" قاتلان امام حسین کا بھیانک انجام"
تحریر: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057
" قاتلان امام حسین کا بھیانک انجام"
ابو الشیخ نے روایت کی: ’’کچھ لوگ بیٹھے ذکر کر رہے تھے کہ جس نے امامِ مظلوم (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے قتل میں کچھ اعانت کی کسی نہ کسی بلا میں ضرور مبتلا ہوا ۔‘‘ایک بڈھے نے اپنے نفسِ ناپاک کی نسبت کہا کہ ’’اسے توکچھ نہ ہوا ۔‘‘چراغ کی بتی سنبھالی، آگ نے اس شقی کو لیا ،آگ آگ چلاتا فرات میں کود پڑا ،مگر وہ آ گ ہی نہ بجھی، یہاں تک کہ آگ میں پہنچا ۔
منصور بن عمار نے روایت کی ’’امام کے قاتل ایسی پیاس میں مبتلاہوئے کہ ایک ایک مشک چڑھا جاتے اور پیاس کم نہ ہوتی ۔‘‘
سدمی کہتے ہیں کہ ’’ایک شخص نے کربلامیں میری دعوت کی،لوگوں نے آپس میں ذکر کیا کہ ’’جس جس نے حسین(رضی اللہ تعالٰی عنہ )کے خون میں شرکت کی بری موت مرا۔‘‘ میزبان نے اسے جھٹلایا اور کہا:’’ وہ شخص بھی اسی لشکرمیں تھا۔‘‘پچھلی رات چراغ درست کرنے اٹھا،آگ نے جست کر کے اس کے بدن کو لیا ،خداکی قسم! میں نے دیکھا کہ اس کا بدن کوئلہ ہو گیاتھا۔‘‘
امام زہری فرماتے ہیں :’’ ان میں کوئی مارا گیا ،کوئی اندھا ہو کر مرا ،کسی کا منہ کالا ہو گیا ۔‘‘
امام واقدی فرماتے ہیں :’’ایک بڈھا وقتِ شہادتِ امام موجود تھا شریک نہ ہواتھا ،اندھا ہو گیا ۔سبب پوچھا،کہا:’’ اس نے مصطفی صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کو خواب میں دیکھا ،آستینیں چڑھائے ،دست ِاقدس میں ننگی تلوار لئے ،سامنے حسین (رضی اللہ تعالٰی عنہ ) کے دس قاتل ذبح کئے ہوئے پڑے ہیں۔حضور صلی اللہ تعالٰی علی والہ وسلم نے اس بڈھے پر غضب فرمایا کہ’’ تو نے موجود ہو کر اس گروہ کو بڑھایا؟‘‘ اور خونِ امام کی ایک سلائی آنکھوں میں لگادی ،اٹھا تو اندھا تھا ۔‘‘
سبط ابن الجوزی روایت کرتے ہیں :’’ جس شخص نے سرِ مبارک ِامام مظلوم اپنے گھوڑے پر لٹکایا تھا ،چند روز بعد اس کامنہ کوئلے سے زیادہ کالاہو گیا۔ لوگوں نے کہا:’’تیرا چہرہ تو عرب بھر میں تروتازہ تھا یہ کیا ماجراہے ؟‘‘کہا:’’جب سے وہ سر اٹھایا ہے ،ہر رات دو شخص آتے اور بازو پکڑکر بھڑکتی آگ پر لے جا کر دھکا دیتے ہیں۔ سرجھکتاہے ،آگ چہرے کو مارتی ہے۔‘‘پھرنہایت برے حالوں مرگیا۔‘‘
ایک بڈھے نے حضورپرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کو خواب میں دیکھا کہ سامنے ایک طشت میں خون رکھاہے اور لوگ پیش کئے جاتے ہیں ،حضور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم اس خون کا دھبا لگا دیتے ہیں ، جب اس کی باری آئی ،اس نے عرض کی:’’ میں تو موجود نہ تھا ۔‘‘ فرمایا:’’ دل سے تو چاہاتھا۔‘‘پھر انگشت ِمبارک سے اسکی طرف اشارہ کیا صبح کو اندھا اٹھا ۔
حاکم نے روایت کی کہ حضور پرنور صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم سے جبریل نے عرض کی: ’’اللہ تعالٰی فرما تاہے:’’ میں نے یحییٰ بن زکریا کے بدلے سترہزار قتل کئے اور حسین کے عوض میں ستر ہزار اور سترہزار قتل فرماؤں گا ۔‘‘(المستد رک،کتاب توا ریخ المتقدمین...الخ،قصۃ قتل یحیٰعلیہ السلام،الحدیث۴۲۰۸،ج۳،ص۴۸۵)
الحمد للہ! اللہ عزوجل نے ابن زیاد خبیث سے امام (رضی اللہ تعالٰی عنہ )کا بدلہ لے لیا۔ جب وہ مردود ماراگیا ،اس کا سرمع اس کے ساتھیوں کے سروں کے لا کررکھا گیا۔ لوگوں کا ہجوم تھا، غل پڑ گیا ’’آیا آیا ۔‘‘راوی کہتے ہیں :’’ میں نے دیکھا کہ ایک سانپ آرہا ہے، سب سروں کے بیچ میں ہوتاہوا ابن زیاد کے سر ناپاک تک پہنچا ۔ایک نتھنے میں سے گھس کر دوسرے نتھنے میں سے نکلا اورچلا گیا۔پھر غل پڑا آیا آیا،پھر وہی سانپ آیا اوریوں ہی کیا ،کئی بار ایسا ہی ہوا ۔‘‘
منصور کہتے ہیں :’’ میں نے شام میں ایک شخص دیکھا، اس کامنہ سؤر کامنہ تھا، سبب پوچھا، کہا:’’وہ مولی علی کرم اللہ تعالٰی وجہہ الکریم اوران کی پاک اولاد پر لعنت کیا کرتا۔‘‘ ایک رات حضور سید ِعالم صلی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلم کوخواب میں دیکھا ،امامِ حسن مجتبیٰ رضی اللہ تعالٰی عنہ نے اس خبیث کی شکایت کی ،حضور علیہ الصلاۃو السلام نے اس پر لعنت فرمائی اور منہ پر تھوک دیا، چہرہ سؤرکا ہوگیا ۔‘‘ وَالْعِیَاذُ بِاللہِ رَبِّ الْعَا لَمِیْنَ۔