یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

*درس نظامی کے نئے فارغ التحصیل علماء سے چند گزارشات*




*درس نظامی کے نئے فارغ التحصیل علماء سے چند گزارشات*


تحمید و تبریک کا خوش گوار اور پربہار موسم ہے ، جامعات کے سالانہ امتحانات دیکر دورہ حدیث شریف سے فارغ ہونے والے فضلاء کی صفوں میں خوشیوں اور شادمانیوں کی دھوم دھام ہے ، بالاخر وہ دن آہی گیا جسکا مدتوں سے بے چینی اور حسرتوں سے انتظار تھا ، اس نعمت عظمی کے تشکر و امتنان کی غرض محمود کی بنا پر دعوتوں ، ظہرانوں یا عشائیوں کا پرخلوص اور چاہتوں سے بھرپور سلسلہ ہے ، اللہ کریم اہل سنت کی صفوں میں ایسے فضلاء کی کثرت فرماۓ اور محراب و ممبر کو ایسے وارثین انبیاء سے تقویت اور زینت بخشے-

علماء فرماتے ہیں : اہل علم کیلئے سب سے آسان کام ..
*1- تقریر اور خطاب کرنا ہے*  پھر ..
2- *تدریس کرنا* -  پھر ..
3- *کتاب لکھنا* - اور ..
4- *سب سے مشکل کام فتوی دینا ہے* -

درس نظامی میں طویل عرصہ تحصیل علم کے بعد نوجوان علما کا فرض منصبی ہے کہ وہ تبلیغ و اشاعت دین کے عظیم کام کی جانب متوجہ ہوں ، جسے قرآن کی زبان میں *" ولینذروا قومھم اذا رجعوا الیھم لعلھم یحذرون " اور واپس آکر اپنی قوم کو ڈر سنائیں اس امید پر کہ وہ بچیں* فرمایا گیا ہے- اور مذکور چاروں امور اس مقصد کی تکمیل کیلئے بہترین ذرائع ہیں -

قابل تقلید و لائق ستائش ہیں وہ علما جو فراغت کے بعد تدریس ، خطابت ، کتابت ، فتوی نویسی ، دروس قرآن و حدیث ، فقہی نشستوں ، سیمیناروں اور دیگر تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہوکر امت کی اصلاحی وعملی وفکری ذمہ داری کا بوجھ اپنے کاندھوں پر لے لیتے ہیں -  

مگر یہ بات کہتے ہوۓ مجھے ایک گونہ دکھ اور قلبی رنج بھی ہوتا ہے کہ ایک تعداد ایسی بھی ہے جو ہر طرح کے علمی و تحقیقی و تبلیغی شعبے سے خود کو دور رکھ کر اپنے علمی  فیضان سے امت کو محروم رکھتے ہیں ، ایسے باصلاحیت اور قابل افراد کو ایک بار ضرور سوچنا چاہیے -

اکابر علماء اپنے فارغ التحصیل ہونے والے تلامذہ کی تربیت کرتے اور انکو نصیحت فرماتے تھے ؛ چناچہ استاد الکل ، ملک المدرسین حضرت علامہ عطا محمد چشتی بندیالوی رحمه الله تعالی نے اپنے ایک شاگرد کو نصیحت کرتے ہوۓ ارشاد فرمایا :طلبا سے اوقات تدریس کے علاوہ زیادہ اختلاط نہ رکھنا ، اس سے بہت سی خرابیاں پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے - دور طالب علمی میں تمام طلبا سے بے تکلفی اور عام اختلاط ہوتا ہے ، اس لیے دور تدریس میں اس کا چھوڑنا دشوار ہوتا ہے .مزید فرمایا اگر ہوسکے تو اپنے کپڑے بھی خود دھولیا کریں - 
(نور نور چہرے 234)

فقیہ ملت علامہ جلال الدین احمد امجدی رحمه الله تعالی نے اپنے فارغ التحصیل تلامذہ کو جو نصائح فرماۓ ان میں سے یہ بھی ہیں : 1-مسجد یا مدرسے کے ملازم کے معنی میں عالم نہ بنو ، نائب رسول کے معنی میں عالم بنو -
2-قرآن مجید اور حدیث شریف کے ساتھ فقہ کا مطالعہ زیادہ کرو
3-علماۓ اہل سنت خصوصا اعلی حضرت امام احمدرضا علیہ الرحمہ والرضوان کی تصنیفات کا مطالعہ کرو
4-عالم کی سند مل جانے کو کافی نہ سمجھو ، بلکہ زندگی بھر تحصیل علم میں لگے رہو کہ حقیقت میں علم حاصل کرنے کا زمانہ فراغت کے بعد ہی ہے -
5-خود بھی باعمل عالم بنو اور دوسروں کو بھی باعمل بنانے کی دن رات کوشش کرتے رہو -
6-بدمذہب اور دنیادار عالم سے دور بھاگو جیسے شیر سے بلکہ اس بھی زیادہ کہ وہ جان لیتا ہے اور یہ ایمان برباد کرتا ہے -
7-دین میں کبھی مداہنت اختیار نہ کرو بلکہ حق گوئی اور بے باکی اپنا شعار بناؤ -
8-اساتذہ کے حقوق کو تمام مسلمانوں کے حقوق پر مقدم رکھو اور انہیں کسی طرح کی ایذا نہ پہنچاؤ ورنہ علم کی برکت سے محروم ہوجاؤ گے -
( خطبات محرم ص 495)

1- علماء فرماتے ہیں کہ درس نظامی کی مروجہ کتب پڑھنے سے آدمی فقہ کے دروازے میں بھی داخل نہیں ہوتا - ضرورت اس امر کی ہے کہ حصول تفقہ کیلئے فقہاء کی تحقیقات کا بغور مطالعہ کیا جاۓ اور اس کیلئے فقہی انسائیکلوپیڈیا فتاوی رضویہ شریف کی صورت میں ہمارے پاس موجود ہے - 

2- مسئلہ بیان کرنے میں عجلت سے کام نہ لیں ، جب تک اس کا حوالہ ذہن میں موجود نہ ہو ، کتب کی طرف بار بار کی مراجعت آپکے علم کو پختہ کردے گی ، مسائل بیوع ، وراثت اور خصوصا مسائل طلاق میں احتیاط برتیں اور کسی سنی ماہر مفتی صاحب کی جانب سائل کو متوجہ کریں کہ ان مسائل میں کافی باریکیاں ہوتی ہیں -

3- علماۓ متبحرین ، اکابرین ، محدثین ساری عمر اپنے آپ کو از راہ انکساری طالب علم اور دین کا ادنی خادم  سمجھتے رہے ، سیدی اعلی حضرت فرماتے ہیں فقیر کے خواب و خیال میں بھی نہ آیا کہ میں عالم ہوں ، لہذا درس نظامی سے فراغت کے بعد اپنے آپکو علامہ ، فہامہ ، عقل کل اور امام وقت سمجھنا بڑی محرومی ہے -
من تواضع لله فقد رفعه الله

4- اپنے اساتذہ کو ہمیشہ یاد رکھیں ، ان سے رابطے میں رہیں : عمدة المحققین حضرت علامہ مفتی حبیب الله نعیمی بھاگلپوری رحمه الله جب اپنے استاد گرامی کا ذکر محبت چھیڑتے تو ایک چھوٹے بچے کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتے کبھی ایسا نہیں ہوا کہ مراد آباد سے بھاگلپور آۓ ہوں اور اپنے استاد گرامی کے مزار شریف پر شکر الله چک ( جگہ کا نام ) حاضری نہ دی ہو-(حبیب الفتاوی ص4)
رئیس القلم علامہ ارشد القادری اپنے قابل فخر تلمیذ فقیہ ملت علامہ جلال الدین احمد امجدی علیہ الرحمہ کو ایک مکتوب میں فرماتے ہیں : کئی 100 علما میں صرف تنہا آپکی ذات ہے جس نے شاگردی اور استادی کا رشتہ نبھایا ہے اور اب تک بناہ رہا ہے ورنہ نئی نسل کی خودسری سرکشی اور احسان فراموشی سے خدا کی پناہ - (فتاوی فیض الرسول جلد 2 ص 36)
ایک اور مقام پر اپنے ہونہار تلمیذ رشید سے مخاطب ہوکر فرماتے ہیں : آپکو میں اپنی نجات اخروی کی پونجی سمجھتا ہوں میں تو سیاہ کار کا سیاہ کار ہی رہا لیکن آپ نے مرضیات الہی کو پالیا - ( ایضا ص 37)

5- ہوسکے تو دینی کتب کی ایک لائبریری کا قیام عمل میں لائیں وہاں ذاتی ضرورت کے علاوہ عوام اہلسنت کیلئے بھی چھوٹے چھوٹے رسائل رکھے جائیں اور انہیں مطالعہ کی سہولت میسر کی جاۓ -

6- محتاط رہیں ، آپکے قول ، فعل عمل اور کردار سے دین ، سنیت اور مسلک اعلی حضرت کا نقصان نہ ہونے پاۓ کہ بڑوں (علماء) کی غلطی بھی بڑی ہوتی ہے -

اللہ اس سے پہلے ایمان پہ موت دیدے 
نقصان میرے سبب سے ہو سنت بنی کا 

7- درس قرآن و درس حدیث کا اجرا کریں ؛ حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی بدایونی رحمه الله بعد نماز فجر آدھا گھنٹہ درس قرآن دیتے پھر پندرہ منٹ درس مشکوة شریف ، چالیس سال (ایک قول میں تیس سال ) میں ایک مرتبہ قرآن مجید اس طرح ختم فرمایا کہ آپ ہر آیت میں گیارہ چیزیں بیان فرماتے تھے -
(حالات زندگی حکیم الامت بدایونی ص 180)

8- آپ فارغ ہوۓ ہیں مروجہ نصاب سے ناکہ مطالعہ سے ، مطالعہ علم کی روح ہے ، امام ابن جوزی فرماتے ہیں میں نے زمانہ طالب علمی میں 20 ہزار کتابوں کا مطالعہ کیا. مزید فرماتے ہیں میں نے مدرسہ نظامیہ کے پورے کتب خانہ کا مطالعہ کیا جس میں 6 ہزار کتابیں ہیں -
( مطالعہ کیا کیوں کیسے ص 40 ) 

9- آپکا منصب معاشرے کی اصلاح ہے لوگوں کے احوال ، افعال ، اعمال ، عقائد و نظریات ، عبادات و معاملات کی اصلاح کی ذمہ داری کا بوجھ بھی آپکے سر ہے ، برے عقائد ، ناجائز رسومات ، بدعات و خرافات کا خاتمہ اور وہ بھی حکمت عملی کے ساتھ آپ نے ہی کرنا ہے کیونکہ محراب و ممبر کی زینت بھی آپ ہی ہیں -

10- تقریر و خطابت تبلیغ دین کا مؤثر ذریعہ ہے ، بلکہ دور حاضر میں عالم کبیر وہ سمجھا جاتا ہے جو اچھی تقریر کرتا ہو ، امامت ورنہ کم از کم خطابت کیجیے ؛ حضور غزالئ زماں ، رازئ دوراں ، بیہقئ وقت علامہ سید احمد سعید شاہ کاظمی رحمه الله تعالی نے ملتان شریف میں فی سبیل اللہ 56 سال تک جمعہ کی خطابت کے فرائض سرانجام دیے -

11- جدید شرعی مسائل پر نظر رکھیے کہ کم من احکام تتغیر من تغیر الزمان -

✍️ نوید کمال مدنی نواب شاہ
                   22-07-2020