یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

ایمان ابو طالب



 محرر عبداللہ ھاشم عطاری مدنی

03313654057


ایمان ابو طالب کے متعلق مختصر تحقیق:

    مفسرین کا اس بات پر اجماع ہے کہ یہ آیت { اِنَّكَ لَا تَهْدِیْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَ لٰكِنَّ اللّٰهَ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُۚ-وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ(سورہ القصص آیت 56)  ترجمہ کنز العرفان: بیشک ایسا نہیں ہے کہ تم جسے چاہو اسے اپنی طرف سے ہدایت دیدو لیکن الله جسے چاہتا ہے ہدایت دیدیتا ہے اور وہ ہدایت والوں کوخوب جانتا ہے۔}   ابو طالب کے بارے میں  نازل ہوئی ۔صحیح مسلم میں  حضرت ابوہریرہ    رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُ    سے اس آیت کا شانِ نزول یوں  مذکور ہے کہ نبی کریم    صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ    نے اپنے چچا (ابو طالب) سے اس کی موت کے وقت فرمایا: اے چچا! ’’   لَآ اِلٰـہَ اِلَّااللہ   ‘‘کہو، میں  تمہارے لئے قیامت کے دن گواہ ہوں  گا۔ اس نے    (صاف انکار کر دیا اور)    کہا:اگر مجھے قریش کی طرف سے عیب لگائے جانے کا اندیشہ نہ ہوتا    (کہ موت کی سختی سے گھبرا کر مسلمان ہو گیا ہے)    تو میں  ضرور ایمان لا کر تمہاری آنکھ ٹھنڈی کرتا ۔اس پر    اللہ    تعالیٰ نے یہ آیت ِکریمہ نازل فرمائی۔   (    خازن، القصص، تحت الآیۃ:    ۵۶   ،    ۳    /    ۴۳۷   ، تفسیر کبیر، القصص، تحت الآیۃ:    ۵۶   ،    ۹    /    ۵   ، ملتقطاً   )  مذکورہ آیت کریمہ میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا  اور ارشاد فرمایا کہ اے حبیب!    صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ   ، آپ اپنے چچا کے ایمان نہ لانے کا غم نہ کریں ،آپ اپنا تبلیغ کا فریضہ ادا کرچکے، ہدایت دینا اور دل میں  ایمان کا نور پیدا کرنا یہ آپ کا فعل نہیں  بلکہ    اللہ    تعالیٰ کے اختیار میں  ہے اور اسے خوب معلوم ہے کہ کسے یہ دولت دے گا اور کسے اس سے محروم رکھے گا۔   (   مسلم، کتاب الایمان، باب الدلیل علی صحّۃ اسلام من حضرہ الموت۔۔۔ الخ، ص   ۳۴   ، الحدیث:    ۴۱   -   ۴۲(۲۵)   )            

   

     

    اعلیٰ حضرت ،مُجَدِّدِ دین وملت شاہ امام احمد رضاخان    عَلَیْہِ رَحْمَۃُ       الرَّحْمٰن    ابو طالب کے ایمان سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں  ارشاد فرماتے ہیں :اس میں  شک نہیں  کہ ابو طالب تمام عمر حضور سیّد المرسَلین ،سیّد الاَوّلین والآخِرین، سیّد الاَبرار    صَلَّی اللہ تَعَالٰیعَلَیْہِوَعَلٰی اٰلِہٖ وَسَلَّمَ اِلٰی یَوْمِ الْقرار    کی حفظ و حمایت وکفالت و نصرت میں  مصروف رہے۔ اپنی اولاد سے زیادہ حضور کو عزیز رکھا اور اس وقت میں  ساتھ دیا کہ ایک عالَم حضور کا دشمن ِجاں  ہوگیاتھااور حضور کی محبت میں  اپنے تمام عزیزوں  قریبیوں  سے مخالفت گواراکی،سب کو چھوڑدینا قبول کیا،کوئی دقیقہ غمگساری و جاں  نثاری کا نامَرعی نہ رکھا (یعنی ہر لمحے غمگساری اور جاں  نثاری کی)، اور یقیناً جانتے تھے کہ حضور افضل المرسَلین    صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ اللہ    کے سچے رسول ہیں ، ان پر ایمان لانے میں  جنت اَبدی اور تکذیب میں  جہنم دائمی ہے، بنوہاشم کو مرتے وقت وصیت کی کہ محمد    صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ    کی تصدیق کرو فلاح پاؤ گے، نعت شریف میں  قصائدان سے منقول ،اور اُن میں  براہِفراست وہ اُمور ذکر کیے کہ اس وقت تک واقع نہ ہوئے تھے (بلکہ) بعد ِ بعثت شریف ان کا ظہور ہوا،یہ سب احوال مطالعۂ اَحادیث و مُراجعت ِکتب ِ   سِیَر       (یعنی سیرت کی کتابوں  کی طرف رجوع کرنے )    سے ظاہر۔مگر مُجَرَّداِن اُمور سے ایمان ثابت نہیں  ہوتا۔ کاش یہ افعال واقوال اُن سے حالت ِاسلام میں صادر ہوتے تو سیدنا عباس بلکہ ظاہراً سیدنا حمزہ    رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہُمَا    سے بھی افضل قرار پاتے اور افضل الاَعمام حضور افضل الاَنام        عَلَیْہِ       وَعَلٰی       اٰلِہٖ اَفْضَلُ       الصَّلٰوۃِ       وَالسَّلَام       (یعنی تمام انسانوں  سے افضل حضور   صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّم    کے سب سے افضل چچا)       کہلائے جاتے ۔ تقدیر ِالہٰی نے بربنا اُس حکمت کے جسے وہ جانے یا اُس کا رسول    صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ   ، انہیں  گروہِ مسلمین و غلامانِ شفیع المذنبین    صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَسَلَّمَ    میں  شمار کیا جانا منظور نہ فرمایا۔    فَاعْتَبِرُوْا یٰۤاُولِی الْاَبْصَارِ   ۔    (تو اے عقل رکھنے والو! ان کے حال سے عبرت حاصل کرو)    صرف معرفت گو کیسی ہی کمال کے ساتھ ہو ایمان نہیں ۔   (   فتاویٰ رضویہ،رسالہ: شرح المطالب فی مبحث ابی طالب   ،    ۲۹    /    ۶۶۱   )      

مزید فرماتے ہیں : ’’آیاتِ قرآنیہ و اَحادیثِ صحیحہ، مُتوافرہ ،مُتظافرہ    (یعنی بکثرت صحیح احادیث)    سے ابو طالب کا کفر پر مرنا اور دمِ واپسیں  ایمان لانے سے انکار کرنا اور عاقبت کا ر اصحابِ نار سے ہونا ایسے روشن ثبوت سے ثابت جس سے کسی سنی کو مجالِ دم زدن نہیں ۔   (    فتاویٰ رضویہ،رسالہ: شرح المطالب فی مبحث ابی طالب   ،    ۲۹    /    ۶۵۷   -   ۶۵۸   )      

تاجدار گولڑہ حضرت سیّد پیر مہر علی شاہ صاحب گولڑوی رحمۃ اللّٰہ علیہ فرماتے ہیں : آنحضرت صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچے اور پھوپھیاں حارث ، قثم ، حمزہ ، عباس ، ابوطالب ، عبدالکعبہ ، جحل ، ضرّار ، غیداق ، ابولہب ، صفیہ ، عاتکہ ، اروی ، اُمّ حکیم ، بّرہ ، امیمہ اس جماعت میں سے حضرت حمزہ و عباس و حضرت صفیہ رضوان اللّٰہ علیھم اجمعین وعلیھن ایمان لائے ۔ اور حاشیہ میں لکھا ہے کہ حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ نے انہیں تین حضرات کے مشرف با اسلام ہونے کو جمہور علماء کا مذہب قرار دیا ہے ۔ (تحقیق الحق فی کلمة الحق صفحہ نمبر 153 مطبوعہ گولڑہ شریف،چشتی)

حضرت شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : حضور صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچاؤں میں سے بجز حضرت امیر حمزہ اور حضرت عباس رضی اللہ عنہما کے کوئی مسلمان نہ ہوا ۔ ابو طالب اور ابو لہب نے زمانہ اسلام کا پایا لیکن اس کی توفیق نہ پائی جمہور علماء کا یہی مذہب ہے ۔ (مدارج النبوت مترجم اردو جلد دوم صفحہ نمبر 576 مطبوعہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز لاہور پاکستان،چشتی)

حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : لَمَّا تُوُفِّيَ أَبِي أَتَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقُلْتُ : إِنَّ عَمَّكَ قَدْ تُوُفِّيَ قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ ، قُلْتُ : إِنَّهُ مَاتَ مُشْرِكًا ، قَالَ : اذْهَبْ فَوَارِهِ وَلَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي ، فَفَعَلْتُ ثُمَّ أَتَيْتُهُ فَأَمَرَنِي أَنْ أَغْتَسِلَ ۔

ترجمہ : حضرت سیّدنا علی بن طالب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : جب میرے والد فوت ہوئے تو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خد مت میں حا ضر ہوا اور عرض کی : آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے چچا فوت ہو گئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جا کر انہیں دفنا دیں ۔ میں نے عرض کی : یقیناً وہ تو مشرک ہونے کی حالت میں فوت ہوئے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور انہیں دفنا دیں ، لیکن جب تک میرے پاس واپس نہ آئیں کوئی نیا کام نہ کریں ۔ میں نے ایسا ہی کیا پھر آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے مجھے غسل کرنے کا حکم فرمایا ۔ (مسند الطيالسي صفحہ نمبر 19 حدیث نمبر 120 ، وسنده ‘ حسن متصل،چشتی)


ایک روایت کے الفاظ ہیں : إِنَّ عَمَّكَ الشَّيْخَ الضَّالَّ قَدْ مَاتَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ : ‏‏‏‏ اذْهَبْ فَوَارِ أَبَاكَ، ‏‏‏‏‏‏ثُمَّ لَا تُحْدِثَنَّ شَيْئًا حَتَّى تَأْتِيَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَذَهَبْتُ فَوَارَيْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏وَجِئْتُهُ، ‏‏‏‏‏‏فَأَمَرَنِي، ‏‏‏‏‏‏فَاغْتَسَلْتُ وَدَعَا لِي ۔

ترجمہ : حضرت سیدنا مولا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم سے عرض کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم کے گمراہ چچا فوت ہو گئے ہیں ان کو کون دفنائے گا ؟ ، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم نے فرمایا : جائیں اور اپنے والد کو دفنا دیں ۔ (مسند الامام احمد : 97/1،چشتی)(سنن ابي داؤد : 3214) (سنن النسائي : 190، 2008 ، واللفظ لهٗ ، وسندهٗ حسن)


اس حدیث کو امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے الاصابته في تميز الصحابته لابن حجر : 114/7) اور امام ابنِ جارود رحمۃ اللہ علیہ (550ھ) نے ”صحیح“ قرار دیا ہے ۔ یہ حدیث نصِ قطعی ہے کہ ابوطالب مسلمان نہیں ہوئے تھے ۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلّم اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے نماز جنازہ تک نہیں پڑھی

نوٹ:ابو طالب کے ایمان نہ لانے سے متعلق تفصیلی دلائل کی معلومات کے لئے فتاویٰ رضویہ کی29ویں  جلد میں  موجود اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان کا رسالہ ’’   شَرْحُ الْمَطَالِب فِی مَبْحَثِ اَبِی طَالِب   ‘‘       (ابو طالب کے ایمان سے متعلق بحث)    کا مطالعہ کریں ۔