔۔۔الخ ،  ج۸ ،  ص۲۶۰ ،  الاستیعاب ،  جمیلۃ بنت ثابت ،  ج۴ ،  ص۳۶۵ ،   الاصابۃ ، جمیلۃ بنت ثابت ،  ج۸ ،  ص۶۷ ،  الرقم)

(3)…تیسرا نکاح اور اس سے اولاد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا تیسرا نکاح حضرت سیدتنا فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور مولا علی شیر خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کی لاڈلی شہزادی حضرت سیدتنا اُمّ كلثوم بنت علي بن ابی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے ہوا۔امیرالمومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے مولا علی شیر خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کو نکاح کا پیغام بھیجا اور ارشاد فرمایا:   ’’ زَوِّجْنِیْ یَا اَبَا الْحَسَنْ فَاِنِّیْ سَمِعْتُ رَسُوْلَ اللہِ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ  یَقُوْلُ كُلُّ نَسَبٍ وَصِھْرٍ مُنْقَطِعٌ  یَوْمَ الْقِيَامَۃِ  اِلَّا نَسَبِیْ وَصِهْرِیْیعنی اے علی! آپ اپنی بیٹی کا نکاح مجھ سے کر دیجئےکیونکہ میں   نے سُلْطَانُ الْمُتَوَکِّلِیْن ،  رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کو یہ فرماتے سنا ہے کہ کل بروز قیامت ہر نسب اور رشتہ منقطع ہو جائے سوائے میرے نسب اور رشتے کے۔ ‘‘  (لہٰذاآپ مجھے اپنا رشتہ دار بنا لیجئے)تومولا علی کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنی بیٹی سیدتنا ام کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  کا نکاح آپ سے فرمادیا۔سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ان کے حق مہر میں   چالیس ہزار درہم ادا کیے۔ان سے ایک بیٹے حضرت سیِّدُنا زید اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاو رایک بیٹی حضرت سیدتنا رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا پیدا ہوئیں  ۔حضرت سیِّدُنا زید اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاور حضرت سیدتنا رقیہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا   والد کی نسبت سے  ’’ عمری ‘‘  یا  ’’ فاروقی ‘‘   ہیں  ۔(     الاستیعاب ،  ام کلثوم بنت علی ،  ج۴ ،  ص۵۰۹ ،  تاریخ ابن عساکر ،  ج۱۹ ،  ص۴۸۲ ،  الاصابۃ ،  ام کلثوم بنت علی ،   ج۸ ،  ص۴۶۴ ،  الرقم: ۱۲۲۳۷۔)

(4)…چوتھا نکاح اور اس سے اولاد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا چوتھا نکاح  ’’ ملیکہ بنت جرول بن خزاعیہ ‘‘   سے ہوا ،   کنیت  ’’ اُمّ کلثوم ‘‘   ہے ، آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی یہ زوجہ مشرکہ تھی ،  اسی وجہ سے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے اسے غزوہ حدیبیہ کے سال طلاق دے دی۔اس سے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے دو بیٹے حضرت سیِّدُنا عبیداللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اورحضرت سیِّدُنا زید اصغر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہپیدا ہوئے۔( الاصابۃ ،  ام کلثوم بنت علی ،  ج۸ ،  ص۴۶۴ ،  الرقم: ۱۲۲۳۴۔)

(5)…پانچواں   نکاح اور اس سےاولاد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا پانچواں   نکاح  ’’ قریبہ بنت ابواُمیہ ‘‘   سے ہوا۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی یہ زوجہ مشرکہ تھی لہٰذاآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نےاُسے طلاق دے دی ۔سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے طلاق دینے کے بعدحضرت سیِّدُنا امیر معاویہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ـ نے ان سے نکاح کرلیا تھااس وقت آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہایمان نہیں   لائے تھے۔بعد میں   صلح حدیبیہ کے موقع پر یہی  ’’ قریبہ بنت ابواُمیہ ‘‘   اسلام لے آئی تھیں ۔( بخاری ، کتاب الشروط ،  الشروط فی الجھاد والمصالحۃ مع اھل الحرب ، ج۲ ،  ص۲۲۷ ،  حدیث: ۲۷۳۱ ،  ۲۷۳۲۔

                                                 فتح  الباری  ، کتاب الطلاق ،  باب نکاح من اسلم من المشرکات ،  ج۱۰ ،  ص۳۵۸ ،  تحت الحدیث: ۵۲۸۶۔)

فاروقِ اعظم کا اپنی دو ازواج کو طلاق دینے کا سبب:

صلح حدیبیہ سے متعلقہ بخاری شریف کی ایک طویل حدیث مبارکہ میں   مذکور ہے کہ جب سورہ ممتحنہ کی یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی تو امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے اپنی ان دونوں   مشرکہ ازواج کو طلاق دے دی:  ( یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا جَآءَكُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُهٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْهُنَّؕ-اَللّٰهُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِهِنَّۚ-فَاِنْ عَلِمْتُمُوْهُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلَا تَرْجِعُوْهُنَّ اِلَى الْكُفَّارِؕ-لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَ لَا هُمْ یَحِلُّوْنَ لَهُنَّؕ-وَ اٰتُوْهُمْ مَّاۤ اَنْفَقُوْاؕ-وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ اَنْ تَنْكِحُوْهُنَّ اِذَاۤ اٰتَیْتُمُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّؕ-وَ لَا تُمْسِكُوْا بِعِصَمِ الْكَوَافِرِ وَ سْــٴَـلُوْا مَاۤ اَنْفَقْتُمْ وَ لْیَسْــٴَـلُوْا مَاۤ اَنْفَقُوْاؕ-ذٰلِكُمْ حُكْمُ اللّٰهِؕ-یَحْكُمُ بَیْنَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ حَكِیْمٌ(۱۰))  (پ۲۸ ،  الممتحنۃ: ۱۰) ترجمۂ کنزالایمان:   ’’ اے ایمان والو جب تمہارے پاس مسلمان عورتیں   کفرستان سے اپنے گھر چھوڑ کر آئیں   تو ان کا امتحان کر لو اللہ ان کے ایمان کا حال بہتر جانتا ہے پھر اگر وہ تمہیں   ایمان والیاں   معلوم ہوں   تو انہیں   کافروں   کو واپس نہ دو نہ یہ انہیں   حلال نہ وہ انہیں   حلال اور ان کے کافر شوہروں   کو دے دو جو ان کا خرچ ہوا اور تم پر کچھ گناہ نہیں   کہ ان سے نکاح کر لو جب ان کے مہر انہیں   دو اور کافرنیوں   کے نکاح پر جمے نہ رہو اور مانگ لو جو تمہارا خرچ ہوا اور کافر مانگ لیں   جو انہوں   نے خرچ کیا یہ اللہ کا حکم ہے وہ تم میں   فیصلہ فرماتا ہے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ ‘‘ (بخاری ، کتاب الشروط ، الشروط فی الجھاد والمصالحۃ مع اھل الحرب ،  ج۲ ،  ص۲۲۷ ،  حدیث: ۲۷۳۱ ،  ۲۷۳۲۔

                                                فتح الباری ،  کتاب البیوع الی السلم ،  باب الصلح ،  ج۱ ،  ص۲۹۰۔)

(6)…چھٹانکاح اور اس سے اولاد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا چھٹا نکاح حضرت سیدتنا اُمّ حکیم بنت حارث بن ہشام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے ہوا۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فتح مکہ کے موقع پر اسلام لے آئی تھیں   اور حضرت سیِّدُنا عکرمہ بن ابی جہل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی زوجیت میں   تھیں  ۔جب حضرت سیِّدُنا عکرمہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکو عہدِ صدیقی میں   جنگ یمامہ میں   شہادت نصیب ہوئی تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے نکاح فرمایا۔آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  کی والدہ کا نام ’’ حضرت سیدتنا فاطمہ بنت ولیدرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا    ‘‘  (الاصابۃ ،  فاطمۃ بنت ولید ،  ج۸ ،  ص۲۷۸ ،  الرقم: ۱۱۶۱۴ ،  اسد الغابۃ ،  فاطمۃ بنت ولید ،  ج۷ ،  ص۲۵۱۔)

ہےاور آپ حضرت سیِّدُنا خالد بن ولید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی بھانجی ہیں  ۔ ان سے ایک بیٹی ـفاطمہ بنت عمر پیدا ہہوئیں۔( طبقات کبریٰ  ، تسمیۃ النساء المسلمات۔۔۔الخ ، ج۸ ،  ص۲۰۵ ،  البدایہ والنھایۃ ، ج۵ ،  ص۲۱۹۔)

(7)…ساتواں   نکاح اور اس سے اولاد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا ساتواں   نکاح حضرت سیدتنا عاتکہ بنت زید بن عمرو بن نفیل رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  سے ہوا۔بعض روایات میں   آپ کا نام عائشہ بھی آیا ہے۔پہلے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  حضرت سیِّدُنا عبداللہ بن ابو بکر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے نکاح میں   تھیں   ، ان کی شہادت کے بعدامیرا لمؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے آپ سے نکاح فرمایا۔ ان سےایک بیٹے حضرت سیِّدُنا عیاض بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہپیدا ہوئے۔( طبقات کبری ، تسمیۃ النساء المسلمات۔۔۔الخ ،  ج۸ ،  ص۲۰۸۔

                               الاصابۃ ،  عاتکۃ بنت زید بن عمرو ،  ج۸ ،  ص۲۲۸ ،  الرقم: ۱۱۴۵۲۔)

(8)… آٹھواں   نکاح اور اس سے اولاد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکا آٹھواں   نکاح حضرت سیدتنا سعیدہ بنت رافع بن عبیداللہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  سے ہوا۔ان سے ایک بیٹے عبد اللہ اصغر پیدا ہوئے.(     معرفۃ الصحابۃ ،  معرفۃ انہ اول من سمی امیر۔۔۔الخ ،  ج۱ ،  ص۷۷ ،  الرقم: ۲۱۰)

(9)…حضرت سیدتنا فکیہہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  اور ان سے اولاد:

حضرت سیدتنا فكيهہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَایہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی باندی ہیں  ۔ ان سے ایک بیٹے حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن اصغر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ   اور ایک بیٹی حضرت سیدتنا زینب بنت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا پیدا ہوئے۔([6])

(10)…حضرت سیدتنا لہیعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا اور ان سے اولاد:

حضرت سیدتنا لہیعہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا یہ بھی امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی باندی تھیں  ۔یہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی بیٹی اُمّ المومنین حضرت سیدتنا حفصہ بنت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی خدمت پر معمور تھیں  ۔ ان سے ایک بیٹےحضرت سیِّدُنا عبدالرحمن بن عمر اوسط رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہپیدا ہوئےاور ان ہی کی کنیت ’’ ابو شحمہ ‘‘  ہے۔([7])

 واضح رہے کہ اسلام میں   بیک وقت فقط چار نکاح ہی ہوسکتے ہیں  ۔

فاروقِ اعظم کے بیٹوں کی تعداد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے بیٹوں   کی کل تعداددس ہے۔جن کے اسماء گرامی یہ ہیں  :  (۱) حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ(۲)حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  (۳) حضرت سیِّدُنا عبید اللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ(۴) حضرت سیِّدُنا زید اصغر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  (۵) حضرت سیِّدُنا عاصم بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ(۶) حضرت سیِّدُنا زید اکبر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ (۷) حضرت سیِّدُنا عیاض بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ(۸) حضرت سیِّدُنا عبد اللہ اصغر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  (۹) حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن اوسط رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ(۱۰) حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن اصغر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ   ۔


فاروقِ اعظم کی بیٹیوں کی تعداد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی بیٹیوں   کی کل تعداد پانچ ہے۔ جن کے اسماء گرامی یہ ہیں  : (۱)حضرت سیدتنا رقیہ بنت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا (۲)حضرت سیدتنا فاطمہ بنت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا (۳) حضرت سیدتنا زینب بنت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا (۴) حضرت سیدتنا حفصہ بنت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ۔ (۵) حضرت سیدتنا جمیلہ بنت عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا ۔


فاروقِ اعظم کے پوتے ،  پوتیاں   وغیرہ

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے بیٹوں   میں   سے صرف تین بیٹے ایسے ہیں   جن سے آپ کی اولاد کا سلسلہ آگے چلا اُن میں   سب سے زیادہ جن کی اولاد ہوئی وہ آپ کے لاڈلے اور تربیت یافتہ بیٹے صحابی رسول حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہہیں  ۔کتب میں   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی جتنی اولاد کا صراحۃ تذکرہ ملتا ہے اس کی تفصیل کچھ یوں   ہے:

فاروقِ اعظم کے ۲۲ بائیس پوتوں   کے نام:

 (1) …بلال بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب                     (2) …مجبربن عبد اللہ بن عمر بن خطاب

(3) …عاصم بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب                      (4) …عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب

 (5) …زید بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب                      (6) …سالم بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب

 (7)… عبید اللہ بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب   (8) …حمزہ بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب

(9) …واقد بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب                       (10) …ابو عبیدہ بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب

(11) …عبد اللہ بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب   (12) …عثمان بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب

 (13) …عبد الرحمن بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب          (14)… عمر بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب

(15) …ابو عبید بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب                 (16) …ابوبکر بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب

(17) …عمر بن عاصم بن عمر بن خطاب             (18) …عبید اللہ بن عاصم بن عمر بن خطاب

(19) …حفص بن عاصم بن عمر بن خطاب                     (20) …ابوبکر بن عاصم بن عمر بن خطاب

(21) …سلیمان بن عاصم بن عمر بن خطاب                   (22) …حر بن عبید اللہبن عمر بن خطاب۔

فاروقِ اعظم  کی ۵ پانچ پوتیوں   کے نام:

 (1) …اُمّ سلمہ بنت  عبد اللہ بن عمر بن خطاب              (2)  …عائشہ بنت  عبد اللہ بن عمر بن خطاب

 (3)  …سودہ بنت  عبد اللہ بن عمر بن خطاب                (4)  …حفصہ بنت  عبد اللہ بن عمر بن خطاب

 (5) …اُمّ عاصم بنت عاصم بن عمر بن خطاب

فاروقِ اعظم کے۸ آٹھ پرپوتوں   کے نام:

 (1) …محمد بن زید بن عبد

(3)  …ابوبکر بن سودہ بنت  عبد اللہ بن عمر بن خطاب           (4)  …اسید بن سودہ بنت عبد اللہ  بن عمر بن خطاب

(5)  …ابراہیم بن سودہ بنت عبد اللہ بن عمر بن خطاب  (6) …عبد اللہ بن حفص بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب

(7)…  ابوبکر بن حر بن عبید اللہ بن عمر بن خطاب       (8)…  عمر بن اُمّ عاصم بنت عاصم بن عمر بن خطاب (یہی مسلمانوں   کے خلیفہ  ’’ عمرِثانی ‘‘  سیِّدُنا عمر بن عبد العزیز رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہہیں  ۔)

فاروقِ اعظم کی تین پرپوتیوں   کے نام:

 (1) …اسماء بنت سودہ بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب          (2)…اُمّ سلمہ بنت ابوبکر بن حر بن عبید اللہ بن عمر بن خطاب                                                          (3) …فاطمہ بنت عمر بن عاصم بن عمر بن خطاب۔(طبقات کبری ، عبد الرحمن بن زید ،  ج۵ ،  ص۳۷ ،  انساب الاشراف ،  ولد عبید اللہ بن عمر ،  ج۱۰ ،  ص۴۵۸ ،  طبقات کبری ،  عبد اللہ بن عمر ،  ج۵ ،  ص۴۳۳۔)

فاروقِ اعظم کے نواسے

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی صرف دو بیٹیوں   سے آپ کی اولاد کا سلسلہ آگے چلا  ،  اس لیے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے نواسے  ،  نواسیوں   کاذکر بہت کم ملتا ہے۔

فاروقِ اعظم کے دو نواسوں   کے نام:

 (1) …عبد اللہ بن زینب بنت عمر بن خطاب       (2) …عبد اللہ بن فاطمہ بنت عمر بن خطاب۔ (الاصابۃ  ،  عبد اللہ بن عبد اللہ بن سراقۃ ،  ج۵ ،  ص۱۵ ، الرقم:  ۶۱۹۶ ،   تاریخ ابن عساکر ،  ج۷۰ ،  ص۲۲۵۔)


فاروقِ اعظم کے بھائیوں کی تعداد:

 امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے فقط دو بھائیوں   کا تذکرہ کتب میں   ملتا ہے ، جن کے نام یہ ہیں۔

(1) سیِّدُنا زید بن خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ۔ (۲) سیِّدُنا عثمان بن حکیم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ:


فاروقِ اعظم کی بہنوں کی تعداد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی صرف دو ہی بہنیں   ہیں   جن کے نام یہ ہیں۔

(1) سیدتنا فاطمہ بنت خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  (۲) سیدتنا صفیہ بنت خطاب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ



فاروقِ اعظم کے غلاموں  کی تعداد:


(1)…حضرت سیِّدُنا اسلم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ :

(2)…حضرت سیِّدُنا زید بن اسلم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   :

(3) …حضرت سیِّدُنامھجع بن عبد اللہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ:

(4) …حضرت سیِّدُنا یسار بن نمیرمدنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ:

(5) …حضرت سیِّدُنا عمرو بن رافع رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ:

(6) …حضرت سیِّدُنا نعیم بن عبد اللہ مجمررَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ:

(7) …حضرت سیِّدُنا سعد جاری رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ:

(8) …حضرت سیِّدُنا ہُنی رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ :

(9)حضرت سیِّدُنا عمیر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ                        (10)حضرت سیِّدُنا ابو صالح رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(11)حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن سلیمانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ    (12)حضرت سیِّدُنا ہرمزان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(13)حضرت سیِّدُنا عمر و بن سعد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ            (14)حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن سعد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(15)حضرت سیِّدُنا خالد بن اسلم رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ           (16)حضرت سیِّدُنا ابو محمدرَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(17)حضرت سیِّدُنا عبید بن حنین رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ           (18)حضرت سیِّدُنا نافع بن حنین رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(19)حضرت سیِّدُنا سعید بن کثیر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ           (20)حضرت سیِّدُنا مالک بن عیاض رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(21)حضرت سیِّدُنا نجدہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ                     (22)حضرت سیِّدُنا سعد حارثی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(23)حضرت سیِّدُنا ابو امیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ                   (24)حضرت سیِّدُنا عبدالرحمن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(25)حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن بیلمانی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   (26)حضرت سیِّدُنا ابو خناس رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(27)حضرت سیِّدُنا محمد بن انس قرشی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ       (28)حضرت سیِّدُنا ابو اسامہ قرشی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(29)حضرت ابراہیم بن فروخ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ             (30)حضرت سیِّدُنا فرقد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

(31)حضرت سیِّدُنا ذکوان رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ                  (32)حضرت سیِّدُنا عثما ن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ 

فاروقِ اعظم کے مؤذنین:

کتب احادیث وسیر وتاریخ میں   امیر المو منین حضرت سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے تین مؤذنین کا تذکرہ ملتا ہے جن کے اسمائے گرامی درج ذیل ہیں  :

(1) …حضرت سیِّدُنا مسروق بن اجدع رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ۔

(2) …حضرت سیِّدُنا اقرع رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  ۔

(3) …حضرت سیِّدُنا سعد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ .


فاروقِ اعظم کی اہل بیت سے رشتہ داری

فاروقِ اعظم مولاعلی شیر خدا رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے داماد:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا مولا علی شیر خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم نے اپنی لاڈلی شہزادی  ’’ حضرت سیدتنا اُمّ کلثو م ‘‘     رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کا نکاح امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے فرمایا اس طرح سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہمولا علی شیر خدا کَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم کے داماد ہوئے۔(اسد الغابہ ،  ام کلثوم بنت علی۔۔۔الخ ،  ج۷ ،  ص۴۲۴۔)

فاروقِ اعظم شہزادی کونین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَاکے داماد:

حضرت سیدتنا اُمّ کلثو م رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا  کا نکاح امیر المومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے ہوا جو کہ شہزادیٔ کونین سیدتنا فاطمۃ الزہراء رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کی شہزادی ہیں   ، اس طرح سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ شہزادی کونین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے بھی داماد ہوئے۔(طبقات کبری ، تسمیۃ النساء اللواتی  ۔۔۔الخ ، ج۸ ،  ص۳۳۸۔)

فاروقِ اعظم حسنین کریمین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکے بہنوئی:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی زوجہ حضرت سیدتنا اُمّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا حسنین کریمین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُمَاکی سگی بہن تھیں   اس لیے سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہان کے بہنوئی ہوئے۔(  الاصابۃ  ، فیمن عرف بالکنیۃ من النساء ، ام کلثوم بنت علی ، ج۸ ،  ص۴۶۵ ، الرقم : ۱۲۲۳۷۔)

فاروقِ اعظم سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پھوپھا:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہحضرت سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے پھوپھاہیں   ،  کیونکہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے بیٹے ہیں  اور سیدتنا ام کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا سیِّدُنا امام حسین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی بہن ہیں  اور والدکی بہن پھوپھی ہوتی ہےاور پھوپھی کا شوہر پھوپھا ہوتا ہے  ،  چونکہ سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسیدتنا اُمّ کلثوم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا کے شوہر ہیں   لہٰذاوہ آپ کےپھوپھا ہوئے۔(طبقات کبری ،  بقیۃ الطبقۃ الثانیۃ من التابعین ،  ج۵ ،  ص۱۶۲۔)

فاروقِ اعظم سیِّدُنا امام باقر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے دادا:

سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسیِّدُنا امام باقر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے دادا ہیں   کیونکہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہحضر ت سیِّدُنا امام زین العابدین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے بیٹے ہیں   اورسیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہان کے پھوپھا ہیں   لہٰذاآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے  ’’ دادا ‘‘  ہوئے۔( الاصابۃ  ، الحسین بن علی ،  ج۲ ،  ص۶۸ ،  الرقم:  ۱۷۲۹۔)


فاروقِ اعظم سیِّدُنا امام جعفرصادق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پردادا:

سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سیِّدُنا امام جعفر صادق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے پردادا ہیں   کیونکہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہحضرت سیِّدُنا امام باقر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے بیٹے ہیں   اور سیِّدُنافاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہان کے دادا ہیں   لہٰذاآپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے پردادا ہوئے۔(تھذیب الاسماء  ،  جعفر بن محمد ، ج۱ ،  ص۱۵۵۔)

فیضانِ فاروقِ اعظم پاک وہند میں 

 امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہاولاد کا سلسلہ تقریباً پوری دنیا میں   پھیلتا چلا گیا یہاں   تک کہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے فیضان سے ہند بھی فیضیاب ہوا ۔ ہند میں   آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکی اولاد میں   سے ایسے جلیل القدر ائمہ پیدا ہوئے جنہوں   نے آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکے فیضان کی دھوم مچادی۔ چند ائمہ کرام کا تعارف پیش خدمت ہے:

1) بابا فرید الدین گنج شکر فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

2) مجددالف ثانی شیخ احمد سرہندی فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

3) سراج الاولیاء حضرت آغاعبد الرحمن خان سرہندی فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

4) امام المنطق علامہ فضل اما م خیر آبادی فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

5) امام المنطق علامہ فضل حق خیر آبادی فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

6) شاہ  عبدالرحیم دہلوی فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

7) شاہ ولیاللہ محدث دہلوی فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

8) شاہ عبد العزیز محدث دہلوی فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

9) شاہ مخصو ص اللہ محدث دہلوی فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

10) حاجی امداد اللہ مہاجر مکی فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

11) شیخ الاسلام علامہ انواراللہ فاروقی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

12) مولانا حکیم غلام قادر بیگ رَحمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ :

13) مولانا اِرشاد حسین رامپوری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی :

14) خواجہ غلام فرید فاروقی مٹھن کوٹ رَحمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ :

15) مولانا غلام مجدد سرہندی مجددی رَحمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ :

16) برصغیر کے دومعروف فاروقی ،  علمی خاندان:

امیرالمومنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی اولادمیں   سےدوسگے بھائی ’’ بہاءالدین اور شمس الدین  ‘‘  ایران سے  ’’ ہند ‘‘  تشریف لائے۔ حضرت شمس الدین فاروقی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کی اولادمیں   شاہ عبد الرحیم محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  پیدا ہوئے ۔حضرت بہاء الدین کی اولا د میں   سے  ’’ شیخ ارشد رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ ‘‘  خیر آباد تشریف لائےاور ان ہی کی اولا د میں  علامہ فضل امام خیر آبادی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ پیدا ہوئے۔خانوادئہ خیرآباد (یعنی علامہ فضل امام خیر آبادی کاخاندان)اور خانوادئہ دہلی(یعنی حضرت عبدالرحیم محدث دہلوی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  کاخاندان) ان ہی دو بھائیوں   کی اولاد میں   سے ہیں  ۔خانوادئہ خیر آباد معقولات میں   اپنا ثانی نہیں   رکھتا تو خانوادئہ دہلی منقولات میں   اپنی مثال آپ ہےاس وجہ سے سفینہ علم وفضل کو چلانے والےانہی دوقطب نما سے رہنمائی لیتے نظر آتے ہیں۔( المسوی شرح موطا ، ج۱ ،  ص۵  ، اردو دائرہ معارف اسلامیہ ، ج۱۸ ،  ص۳۷۲۔)


فاروقِ اعظم اور مختلف علوم

فاروقِ اعظم کو بارگاہِ رسالت سے علم عطا ہوا:

 امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ قرآن وحدیث کے بہت بڑے عالم ہونے کے ساتھ ساتھ دیگر کئی علوم میں   مہارت تامہ رکھتے تھے اور آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کو علم کی دولت بارگاہِ رسالت سے عطا ہوئی تھی۔ چنانچہ آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے صاحبزادےحضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عمر رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حضور نبی ٔکریم ،  رَ ء ُوفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے فرمایا:   ’’ میں   سویا ہوا تھا  ، خواب میں   کیا دیکھتا ہوں   کہ دودھ سے لبالب ایک پیالہ مجھے پیش کیا گیا۔ میں   نے اس سے پیا اور اتنا سیر ہوگیا کہ مجھے یوں   لگا جیسے میرے ناخنوں   کے نیچے بھی اس دودھ کی تری پہنچ گئی ہے۔ بچا ہوا دودھ میں   نے عمر فاروق کو دے دیا۔ ‘‘  لوگوں   نے عرض کیا :   ’’ یارسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! آپ نے اس سے کیا مفہوم لیا ہے؟ فرمایا:   ’’  علم۔ ‘‘ (مسلم  ، فضائل الصحابہ  ، من فضائل عمر ،  ص۱۳۰۳ ،  حدیث: ۱۶۔)

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے علم کے بارے میں   حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے تین ارشادات پیش خدمت ہیں  :

(1)فاروقِ اعظم کا علم تمام قبائل عرب کے علم سے زیادہ وزنی:

٭… ’’ لَوْ وُضِعَ عِلْمُ اَحْيَاءِ الْعَرَبِ فِیْ كِفَّۃِ مِیْزَانٍ وَوُضِعَ عِلْمُ عُمَرَ فِیْ كِفَّۃٍ لَرَجَحَ عِلْمُ عَمَرَ یعنی اگر عرب کے تمام قبائل کا علم میزان کے ایک پلڑے میں   اور امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کا علم دوسرے پلڑے میں   رکھا جائے تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ والا پلڑا بھاری رہے گا۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ ،  کتاب الفضائل ،  باب ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب ،  ج۷ ،  ص۴۸۳ ،  حدیث: ۳۶۔)

(2)علم کے نو حصے فاروقِ اعظم کے پاس ہیں   :

٭… ’’ لَقَدْ كَانُوْا یَرَوْنَ اَنَّہُ ذَھَبَ بِتِسْعَۃِ اَعْشَارِ الْعِلْمِ یعنی صحابہ کرام عَلَیْہِمُ الرِّضْوَان  تو سمجھتے تھے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ علم کے دس میں   سے نو حصے اپنے ساتھ لے گئے۔ ‘‘  (الاستیعاب ،  عمربن الخطاب ،  ج۳ ،  ص۲۳۹۔)

(3)ایک سال عمل کرنے سے زیادہ افضل:

٭… ’’ لَمَجْلِسٌ كُنْتُ اَجْلِسُہُ مَعَ عُمَرَ اَوْثَقُ فِیْ نَفْسِیْ مِنْ عَمَلِ سَنَۃٍ یعنی امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے ایک علمی حلقے میں   شرکت کرنا میرے نزدیک ایک سال عمل کرنے سے بھی زیادہ بہتر ہے۔ ‘‘  (الاستیعاب ،  عمربن الخطاب ،  ج۳ ،  ص۲۳۹۔)

تمام لوگوں   کا علم ایک سوراخ میں   سما جائے:

حضرت سیِّدُنا اعمش رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  حضرت سیِّدُنا شمر رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سے روایت کرتےہوئے فرماتے ہیں  :   ’’ لَكَاَنَّ عِلْمَ النَّاسِ كَانَ مَدْسُوسًا فِیْ جُحْرٍ مَعْ عِلْمِ عُمَرَ یعنی امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے علم کے مقابلے میں   تمام لوگوں   کا علم اتنا ہے کہ وہ ایک چھوٹے سے سوراخ میں   سما جائے۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبۃ ،  کتاب الفضائل ،  ما ذکر فی فضل عمر بن الخطاب ،  ج۷ ،  ص۴۸۶ ،  حدیث: ۵۵۔)

فاروقِ اعظم دو تہائی علم لے گئے:

حضرت سیِّدُنا عمرو بن میمون رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  فرماتے ہیں  :   ’’ ذَهَبَ عُمَرُ بِثُلُثَیِ  الْعِلْمِ یعنی امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ دو تہائی علم لے گئے۔ ‘‘    (تاریخ ابن عساکر ،  ج۴۴ ،  ص۲۸۶۔)

فرامینِ و ملفوظات فاروقِ اعظم:

سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے بعض فرامین تو آپ کے اَوصاف کے ضمن میں   مختلف موضوعات کے تحت گزرچکے ہیں   ، حصولِ علم اور ترغیب وتحریص کے لیے مزید چند فرامین پیشِ خدمت ہیں  :

شیطان کی اولاد اور اُس کےکرتوت:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ارشاد فرماتے ہیں  :  ’’ اِنَّ ذُرِّیَّۃَ الشَّیْطَانِ تِسْعَۃٌ زَلِیْتُوْنٌ وَوَثِیْنٌ وَلَقُوْسٌ وَاَعْوَانٌ وَھَفَّافٌ وَمُرَّۃٌ وَالْمُسَوِّطُ وَدَاسِمٌ وَوَلَھَانٌ یعنی شیطان کی یہ نو اولادیں   ہیں  :   ‘‘  پھر ارشاد فرمایا: ٭ ’’ زَلِیْتُوْن بازاروں   کے شیطان ہیں   اور یہ بازاروں   میں   اپنے جھنڈے گاڑ کر خرید وفروخت کرنے والوں   کو گمراہ کرتے ہیں  ۔ ‘‘  ٭ ’’ وَثِیْن مصیبتیں   کھڑی کرنے والے شیطان ہیں  ۔ ‘‘  ٭ ’’ اَعْوَان بادشاہوں   وحکمرانوں   کے شیطان ہیں   جوانہیں   گمراہ کرنے پر مامور ہیں۔ ‘‘  ٭ ’’ ھَفَّاف شراب پلانے والے شیطان ہیں  ۔ ‘‘  ٭ ’’ مُرَّہ ڈھول ڈھمکے وگانے بجانے والے شیطان ہیں  ۔ ‘‘  ٭ ’’ لَقُوْس مجوسیوں   کے شیطان ہیں  ۔ ‘‘  ٭ ’’ مُسَوِّط خبروں   والے شیطان ہیں   جو لوگوں   کے درمیان ایسی الٹی سیدھی خبریں   پھیلاتے ہیں   جن کی کوئی حقیقت نہیں   ہوتی۔ ‘‘  ٭ ’’ دَاسِم وہ شیطان ہیں   جو گھروں   کے شیطان ہیں   ،  جب کوئی شخص اپنے گھر میں   داخل ہوتاہے اور سلام نہیں   کرتا اور نہ ہی اللہ کا نام لیتاہے تو یہ شیطان اس کے گھر میں   داخل ہو کر فتنہ وفساد پھیلاتے ہیں   یہاں   تک کہ اس گھر میں   طلاق ،  خلع اور مار پٹائی کی نوبت تک آجاتی ہے۔ ‘‘  ٭ ’’ وَلَھَان وہ شیطان ہیں   جو وضوء کرنے والوں   اور نماز پڑھنے والوں   اور دیگر عبادات کرنے والوں   کے دلوں   میں   وسوسے پیدا کرتےہیں  ۔ ‘‘ (المنبھات  ،  ص۹۴۔)

دس چیزیں   ، دس کے بغیر درست نہیں   ہوسکتیں  :

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:  ’’ عَشَرَۃٌ لَا تَصْلُحُ بِغَیْرِ عَشَرَۃٍ یعنی دس چیزیں   دس چیزوں   کے بغیر درست نہیں   ہوسکتیں  ۔ ‘‘  پھر ارشاد فرمایا:

٭… ’’ لَا یَصْلَحُ الْعَقْلُ بِغَیْرِ وَرْعٍ یعنی تقوے کے بغیر عقل درست نہیں   ہوسکتی۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَلَا الْفَضْلُ بِغَیْرِ عِلْمٍ یعنی علم کے بغیر فضیلت درست نہیں   ہوسکتی۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَلَا الْفَوْزُ بِغَیْرِ خَشِیَّۃٍ یعنی خوفِ خدا کے بغیر کامیابی درست نہیں   ہوسکتی۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَلَا السُّلْطَانُ بِغَیْرِ عَدْلٍ یعنی اِنصاف کے بغیر بادشاہت درست نہیں   ہوسکتی۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَلَا الْحَسَبُ بِغَیْرِ اَدَبٍ یعنی اَدب کے بغیر حسب درست نہیں   ہوسکتا۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَلَا السُّرُوْرُ بِغَیْرِ اَمْنٍ یعنی اَمن کے بغیر خوشی درست نہیں   ہوسکتی۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَلَا الْغِنٰی بِغَیْرِ جُوْدٍ یعنی مالداری بغیر سخاوت کے درست نہیں   ہوسکتی۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَلَا الْفَقْرُ بِغَیْرِ قَنَاعَۃٍ یعنی قناعت کے بغیر فقیر درست نہیں   ہوسکتا۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَلَا الرِّفْعَۃُ بِغَیْرِ تَوَاضُعٍ یعنی عاجزی کے بغیر بلندی درست نہیں   ہوسکتی۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَلَا الْجِھَادُ بِغَیْرِ تَوْفِیْقٍ یعنی توفیق کے بغیر جہاد درست نہیں   ہوسکتا۔ ‘‘ (المنبھات ،  ص۹۹۔)

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:

٭… ’’ مَنْ کَثُرَ ضِحْکُہُ قَلَّتْ ھَیْبَتُہُ یعنی جو زیادہ ہنستا ہے اس کی ہیبت کم ہوجاتی ہے۔ ‘‘ 

٭… ’’ مَنْ کَثُرَمَزَاحُہُ اِسْتَخَفَّ بِالنَّاسِ یعنی جو زیادہ مزاح کرتاہے لوگوں   کے نزدیک حقیر ہو جاتا ہے۔ ‘‘ 

٭… ’’ مَنِ اسْتَخَفَّ بِالنَّاسِ اِسْتَخَفَّ بِہٖ یعنی جو لوگوں   کے نزدیک حقیر ہو وہ اپنے نزدیک بھی حقیر ہو جاتا ہے۔ ‘‘ 

٭… ’’ مَنْ اَکْثَرَ فِیْ شَیْءٍ عُرِفَ بِہٖ یعنی جو کسی چیز کو کثرت سے کرتاہے تو اس کے سبب مشہور ہو جاتا ہے۔ ‘‘ 

 

٭… ’’ مَنْ کَثُرَ کَلَامُہُ کَثُرَ سَقَطُہُ یعنی جو زیادہ بات کرتاہے اس کی کمینگی بڑھ جاتی ہے۔ ‘‘ 

٭… ’’ مَنْ کَثُرَ سَقَطُہُ قَلَّ حَیَاؤُہُ یعنی جس کی کمینگی بڑھ جاتی ہے اس کی حیا کم ہوجاتی ہے۔ ‘‘ 

٭… ’’ مَنْ قَلَّ حَیَاؤُہُ قَلَّ وَرْعُہُ یعنی جس کی حیا کم ہوجاتی ہے اس کا تقویٰ کم ہوجاتاہے۔ ‘‘ 

٭… ’’ مَنْ قَلَّ وَرْعُہُ مَاتَ قَلْبُہُ یعنی جس کا تقویٰ کم ہوجاتاہے اس کا دل مردہ ہوجاتاہے۔ ‘‘ (المنبھات ،  ص۸۲۔)


اللہ نے چھ چیزوں   کو چھ چیزوں   میں   چھپا دیا:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:   ’’ اِنَّ اللہَ تَعَالٰی کَتَمَ سِتَّۃً فِیْ سِتَّۃٍ یعنی  اللہ

 عَزَّ وَجَلَّ نے چھ چیزوں   کو چھ چیزوں   میں   چھپا دیا:

٭… ’’ کَتَمَ الرِّضَاءَ فِی الطَّاعَۃِ یعنی اپنی رضا کو اپنی اطاعت میں   چھپا دیا۔ ‘‘ 

٭… ’’ کَتَمَ الْغَضَبَ فِی الْمَعْصِیَۃِ یعنی اپنی ناراضگی کو گناہوں   میں   چھپا دیا۔ ‘‘ 

٭… ’’ کَتَمَ اِسْمَہَ الْاَعْظَمَ فِی الْقُرْآنِ یعنی اپنے اسمِ اعظم کو قرآن میں   چھپا دیا۔ ‘‘ 

٭… ’’ کَتَمَ لِیْلَۃَ الْقَدْرِ فِیْ شَھْرِ رَمَضَانَ یعنی شب قدر کو رمضان میں   چھپا دیا۔ ‘‘ 

٭… ’’ کَتَمَ الصَّلَاۃَ الْوُسْطٰی فِی الصَّلَوَاتِ یعنی درمیانی نماز کو دیگر نمازوں   میں   چھپا دیا۔ ‘‘ 

٭… ’’ کَتَمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ فِی الْاَیَّامِ یعنی یوم قیامت کو دیگر ایام میں   چھپا دیا۔ ‘‘ (المنبھات ،  ص۷۱۔)


فاروقِ اعظم نے سب کچھ دیکھا لیکن۔۔۔:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ارشاد فرماتے ہیں  :

٭… ’’ رَاَیْتُ جَمِیْعَ الْاَخِلَّاءِ فَلَمْ اَرَ خَلِیْلًا اَفْضَلَ مِنْ حِفْظِ اللِّسَانِ یعنی میں   نے تمام دوست دیکھے لیکن زبان کی حفاظت سے افضل کسی کو نہ پایا۔ ‘‘ 

٭… ’’ رَاَیْتُ جَمِیْعَ اللِّبَاسِ فَلَمْ اَرَ لِبَاسًا اَفْضَلَ مِنَ الْوَرْعِ یعنی میں   نے تمام لباس دیکھے لیکن تقوے کے لباس سے زیادہ افضل کوئی نہ پایا۔ ‘‘ 

٭… ’’ رَاَیْتُ جَمِیْعَ الْمَالِ فَلَمْ اَرَ مَالًا اَفْضَلَ مِنَ الْقَنَاعَۃِیعنی میں   نے تمام مال دیکھے لیکن مال قناعت سے زیادہ افضل کسی کو نہ پایا۔ ‘‘ 

٭… ’’ رَاَیْتُ جَمِیْعَ الْبِرِّ فَلَمْ اَرَ بِرًّا اَفْضَلَ مِنَ النَّصِیْحَۃِیعنی میں   نے تمام نیکیاں   دیکھی لیکن نصیحت سے زیادہ افضل کسی نیکی کو نہ پایا۔ ‘‘ 

٭… ’’ رَاَیْتُ جَمِیْعَ الْاَطْعِمَۃِ فَلَمْ اَرَ طَعَامًا اَلَذَّ مِنَ الصَّبْرِیعنی میں   نے تمام کھانے دیکھے لیکن صبر سے زیادہ لذیذ کھانا کوئی نہ پایا۔ ‘‘ (المنبھات ،  ص۶۵۔)

مصیبت کے وقت فاروقِ اعظم کی چارنعمتیں  :

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ارشاد فرماتے ہیں  :  ’’  مَا ابْتَلَیْتُ بِبَلْیَۃٍ اِلَّا وَکَانَ لِلّٰہِ تَعَالٰی عَلَیَّ فِیْھَا اَرْبَعُ نِعَمٍیعنی  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی قسم! میں   جب بھی کسی مصیبت میں   مبتلا ہو تا ہوں   اس وقت بھی مجھ پر  اللہ عَزَّ وَجَلَّکی ان چار نعمتوں   کا نزول ہو تاہے: ٭ ’’ اس مصیبت کے سبب فی الوقت میں   گناہ میں   مبتلا نہیں   ہوتا۔ ‘‘  ٭ ’’ اس مصیبت کے وقت مجھ پر اس سے بڑی کوئی مصیبت نازل نہ ہوئی۔ ‘‘  ٭ ’’ اس مصیبت کے وقت میں   اس پر راضی ہوتا ہوں  ۔ ‘‘  ٭ ’’ اس مصیبت کے وقت مجھے اس پر ثواب کی امید ہوتی ہے۔ ‘‘ (فیض القدیر ،  حرف الھمزۃ ،  ج۲ ،  ص۱۶۹ ،  تحت الحدیث:  ۱۵۰۶۔)

تم برابر بھلائی پر رہو گے:

حضرت سیِّدُنا ابن معاویہ کندی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی سے روایت ہے فرماتے ہیں   میں   ملک شام میں   امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں   حاضر ہوا تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مجھ سے لوگوں   کی کیفیت کے متعلق پوچھااور پھر خود ہی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے فرمانے لگے:   ’’  شاید لوگوں   کی یہ کیفیت ہوگی کہ بدکے ہوئے اونٹ کی طرح مسجدمیں   آتےہوں   گے اورمسجد میں   اپنی قوم یا جان پہچان کے لوگوں   کو مجلس میں   دیکھ کر ان کے ساتھ بیٹھ جاتے ہوں   گے۔ ‘‘   میں   نے عرض کیا:  ’’ نہیں   حضور! ایسی کیفیت نہیں   ہے ،  البتہ ان کی مختلف مجلسیں   منعقد ہوتی ہیں   لوگ بھلائی سیکھتے سکھاتے ہیں  ۔ ‘‘   فرمایا:   ’’ لَنْ تَزَالُوْا بِخَيْرٍ مَّا كُنْتُمْ كَذٰلِكَیعنی جب تک تمہاری یہ صورت رہے گی تم برابر بھلائی پر رہو گے۔ ‘‘ (کنزالعمال ،  کتاب العلم ،  باب فی فضلہ والتحریص ،   الجزء: ۱۰ ،  ج۵ ،  ص۱۱۲ ،  حدیث: ۲۹۳۴۴۔)


فاروقِ اعظم کی زندگی کی بہترین چیز:

            امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:  ’’ وَجَدْنَا خَيْرَ عَيْشِنَا بِالصَّبْرِ یعنی ہم نے اپنی بہترین زندگی صبر کے ساتھ پائی ہے۔ ‘‘(بخاری ،  کتاب الرقاق ،  باب الصبر عن محام اللہ ،  ج۴ ،  ص۲۳۹ ،  تحت الباب: ۲۰۔)

چار 7 فرامین فاروقی :

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:

٭… ’’ كُوْنُوْا اَوْعِيَةَ الْكِتَابِ وَيَنَابِيْعَ الْعِلْمِ یعنی قرآن کے حافظ اور علم کے چشمے بن جاؤ ۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَعُدُّوْا اَنْفُسَكُمْ مِنَ الْمَوْتٰىاپنے آپ کو مُردوں   میں   شمار کرو ۔ ‘‘ 

٭… ’’  وَاسْاَلُوْا اللہَ رِزْقَ يَوْمٍ بِيَوْمٍ اور اللہ عَزَّ وَجَلَّسے ہر دن نیا رزق مانگو ۔ ‘‘ 

٭… ’’ وَلَا يَضُرُّكُمْ اَنْ يَكْثُرَ لَكُمْاوراگر(وہ رزق رب تعالی کی طرف سے) تمہیں   زیادہ مل جائے تو تمہیں   نقصان نہیں   دے گا۔ ‘‘  (الزھد للامام احمد ،  زھد عمر بن الخطاب ،  ص۱۴۸ ،  الرقم:  ۶۳۲۔)

٭… ’’ حُسْنُ التَّوَدُّدِ اِلَی النَّاسِ نِصْفُ الْعَقْلِ یعنی لوگوں   سے حسن اخلاق سے پیش آنا نصف عقل ہے۔ ‘‘ 

٭… ’’ حُسْنُ السُّوَالِ نِصْفُ الْعِلْمِ یعنی اچھے طریقے سے سوال کرنا آدھا علم ہے۔ ‘‘ 

٭… ’’ حُسْنُ التَّدْبِیْرِ نِصْفُ الْمَعِیْشَۃِ یعنی اچھی تدبیر اختیار کرنا آدھی معیشت ہے۔ ‘‘ (المنبھات ،  ص۹۔)


خلیفہ بننے کے بعد فاروق اعظم کا پہلا خطبہ:

حضر ت سیِّدُنا امام شعبی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ خلیفہ بننے کے بعد منبر پر جلوہ افروز ہوئےاور خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: ٭ ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے اس بات کی ہمت نہ دے کہ میں   اپنے آپ کو حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی نشست کا اہل سمجھوں  ۔ ‘‘  پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ایک درجہ نیچے تشریف لے آئے ،    اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی حمد وثنا بیان کی اور ارشاد فرمایا: ٭ ’’ قرآن پڑھتے رہو تمہیں   اس کی معرفت حاصل ہو جائے گی۔ ‘‘  ٭ ’’ اور قرآن پر عمل کرتے رہو اہل قرآن بن جاؤ گے۔ ‘‘  ٭ ’’ اور اپنے نفس کا محاسبہ کرتے رہو قبل اس سے کہ تمہارے اعمال کا محاسبہ کیا جائے۔ ‘‘  ٭ ’’ اور قیامت کے اس دن کے لیے تیار رہو جس دن تم  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں   پیش کیے جاؤ گے اور تم میں   سے کوئی بھی اس پر مخفی نہیں   ہوگا۔ ‘‘  ٭ ’’ کوئی بھی شخص  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی نافرمانی میں   کسی کی اطاعت کرکے حقدار کا حق ادا نہیں   کرسکتا۔ ‘‘  ٭ ’’ اور غور سے سن لو! میں    اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے مال کے معاملے میں   اپنے آپ کو یتیم کے ولی کی جگہ رکھتا ہوں  ۔ ‘‘  ٭ ’’ اگر میں   بذات خود مالدار ہوا تو اس مال سے دور رہوں   گا اور اگر مالدار نہ ہوا تو جائز طریقے سے اس میں   سے کھاؤں   گا۔ ‘‘ (المجالسۃ و جواھر العلم ، الجزء التاسع ، ج۲ ، ص۴۷ ، الرقم: ۱۲۹۱۔)

فاروقِ اعظم سے منقول دعائیں 

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! اللہ رَبُّ الْعِزَّتْ سے مناجات کرنے ،  اس کا قرب حاصل کرنے ،  اس کے فضل وانعام کے مستحق ہونے اور بخشش و مغفرت کا پروانہ حاصل کرنے کا نہایت آسان اورمجرب ذریعہ دُعا ہے۔دُعا مانگنا ہمارے پیارے آقا ،  حضور نبی ٔکریم ،  رَ ء ُوفٌ رَّحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی سنت مبارکہ ،   اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے پیارے بندوں   کی متواترعادت ،  درحقیقت عبادت بلکہ مغزِ عبادت اورگنہگار بندوں   کے حق میں    اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی طرف سے ایک بہت بڑی نعمت اور عظیم سعادت ہے۔ بعض حضرات دعا کی قبولیت کے شاکی ہوتے ہیں   کہ ہماری دعائیں   قبول نہیں   ہوتیں   ،  لہٰذا قبولیت دعاکی شرائط سے متعلق سورۂ مومن کی آیت نمبر۶۰کے تحت صدر الافاضل ،  مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی  عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْہَادِی کی بیان کردہ تفسیرسے ایک نہایت جامع اقتباس ملاحظہ فرمائیں  :

 ’’ اللہ تعالٰی بندوں   کی دعائیں   اپنی رحمت سے قبول فرماتا ہے اور ان کے قبول کے لیے چند شرطیں   ہیں  : (۱) ایک اخلاص دعا میں  (۲) دوسرے یہ کہ قلب (دل)غیر کی طرف مشغول نہ ہو (۳)تیسرے یہ کہ وہ دعا کسی امرِ ممنوع پر مشتمل نہ ہو (۴)چوتھے یہ کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت پر یقین رکھتا ہو (۵)پانچویں   یہ کہ شکایت نہ کرے کہ میں   نے دعا مانگی قبول نہ ہوئی۔ جب ان شرطوں   سے دعا کی جاتی ہے ،  قبول ہوتی ہے۔ حدیث شریف میں   ہے کہ ’’  دعا کرنے والے کی دعا قبول ہوتی ہے۔ ‘‘   یا تو اس کی مراد دنیا ہی میں   اس کو جلد دے دی جاتی ہے یا آخرت میں   اس کے لیے ذخیرہ ہوتی ہے یااس سے اس کے گناہوں   کا کفارہ کردیا جاتا ہے۔ ‘‘ (خزائن العرفان ،  پ۲۴ ،  المومن ،  تحت الآیۃ: ۶۰۔)

واضح رہے کہ دعا مانگنے کا کوئی وقت مخصوص نہیں   ،  نماز سے پہلے دعا مانگنا بھی جائز تو بعد میں   مانگنا بھی جائز ،  فرض نماز کے بعد بھی جائز ،  نفل نماز کے بعد بھی جائز ،  ایک بار دعا مانگنے کے بعد دوبارہ دعا مانگنا بھی جائز ہے۔یہی وجہ ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی مختلف مواقع پر مختلف دعائیں   مذکور ہیں   ،  سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی چند دعائیں   ملاحظہ کیجئے:

(1)نرمی ،  طاقت اور سخاوت کی دعا:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے خلیفۂ اَوّل حضرت سیِّدُنا ابوبکر صدیق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے وصال کے بعد عوام النا س کے سامنے پہلا طویل خطبہ ارشاد فرمایا ،  اور پھر آخر میں   یوں   دعا کی:

٭… اَللّٰہُمَّ  اِنِّیْ  غَلِیْظٌ فَلَیِّنِیْ  یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں   سخت طبیعت کا مالک ہوں   ،  مجھے نرم فرمادے۔

٭… اَللّٰہُمَّ   اِنِّیْ  ضَعِیْفٌ  فَقَوِّنِیْ یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں   کمزور ہوں   مجھے طاقت عطا فرما۔

٭… اَللّٰھُمَّ اِنِّیْ بَخِیْلٌ فَسَخِّنِیْ  یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں   کم خرچ کرنے والا ہوں   مجھے سخی بنادے۔ ‘‘ (طبقات کبری ،  ذکر استخلاف عمر ،  ج۳ ،  ص۲۰۸۔مصنف ابن ابی شیبہ ،  کتاب الدعاء ،  ما ذکر عن ۔۔۔الخ ،  ج۷ ،  ص۸۱ ،  حدیث: ۲۔)

(2)مدینہ منورہ میں   شہادت کی دعا:

حضرت سیِّدُنا زید بن اسلم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ اپنے والد گرامی حضرت سیِّدُنا اسلم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت کرتے ہیں  کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ مدینہ منورہ میں   وفات کی یوں   دعا کیا کرتے تھے:   ’’ اللّٰھُمَّ ارْزُقْنَاشَھَادَۃً فِیْ سَبِیْلِكَ وَاجْعَلْ مَوْتِیْ فِیْ بَلَدِ رَسُولِكَ صَلَّی اللّٰهہُ  عَلَیْہِ  وَسَلَّمَ یعنی اے   اللہ عَزَّوَجَلَّ! مجھے اپنی راہ میں   شہادت اور اپنے محبوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے شہر میں   موت عطا فرما۔ ‘‘ (بخاری ،  کتاب فضائل المدینۃ ،  باب کراھیۃ النبی۔۔۔الخ ،  ج۱ ،  ص۶۲۲ ،  حدیث: ۱۸۹۰۔)

(3)نیک لوگوں   کے ساتھ وفات کی دعا:

حضرت سیِّدُنا عمرو بن میمون ازدی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی سے مروی ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ جب دعا مانگا کرتے تو یوں   ارشاد فرماتے:  ’’ اَللّٰہُمَّ تَوَفَّنِیْ مَعَ الْاَبْرَارِوَلَاتُخَلِّفْنِیْ فِیْ الْاَشْرَارِ وَقِنِیْ عَذَابَ النَّارِ وَاَلْحِقْنِیْ بِالْاَخْيیَارِاے اللہ عَزَّ وَجَلَّ!مجھے نیک لوگوں   کے ساتھ وفات دے ،  مجھے شریر لوگوں   میں   باقی نہ رکھ ،  مجھے جہنم سے بچا کر نیک لوگوں   کے ساتھ ملادے۔ ‘‘ (الادب المفرد ،  باب: ۲۷۹ ،  ص۱۶۴ ،  حدیث: ۶۲۹۔)

(4) لباس پہننے کی دعا:

حضرت سیِّدُنا ابوامامہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ  فرماتے ہیں   کہ امیر المومنین حضرت سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اپنی نئی قمیص زیب تن فرمائی ۔میرا گمان ہے کہ انہوں   نے قمیص گلے میں   ڈالنے سے پہلے یہ دعا پڑھی :  ’’ اَلْحَمْدُ لِلہِ الَّذِیْ کَسَانِیْ مَا اُوَارِیْ بِہِ عَوْرَتِیْ وَاَتَجَمَّلُ بِہِ فِیْ حَیَاتِیْ یعنی تما م تعریفیں   اس اللہ عَزَّ وَجَلَّکے لیے ہیں   کہ جس نے مجھے وہ لباس پہنایا جس سے میں   ستر پوشی کرتا ہوں   اور اس سے اپنی زندگی میں   زینت حاصل کرتاہوں  ۔ ‘‘ 

پھر ارشاد فرمایا کہ ’’  میں   نے اللہ عَزَّ وَجَلَّکے محبوب ،  دانائے غُیوب صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم  کو یہ فرماتےسنا:  ’’ جو نیا لباس پہنے اور یوں   کہے: الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِي كَسَانِي مَا اُوَارِي بِهِ عَوْرَتِي وَاَتَجَمَّلُ بِهِ فِي حَيَاتِي یعنی تما م تعریفیں   اس خدا کیلئے جس نے مجھے پہنایا اورمیرے ستر کو ڈھانپا اوراس سے میں   اپنی زندگی میں   زینت حاصل کرتاہوں  ۔اور پھر پرانا ہونے پر اس لباس کو صدقہ کردے تو وہ اپنی زندگی میں   بھی اور مرنے کے بعد بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی پناہ و امان میں   رہے گا۔ ‘‘ (  ابن ماجہ ،  کتاب اللباس ،  باب ما یقول الرجل۔۔۔الخ ،  ج۴ ،  ص۱۴۲ ،  حدیث: ۳۵۵۷۔ ترمذی ،  احادیث شتی ،  باب من ابواب الدعوات ،  ج۵ ،  ص۳۲۷ ،  حدیث: ۳۵۷۱۔)

(5)صلاۃ اللیل سے پہلے اور بعد کی دعا:

            امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فارو ق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ جب صلاۃ اللیل کے لیے کھڑے ہوتے تو بارگاہِ الٰہی میں   یوں   دعا کرتے:  ’’ قَدْ تَرَى مَقَامِیْ وَتَعْلَمُ حَاجَتِیْ فَارْجِعْنِیْ مِنْ عِنْدِكَ یَااللہُ بِحَاجَتِیْ مُفَلَّجًا مُنَجَّحًا مُسْتَجِیْبًا مُسْتَجَابًا لِیْ ،  قَدْ غَفَرْتَ لِیْ وَرَحِمْتَنِیْیعنی یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! بلا شبہ تو میری حیثیت سے بخوبی آگاہ ہے اور میری حاجت کو بھی جانتا ہے ،  لہٰذا تو مجھے اپنی بارگاہ سے میری حاجت پوری فرما اس حال میں   کہ میں   بکھرچکا   ہوں   ،  تیری عطا سے اپنی حاجتیں   پانے والا ہوں   ،  تیری بارگاہ سے مانگنے والا اور پانے والا ہوں   ،  تو میری مغفرت فرما اور مجھ پر رحم فرما۔ ‘‘ 

اورجب صلاۃ اللیل سے فارغ ہوتے تو بارگاہِ الٰہی میں   یوں   دعا کرتے:  ’’ اَللّٰہُمَّ لاَ اَرَى شَیْئًا مِنَ الدُّنْیَایَدُوْمُ  ،  وَلَا اَرَى حَالاً فِیْھَایَسْتَقِیْمُ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ اَنْطِقُ فِیْھَا بِعِلْمٍ وَاَصْمُتُ بِحُكْمٍ اَللّٰہُمَّ لاَ تُكْثِرْ لِیْ مِنَ الدُّنْیَا  فَاَطْغَى  ،  وَلَا تُقِلَّ لِیْ مِنْھَافَاَنْسٰی ،  فَاِنَّہُ مَا قَلَّ وَكَفَى خَیْرٌ مِمَّا كَثُرَ وَاَلْہٰییعنی یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں   دنیا کی کسی شے کو دائمی نہیں   سمجھتا اور نہ ہی دنیاوی حالت کو یکساں   سمجھتاہوں   ،  یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے علمی گفتگو کرنے ،  حکم شریعت پر خاموشی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرما ،  یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھ پر دنیا کی کثرت نہ فرما کہ میں   گمراہ ہوجاؤں   ،  نہ ہی قلت فرماکہ تجھے بھول جاؤں   کیونکہ بقدر کفایت رزق غافل کردینے والے کثیر رزق سے کئی گنابہتر ہے۔(مصنف ابن ابی شیبہ ،  کتاب الدعاء ،  باب ما ذکر عن ابی بکر وعمر ،  ج۷ ،  ص۸۲ ،  حدیث: ۷۔)

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ دورانِ طواف اکثر ایک ہی دعا پڑھا کرتے تھے البتہ بعض اَوقات اُس میں   تبدیلی بھی کردیا کرتے تھے۔ آپ  کی دو دعائیں   یہ ہیں  :

(6)طواف کرتے وقت کی دعا:

حضرت سیِّدُنا ابن ابی نجیح رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ ،  حضرت سیِّدُنا عبد الرحمن بن عوف رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ دوران طواف اکثر یہ دعا مانگا کرتے تھے:  ’’ رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِیعنی اے ہمارے رب عَزَّ وَجَلَّ! ہمیں   دنیا میں   بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں   بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں   جہنم کے عذاب سے بچا۔ ‘‘ (اخبار مکۃ  ،  ج۱ ،  ص۲۳۰ ،  الرقم: ۴۲۰۔ کتاب الدعا للطبرانی ،  جامع ابواب الحج ،  القول فی الطواف ،  ص۲۶۹ ،  حدیث: ۸۵۷۔)

(7)طواف کرتے وقت کی ایک اوردعا:

حضرت سیِّدُنا ابو سعید بصری عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ دوران طواف یہ دعا پڑھ رہے تھے:  ’’ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ لَہُ الْمُلْكُ وَلَہُ الْحَمْدُ وَہُوَ عَلٰی كُلِّ شَیْءٍ قَدِیْرٌ  رَبَّنَا آتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَفِی الْآخِرَۃِ حَسَنَۃً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِیعنی  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں   ،  وہ اکیلا ہے ،  اس کا کوئی شریک نہیں   ،  اسی کے لیے بادشاہی ہے اور اسی کے لیے تمام تعریفیں   ہیں   اور وہ ہرچیز پر قادرہے ،  اے ہمارے رب عَزَّ وَجَلَّ! ہمیں   دنیا میں   بھی بھلائی عطا فرما اور آخرت میں   بھی بھلائی عطا فرما اور ہمیں   جہنم کے عذاب سے بچا۔ ‘‘  (کنزالعمال ،  کتاب الحج والعمرۃ ،  ادعیتہ ،  الجزء: ۵ ،  ج۳ ،  ص۶۷ ،  حدیث: ۱۲۴۹۸۔)

(8)خواہشات قلبی سےنجات و رِزق میں   برکت کی دعا:

حضرت سیِّدُنا حسان بن فائد عبسی رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ یہ دعا مانگا کرتے تھے:

٭… ’’ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْ غِنَائیْ  فِی قَلْبِیْ وَرَغْبَتِیْ فِیْمَا عِنْدَكَ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے دل کی تونگری نصیب فرما اور جو تیرے پاس ہے اس میں   رغبت عطا فرما۔

٭… وَبَارِكْ لِیْ فیْمَا رَزَقْتَنِیْ وَاَغْنِنِیْ عَمَّا حَرَّمْتَ عَلَیَّ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میرے رزق میں   برکت عطا فرما اور حرام کردہ چیزوں   سے دو ر رہنے کی توفیق عطا فرما۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ،  کتاب الدعاء ،  باب ما ذکر عن ابی بکر وعمر ،  ج۷ ،  ص۸۱ ،  حدیث: ۳۔)

(9) نمازِ جنازہ کے بعد کی دعا:

حضرت سیِّدُنا سعید بن مسیب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک شخص کی نماز جنازہ ادا کرنے کے بعد اس کے لیے یوں   دعا فرمائی:

٭ ’’ اَللّٰھُمَّ اَصْبَحَ عَبْدُكَ ہٰذَا قَدْ تَخَلَّی مِنَ الدُّنْیَا وَتَرَكَھَالِاَھْلِھَا وَ اسْتَغْنَیْتَ عَنْہُ وَافْتَقَرَ اِلَیْکَ یعنی یا اللہ عَزَّ وَجَلَّ!تیرے اس بندے نے اس حال میں   صبح کی ہے کہ یہ دنیا کے مال ومتاع سے خالی ہے اور اس نے دنیا کو اپنے اہل کے لیے چھوڑ دیا ہے اور یہ صرف تیرا ہی محتاج ہے حالانکہ تو اِس سے بے پرواہ ہے۔ ‘‘ 

٭ ’’ كَانَ یَشْھَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُكَ وَرَسُوْلُكَیعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! تیرا یہ بندہ گواہی دیتا تھا کہ  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کے سوا کوئی معبود نہیں   اور محمد صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم تیرے بندے اور تیرے رسول ہیں  ۔ ‘‘ 

٭ ’’ اَللّٰہُمَّ اغْفِرْ لَہُ وَتَجَاوِزْ عَنْہُ وَالْحِقْہُ بِنَبِیِّہٖ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! اس کی مغفرت فرما اور اس کے گناہوں   سے درگزر فرما اور اسے اپنے نبی کریم رؤف رحیم صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کے ساتھ ملحق فرما۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ،  کتاب الدعا ،  ما یدعی بہ فی الصلاۃ علی الجنائز ،  ج۷ ،  ص۱۲۶ ،  حدیث: ۶۔

                                                کنزالعمال ،  کتاب الموت ،  صلاۃ الجنائز ،  الجزء:  ۱۵ ،  ج۸ ،  ص۲۹۹ ،  حدیث:  ۴۲۸۱۷)

(10) گناہوں   کی معافی کی دعا:

حضرت سیِّدُنا رکین رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  اپنے والد سے روایت کرتے ہیں   کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ یوں   دعا مانگا کرتے تھے:

٭… ’’ اَللّٰہُمَّ اَسْتَغْفِرُك لِذَنْبِیْ اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں   تجھ سے اپنے گناہوں   کی معافی چاہتاہوں  ۔ ‘‘ 

٭… ’’  وَاَسْتَھْدِیْکَ لِمَرَاشِدِ اَمْرِیْتجھ سے اپنے معاملات میں   ہدایت طلب کرتاہوں  ۔ ‘‘ 

٭…  ’’ وَاَتُوبُ اِلَیْکَ فَتُبْ عَلَیَّ انَّك اَنْتَ رَبِّی اور تیری بارگاہ میں   توبہ کرتاہوں    ،  تو میری توبہ کو قبول فرما ، بے شک تو ہی تو میرا رب ہے۔ ‘‘ 

٭… ’’ اَللّٰھُمَّ فَاجْعَلْ رَغْبَتِیْ اِلَیْکَ  وَاجْعَلْ غِنَاِئیْ فِیْ صَدْرِیْاے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! مجھے تجھ سے لو لگانے کی توفیق عطا فرما ،  مجھے غنائے قلبی عطا فرما۔ ‘‘ 

٭…  ’’ وَبَارِكْ لِیْ فِیْمَا رَزَقْتَنِیْ  وَتَقَبَّلْ مِنِّیْ اِنَّكَ اَنْتَ رِبِّیاور جو تونے مجھے رزق دیا ہے اس میں   برکت عطا فرمااور میری دعا قبول فرما کیونکہ تو ہی تو میرا رب ہے۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ،  کتاب الدعاء ،  ما یقال فی دبر الصلوات ،  ج۷ ،  ص۳۹ ،  حدیث: ۱۷۔)

(11)عافیت ودرگزرکی دعا:

حضرت سیِّدُنا ابو العالیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ   فرماتے ہیں   کہ میں   نے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہکو یوں   دعا کرتے سنا:  ’’ اَللّٰہُمَّ عَافِنَا وَاعْفُ عَنَّا یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! ہمیں   عافیت عطا فرما اور ہم سے درگزر فرما۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ،  کتاب الدعاء ،  باب ما ذکر عن ابی بکر وعمر ،  ج۷ ،  ص۸۱ ،  حدیث: ۶۔)

(12)غفلت سے پناہ کی دعا:

حضرت سیِّدُنا سلیم بن حنظلہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سے روایت ہے کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ یوں   دعا مانگا کرتے تھے:  ’’ اَللّٰہُمَّ انِّیْ اَعُوذُ بِكَ اَنْ تَاْخُذَنِیْ عَلٰی غِرَّۃٍ اَوْ تَذَرَنِیْ فِیْ غَفْلَۃٍ اَوْ تَجْعَلَنِیْ مِنَ الْغَافِلِیْنَ یعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ! میں   تیری پناہ مانگتا ہوں   کہ تو میری نافرمانی پر پکڑ فرما ،  یا مجھے غفلت میں   چھوڑ دے یا مجھے غافل کردے۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ،  کتاب الدعاء ،  باب ما ذکر عن ابی بکر وعمر ،  ج۷ ،  ص۸۲ ،  حدیث: ۸۔)

قلیل لوگوں   میں   سے بنائے جانے کی دعا:

حضرت سیِّدُنا اِبراہیم تیمی عَلَیْہِ رَحمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی سے روایت ہے کہ ایک شخص نے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کے پاس یوں   دعا مانگی:  ’’ اَللّٰہُمَّ اجْعَلْنِیْ مِنَ الْقَلِیْلِیعنی اے اللہ عَزَّ وَجَلَّ مجھے قلیل (تھوڑے) لوگوں   میں   سے بنادے۔ ‘‘  سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے ارشاد فرمایا:   ’’ مَا هَذَا الَّذِي تَدْعُو بِهِ ؟ یہ کس طرح کی دعا مانگ رہے ہو؟ اس نے عرض کیا:  ’’ انِّي سَمِعْت اللَّهَ يَقُولُ وَقَلِيلٌ مِنْ عِبَادِي الشَّكُورُ فَاَنَا اَدْعُو اَنْ يَجْعَلَنِي مِنْ اُولَئِكَ الْقَلِيلِیعنی میں   نے  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کا یہ ارشاد سنا ہے:  (وَ قَلِیْلٌ مِّنْ عِبَادِیَ الشَّكُوْرُ(۱۳)) (پ۲۲ ،  السبا: ۱۳)  ترجمۂ کنزالایمان:   ’’ اور میرے بندوں   میں   کم ہیں   شکر والے ۔ ‘‘   اسی لیے میں   یہ دعا مانگ رہا ہوں   کہ مجھے ان ہی قلیل لوگوں   میں   سے بناد ے۔ ‘‘   امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بصد عاجزی کرتے ہوئے ارشاد فرمانے لگے:   ’’ كُلُّ النَّاسِ اَعْلَمُ مِنْ عُمَرَ یعنی سارے ہی لوگ عمر سے زیادہ جانتے ہیں۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ،  کتاب الدعاء ،  باب ما ذکر عن ابی بکر وعمر ،  ج۷ ،  ص۸۱ ،  حدیث: ۵۔)


فاروقِ اعظم کی وصیتیں 

نصیحت عبرت دلانے والی بات یا اس بات کو کہتے ہیں   جس میں   کوئی نیک مشورہ شامل ہو ،  جبکہ سفر کو جاتے وقت یا زندگی کے آخری لمحات میں   جو باتیں   کی جاتی ہیں   وہ وصیت کہلاتی ہیں  ۔ عوام الناس عموماً وصیت اُن ہی باتوں   کو سمجھتے ہیں   جو زندگی کے آخری لمحات میں   کی جائیں   جبکہ ایسا نہیں   ہے ،  بلکہ وصیت اُن باتوں   کو بھی کہتے ہیں   جو عام زندگی میں   اِس انداز میں   کی جائیں   کہ گویا آخری دم تک اُن پر عمل کرنا ضروری ہے ،  یا وہ باتیں   جن پر عمل کے بغیر کوئی چارہ نہ ہو ،  یا وہ جو کسی کی زندگی کے تجربات کا نچوڑ ہوں   ،  یا وہ کلام اور گفتگو جو فکر آخرت پر مشتمل ہوں   ان پر بھی وصیت کا اطلاق ہوتاہے۔ بہرحال کسی شخص کی وصیتیں   وہی باتیں   ہوتی ہیں   جن پر عمل کرنے میں   کم از کم اس کے نزدیک فائدہ ہی فائدہ ہوتا ہے ، نیز وہ اُن پر عمل کو ضروری سمجھتا ہے۔ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے مختلف لوگوں   کو مختلف مواقع پر کئی وصیتیں   فرمائیں   ،  جو اصلاح کے بے شمار مدنی پھولوں   پر مشتمل ہیں  ۔چند وصیتیں   ملاحظہ کیجئے۔

9  نکات   پرمشتمل نصیحت آموز وصیتوں   کا  فاروقی مجموعہ:

حضرت سیِّدُنا حسن رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سے روایت ہے کہ ایک شخص امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ کی خدمت میں   حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا:  ’’ اےامیر المؤمنین! میں   دیہات کا رہنے والا ہوں   اور میری بہت مصروفیات ہیں   ،  آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ مجھے پختہ اور واضح وصیتیں   کیجئے۔ ‘‘  سیِّدُنا فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:   ’’  ہمیشہ عقلمندی سے کام لو ۔ ‘‘   پھر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے اس کا ہاتھ پکڑ کر وصیتیں   کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:

٭ ’’ اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراؤ ۔ ‘‘  ٭ ’’ اور نماز ادا کرتے رہو۔ ‘‘  ٭ ’’ اور فرض زکوۃ ادا کرتے رہو۔ ‘‘  ٭ ’’ اور حج وعمرہ کرتے رہو ۔ ‘‘  ٭ ’’ اور اپنے امیر کی اطاعت بجالاؤ ۔ ‘‘  ٭ ’’ اور مسلمانوں   کے بالکل واضح طریقے پر چلنا تجھ پر لازم ہے۔ ‘‘  ٭ ’’ اور ایسے خفیہ طریقے پر چلنے سے بچ جسے مسلمان جانتے ہی نہ ہو۔ ‘‘  ٭ ’’ اور ہراس چیز کو اپنے اوپر لازم کرلو جسے بیان کرنے اور پھیلانے میں   تمہیں   شرم محسوس نہ ہواور نہ ہی وہ تمہیں   رسوا کرے۔ ‘‘  ٭ ’’ اور ہر ایسی چیز سے بچو جسے بیان کرنے اور پھیلانے میں   تمہیں   شرم محسوس ہواور وہ تمہیں   رسوا کر دے۔ ‘‘  یہ تمام وصیتیں   سن کر اس بدوی نے بارگاہِ فاروقی میں   عرض کیا:   ’’ يَا اَمِيْرَ الْمُؤْمِنِيْنَ! اَعْمَلُ بِهِنَّ ،  فَاِذَا لَقَيْتُ رَبِّيْ اَقُوْلُ اَخْبَرَنِيْ بِهِنَّ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ یعنی اے امیر المؤمنین میں   ان امور پر ہمیشہ عمل کرتارہوں   گا اور جب رب تعالی سے میری ملاقات ہوگی تو میں   عرض کروں   گا کہ یااللہ عَزَّ وَجَلَّ! یہ سب باتیں   مجھے امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے سکھائی تھیں  ۔ ‘‘   یہ سن کر آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:   ’’ خُذْهُنَّ فَاِذَا لَقَيْتَ رَبَّكَ فَقُلْ لَّهُ مَا بَدَاَ لَكَیعنی ان نصیحتوں   کو پہلے اپنے پلے سے باندھ لو پھر جب رب سے ملاقات کرو تو وہاں   جو چاہے عرض کردینا۔ ‘‘ (تاریخ ابن عساکر ،  ج۴۴ ، ص۳۵۸۔)

فاروقِ اعظم کی تقوے کی وصیت:

حضرت سیِّدُنا سماک بن حرب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہ  سے روایت کہ امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے رسول اللہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَا لٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمکے کھڑے ہونے کی جگہ سے دو سیڑھی نیچے منبر پر کھڑے ہوکر ارشاد فرمایا:   ’’ اُوْصِيْكُمْ بِتَقْوَى اللہِ وَ اسْمَعُوْا وَاَطِيْعُوْا لِمَنْ وَلَّاهُ اللہُ اَمْرَكُمْ یعنی میں   تمہیں   تقوے کی وصیت کرتاہوں   ،    اللہ عَزَّ وَجَلَّ نے جسے تمہارا حکمران بنایا ہے اس کی بات سنو اور اس کی اطاعت کرو۔ ‘‘ (کنزالعمال ،  کتاب المواعظ ،  خطب عمر ومواعظہ ،  الجزء: ۱۶ ،  ج۸ ،  ص۶۶ ،  حدیث:  ۴۴۱۹۰۔)

خلوت میں   اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرنے کی وصیت:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے ارشاد فرمایا:   ’’ اُوْصِيْكُمْ بِاللّٰهِ اِذًا بِاللّٰہِ خَلَوْتُمْیعنی میں   تمہیں    تنہائی میں   بھی اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرنے کی وصیت کرتاہوں   ۔ ‘‘ (شعب الایما ن للبیھقی ، باب فی اخلاص العمل ۔۔۔الخ ، ج۵ ، ص۳۲۸ ، حدیث: ۶۸۱۰ ۔)

نیک لوگوں   کو اپنا دوست بنانے کی وصیت:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے نصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:   ’’ اِعْتَزِلْ مَا يُؤْذِيْكَ وَعَلَيْكَ بِالْخَلِيْلِ الصَّالِحِ وَقَلَّمَا  تَجِدْهُ وَشَاوِرْ فِيْ اَمْرِكَ الَّذِيْنَ يَخَافُوْنَ اللہ یعنی جو چیز تمہیں   اذیت پہنچائے اس سےدور رہو ،  نیک  ، صالح شخص کو اپنا دوست بناؤ اوریہ تمہیں   کم ہی ملیں   گے۔اور جو لوگ  اللہ عَزَّ وَجَلَّ سے ڈرتے ہیں   اُن سے مشاورت کرو۔ ‘‘ (شعب الایمان للبیھقی ،  باب فی مباعدۃ الکفار۔۔۔الخ ،  مجانبۃ الفسقۃ والمبتدعۃ ،  ج۷ ،  ص۵۶ ،  حدیث: ۹۴۴۲ ۔)

برائی سرزد ہوجائے تو اچھائی کرلو:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ایک شخص کو وعظ ونصیحت کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:  

٭ ’’ لوگوں   سے ہردم ہوشیار رہو کہ وہ کہیں   تمہیں   ہلاکت میں   نہ ڈال دیں   کیونکہ تمہارا معاملہ تمہاری ہی طرف لوٹےگا نہ کہ ان کی طرف ۔ ‘‘  ٭ ’’ اور صرف چلتے چلتے دن کو مت ختم کردو چونکہ دن میں   تم جو عمل بھی کرو گے وہ تمہارے اوپر محفوظ رہے گا۔ ‘‘  ٭ ’’ اور جب تم سے برائی سرزد ہو جائے تو اس کے بعد اچھائی بھی کرو۔ ‘‘  ٭ ’’ کیونکہ میرے نزدیک پرانے گناہ کو مٹانے کے لیے جو نیکی کی جائے اس سے بڑھ کر کوئی ایسی چیز نہیں   ہے جس کی شدید طلب کی جائے یا اس کے حصول میں   جلدی کی جائے۔ ‘‘ (المجالسۃ وجواھر العلم ،  الجزء الثالث عشر ،  ج۲ ،  ص۲۲۴ ،  حدیث: ۱۸۹۵۔)

 نفسوں   کا محاسبہ کرو:

ایک بار امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بطور نصیحت ارشاد فرمایا:  ٭  ’’ حَاسِبُوْا اَنْفُسَكُمْ قَبْلَ اَنْ تُحَاسَبُوْافَاِنَّهُ اَهْوَنُ لِحِسَابِكُمْیعنی تم اپنا محاسبہ کرو قبل اس سے کہ تمہارا حساب لیا جائے کیونکہ یہ تمہارے حساب لیے جانے سے زیادہ آسان ہے۔ ‘‘  ٭ ’’ وَزِّنُوْا اَنْفُسَكُمْ قَبْلَ اَنْ تُوَزَّنُوْااور اپنے اعمال کا محاسبہ کرتے رہو قبل اس سے کہ تمہارے اعمال کا محاسبہ کیا جائے۔ ‘‘  ٭ ’’ وَتَزَيَّنُوْا لِلْعَرْضِ الْاَكْبَرِ يَوْمَ تُعْرَضُوْنَ لَا تَخْفٰى مِنْكُمْ خَافِيَةٌاور قیامت کے اس دن کے لیے تیار رہو جس دن تم  اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی بارگاہ میں   پیش کیے جاؤ گے اور تم میں   سے کوئی بھی اس پر مخفی نہیں   ہوگا۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ،  کتاب الزھد ،  کلام عمر بن الخطاب ،  ج۸ ،  ص۱۴۹ ،  حدیث:  ۱۸/     الزھد للامام احمد ،  زھد عمر بن الخطاب ،  ص۱۴۸ ،  الرقم: ۶۳۳۔)


اپنا معاملہ ظاہر رکھو:

امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے بطور نصیحت ارشاد فرمایا:  ’’ مَنْ اَرَادَ الْحَقَّ فَلْيَنْزِلْ بِالْبَرَازِ يَعْنِيْ يُظْهِرْ اَمْرَهُیعنی جو شخص حق کا ارادہ رکھتا ہو وہ اپنا معاملہ ظاہر رکھے۔ ‘‘ (مصنف ابن ابی شیبہ ،  کتاب الزھد ،  کلام عمر بن الخطاب ،  ج۸ ،  ص۱۵۱ ،  ح

۲۶۔