یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

شیخ_الحدیث_علامہ_عبدالمصطفیٰ_الاعظمی_الازہری



 از: محمد سلیم انصاری ادروی 

#شیخ_الحدیث_علامہ_عبدالمصطفیٰ_الاعظمی_الازہری

#ولادت: صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی علیہ الرحمه (مصنف بہار شریعت) کے صاحب زادے شیخ الحدیث علامہ عبدالمصطفیٰ اعظمی ازہری علیہ الرحمه کی ولادت باسعادت سنہ ١٣٣۴ھ/١٩١٨ء  کو بریلی شریف میں ہوئی لیکن اصل مکان گھوسی میں ہی تھا۔ 

#تعلیم: علامہ ازہری نے دارالعلوم منظر اسلام بریلی شریف میں مولانا احسان علی مظفرپوری علیہ الرحمه سے قرآن شریف کا ناظرہ کیا، جب آپ کے والد صدرالشریعہ جامعہ عثمانیہ اجمیر شریف منتقل ہوئے تو آپ نے اپنے آبائی وطن گھوسی کے مکتب سے اردو کی ابتدائی کتابیں پڑھیں، سنہ ١٩٢٦ء میں صدرالشریعہ نے آپ کو اجمیر بلا لیا اور وہیں پر مولانا محمد عارف بدایونی علیہ الرحمه سے فارسی کی کتب، مولانا عبدالمجید، مفتی امتیاز احمد اور مولانا عبدالحئ سواتی علیہم الرحمه سے عربی کی ابتدائی کتابیں پڑھیں اور اپنے والد صدرالشریعہ احادیث کی کتابیں پڑھنے کے بعد حج و زیارت روضہ رسول ﷺ کرنے کے بعد وہیں سے جامعہ ازہر مصر چلے گئے اور ازہر شریف میں تین سال تعلیم حاصل کرنے کے بعد "شہادة الاہلیة" و "شہادة العالیه" کی سند حاصل کرنے ہندوستان واپس آ گئے اور مدرسہ سعیدیہ داداؤں علی گڑھ میں اپنے والد سے دوبارہ دورۂ حدیث کیا۔

#بیعت_و_اجازت_و_خلافت: علامہ ازہری کو بچپن میں ہی امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی علیہ الرحمه کے دست مبارک پر بیعت ہونے کا شرف حاصل ہوا، امام احمد رضا کے علاوہ علامہ ازہری کو حضور مفتی اعظم ہند علامہ مصطفیٰ رضا خاں بریلوی علیہ الرحمه سے سلسلہ نوریہ کی اور والد محترم صدر الشریعہ علیہ الرحمه سے سلسلہ امجدیہ کی اجازت و خلافت حاصل ہوئی۔

#تدریسی_خدمات: علامہ ازہری فراغت کے بعد مدرسہ سعیدیہ میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے، مدرسہ سعیدیہ کے بعد سنہ ١٩٣٩ء کو آپ نے دارالعلوم منظر اسلام کی مسند تدریس کو رونق بخشی، سنہ ١٩۴۴ء میں منظر اسلام سے علاحدہ ہونے کے بعد آپ دارالعلوم اشرفیہ مبارکپور میں بحیثیت شیخ الحدیث تشریف لائے، تقسیم ہند کے بعد آپ پاکستان چلے گئے اور جامع محمدی شریف جھنگ میں شیخ الحدیث مقرر ہوئے۔ سنہ ١٩۵٣ء میں ہارون آباد ضلع بہاول نگر میں مدرس مقرر ہوئے۔ سنہ ١٩۵٧ء میں مولانا مفتی ظفر علی نعمانی علیہ الرحمه بانی جامعہ امجدیہ کراچی کی دعوت پر دارالعلوم امجدیہ میں تدریسی خدمات انجام دینے لگے۔

#سیاسی_خدمات: علامہ ازہری سنہ ١٩٧٠ء میں پاکستان کے قومی اسمبلی کے رکن منتخب ہوئے، سنہ ١٩٧٣ء کو قومی اسمبلی میں جب آئین پاکستان میں "مسلمان" کی تعریف شامل کرنے کا مرحلہ آیا تو کوثر نیازی نے کہا کہ تمام مکاتب فکر کسی ایک تعریف پر متفق نہیں ہیں، چانچہ علامہ ازہری نے متفقہ تعریف مرتب کی جو تمام مکاتب فکر کے علماء و اراکین قومی اسمبلی کے دستخط سے قومی اسمبلی میں پیش ہوئی، سنہ ١٩٧٧ء کو تحریک نظام مصطفیٰ ﷺ میں قائد اہلسنت امام شاہ احمد نورانی علیہ الرحمه جب گرفتار ہوئے اور جیل میں بند کر دئے گئے تو تو علامہ ازہری جمیعت علمائے پاکستان کے قائم مقام صدر کے فرائض بخوبی انجام دیتے رہے، علامہ ازہری سنہ ١٩٨۵ء میں دوسری مرتبه غیر جماعتی الیکشن میں قومی اسمبلی کے ممبر منتخب ہوئے اور جنرل ضیاء کے دور میں مجلس شوریٰ کے ممبر منتخب ہوئے۔

#تلامذہ: آپ کے چند با صلاحیت تلامذہ کے نام درج ذیل ہیں۔

مولانا خلیل اشرف اعظمی بانی فیض رضا بہاول نگر 
مفتی غلام یٰسین امجدی بانی دارالعلوم قادریہ کراچی 
مولانا غلام نبی فخری بانی دارالعلوم حامدیہ رضویہ کراچی
مولانا طفیل صاحب بانی دارالعلوم شمس العلوم کراچی 

#جامع_مسجد_طیبہ: سعود آباد ملير ضلع کراچی میں قیام کے دوران آپ نے اس مسجد کی بنیاد ڈالی، تدریسی فرائض انجام دینے کے بعد آپ کا زیادہ تر وقت یہیں گزرتا تھا۔ 

#تصانیف: علامہ ازہری کو تدریسی و سیاسی خدمات سے فرصت کم ملی اسلئے آپ کی تصانیف بہت کم ہیں۔ آپ کی تصانیف کے نام یہ ہیں۔

تفسیر ازہری (پانچ جز) مطبوعہ
تاریخ الانبیاء (غیر مطبوعہ)

#وصال: علامہ عبدالمصطفیٰ الاعظمی الازہری پر دوران تدریس فالج کا اٹیک ہوا، اور نو ماہ تک بستر پر رہے اور علاج کرانے کے لیے پنجاب کے  سانگلہ ہل تشریف لے گئے اور وہیں ١٦ ربیع الاول سنہ ١۴١٠ء میں آپ کا وصال ہوا۔ آپ کی تدفین دارالعلوم امجدیہ عالمگیر ورڈ  کراچی کی مسجد "مسجد امجدی" کے مشرقی جانب ہوئی۔

 [ #حوالہ: میں نے انوار علمائے اہلسنت سندھ/ص:١٠۵١-١٠۵۴ ، حیات و افکار/ص:١٣٣، ١٣۴ اور دیگر مضمون سے مواد اخذ کیا ہے۔]