یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

ایک واقعہ کی تحقیق | کیاسیدناامام حسین پر پانی بند کیا گیاتھا۔۔۔؟




ایک واقعہ کی تحقیق 
کیاسیدناامام حسین پر پانی بند کیا گیاتھا؟


میدان کربلا میں اہل بیت پر پانی بند کیا گیا یا نہیں؟ اس پر دونوں طرح کی روایات موجود ہیں لیکن بیان صرف انھی کو کیا جاتا ہے جس سے لوگوں کو رلایا جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ تین دن تک اہل بیت کے خیمے میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا اور مسلسل تین دن تک بچوں سے لے کر بڑوں تک سب پیاسے رہے اور کچھ مقررین تو اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور پانچ محرم سے ہی پانی بند کر دیتے ہیں تاکہ واقعہ مزید دردناک ہو جائے۔


تاریخ ابن کثیر میں ایک روایت کچھ یوں ہے کہ دسویں محرم کو امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل فرمایا اور خوشبو لگائی اور بعض دوسرے ساتھیوں نے بھی غسل فرمایا۔

(البداية والنهاية، ج8، ص185) 


اس روایت کو مقررین ہاتھ بھی نہیں لگاتے کیوں کہ اگر اسے بیان کر دیا گیا تو پھر لوگوں کو رلانے کا دھندا چوپٹ ہو جائے گا، پھر کس منھ سے کہا جائے گا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔


خلیفۂ حضور مفتئ اعظم ہند، شارح بخاری، حضرت علامہ شریف الحق امجدی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا امام حسین نے عاشورہ کی صبح کو غسل فرمایا تھا؟ کیا یہ روایت صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو پھر خود علماے اہل سنت جو بیان کرتے ہیں کہ تین دن تک حضرت امام حسین اور ان کے رفقا پر پانی بند کیا گیا، یہاں تک کہ بچے پیاس سے بلکتے رہے۔


آپ رحمہ اللہ جواباً لکھتے ہیں کہ یہ روایت تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے، مثلاً بدایہ نہایہ میں ہے:


فعدل الحسین الی خیمة قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بانورۃ... الخ

"اس کے بعد امام حسین خیمے میں گئے اور اس میں جا کر غسل فرمایا اور ہڑتال استعمال فرمائی اور بہت زیادہ مشک جسم پر ملی۔ ان کے بعد بعض رفقا بھی اس خیمے میں گئے اور انھوں نے بھی ایسا ہی کیا" 


(البداية والنهاية، جلد ثامن، ص178) 


اور اسی میں ایک صفحہ پہلے یہ بھی ہے:


وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا وصب علی وجھھا الماء

"حضرت زینب بے ہوش ہو کر گر پڑیں، حضرت امام حسین ان کے قریب گئے اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا"


(ایضاً، ص177) 


شارح بخاری رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ یہ دوسری روایت طبری میں بھی ہے حتی کہ رافضیوں کی بھی بعض کتابوں میں (موجود) ہے۔ ہمارے یہاں شیعوں نے ایک دفعہ نقن میاں کو بلایا تھا جو مجتہد بھی تھے اور بہت پائے کے خطیب بھی، انھوں نے یہ روایت اپنی تقریر میں بیان کی جس پر جاہلوں نے بہت شور مچایا، ان کو گالیاں دیں، ایک جاہل نے تو یہاں تک کَہ دیا کہ اگر ایسے دو ایک واعظ (مقرر) آ گئے تو ہمارا مذہب ............. میں مل جائے گا۔ (خالی جگہ میں غالباً کوئی گالی ہوگی)


(پھر دونوں طرح کی روایات کے متعلق لکھتے ہیں کہ) یہ صحیح ہے کہ 7 محرم سے ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا دیا گیا تھا کہ حضرت امام عالی مقام کے لوگ پانی نہ لے پائیں مگر یہ بھی روایت ہے کہ اس پہرے کے باوجود حضرت عباس کچھ لوگوں کو لے کر کسی نہ کسی طرح سے پانی لایا کرتے تھے لیکن شہادت کے ذاکرین (ہمارے مقررین) آب بندی (یعنی پانی بند ہونے) کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں اگر نہ بیان کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمے گا۔


اس روایت میں اور وقت شہادت حضرت علی اکبر و حضرت علی اصغر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات (تضاد) نہیں؛ ہو سکتا ہے کہ صبح کو پانی اس مقدار میں رہا ہو کہ سب نے غسل کر لیا پھر پانی ختم ہو گیا، اور جنگ شروع ہو جانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادہ سختی کر دی ہو۔ اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کہ حضرت عباس فرات سے مَشک بھر کر پانی لا رہے تھے کہ شہید ہوئے۔ ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے مگر میں قطعی حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے۔ تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے، حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں۔


(فتاوی شارح بخاری، ج2، ص68، 69)


پانی بند ہونے والی صرف ایک طرف کی روایت کو بیان کرنا اور یہ کہنا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند پانی نہیں تھا، اس سے واضح ہے کہ مقصد صرف لوگوں کو رلانا اور محفل میں رنگ جمانا ہے۔ اپنے مطلب کی روایات میں نمک مرچ لگا کر بیان کرنا اور دوسری روایات کو ہڑپ جانا، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ 

اب رہا یہ سوال کہ ہمیں کیا سمجھنا چاہیے تو اس کا جواب آپ پڑھ چکے ہیں۔


عبد مصطفی 

ایک واقعہ کی تحقیق 👇👇


#کیا_سیدنا_امام_حسین_پر_پانی_بند_کیا_گیا_تھا؟؟


میدان کربلا میں اہل بیت پر پانی بند کیا گیا یا نہیں؟ اس پر دونوں طرح کی روایات موجود ہیں لیکن بیان صرف انھی کو کیا جاتا ہے جس سے لوگوں کو رلایا جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ تین دن تک اہل بیت کے خیمے میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا اور مسلسل تین دن تک بچوں سے لے کر بڑوں تک سب پیاسے رہے اور کچھ مقررین تو اس سے بھی آگے بڑھ جاتے ہیں اور پانچ محرم سے ہی پانی بند کر دیتے ہیں تاکہ واقعہ مزید دردناک ہو جائے۔


تاریخ ابن کثیر میں ایک روایت کچھ یوں ہے کہ دسویں محرم کو امام حسین رضی اللہ تعالی عنہ نے غسل فرمایا اور خوشبو لگائی اور بعض دوسرے ساتھیوں نے بھی غسل فرمایا۔

(البداية والنهاية، ج8، ص185) 


اس روایت کو مقررین ہاتھ بھی نہیں لگاتے کیوں کہ اگر اسے بیان کر دیا گیا تو پھر لوگوں کو رلانے کا دھندا چوپٹ ہو جائے گا، پھر کس منھ سے کہا جائے گا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند بھی پانی نہیں تھا۔


خلیفۂ حضور مفتئ اعظم ہند، شارح بخاری، حضرت علامہ شریف الحق امجدی رحمہ اللہ سے سوال کیا گیا کہ کیا امام حسین نے عاشورہ کی صبح کو غسل فرمایا تھا؟ کیا یہ روایت صحیح ہے؟ اگر صحیح ہے تو پھر خود علماے اہل سنت جو بیان کرتے ہیں کہ تین دن تک حضرت امام حسین اور ان کے رفقا پر پانی بند کیا گیا، یہاں تک کہ بچے پیاس سے بلکتے رہے۔


آپ رحمہ اللہ جواباً لکھتے ہیں کہ یہ روایت تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے، مثلاً بدایہ نہایہ میں ہے:


فعدل الحسین الی خیمة قد نصبت فاغتسل فیھا وانطلی بانورۃ... الخ

"اس کے بعد امام حسین خیمے میں گئے اور اس میں جا کر غسل فرمایا اور ہڑتال استعمال فرمائی اور بہت زیادہ مشک جسم پر ملی۔ ان کے بعد بعض رفقا بھی اس خیمے میں گئے اور انھوں نے بھی ایسا ہی کیا" 


(البداية والنهاية، جلد ثامن، ص178) 


اور اسی میں ایک صفحہ پہلے یہ بھی ہے:


وخرت مغشیا علیھا فقام الیھا وصب علی وجھھا الماء

"حضرت زینب بے ہوش ہو کر گر پڑیں، حضرت امام حسین ان کے قریب گئے اور ان کے چہرے پر پانی چھڑکا"


(ایضاً، ص177) 


شارح بخاری رحمہ اللہ مزید لکھتے ہیں کہ یہ دوسری روایت طبری میں بھی ہے حتی کہ رافضیوں کی بھی بعض کتابوں میں (موجود) ہے۔ ہمارے یہاں شیعوں نے ایک دفعہ نقن میاں کو بلایا تھا جو مجتہد بھی تھے اور بہت پائے کے خطیب بھی، انھوں نے یہ روایت اپنی تقریر میں بیان کی جس پر جاہلوں نے بہت شور مچایا، ان کو گالیاں دیں، ایک جاہل نے تو یہاں تک کَہ دیا کہ اگر ایسے دو ایک واعظ (مقرر) آ گئے تو ہمارا مذہب ............. میں مل جائے گا۔ (خالی جگہ میں غالباً کوئی گالی ہوگی)


(پھر دونوں طرح کی روایات کے متعلق لکھتے ہیں کہ) یہ صحیح ہے کہ 7 محرم سے ابن زیاد کے حکم سے نہر فرات پر پہرہ بیٹھا دیا گیا تھا کہ حضرت امام عالی مقام کے لوگ پانی نہ لے پائیں مگر یہ بھی روایت ہے کہ اس پہرے کے باوجود حضرت عباس کچھ لوگوں کو لے کر کسی نہ کسی طرح سے پانی لایا کرتے تھے لیکن شہادت کے ذاکرین (ہمارے مقررین) آب بندی (یعنی پانی بند ہونے) کی روایت کو جس طرح بیان کرتے ہیں اگر نہ بیان کریں تو محفل کا رنگ نہیں جمے گا۔


اس روایت میں اور وقت شہادت حضرت علی اکبر و حضرت علی اصغر کا پیاس سے جو حال مذکور ہے منافات (تضاد) نہیں؛ ہو سکتا ہے کہ صبح کو پانی اس مقدار میں رہا ہو کہ سب نے غسل کر لیا پھر پانی ختم ہو گیا، اور جنگ شروع ہو جانے کی وجہ سے فرات کے پہرے داروں نے زیادہ سختی کر دی ہو۔ اس کی تائید اس سے بھی ہو رہی ہے کہ حضرت عباس فرات سے مَشک بھر کر پانی لا رہے تھے کہ شہید ہوئے۔ ہمیں اس پر اصرار نہیں کہ یہ روایت صحیح ہے مگر میں قطعی حکم بھی نہیں دے سکتا کہ یہ روایت غلط ہے۔ تاریخی واقعات جذبات سے نہیں جانچے جاتے، حقائق اور روایات کی بنیاد پر جانچے جاتے ہیں۔


(فتاوی شارح بخاری، ج2، ص68، 69)


پانی بند ہونے والی صرف ایک طرف کی روایت کو بیان کرنا اور یہ کہنا کہ تین دن تک اہل بیت کے خیموں میں ایک بوند پانی نہیں تھا، اس سے واضح ہے کہ مقصد صرف لوگوں کو رلانا اور محفل میں رنگ جمانا ہے۔ اپنے مطلب کی روایات میں نمک مرچ لگا کر بیان کرنا اور دوسری روایات کو ہڑپ جانا، یہ کہاں کا انصاف ہے؟ 

اب رہا یہ سوال کہ ہمیں کیا سمجھنا چاہیے تو اس کا جواب آپ پڑھ چکے ہیں۔


عبد مصطفی 


نوٹ:

یہ پوسٹ میری لکھی ہوئی نہیں ہے آخر میں اپنا نام صرف پوسٹ کو محفوظ رکھنے کیلئے لکھ رہا ہوں 


#محمد_ساجد_مدنی

نوٹ:

یہ پوسٹ میری لکھی ہوئی نہیں ہے آخر میں اپنا نام صرف پوسٹ کو محفوظ رکھنے کیلئے لکھ رہا ہوں 


#محمد_ساجد_مدنی