کیا نکاح کا خُطبہ پڑھنا واجِب ہے ؟ |کیا ٹیلیفون پر نکاح دُرُست ہے ؟
کیا نکاح کا خُطبہ پڑھنا واجِب ہے ؟
نکاح کا خُطبہ پڑھنا واجِب نہیں بلکہ مستحب ہے ۔ ہاں جب پڑھا جائے تو حاضِرین پر سُننا واجب ہے ۔ خطبۂ نِکاح کے علاوہ نِکاح کے مزید چند مستحبات یہ بھی ہیں : ”(۱)عَلانیہ نکاح(۲)نکاح سے پہلے خطبہ پڑھنا کوئی سا خطبہ ہو اور بہتر وہ ہے جو حدیث میں وارِد ہو(۳)مسجد میں ہونا(۴)جمعہ کے دن(۵) گواہانِ عادل کے سامنے (۶)عورت عمر، حسب ، مال، عزّت میں مرد سے کم ہو اور (۷)چال چلن اور اخلاق وتقویٰ وجمال میں بیش(یعنی بڑھ کر ) ہو ۔ (۸)جس سے نکاح کرنا ہو اُسے کسی معتبر عورت کو بھیج کر دکھوا لے اور عادات و اطوار و سلیقہ وغیرہ کی خوب جانچ کر لے کہ آئندہ خرابیاں نہ پڑیں ۔ (۹) کنواری عورت سے اور جس سے اولاد زیادہ ہونے کی اُمّید ہو نکاح کرنا بہتر ہے ۔ سِن رسیدہ، بدخلق اور زانیہ سے نکاح نہ کرنا بہتر ۔ (۱۰)عورت کو چاہیے کہ مرد دِیندار، خوش خلق، مال دار، سخی سے نکاح کرے فاسق بدکار سے نہیں اور یہ بھی نہ چاہیے کہ کوئی اپنی جوان لڑکی کا بوڑھے سے نکاح کر دے ۔ “(بہارِ شریعت، ۲ / ۵، حصہ : ۷ ملتقطاً )
کیا ٹیلیفون پر نکاح دُرُست ہے ؟
ایسا نکاح جس میں اِیجاب کرنے والا کسی اور مقام پر ہو اور قبول کرنے والا دوسرے مقام پر تو یہ نکاح نہیں ہو گا ۔ نکاح میں اِیجاب وقبول دونوں کا ایک مجلس میں ہونا ضَروری ہے جیسا کہ فقۂ حنفی کی مشہور و معروف کتاب دُرِّمُختار میں ہے : اِیجاب تمام عُقود میں مجلس سے غائب کسی شخص کے قبول پر مَوقُوف نہیں ہو سکتا ۔ وہ عقدِ نکاح ہو یا خرید و فروخت یا اِن کے علاوہ کوئی اور عقد ۔ غائب والی صُورت میں اِیجاب با طِل ہو جا ئے گا اور بعد میں اُسے جا ئز قرار دینے سے بھی نکاح صحیح نہ ہو گا ۔ (دُرِّمختار ، کتاب النکاح ، ۴ / ۲۱۲ )
فتاویٰ ہندیہ میں ہے : نکاح کے لیے دو گواہوں کا ایک ساتھ اِیجاب وقبول کے اَلفاظ سُننا شرط ہے ۔ (فتاویٰ ھندیة ، کتاب النکاح ، الباب الاول فی تفسیرہ...الخ ، ۱ / ۲۶۸)
جبکہ ٹیلی فون پر دونوں گواہ ایک ساتھ نہیں سُن سکتے نیز ٹیلی فون پر بولنے والا فرد کون ہے ؟عموماً اس کی پہچان بھی مشکل ہوتی ہے کیونکہ ٹیلی فون پر ایک کی آواز دوسرے سے ملتی جلتی ہو سکتی ہے اس وجہ سے اس کے سننے والا گواہ نہیں بن سکتا جیسا کہ فتاویٰ ہندیہ میں ہے : اگر پردے کے اندر سے اِقرار سُنا تو رَوا نہیں ہے کہ کسی شخص پر گواہی دے کیونکہ اس میں غیر کا اِحتمال ہے اس لیے کہ آواز ، آواز کے مشابہ ہوا کرتی ہے ۔ (فتاویٰ ھندیة ، کتاب الشھادة ، الباب الثانی فی بیان تحمل الشھادة...الخ ، ۳ / ۴۵۲ )
مفتیٔ اعظم پاکستان، وقارُ الملت حضرتِ مولانا مفتی محمد وَقار الدّین قادِری رَضوی عَلَیْہِ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الْقَوِی فرماتے ہیں : نکاح صحیح ہونے کی بہت سی شرطیں ہیں : ان میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ایجاب وقبول دونوں ایک مجلس میں ہوں اور دوسری شرط یہ ہے کہ ایجاب وقبول کے اَلفاظ دو عاقل و بالغ مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتیں ایک ساتھ سُنیں ۔ ٹیلی فون پر ظاہر بات ہے کہ مجلس ایک نہیں ہے لہٰذا پہلی شرط نہ پائی جانے کی وجہ سے نکاح باطل ہے اور دوسری شرط بھی نہیں پائی جاتی اس لیے کہ ٹیلی فون سے ایک آدمی سُنتا ہے ، اگر قاضی نے سنا تو گواہوں نے کچھ نہ سُنا اور جب گواہ سُنیں تو دوبارہ ٹیلی فون کرنے والابولے گا اس نے نئے اَلفاظ سنے وہ جو پہلے والے نے نہ سُنے تھے اس طرح دوسرا گواہ بھی سنے گا اس لیے دونوں گواہوں کا ایک ساتھ سُننا بھی نہیں پایا جائے گا اور تیسری وجہ باطل ہونے کی یہ ہے کہ ٹیلی فون پر صرف آواز سُنی جاتی ہے ، کون شخص قبول کر رہا ہے ؟ یہ معلوم نہیں ہوتا ہے اور صرف آواز سے یہ متعین نہیں کیا جا سکتا کہ یہ فُلاں شخص کی آواز ہے اس لئے کہ آواز دوسرے کی طرح بنائی جا سکتی ہے ۔ لوگ جانوروں کی آوازوں کی اس طرح نقل کرتے ہیں کہ اگر سامنے نہ ہو تو پہچانا نہیں جا سکتا کہ یہ آواز جانور کی ہے یا انسان نقل کر رہا ہے ۔ بہر حال ٹیلی فون پر نکاح باطل ہے ۔ (وقارُالفتاویٰ، ۳ / ۵۲ ملتقطاًف)
فتاویٰ فَیض الرسول ، ۱ / ۵۶۰ پر ہے : ٹیلی فون کے ذریعے نکاح پڑھنا ہرگز صحیح نہیں ۔
سُوال : کیا کوئی ایسی صورت نہیں جس سے ٹیلیفون پر نکاح کرنا دُرست ہو جائے ؟
جواب : ٹیلیفون پر نکاح دُرست ہونے کی یہ صورت ہو سکتی ہے کہ لڑکا یا لڑکی خط یا ٹیلیفون کے ذریعے کسی شخص کو اپنا وکیل بنا دے مثلاً لڑکا کسی کو اپنا وکیل بناتے ہوئے یہ کہے کہ میں فُلانہ بنتِ فُلاں بن فُلاں سے اتنے حق مہر کے بدلے میں نکاح کرنا چاہتا ہوں یا لڑکی کہے کہ میں فُلاں بن فُلاں سے اتنے حق مہر کے بدلے میں نکاح کرنا چاہتی ہوں ۔ اب وہ وکیل لڑکے یا لڑکی کی طرف سے دوسری جگہ دو گواہوں کے سامنے مجلس ِنکاح میں ایجاب وقبول کرے تو اس طرح نکاح ہو جائے گا ۔