قرآنِ پاک کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کی اہمیّت
محرر: عبداللہ ھاشم عطاری مدنی
03313654057
قرآنِ پاک کو تجوید کے ساتھ پڑھنے کی اہمیّت
قرآنِ مجید، فرقانِ حمید اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی وہ آخری اور مکمل کتاب ہے جسے اللّٰہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے پیارے محبوب صلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم پر نازل فرمایا ۔ یہ وہ مُقَدَّس کتاب ہے جس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو سیدھے راستے کی طرف رہنمائی فرمائی اور بیشما ر منکرینِ خدا ورسول عَزَّوَجَلَّ وصلَّی اللّٰہ تعالٰی علیہ وآلہ وسلّم اسی کلامِ مجیدکی بدولت اسلام قبول کرکے کائنات کے عظیم رہنما بن گئے ۔ یہی وہ صحیفۂ آسمانی ہے جس کے کروڑوں انسان حُفّاظ ہیں ۔ قرآنِ مجید ہی وہ کتابِ مُبین ہے جو ہر قسم کے تغَیَّروتبدّل، تحریف وترمیم کے بغیر موجود ہے ۔ اس کو دیکھنا، چُھونا، پڑھنا عبادت ہے ۔ اس پر عمل دونوں جہان میں سعادتمندی و کامیابی کا ذریعہ ہے ۔ مگر افسوس !آج کا مسلمان اس فانی دنیا میں اپنی دنیوی ترقی وخوشحالی کے لئے نِت نئے علوم وفنون سیکھنے ، سکھانے میں تو ہر وقت مصروفِ عمل نظر آتا ہے جبکہ رب عَزَّوَجَلَّ کے نازل کردہ قرآن پاک کو پڑھنے ، سیکھنے ، سمجھنے اور اس پر عمل کرنے میں کو تاہی اور غفلت کا شکار ہے ۔ حالانکہ اس کی تعلیم کی اہمیت سے کس کو انکارہوسکتا ہے ۔
قرآن مجید کو سیکھنے ، سکھانے ، پڑھنے ، پڑھانے کے فضائل پر مبنی۴ فرامینِ مصطفیٰ
{1}… ’’خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ اْلقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہ‘‘ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے ۔ حضرتِ سیِّدُناابو عبد الرحمن سُلَمی رَضِیَ اللّٰہ تَعالٰی عَنْہ مسجد میں قرآنِ پاک پڑھایاکرتے اور فرماتے : اِسی حدیثِ مُبارک نے مجھے یہاں بٹھا رکھا ہے ۔ (بخاری ، کتاب فضائل القرآن ، باب خیرکم من تعلم القرآن وعلمہ، ۳/۴۱۰، حدیث : ۵۰۲۷)
الٰہی خوب دیدے شوق قرآں کی تلاوت کا
شَرَف دے گنبدِ خَضْراکے سائے میں شہادت کا
{2}… ’’ اَفْضَلُ الْعِبَادَۃِ قِرَاءَ ۃُ الْقُرْاٰنِ‘‘ افضل عبادت قرآ ن پاک کی تلاوت ہے ۔ (معجم الصحابۃ لابن القانع، باب الالف، ۱/۵۶، حدیث : ۵۱)
{3}… ’’ مَنْ قَرَءمِنَ الْقُرْاٰنِ حَرْفًا فَلَہ‘ عَشْرُ حَسَنَاتٍ‘‘جس شخص نے قرآن مجیدکا ایک حرف پڑھا اس کے لئے دس نیکیاں ہیں ۔ (مسند الرویانی، مسند عوف بن مالک الاشجعی، ۱/۳۹۷، الحدیث : ۶۰۵)
{4}… ’’مَنْ تَعَلَّمَ الْقُرْاٰنَ وَعَلَّمَہ‘وَ أَخَذَ بِمَا فِیْہِ کَانَ لَہ‘ شَفِیْعاً وَّدَلِیْلاً اِلیَ الْجَنَّۃِ‘‘جس نے قرآن مجید سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے اس پر عمل کیا ، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گااور جنّت میں لے جائے گا ۔ (المؤتلف والمختلف للدار قطنی، باب الخاء، ۲/۸۳۰)
قُرآن پا ک کو خلافِ تجوید پڑھنے کی وعید
تعلیمِ قرآن کے فضائل پر بیشمار احادیثِ مبارکہ کُتُبِ احادیث میں موجود ہیں ۔ مگر یاد رہے کہ یہ فضائل اوراجر وثواب اسی وقت حاصل ہو سکتے ہیں جب کہ قرآنِ کریم کو دُرُست تلفظ اورصحیح مخار ج کے ساتھ پڑھا جائے ۔ کیونکہ غلط طریقے پر پڑھنا بجائے ثواب کے وعید و عذاب کا باعث ہے ۔ جیساکہ
حضرت سیدنا انس بن مالک رضی اللّٰہ تعالی عنہ فرماتے ہیں : : رُبَّ قَارِیٍٔ لِّلْقُرْاٰنِ وَالْقُرْاٰنُ یَلْعَنُہْ، بہت سے قرآن پڑھنے والے ایسے ہیں کہ( غلط پڑھنے کی وجہ سے ) قرآن اُن پر لعنت کرتاہے ۔ (احیاء علوم الدین ، کتاب آداب تلاوۃ القرآن، الباب الاول، فی ذم تلاوۃ الغافلین، ۱/۳۶۴)
علم تجوید کی اہمیت پر فرمانِ اعلیٰ حضرت علیہ الرحمۃ
اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ ر حمۃُالرحمن فرماتے ہیں : ’’ اتنی تجوید (سیکھنا) کہ ہر حرف دوسرے حرف سے صحیح ممتاز ہو فرضِ عین ہے ۔ بغیر اس کے نماز قطعاً باطل ہے ۔ عوام بیچاروں کو (تو)جانے دیجئے خواص کہلانے والوں کو دیکھئے کہ کتنے اس فرض پر عامل (عمل کرنے والے ) ہیں ۔ میں نے اپنی آنکھو ں سے دیکھا اور اپنے کانو ں سے سُنا، کن کو؟ علماء کو ، مفتیوں کو ، مدرّسوں کو ، مُصنّفوں کو، قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَد میں اَحَد کو اَھَد پڑھتے ہوئے اور سورئہ منافقون میں یَحْسَبُوْنَ کُلَّ صَیْحَۃٍ عَلَیْھِمْ میں یَعْسَبُوْنَپڑھتے ہیں ، ھُمُ الْعَدُوُّ فَاحْذَرْھُمْ کی جگہ فَاعْذَرْ پڑھتے ہیں ۔ وَھُوَالْعَزِیْز کی جگہ ھُوَالْعَذِیْذ پڑھتے ہیں ۔ بلکہ ایک صاحب کو الحمد شریف میں صِرَاطَ الَّذِیْنَکی جگہ صِرَاطَ الظِّیْنَ پڑھتے سُنا ۔ کس کس کی شکایت کیجئے ؟یہ حال اکابر کا ہے پھر عوام بیچاروں کی کیا گنتی؟ اب کیا شریعت ان کی بے پر وائیوں کے سبب اپنے احکا م منسوخ فر ما دے گی؟نہیں نہیں ۔ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ (ترجمۂ کنزالایمان) حکم نہیں مگراللّٰہ کا ۔ (فتاوی رضویہ، ۳/۲۵۳، بتصرف)
جس سے حُروف صحیح ادانہ ہوتے ہوں وہ کیا کرے ؟
جس سے حُروف صحیح ادا نہیں ہوتے اس کے لئے تھوڑی دیر مشق کرلینا کافی نہیں بلکہ لازم ہے کہ انہیں سیکھنے کے لئے رات دن کو شش کرے اور صحیح پڑھنے والوں کے پیچھے نماز پڑھ سکتاہے تو فرض ہے کہ (نماز) اس کے پیچھے پڑھے ، یا وہ آیتیں پڑھے جن کے حروف صحیح ادا کر سکتاہو اور یہ دونوں صورتیں ناممکن ہو ں تو زمانۂ کو شش میں اِس کی اپنی نماز ہو جائے گی ۔ آج کل کا فی لو گ اس مرض میں مبتلا ہیں کہ نہ انہیں قرآن پڑھنا آتا ہے نہ سیکھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یاد رکھئے ! اس طرح نمازیں برباد ہو تی ہیں ۔ ( نماز کے احکامِ، نماز کا طریقہ، ص۲۱۰)
تجوید کی ابتدائی ضروری باتیں
کسی بھی علم یا فن کو شروع کرنے سے پہلے اِن باتوں کا جاننا ضروری ہے : علم کا نا م، اس کی تعریف، موضوع، غرض وغایت، حکم اورفائدہ تا کہ اس علم کو حاصل کرنے والے طلبہ کو رغبت حاصل ہو اور اس علم کا حاصل کرنا آسان ہوجائے ۔ چنانچہ تجوید کی ابتدائی ضروری باتیں بیان کی جاتی ہیں ۔
تجوید کی تعریف
تجویدکالغوی معنی :
’’ اَلتَّحْسِیْنُ وَالْاِتْیَانُ بِالْجَیِّد‘‘ سنوارنا، خوبصورت کرنا اور کسی کام کو عمدگی سے کرنا ۔
تجویدکااصطلاحی معنی :
’’ھُوَعِلْمٌ یُّبْحَثُ فِیْہِ عَنْ مَّخَارِجِ الْحُرُوْفِ وَصِفَاتِھَا وَعَنْ طُرُقِ
تَصْحِیْحِ الْحُرُوْفِ وَتَحْسِیْنِھَا‘‘ یعنی’’ علمِ تجوید ‘‘ اس علم کا نام ہے جس میں حروف کے مخارج اور ان کی صفات اور حروف کی تصحیح (صحیح اداکرنے ) اور تحسین (خوبصُورت کرنے ) کے بارے میں بحث کی جاتی ہے ۔
علمِ تجوید کا موضوع
علمِ تجوید کا موضوع ’’حروفِ تہجی ‘‘ ہیں ۔ ’’ الف ‘‘ سے لیکر ’’ یَا‘‘تک تمام حروف ہیں جن کی تعداد انتیس ہے ۔
علمِ تجوید کی غرض وغایت
علمِ تجوید کی’’ غرض وغایت‘‘ یہ ہے کہ قرآنِ مجید کوعربی لب ولہجہ میں تجوید کے ساتھ صحیح پڑھا جائے اور غلط ومجہول ادائیگی سے بچا جائے ۔ اور اگر ان اُمُور کو بجا لانے میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی رضا مقصود ہوتو دونوں جہاں میں کامیابی کا ذریعہ ہے ۔
علمِ تجوید کاحکم
علمِ تجوید کا حاصل کرنافرضِ کفایہ ہے اور قرآنِ پاک کوتجوید کے ساتھ پڑھنا ’’ فرضِ عین ‘‘ ہے ۔ حضرت علامہ مُلّا علی قاری علیہ رحمۃُ اللّٰہ الباری فرماتے ہیں : ثُمَّ ھٰذَا الْعِلْمُ لَا خِلَافَ فِیْ اَنَّہ‘ فَرْضُ کِفَایَۃٍ وَّ الْعَمَلُ بِہٖ فَرْضُ عَیْنٍ، اس علم کا حاصل کرنا بلا اختلاف ’’ فرضِ کفایہ ‘‘ ہے اور اسکے مطابق عمل کرنا(یعنی تجوید کے ساتھ پڑھنا) ’’فرضِ عین ‘‘ ہے ۔ اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں : اتنی تجوید (سیکھنا) کہ ہر حرف دوسرے حرف سے صحیح ممتاز ہو ’’ فرضِ عین ‘‘ ہے ۔ بغیر اس کے نماز قطعاً باطل ہے ۔ (فتاوی رضویہ، ۳/۲۵۳)
قرآن وحدیث کی روشنی میں علمِ تجوید کا ثبوت
قرآن مجید میں اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کا فرمان عالیشان ہے :
وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) (پ : ۲۹، المزّمل : ۴)
ترجمۂکنزالایمان : اور قرآن خوب ٹھہرٹھہر کر پڑھو ۔
امیرالمومنین حضرت سَیِّدُنا علی المرتَضٰی، شیرِخداکَرَّمَ اللّٰہُ تَعَالٰی وَجْہَہُ الْکَرِیْم سے پوچھا گیا کہ ’’ ترتیل کے کیا معنی ہیں ؟ تو آپ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہنے ارشاد فرمایا : ’’تَجْوِِیْدُ الْحُرُوْفِ وَمَعْرِفَۃُ الْوُقُوْفِ‘‘ ترتیل حروف کو عمدگی سے (مخارج و صفات کے ساتھ) اداکرنااور وقف کی جگہوں کو پہچاننے کا نام ہے ۔ (شرح طیبۃ النشر فی القراء ات لابن الجزری، مبحث التجوید، ص۳۴)
اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتاہے :
اَلَّذِیْنَ اٰتَیْنٰهُمُ الْكِتٰبَ یَتْلُوْنَهٗ حَقَّ تِلَاوَتِهٖؕ- (پ۱، البقرۃ : ۱۲۱)
ترجمۂکنزالایمان : جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ جیسی چاہیے کی تلاوت کرتے ہیں .
تفسیرِ جلالَیْن میں اس آیتِ مبارکہ کے تحت ہے : ’’اَیْ یَقْرَءُ وْنَہ کَمَا اُنزِلَ‘‘یعنی وہ اسے ایسے پڑھتے ہیں جس طرح اسے نازل کیا گیا ۔ (تفسیر جلالین مع حاشیہ انوار الحرمین، البقرۃ، تحت الآیۃ : ۱۲۱، ۱/۵۸)
احادیثِ مبارکہ سے ثبوت
حضرت سَیِّدُنا زید بن ثابت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ سید المرسلین، شفیع المذنبین، رحمۃٌللعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا فرمان عالیشان ہے : ’’ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ اَنْ یُّقْرَءَ الْقُرْاٰنُ کَمَا اُ نْزِلَ‘‘بے شک اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ پسند کر تاہے کہ قرآن کو اسی طر ح پڑھا جائے جیسا اسے نازل کیاگیا ۔ (جامع صغیر، حرف الھمزہ، الحدیث : ۱۸۹۷، ص۱۱۷)
اُمُّ المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھا سے مروی ہے کہ حُضور سیددوعالمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم نے فرمایا : ’’ اَلْمَاھِرُ بِالْقُرْاٰنِ َمعَ السَّفَرَۃِ الْکِرَامِ الْبَرَرَۃِ ‘‘ قرآن کریم کو مہارت سے پڑھنے والابہت مُعَزّز اور مُقَرّب فرشتوں کے ساتھ ہوگا ۔ (مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین، باب فضل الماھر فی القرآن ۔ ۔ ۔ الخ، الحدیث : ۷۹۸، ص۴۰۰)
حضرت سَیِّدُنا حُذَیْفہرَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے کہ نبیٔ کریم ، رؤفٌ رَّ حیمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمنے فرمایا : ’’اِقْرَءُ واالْقُرْاٰنَ بِلُحُوْنِ الْعَرَبِ وَاَصْوَاتِھَا‘‘ قرآن پاک کو عرب کے لب ولہجہ اور ان کی آواز وں میں پڑھو ۔ (نوادر الاصول، الاصل الخامس والخمسون والمائتان، ۲/۱۰۴۲، حدیث : ۱۳۴۵)
علم تجوید کے بارے میں امام جزری علیہ الرحمۃ کے اشعار
حضرت سَیِّدُنا امام جزری علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی اپنی کتاب ’’ اَلْمُقَدّمۃُ الجزَرِیّۃ ‘‘ میں فرماتے ہیں :
وَالْاَخْذُ بِالتَّجْوِیْدِ حَتْمٌ لَّازِم
مَنْ لَّمْ یُجَوِّدِ اْلقُرْاٰنَ اٰثِم
تجوید کا حاصل کرناضروری اور لازمی ہے جوقرآن کریم کو تجوید سے نہ پڑھے وہ گناہ گار ہے ۔
لِاَنَّہ‘ بِہِ الْاِلٰہُ اَنْزَلَا
وَھٰکَذَا مِنْہُ اِلَیْنَا وَصَلَا
اس لئے کہ قرآن کو اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ نے تجوید کے ساتھ نازل فرمایاہے اور اسی طرح (یعنی تجویدکے ساتھ ) حق تعالیٰ سے ہم تک پہنچاہے ۔ (المقدمۃ الجزریۃ، باب التجوید، ص۳)
ایک اور مقام پرارشادفرمایا :
اِذْ وَاجِبٌ عَلَیْھِم مُحَتَّم
قَبْلَ الشُّرُوْعِ اَوّلًا اَنْ یَّعْلَمُوْا
قرآنِ مجید پڑھنے والوں پر یہ بات فرض ہے کہ قرآ ن کریم کی قِرائَ ت شُروع کرنے سے پہلے جان لیں …
مَخَارِجَ الْحُرُوْفِ وَالصِّفَاتِ
لِیَلْفِظُوْا بِاَفْصَحِ الُّغَاتِ
حروف تہجی کے مخارج اور صفات تاکہ وہ فصیح تر لغت کے مطابق تلفظ کرسکیں
(المقدمۃ الجزریۃ، منظومۃ المقدمۃ، ص۱)
تصحیحِ حُرُوف فرضِ عین ہے اور تجوید کا انکار کفر ہے
اعلی حضرتعلیہ الرحمۃنے ارشادفرمایا : بلاشُبہ اتنی تجویدجس سے تصحیح حُرُوف ہواور غلط خوانی سے بچے ’’فرضِ عین‘‘ ہے ۔ بزازیہ وغیرہ میں ہے ’’اَللَّحْنُ حَرَامٌ بِلَاخِلَافٍ‘‘(لحن سب کے نزدیک حرام ہے ) جو اسے بدعت کہتاہے اگر جاہل ہے تو اسے سمجھا دیاجائے اوردانستہ (تجویدکی فرضیت جانتے ہوئے )کہتاہے تو کفر ہے کہ فرض کو بدعت کہتاہے ۔ (فتاوی رضویہ ، ۶/ ۳۴۳)
ایک اور مقام پر اعلیٰ حضرت امام احمدرضا خان علیہ رحمۃُالرحمن لکھتے ہیں : تجوید بنَصِّ قطعی قرآن واخبار (احادیثِ) مُتَوَاتِرَہ سَیِّدالانس والجانّ علیہ وعلٰی الہ افضل الصلوۃ والسلام و اجماعِ تام صحابہ وتابعین و سائر اٰئمّہ کرام علیھم الرضوان المستدام حق وواجب اور علمِ دین شرعِ الٰہی ہے ۔ قاَلَ اللّٰہُ تَعَالٰی (یعنی اللّٰہ عَزَّوَجَلَّکا فرمان عالیشان ہے ) :
وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴) (پ : ۲۹، المزّمل : ۴)
ترجمۂکنزالایمان : اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو ۔
( لہذا) اسے مطلقاً ناحق بتانا کلمۂ کفر ہے ، والعیاذبِاللّٰہ تعالٰی ۔ ہا ں جو اپنی ناواقفی سے کسی خاص قاعدے کا انکار کرے (تو)وہ اس کا جہل ہے اُسے آگاہ ومُتَنَبِّہ کرناچاہیئے ۔ وَاللّٰہُ تَعَالی اعلم (فتاوی رضویہ، ۶/۳۲۲)
معلوم ہو اکہ علم تجوید حق ، واجب اور شریعتِ مُطَہَّرَہ کا علم ہے ۔ ’’تجوید‘‘ قرآن کریم کی نص قطعی ، احادیثِ مُتَوَاتِرَہ ، صحابہ ، تابعین اور ائمہ کرام (علیھم الرضوان) کے اجماع سے ثابت ہے ۔
قرآن پاک کو خوش آوازی سے پڑھنے کی اہمیّت
قرآنِ مجید ، فرقانِ حمیدکو خُوش آوازی سے پڑھنا امرِ زائد مُستحسن (پسندیدہ، اچھا) ہے ۔ قرآن کر یم کو خوش آوازی کے ساتھ پڑھنے سے قِرَائَ تِ قرآن کے حُسن میں اور بھی اضافہ ہوجاتاہے ۔ لیکن یا د رہے کہ خوش آوازی سے قواعدِ تجوید نہ بگڑیں کیونکہ ایسی خوش آوازی جس سے قواعدِ تجوید بگڑیں ممنوع ہے ۔ لحن خفی لازم آئے تو مکروہ اور اگرلحن جلی لازم آئے تو حرام ہے ۔ پڑھنے اور سننے دونوں کا ایک حکم ہے ۔ (فوائد مکیۃ للجزری، ص : ۲۳)
خُوش آوازی سے قُرآن کر یم کو پڑھنے کے متعلق ۴ فرامینِ مصطفیٰصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمپیش کیے جاتے ہیں :
{۱}… سید ُالمرسلین، شفیع ُالمُذْنِبِیْن، رحمۃٌللعالمین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم کا فرمان عالیشان ہے : ’’ زَیِِّنُوا الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ‘‘قرآن کواپنی آوازوں سے زینت دو ۔ (ابو داود، کتاب الوتر، باب استحباب الترتیل فی القراء ۃ، ۲/۱۰۵، حدیث : ۱۴۶۸، وبخاری، کتاب التوحید، باب قول النبی : الماھر بالقرآن مع الکرام البررۃ، ۴/۵۹۲)
{۲ }… رحمتِ عالَم، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم، شفیعِ اُمم، رسولِ اکرم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمکا فرمانِ مُعَظَّم ہے : ’’ لِکُلِّ شَیْئٍ حِلْیَۃٌ وَّحِلْیَۃُ الْقُرْاٰنِ حُسْنُ الصَّوْتِ‘‘ہر چیز کے لئے زیور ہے اور قرآن کر یم کازیور خوبصورت آواز( میں اسے پڑھنا ) ہے ۔ ( المعجم الاوسط، ۵/۳۳۹، حدیث : ۷۵۳۱)
{۳}…حضرت سَیِّدُنا بَراء بن عازِب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُسے روایت ہے کہ نبیٔ کریم ، رؤ ف رَّ حیمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمنے فرمایا : ’’ حَسِّنُوا الْقُرْاٰنَ بِاَصْوَاتِکُمْ فَاِنَّ الصَّوْتَ الْحَسَنَ یَزِیْدُ الْقُرْاٰنَ حُسْناً‘‘قرآن کر یم کو اپنی آوازوں سے خُوبصورت کرکے پڑھواِس لئے کے اچھی آواز قرآن کے حُسن میں اضافہ کرتی ہے ۔ (دارمی، کتاب فضائل القرآن، باب التغنی بالقرآن، ۲/۵۶۵، حدیث : ۳۵۰۱)
{۴} حضرت سَیِّدُناابوہریرہ رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہُ سے روایت ہے کہ سرکارِ مدینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّمنے فرمایا : ’ ’لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَتَغَنَّ بِالْقُرْاٰنِ‘‘جو قرآن مجید کوخوش آوازی سے نہیں پڑھتاوہ ہم میں سے نہیں ہے ۔ ( بخاری، کتاب التوحید، باب قول اللّٰہ : واسروا قولکم او اجھروا بہ ۔ ۔ ۔ الخ، ۴/۵۸۶، حدیث : ۷۵۲۷ )
تلاوت کے بارے میں اہم نکات
٭… امیر ُالمؤمنین حضرت سَیِّدُنا عمرفاروق رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ روزانہ صُبح کو قرآن مجید کو چُومتے اور فر ماتے : ’’یہ میرے ربّ کاعہد اور اس کی کتاب ہے ۔ ‘‘
٭… قرآن مجید پڑھنے سے پہلے مسواک کر لیجئے کیونکہ مسواک حُروف کی صاف ادائیگی میں اور منہ کی پاکیزگی میں بہت مفیدہے ۔
٭… تلاوت کے آغازمیں تعَوُّذ پڑھنامستحب ہے اور ابتدائے سورت میں بسم اللّٰہ سُنّت، ورنہ مستحب ۔
٭… باوُضو، قبلہ رُو، اچھّے کپڑے پہن کر (خُوشبُو لگاکر) تلاوت کرنا مستحب ہے ۔ حضرت امام شافعی رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں : عمدہ خوشبو لگانے سے عَقْل بڑھتی ہے ۔
٭… قرآن مجید دیکھ کرپڑھنا زبانی پڑھنے سے افضل ہے کہ یہ پڑھنا بھی ہے اور دیکھنا اور ہاتھ سے چھونا بھی اور یہ سب کام عبادت ہیں ۔
٭… قرآن مجید کو نہایت اچھّی آواز سے پڑھنا چاہیے اگر اچھّی آواز نہ ہو تو اچھّی آواز بنانے کی کو شش کرے ۔ مگر لحن کے ساتھ پڑھنا کہ حُرُوف میں کمی بیشی ہو جائے جیسے گانے والے کیا کرتے ہیں یہ ناجائز ہے بلکہ پڑھنے میں قواعدِ تجوید کی رعایت کیجئے ۔
٭… قرآن مجید بلند آواز سے پڑھنا افضل ہے جب کہ کسی نمازی یا مریض یا سوتے کو ایذا نہ پہنچے ۔
٭… غسل خانے اور نجاست کی جگہوں میں قرآن مجید پڑھنا ناجائزہے ۔
٭… تلاوت کرتے وقت اگرکو ئی معظم دینی شخص مثلاًبادشاہِ اسلام یا عالم ِدین یا پیر یا استاد یا باپ آجائے تو تلاوت کرنے والا اس کی تعظیم کے لئے کھڑا ہو سکتا ہے ۔
٭… قرآن مجیدکو جزدان وغلاف میں رکھنا ادب ہے صحابہ وتابعین رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہم کے زمانے سے اس پر مسلمانوں کا عمل ہے ۔
٭… قرآن کریم ختم ہونے پر دعا مانگنی چاہئے کہ اس وقت دعاقبول ہو تی ہے ۔
٭… جب قرآن پاک ختم ہو تو تین بارسورۂ اخلاص پڑھنا بہتر ہے اگرچہ تراویح میں ہو ا لبتّہ اگر فرض نماز میں ختم کر ے تو ایک بار سے زیاد ہ نہ پڑھے ۔ (تلاوت کی فضیلت ، ص۱۶)
ختمِ قرآن کا طریقہ یہ ہے کہ سورۃُالناس پڑھنے کے بعد سورۂ فاتحہ اورسورۂ بقرہ سے ’’ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘ تک پڑھے اور اس کے بعد دُعا مانگے کہ یہ سُنّت ہے ۔ چُنانچہ حضرت سَیِّدُنا اُبی بن کعب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہسے روایت ہے نبیٔ کریم ، رؤ فٌ رَّ حیمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم جب ’’ قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ‘‘ پڑھتے تو سور ۂ فاتحہ شروع فرماتے پھر سورۂ بقرہ سے ’’ اُولٰٓىٕكَ هُمُ الْمُفْلِحُوْنَ ‘‘ تک پڑھتے پھر ختمِ قرآن کی دُعاپڑھ کر کھڑے ہوتے ۔ (تلاوت کی فضیلت ، ص۱۶)
شو قِ علمِ تجوید وقِراء ت پر مبنی ’’ اَئِمّۂ کرام‘‘ کے فرامین و دلنشین واقعات :
ۃ… امام نافع علیہ رحمۃُ اللّٰہ الرافع فرماتے ہیں : میں نے سَتَّر۷۰ تابعینِ کرام رضی اللّٰہ تعالی عنہم سے علم قراء ت کی تحصیل کی ۔ (آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ علمِ قراء ت اور علم رسم الخط دونوں کے امام تھے ) (شذرات الذھب لابن العماد حنبلی، سنۃ : ۱۶۹، نافع بن ابی نعیم ابو عبد الرحمن، ۱/۴۳۷)
ۃ…امام مالک علیہ رحمۃُ اللّٰہ الخالق کی بارگاہِ سراپاعظمت میں ’’ بَسْمَلَہ ‘‘ کے بارے میں سوال عرض کیا گیا تو آپ رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ نے ارشاد فرمایا : ہر چیز کے بارے میں اہلِ حق سے پوچھا کرو ۔ (آپ کا مسئلہ چونکہ قِراء َت کے متعلق ہے اور) اِس وقت قراء ت کے امام ، امام نافع مدنی علیہ رحمۃُ اللّٰہ الغنی ہیں ۔ (لہذا ’’بسملہ ‘‘ کا مسئلہ اُن سے پوچھ لیجئے )(غایۃ النھایۃ فی طبقات القراء لابن الجزری، حرف النون، ۲/۲۹۰، الرقم : ۳۷۱۸ : نافع بن عبد الرحمن بن ابی نعیم)اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو ۔ اٰمین بجاہِ النَّبِیِّ الامین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم
ۃ…امام عیسٰی قالون علیہ رحمۃُ اللّٰہ ا لنُّور اپنے اُستادِمُحترم امام نافع علیہ رحمۃُ اللّٰہ الرافع سے مُستقل پچاس ۵۰ سال ( تیس سال دورانِ تعلیم اور بیس سال حُصُولِ علم کے بعد) پڑھتے رہے ۔ یہاں تک کہ فنِّ قِرائَ ت کے بڑے ما ہر اور امام بنے ۔ (غایۃ النھایۃ فی طبقات القراء لابن الجزری، باب العین، ۱/۵۴۲، الرقم۲۵۰۹ : عیسی بن مینا بن وردان)
ۃ…امام وَرْش علیہ رحمۃُ اللّٰہ الوَارِث ’’ علمِ قراء ت ‘‘ سیکھنے کے لئے اپنے مُلْک ’’مِصْر‘‘سے سفر اِختیار کرکے ’’ مدینہ مُنَوَّرہ ‘‘ ( زَادَھَا اللّٰہُ شَرَفاً وَّ تَعْظِیْماً )میں امام نافع علیہ رحمۃُ اللّٰہ الرافع کی بارگاہ میں حاضر ہوئے ۔ (معجم الأدباء لیاقوت الحموی، ۳/۴۸۲، الرقم : ۵۱۴ : عثمان بن سعید المعروف بورش المقریء)
ۃ… امام شُعْبَہ بن عیّاش بن سالم الاسدی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی نے اپنے اُستادِ محترم امام عاصم کوفی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی سے قرآنِ مجید کی پانچ پانچ آیتیں پڑھیں ۔ گرمی ، سردی ، بارش میں بھی کبھی ناغہ نہ کیا ۔ یہاں تک کہ بعض اوقات بارش والے دن پانی سے گذرناپڑتاتھا اور پانی کبھی کمر تک اور کبھی اس سے زیادہ ہوتا ۔ تین سال مستقل مزاجی سے علمِ قراء َ تسیکھا ۔ (سیر اعلام النبلاء للذھبی، ۷/ ۶۸۵، الرقم : ۱۳۰۳ : ابو بکر بن عیاش بن سالم الاسدی)
قراءتِ عشرہ کے اَئِمّہ کرام اور ان کے راویوں کا تعارف
قرآنِ مجید اللّٰہ تعالیٰ کی آخری اور ’’لاریب‘‘کتاب ہے ۔ علمائے اسلام نے اس کی تفسیر وتوضیح ، مفاہیم و معانی کی عقدہ کشائی کے لئے انتھک محنت اور قابلِ رشک جدّوجہد کی ہے ۔ اس کا حقِ خدمت اداکرنے کے لئے صعوبتوں اور مسافتوں سے بھر پور دور دراز بلاد وممالک کے سفر اختیار فرمائے ۔ ہرکسی نے اپنی اپنی ہمّت اور بساط کے مطابق اسکی خدمت کرکے ارفع و اعلی مقام حاصل کیا ۔ ان نُفوسِ قُدسیہ میں قِرائَ ت عشرہ کے دس 10 اَئمّہ کرام یعنی دس امام بھی ہیں جن کی محنت شاقّہ سے قراء ت کا سور ج آج تک جگمگا رہا ہے ۔
اوران کی ضبط کردہ ، روایت کردہ قرائَ ات حافظینِ قرآن کے لئے مینارئہ نُور ہے ۔ ہر امام کے دو ، دو راوی ہیں ۔ قراء ت عشرہ کے ائمّہ کرام اور ان کے راویوں کے اسمائِ گرامی پیش کئے جاتے ہیں :
اَئِمّہ قِراء ت راوی اوّل راوی دوم
امام نافع مدنی علیہ رَحمَۃُ اللّٰہ الغنی امام قالون رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیہ امام وَرْش رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ
امام ابنِ کثیر مکّی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی امام بَزِّی رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیہ امام قُنبُل رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ
امام ابو عَمْرو بصری علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی امام دُوْری رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیہ امام سُوْسِیْ رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیہ
امام ابنِ عامر شامی علیہ رَحمَۃُ اللّٰہ الغنی امام ہِشَام رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیہ امام ابنِ ذکوان رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیہ
امام عاصم کوفی تابعی علیہ رحمۃ اللّٰہ الکافی امام شُعْبَہ رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیہ امام حَفْص رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیہ
امام حمزہ کوفی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی امام خَلَف رحمۃ اللّٰہ تعالی علیہ امام خَلّاد علیہ رحمۃ اللّٰہ الجواد
امام کِسائی کوفیعلیہ رحمۃ اللّٰہ القوی امام ابوالحارث علیہ رحمۃ اللّٰہ الوارث امام دُوری علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی
امام ابوجعفر مدنی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی امام ابنِ وَرْدان علیہ رحمۃ اللّٰہ السلام امام ابنِ جَمَّاز رحمۃ اللّٰہ تعالی علیہ
امام ابویعقوب حَضْرَمِیْ علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی امام رُوَیس رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیہ امام رَوْح رحمۃ اللّٰہ تعالی علیہ
امام خَلَف بَزَّار کوفی علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی امام ہیں ۔ آپ کِبَار تابعین سے ہیں ۔ آپ کا نام ’’عاصم ‘‘ کُنْیت ’’ ابوبکر ‘‘ والد کانام ’’ ابو النَّجُود اورایک قول پر ’’عبداللّٰہ ‘‘ ہے ۔ آپ صحابیِ رسول حَضْرت سیِّدُنا حارث بن حَسَّان رضی اللّٰہ تعالی عنہ کی صحبتِ بابرکت سے مُشَرَّف ہوئے تھے ۔ آپ کی وِلادت باسعادت ۳۳ھ میں کوفہ میں ہوئی ۔ قبیلہ کے اعتبار سے آپ ’’اسدی ‘‘ ہیں ۔ آپ قرآن وحدیث ، صرف ونحو، فقہ و لغت کے امام تھے ۔ آپ بہت بڑے عابد وزاہد اور مُتَّقی و پرہیز گار تھے ۔ آپ نے ساری زندگی خدمتِ قرآن اور عبادت وریاضت میں گذاری ۔ آپ نے ’’علمِ قراء ت ‘‘کی تعلیم امام شیخ ابو عبد الرحمن سُلَمِی تابعی علیہ رحمۃُ اللّٰہ الغنی سے حاصل کی ۔ اور ان کے وصال کے بعد بالاتفاق ان کی جگہ پر ’’ رئیسُ القُرَّاء‘‘ کے منصب پر فائز ہوئے ۔ آپ تقریباً پچاس ۵۰ سال کوفہ میں قِراء ت کی مسند پر فائز رہے ۔ آپ سے بے شُمار لوگوں نے اکتسابِ فیض کیا ۔ آپ کے شاگردوں میں نامور ’’ مُحدِّثینِ کرام ‘‘ سمیت امام اعظم ابوحنیفہ تابعی کوفی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی بھی شامل ہیں ۔ آپ کا وِصال مروان کے دورِ خلافت کے آخر میں کوفہ یا سماوہ (شام) میں ۱۲۷ھ یا ۱۲۸ھ میں ہوا ۔ (تاریخ دمشق لابن عساکر، ۲۵/۲۲۰، الرقم : ۳۰۰۸ عاصم بن بَھْدَلَۃ ابی النَّجُوْد ابو بکر الاَسَدِی الکوفی المُقْرِء، وسیر اعلام النبلاء للذھبی، ۶/۷۹، الرقم : ۷۳۳ عاصم بن ابی النجود، وتھذیب التھذیب لابن حجر العسقلانی، ۴/۱۳۱، الرقم : ۳۱۳۷ عاصم بن بَھْدَلَۃ وھو ابن ابی النَّجُوْد الاَسَدِی) اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الاَمِین صلیاللّٰہ تعالیعلیہ والہ وسلم
قراء ت امام عاصم کے راویوں کا تعارف
امام عاصم کوفی تابعی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی کے شاگردوں میں سے دو شاگرد ’’ فنِّ تجوید وقراء ت ‘‘ میں بَہُت مشہور ہوئے ۔ اور یہ دونوں حضراتِ گرامی قراء تِ امام عاصم کی روایت کرنے والے ہیں ۔ ان کے اَسمائِ گرامی یہ ہیں :
٭ امام ابو بکر شُعبہ بن عَیَّاش اسدی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی
٭امام حفص بن سلیمان اسدی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی
ان دونوں حضراتِ گرامی کا تعارف پیشِ خدمت ہے ۔
تعارف امام ابو بکر شُعبہ بن عَیَّاش اسدی ۔ علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی
قراء تِ امام عاصم کے پہلے راوی امام ابو بکر شُعبہ بن عَیَّاش اسدی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی ہیں ۔ آپ نہ صرف فنِّ قراء ت کے امام تھے بلکہ حدیث و فقہ اور زہد و تقویٰ میں بھی بے مثل تھے ۔ کوفہ کے مُحدِّثینِ کرام اور قاریانِ قرآن میں بے پناہ شہرت حاصل ہوئی ۔ آپ کی وِلادت باسعادت ۹۵ھ یا ۹۶ھ میں کوفہ میں ہوئی ۔
(کتاب الثقات لابن حبان، کتاب اتباع التابعین، من یعرف بالکنی من اتباع التابعین، ۴/۴۲۸، الرقم : ۵۵۵۱ ابو بکر بن عیاش من اھل الکوفۃ، وسیر اعلام النبلاء للذھبی، ۷/۶۸۰، الرقم : ۱۳۰۳ ابو بکر بن عیاش بن سالم الاسدی)
آپ کے تقویٰ اور دیانت کا یہ عالَم تھا کہ زندگی بھر کوئی بے ہودہ لفظ ان کی زبان پر نہیں آیا اور تمام عمر کسی گُناہِ کبیرہ کے مُرْتکب نہیں ہوئے ۔ سَتّر۷۰ سال تک متواتر ساری رات بیدار رہ کر نوافل پڑھتے اور دن کو روزہ رکھتے ۔
(کتاب الثقات لابن حبان، کتاب اتباع التابعین، من یعرف بالکنی من اتباع التابعین، ۴/۴۲۸، الرقم : ۵۵۵۱ ابو بکر بن عیاش، وتاریخ بغداد، ۱۴/۳۸۵، الرقم : ۷۶۹۸ ابو بکر بن عیاش بن سالم الخیاط مولی واصل بن حنان، وسیر اعلام النبلاء للذھبی، ۷/۶۸۰، الرقم : ۱۳۰۳ ابو بکر بن عیاش)
حضرت سَیِّدُنا عبدُ اللّٰہ بن مُبارَک رحمۃُ اللّٰہ تعالٰی علیہ فرمایا کرتے تھے کہ میں نے ’’ امام ابو بکر شُعبہ بن عَیَّاش اسدی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی ‘‘ سے بڑھ کر کسی کو’’ مُتَّبِع شریعت‘‘ نہ پایا ۔ (سیر اعلام النبلاء للذھبی، ۷/۶۸۱، الرقم : ۱۳۰۳ ابو بکر بن عیاش بن سالم)
آپ کے ’’ ملفوظاتِ شریفہ ‘‘ میں سے فرمانِ نصیحت نشان یہ بھی ہے کہ خاموشی کا سب سے چھوٹا فائدہ ’’سلامتی ‘‘ ہے اور یہ’’ عافِیَت‘‘ کے لئے کافی ہے اور بولنے کا سب سے چھوٹا نقصان ’’ شُہرت ‘‘ہے اوریہ’’مصائب ‘‘کیلئے کافی ہے ۔ (حلیۃ الاولیاء، ابو بکر بن عیاش، ۸/۳۳۸، الرقم : ۱۲۴۱۵)
آ پ کا وِصالِ پُرمَلا ل مامون ُالرَّشید کے دور میں ۲۱ جُمادَی الآخر ۱۹۳ھ میں ۹۸ سال کی عمر میں ہوا ۔ (کتاب الثقات لابن حبان، کتاب اتباع التابعین، من یعرف بالکنی من اتباع التابعین، ۴/۴۲۸، الرقم : ۵۵۵۱ ابو بکر بن عیاش)
انتقا ل کے وقت آپ کی بہن اورایک قول کے مطابق آپ کی صاحبزادی رونے لگی تو آپ نے ارشاد فرمایا : آپ کیوں روتی ہو؟میں نے اپنے مکان کے صرف اس ایک کونے میں ۱۸ ہزار بار قرآن مجید ختم کیا ہے ۔ ( حلیۃ الاولیاء، ابو بکر بن عیاش، ۸/۳۳۸، الرقم : ۱۲۴۲۰)
آ پ کے صاحبزادے ابراہیم کا بیان ہے کہ ’’ میرے والدِ مُحتَرم نے مجھ سے فرمایا : بیٹا! سُن لو !تمہارے باپ نے زندگی بھر کوئی بھی بے حیائی کا کام نہیں کیا اور تیس۳۰ سال سے مسلسل میں روزانہ ایک ختمِ قرآن مجید کرتا رہاہوں اور خبردار! اس بالا خانے پر ہرگز تم کوئی گناہ کا کام مت کرناکیونکہ اس بالا خانے پر میں نے ۱۲ ہزار بار ختمِ قرآن مجید کیاہے ۔
(اولیاء رجال الحدیث، الرقم : ۱۹ ابو بکر بن عیاش کوفی، ص۵۲تا۵۳)
اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الاَمِین صلیاللّٰہ تعالیعلیہ والہ وسلم
تعارف امام حفص بن سلیمان اسدی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی
’’ قراء تِ امام عاصم کے دوسرے راوی امام حفص بن سلیمان اسدی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی ہیں ۔ آپ ’ ’ علمِ قراء ت‘‘ میں اما م ابو بکر شُعبہ بن عَیَّاش
اسدی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی سے زیادہ ماہر اور بڑے قاری تھے ۔ قراء تِ متواترہ میں قراء ت امام عاصم بروایت حفص سب سے زیادہ مشہور اور پڑھی جاتی ہے ۔ آپ رحمۃُ اللّٰہ علیہ ۹۰ھ میں کوفہ میں پیدا ہوئے ۔ آپ نے ’’ قراء تِ قرآن ‘‘ کی تعلیم امام عاصم کوفی تابعی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القویسے حاصل کی ۔ امام حفص بن سلیمان اسدی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القویامام عاصم کوفی تابعی علیہ رحمۃُ اللّٰہ الکافی کے تلامذہ میں قراء تِ امام عاصم کوفی کے سب سے زیادہ ماہر اور عالِم تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ تعالٰی عَلَیْہ بے شُمار اوصاف و کمالات دینیہ کے ساتھ ساتھ ایک تاجر بھی تھے ۔ امام اعظم ابوحنیفہ تابعی کوفی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی کے ساتھ کپڑے کی تجارت کرتے تھے ۔ آپ کی سندِ قراء ت تین واسطوں سے پیارے آقا و مولا حُضُور نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم تک پہنچتی ہے ۔ (التیسیر للدانی، ص : ۲۱)
امام حفص بن سلیمان اسدی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی کی سندِ قراء ت کچھ اِس طرح سے ہے : ٭آپ نے امام عاصم کوفی تابعی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی سے پڑھایہ پہلا واسطہ ہیں ۔ ٭امام عاصم کوفی تابعی علیہ رحمۃُ اللّٰہ القوی نے زِرّ بن حُبَیش اَسَدی اور عبداللّٰہ بن حُبَیب سُلَمِیْ تابعی رحمۃُ اللّٰہ تعالی علیھماسے پڑھا یہ دوسرا واسطہ ہیں ۔ ٭انہوں نے علمِ قراء ت پانچ صحابہ کر ام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھُمْ سے حاصل کیا ۔ اُن پانچ صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھُم کے اسمائِ گرامی یہ ہیں :
(1)… حضرت سَیِّدُنا عثمان بن عَفّان رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہ
(2)…حضرت سَیِّدُنا علی بن ابی طالب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہ
(3) …حضرت سَیِّدُنا عبداللّٰہ بن مسعود رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہ
(4) …حضرت سَیِّدُنا زید بن ثابت رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہ
(5) …حضرت سَیِّدُنااُ بیَّ بن کَعْب رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰیعَنْہ
یہ پانچوں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھُم تیسرا واسطہ ہیں اور ان پانچوں صحابہ کرام رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْھُمنے براہِ راست سَیِّدُ المرسلین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلَّم سے پڑھا ۔ آپ کا وِصال ۱۸۰ھ میں کوفہ میں ۹۰ سال کی عمر میں ہوا ۔ (التیسیر للدانی ص : ۱۹)
اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو ۔ اٰمین بِجاہِ النَّبِیِّ الاَمِین صلیاللّٰہ تعالیعلیہ والہ وسلم
روایتِ حفص میں مشہور طُرُق کے اَئمّہ قراء ت کا تعارف
قراء تِ امام عاصم بروایت حفص میں دو طُرُق مشہور ہیں :
٭ … طریقِ امام شاطبی ٭… طریقِ امام جزری ، ان دونوں ائمہ کرام کا تعارف پیشِ خدمت ہے ۔
تعارف امام شاطبی ۔ عَلَیْہ رَحمَۃُ اللّٰہ القوی
امام شاطبی رَحْمَۃُ اللّٰہ تعالی علیہ کا اسمِ گرامی ابو محمدقاسم بن فِیرُّہ بن خَلَف بن احمد الشَّاطِبِیّ الرُّعَیْنِی ہے ، کنیت ابو القاسم اور بعض نے ابو محمد بیان کی ہے ۔ آپ کی ولادت باسعادت اُنْدُلُس(اِسپَین) کے شہر شاطبہ میں قریباً ۵۳۸ھ کے اواخر میں ہوئی ۔ ابتدائی تعلیم گھر کے روحانی ماحول میں حاصل کی اور قِرائَ ت کے ابتدائی مراحل بھی اپنے شہر مالوف ہی میں شیخ ابو عبداللّٰہ محمدبن العاص رَحْمَۃُ اللّٰہ تعالٰی عَلَیْہ کے پاس طے کئے اور علمِ قرائَ ت میں خوب مہار ت حاصل کی ۔ مزید علم حاصل کرنے کی خاطر آپ نے اپنے شہر کے علاوہ دیگر بلاد وممالک کا سفر بھی اختیار فرمایا ۔ اندلس کے شہر ’’ بلنسہ‘‘ میں شیخ ابو الحسن علی بن ہذیل رَحْمَۃُ اللّٰہ تعالٰی عَلَیْہ سے قِرائَ تِ سبعہ کی مشہور کتاب ’’ التیسیر‘‘ حفظ کی اور قِرائَ ت میں خُوب اجراء کیا اور ساتھ ہی امام ابنِ ہذیل سے علمِ حدیث بھی حاصل کیا ۔ اس کے بعد عازمِ حرمین طیبین ہوئے ۔ مصر کے شہر اسکندریہ میں شیخ ابو طاہر سلفی رَحْمَۃُ اللّٰہ تعالٰی عَلَیْہ سے حدیث کا سماع کیا ۔ حج سے واپسی پر جب آپ مصر پہنچے تو شائقینِ علوم قرآن وحدیث میں آپ کی آمد کی اطلاع پھیل گئی لہذا مصر کے اطراف و اَکناف سے لوگ علمی سیرابی کے لئے جُوق در جُوق آپ کی خدمت بابرکت میں حاضر ہوئے ۔ اس بات کا جب شہر کے حاکم قاضی فاضل کو پتا چلا تو وہ آپ کی خدمت بابرکت میں حاضرہو ا، اکرام وتعظیم کامعاملہ فرمایا اور قاہرہ میں اپنے قائم کردہ مدرسہ میں سب سے اعلی منصب پر آپ کو فائز کردیا ۔ مصرکی آب وہوا اور یہاں کا علمی وادبی ماحول آپ کو راس آگیا چنانچہ اسی کو اپنا وطن سمجھ کر یہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ اسی دوران آپ نے تصنیف وتالیف کا کام بھی کیا ۔ آپ کی تصانیف میں ’’ قصیدہ لامیہ‘‘ غیر معمولی شہرت کاحامل ہے جسکی مجملاً و مفصلاً سینکڑوں شرحیں تحریر کی جا چکی ہیں ۔ مُحَقِّق امام محمدبن محمد جزری علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی ’’ قصیدہ لامیہ ‘‘ کے بارے میں فرماتے ہیں :
اللّٰہ تبارک وتعالی نے علاّمہ شاطبی علیہ الرحمۃ کو اس فن میں جو مقام و مرتبہ بخشاہے اِس کا علم اُسی کو ہوسکتاہے جوان کے دونوں قصائد ( لامیہ اور رائیہ) سے واقفیّت رکھتاہوخصوصاً قصیدہ لامیہ ، آپ کے بعد اس قصیدے کے مقابلے میں بڑے بڑے فصحاء اور بلغاء نے برملا اپنے عجز کا اعتراف و اظہار کیاہے ۔ یہ عدیم النظیر قصیدہ اپنے طرزِ بیان اوربہترین منظم کلام کے باعث بلندی کے اس مقام پر فائز ہے کہ اسے ہرکس وناکس ( ہرکوئی ) سمجھ نہیں سکتا ۔ اس کی خصوصیّت کا عرفان اسے ہی نصیب ہوگا جوان کے طرز وانداز پر لکھنے کا ارادہ کرے اور پھر مقابلہ کرکے دیکھے ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی بارگاہ سے جو شرف و شہر ت اس قصیدہ کو عطاہوئی میرے علم کے مطابق کسی اور کتاب وقصیدہ کو نہیں مل سکی ۔ میرے خیال میں کوئی بھی اسلامی شہر اس قصیدہ سے خالی نہ ہوگا ۔ بلکہ میرا وجدان تو یہ کہہ رہاہے کہ کسی طالب علم کا گھر شاید ہی اس سے خالی ہو ۔ (برکات الترتیل ص۲۲۵)
امام شاطبی رَحْمَۃُ اللّٰہ تعالٰی عَلَیْہ جب اس قصید ہ کی تصنیف سے فارغ ہوئے تو اس کو ساتھ لے کر بیت اللّٰہ شریف کے 12000 طواف کیے اور جب جب دُعا مانگنے کے مقام پر پہنچتے تو اِس دُعاکا خاص اہتمام و التزام فرماتے : اَللّٰھُمَّ فَاطِرَالسَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ عَالِمَ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ رَبَّ ہٰذَاالْبَیْتِ الْعَظِیْمِ انْفَعْ کُلَّ مَنْ قَرَء ہَا (اے اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ!زمین وآسمان کو بنانے والے ، پوشیدہ اور ظاہر کو جاننے والے ، اس عظیم الشان گھر کے رب !اس قصیدہ کے ہر پڑھنے والے کو نفع پہنچا!) (شرح الشاطبیۃ للملا علی القاری، ص : ۴۳۰)
اس قصید ہ کے متعلق ایک روایت یہ بھی ملتی ہے کہ حَضْرت سیِّدُنا امام شاطبی رَحْمَۃُ اللّٰہ تعالٰی عَلَیْہ نے سرکارِ دوجہان ، رحمتِ عالمیان ، پیارے آقا و مولا حُضُور نبیٔ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلّمَ کی خواب میں زیارت سے مُشَرّف ہوئے اور اد ب کے ساتھ عرض کی : اے میرے آقا (صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلّمَ)اس قصید ہ کو مُلاحَظہ فرمایئے ۔ یہ سُن کر آپ نے اِس قصیدہ کو اپنے مُبارک ہاتھوں میں لیا اور ( مُلاحظہ فرمانے کے بعد ارشاد ) فرمایا : یہ قصیدہ مُبارک ہے جو اسے یاد کرے گا جَنّت میں داخل ہوگا ۔
حَضْرت سیِّدُنا امام قرطبی علیہ رحمۃاللّٰہ القوی لکھتے ہیں کہ فرمایا : بَلْ مَنْ مَّاتَ وَھِیَ فِیْ بَیْتِہٖ دَخَلَ الْجَنَّۃَ (یعنی ) جو اس حال میں مرے کہ اس کے گھر میں یہ قصیدہ ہوتووہ جنّت میں داخل ہو گا ۔ (شرح الشاطبیۃ للملا علی القاری، ص : ۴۳۰)
امام شاطبی رَحْمَۃُ اللّٰہ تعالٰی عَلَیْہ فنِّ قراء ت کے امام ہونے کے ساتھ ساتھ باکمال مُفَسِّر، مُحَدِّث ، صرف و نحو اور لغت کے بھی ماہر تھے ۔ آپ رَحْمَۃُ اللّٰہ تعالٰی عَلَیْہ ا نتہائی مُتَّقی وپرہیز گار تھے ۔ آپ سے اکتسابِ فیض کرنے والوں کی ایک لمبی فہرست ہے ۔ آپ نے حیاتِ مُستعار کی باون 52 بہاریں دیکھیں ۔ تقریباً 53 سال کی عمر پاکر 28 جمادی الثانی ۵۹۰ھ کو اتوار کے دن عصر کے بعد مصر کے شہر قاہر ہ میں آپ کا وِصال ہوا ۔ علّامہ ابو اسحق علیہ رحمۃ اللّٰہ الرزاق (خطیبِ جامع مصر) نے نمازِ جنازہ پڑھائی اور پیر شریف کے دن مقطم پہاڑ کے قریب ’’ قرافہ صغرٰی ‘‘ میں مقبرہ قاضی فاضل میں دفن کئے گئے ۔ ’’ قرافہ صغرٰی ‘‘ میں دُعاؤں کی مقبولیت کے لئے آپ کی قبرِ مُنَوّر مشہور ہے ۔ (شرح الشاطبیۃ للملا علی القاری، ص : ۴۳۰)
امام محمدبن محمد جزری علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی فرماتے ہیں : میں نے ان کی قبرِ مُنَوّر کے پاس قبولیّتِ دُعا کی برکت کُھلے آنکھوں دیکھی ہے ۔ (غایۃ النھایۃ فی طبقات القراء لابن الجزری، باب القاف، ۲/۲۲)
علاّمہ شاطبی علیہ الرحمۃ کو اس فانی دُنیا سے جُدا ہوئے کئی سو۱۰۰سال گزر گئے لیکن اپنے علمی کارناموں کی وجہ سے وہ آج بھی زندہ ہیں ۔ برِّصغیر پاک وہند میں قرآن کریم کی قراء ت بطریقِ شاطبی ہی رائج ہے ۔ اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو ۔ اٰمین بجاہِ النَّبِیِّ الامین صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہ وَسَلّمَ
تعارف امام جزر ی رحمۃ اللّٰہ تعالٰی علیہ
امام محمد جزری علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی 25 رمضان المبارک ۷۵۱ھ / ۱۳۵۰ء ہفتہ کی رات کو دمشق میں پیدا ہوئے ۔ آپ کانام محمدبن محمدبن محمدبن علی بن یوسف العمری ، کنیت ابوالخیر ، لقب شمس الدین ، وطناً جزری دمشقی اور مسلکاً سُنّی شافعی ہیں ۔
دمشق ہی میں قرآن کریم حفظ کیا ۔ ۷۶۵ھ میں رمضان المبارک میں پورا قرآن سنایا ۔ اس کے بعد تفسیر ، حدیث اورالگ الگ قراء ت کا درس لیا ۔ ۷۶۸ھ میں سبعہ کا در س لیا اور اِسی سال زیارت ِحرمینِ طیبین سے مُشرف ہوئے ۔ پھر ۷۶۹ھ میں مصر گئے اور تیرہ قراء ات تک تعلیم حاصل کی ۔ ’’ التیسیر للدانی ‘‘ اور ’’ حرز الامانی للشاطبی‘‘ جیسی قراء ت کی معتبر کتب کو حفظ کیا ۔ قِرائَ ات میں 40 اساتذہ سے استفادہ کیا ۔ پھر دمشق جاکر علّامہ دمیاطی سے حدیث اور علّامہ اسنوی سے فقہ پڑھی ۔ آپ ایک لاکھ احادیث کے حافظ تھے ۔ مصر میں علمِ اصول، معانی اور بیان پڑھے ۔ مصرکے شہر اسکندریہ میں علّامہ ابن عبدالسلام کے شاگردوں سے استفادہ کیا ۔ علّامہ اسماعیل ابنِ کثیر نے ۷۷۴ھ میں اور امام بلقینی نے ۷۷۵ھ میں سندِ اجاز ت دی ۔ فراغت کے بعد تجوید وقراء ت پڑھانے کا سلسلہ شروع فرمایا اور دمشق میں ’’ شیخ القُرّاء ‘‘کے عہدہ پر فائز ہوئے ۔ ۷۹۳ھ میں شام کے قاضی مقرر کئے گئے ۔ پانچ سال بعد مصری سلطنت سے اختلاف ہوا اور آپ روم کے شہر ’’بروسا‘‘ میں مقیم ہوگئے ۔ وہاں بے شمار لوگوں نے استفادہ کیا ۸۰۵ھ میں جب امیر تیمور لنگ اس علاقے پر مسلط ہوا تووہ آ پ کو اپنے ساتھ ماوراء النہر کے علاقہ میں لے گیاکیونکہ امیر تیمور علماء کا قدر دان اور آپ کا خاصامعتقد تھا ۔ وہاں آپ نے پہلے ’’کشّ‘‘ پھر سمرقند میں قیام کیا وہیں آپ نے شرح مصابیح وغیرہ کتابیں لکھی ۔ شعبان ۸۰۷ھ میں امیر تیمور کی وفات کے بعد خراسان، ہرات، یزد، اصبہان ہوتے ہوئے شیراز پہنچے تو بادشاہِ وقت نے آپ کا بہت احترام کیا اور شیراز کا قاضی مقر ر کردیا ۔ ایک عرصہ وہاں قیام کے بعد ۸۲۳ھ میں دوبارہ حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف ہوئے ۔ اور ایک عرصہ قیام کے بعد ۸۲۷ھ میں شیراز واپس تشریف لائے اورآخری وقت تک خدمتِ قرآن میں مصروف رہے ۔ ستر70سال سے زائد قرآن وحدیث کی خدمات سر انجام دے کر 82سال کی عمر میں جمعۃ المبارک کے دن ۵ ربیع الاوّل ۸۳۳ھ کو شیراز میں آپکا انتقال ہوا ۔
اللّٰہعَزَّوَجَلَّ کی اُن پر رحمت ہو اور اُن کے صدقے ہماری بے حساب بخشش ہو ۔ اٰمین بجاہِ النَّبِیِّ الامین صلی اللّٰہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلّم
حَضْرت سیِّدُنا امام محمدبن محمد جزری علیہ رحمۃ اللّٰہ القوی بیک وقت مُقری، مُجَوِّد، حافظ، فقیہ، نحوی، بیانی، مُؤرِّخ، مُحدِّث اورشاعر تھے ۔ آپ کی تصانیفِ عالیہ ان علوم و فنون میں آپ کی کامل دستر س پر شاہد ہیں خصوصاً تجویدوقراء ت میں آپ کی امامت مُسلَّم ہے اور دنیا بھر(میں آپ کے بعد آنے والے ) قُراء اور مُجَوِّدین آپ کی تصانیف کے خُوشہ چین ہیں ۔ آپ کی تصانیف کی طویل فہرست ہے جن میں سے چند تصانیف کے نام یہ ہیں :
(۱)…’’المقدمۃ الجزریۃ‘‘(مدراسِ اسلامیہ میں پڑھائی جانے والی مختصر مگر جامع منظوم کتاب ہے اس کے 107 اشعار ہیں )
(۲)…’’اصول القراء ات‘‘
(۳)…’’الاعلام فی احکام الادغام‘‘
(۴)…’’البیان فی خط عثمان‘‘
(۵)…’’الحصن الحصین من کلام سیدالمرسلین‘‘ (احادیثِ طیبہ
سے منتخب اوراد وظائف کی معروف کتاب)
(۶)…’’النشر فی القراء ات العشر‘‘(المقدمۃ الجزریۃ، ترجمۃ الناظم، ص : د، ھ، و)
آپ کے چار صاحبزادے تھے :
٭…ابوالخیر محمد ٭…ابوالفتح محمد
٭…ابوالبقاء اسمعیل ٭…ابوالفضل اسحاق
آپ کی تین صاحبزادیاں تھیں :
٭فاطمہ ٭عائشہ ٭ سلمیٰ
یہ تمام کے تمام حافظ ، قاری اور محدث تھے ۔
( ماخوذ از المقدمۃ الجزریۃ مع اردو ترجمہ، ص : ۴ )
اَرْجُوْبِہٖ اَنْ یَّنْفَعَ الطُّلَّابَا
وَالْاَجْرَ وَالْقُبُوْلَ وَالثَّوَابَا
تَمّت بِالْخَیْر
بِعَوْنِ اللّٰہِ الْعَظِیْمِ وَبِِلُطْفِ حَبگیْبگہِ الْکَرِیْمٖ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالتَّسْلِیْم
علم تجوید کی اصطلاحاتِ اہم و ضروری
1… اِستعاذ ہ : اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِِ الرَّجِیْمپڑھنا
2… بَسملہ : بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم پڑھنا
3… لحن : قواعدِ تجوید کے خلاف پڑھنا
4… حُرُوف : الف سے لے کر یا تک سب حُرُوف ہیں جن کی تعداد ۲۹ ہے ان کو ’’ حُرُوفِ تہجّی‘‘ کہتے ہیں ۔
5… حُرُوفِ متشابہ : وہ حُرُوف جن کی شکل ایک دوسرے سے ملتی ہو صرف نقطے کا فرق ہو جیسے ب، ت
6… حُرُوف غیر متشابہ : وہ حُرُوف جن کی شکل ایک دوسرے سے نہ ملتی ہو جیسے ب، ج
7… حُرُوف قریب ُ الصَّوت : وہ حُرُوف جن کی آواز دوسرے حرف سے ملتی ہو جیسے (ت، ط)(ث، س، ص)(ذ، ز، ظ)(ض، د)(ح، ھ)(ع، ء)(ق، ک)
8 … حُرُوف بعید الصَّوت : جن کی آواز دوسرے حرف سے نہ ملتی ہو جیسے ح، د، ج
9 … حُرُوفِ مُعجمہ یا منقوطہ : نقطے والے حرو ف جیسے ب، ج
10 … حُرُوف مہملہ یا غیر منقوطہ : جن پر نقطہ نہ ہو جیسیح، د، ر
11 … حُرُوف فوقانی : وہ حُرُوف جن کے اوپر نقطہ ہو جیسے ت، خ
12 … حُرُوفِ تحتانی : وہ حُرُوف جن کے نیچے نقطہ ہو جیسے ب
13 … حُرُوفِ مُتَوسِّطہ : وہ حُرُوف جن کے درمیان نقطہ ہو جیسے ج
14 … حرکت : زبر…َ زیر…ِ پیش…ُ میں سے ہرایک کو ’’حرکت‘‘ کہتے ہیں ۔ حرکت کی جمع حرکات ہے ۔ زبر اور پیش حرف کے اوپر جبکہ زیر حرف کے نیچے ہوتی ہے ۔ ان تینوں کی مثال اس کلمے میں موجود ہے خُلِقَ
15 … متحرِّک : جس حرف پر حرکت ہو اسے ’’ متحرک ‘‘ کہتے ہیں جیسے بَ بِ بُ
16 … فتْحَہ : زبر کو ’’ فتحہ‘‘کہتے ہیں جس حرف پر فتحہ ہو اسے ’’ مفتوح ‘‘ کہتے ہیں جیسے بَ
17 … کسرہ : زیرکو’’ کسرہ‘‘ کہتے ہیں ۔ جس حرف کے نیچے کسرہ ہو اسے ’’مکسور‘‘ کہتے ہیں جیسے بِ
18 … ضَمّہ : پیش کو ’’ ضمّہ ‘‘ کہتے ہیں جس حرف پر ضمّہ ہو اسے ’’مضموم‘‘کہتے ہیں جیسے بُ
19 … تنوین : دوزبر ( ً) دوزیر ( ٍ) دو پیش ( ٌ ) کو تنوین کہتے ہیں جس حرف پر تنوین ہو اسے ’’ مُنَوَّن ‘‘ کہتے ہیں ۔ تنوین نو ن ساکن ہوتا ہے جو کلمہ کے آخر میں آتاہے اس لئے تنوین کی آواز نون ساکن کی طرح ہوتی ہے ۔
20 … حُرُوفِ مدّہ یا ہوائیہ : ہوا پر ختم ہونے والے حُرُوف یہ تین ہیں ا ، و ، یساکن ماقبل حرکت موافق جیسے اُوْذِیْنَا ۔
21 … حُرُوفِ لین : نرمی سے اداہونے والے حُرُوف یہ دوہیں و ، ی ساکن ماقبل مفتوح جیسے بَوْ، بَیْ
22 … فتحہ اشباعی : کھڑے زبر (…ٰ)کو کہتے ہیں ۔
23 … کسرہ اشباعی : کھڑ ے زیر(…ٖ) کو کہتے ہیں ۔
24 … ضَمّہ اشباعی : اُلٹے پیش کو کہتے ہیں جیسے بٗ ۔
25 … سکون : سکون ’’ جزم ‘‘ ( …ْ) کوکہتے ہیں ۔ جس حرف پر سکون ہو اسے ’’ ساکن ‘‘ کہتے ہیں جیسے اَنْ
26 … تشدید : شد ( ّ)کو کہتے ہیں جس حرف پر شدہو اسے ’’ مُشَدَّد ‘‘ کہتے ہیں جیسے اَسَّ
27 … مخارج : منہ کے وہ حِصّے جہاں سے حُروف ادا ہوتے ہیں جیسے حلق ، لسان وغیرہ
28 … حُرُوف مُتَّحِدُ المَخرج : وہ حُرُوف جن کا مخرج ایک ہوجیسے ط، د، ت
29 … حُرُوف مختلف المخرج : وہ حُرُوف جن کا مخرج الگ الگ ہو جیسے ب، ج
30 … حُرُوف حلقی : وہ حُرُوف جو حلق سے اد ا ہوتے ہیں ء، ہ، ع، ح، غ، خ
31 … حُرُوف لہاتیہ : وہ حُرُوف جوکَوّے سے مُتَّصل زبان کی جڑاور تالو سے اداہوتے ہیں ق ، ک
32 … حُرُوفِ شَجْریہ : و ہ حُرُوف جوزبان کے درمیان اور تالو کے درمیان سے اداہوتے ہیں ج، ش، ی(ان حُرُو ف کو باعتبارِ مخرج ’’شجرِیَّہ‘‘کہتے ہیں ۔ شجر تالو کے اس حِصّے کو کہاجاتاہے جو دوجبڑوں کے درمیان اُوپراُٹھاہوا ہے )
33 … حرفِ حافیہ : وہ حرف جو زبان کے بغلی کنارے سے اداہوتاہے ض
34 … حُرُوفِ طرَفیہ یا ذلقِیہ : وہ حُرُوف جوزبان کے کنارے سے ادا ہوتے ہیں ل، ن، ر
35 … حُرُوف نِطْعیہ : وہ حُرُوف جوتالو کے اگلے حِصّے سے اداہوتے ہیں ط، د، ت
40 … حرف برّی : ہونٹوں کی خشکی سے اداہونے والا حرف : م
41 … صفت : حرف کی وہ کیفیت یا حالت جوحرف کو ادا کرتے وقت حرف کے ساتھ قائم ہو
42 … صفاتِ لازمہ : جوحرف کے لئے ہر وقت ضروری ہو ں جیسے حُروفِ مستعلیہ میں صفتِ استعلاء
43 … صفاتِ عارضہ : جو حرف میں کبھی ہو ں اور کبھی نہ ہوں جیسے (ر) کا کبھی پُراور کبھی باریک ہونا
44 … حُرُوف مُتَّحِدُ المَخرج ُ و متحد الصّفات : وہ حُرُوف جن کا مخرج اور صفات ایک ہوں جیسے مَدَدَ میں دال
45 … حُرُوف مختلف المخرج و مختلف الصّفات : وہ حُرُوف جو مخارج اور صفات کے اعتبار سے جداہوں جیسے ث ط
46 … حُرُوف مُتَّحِدُ المَخرج ُو مختلف الصّفات : وہ حُرُوف جن کا مخرج تو ایک ہو مگر صفات جداجدا ہوں جیسے ث ظ وغیرہ
47 … ترقیق : حرف کو باریک پڑھنا جیسیکَانَ میں الف
48 … تفخیم : حرف کو پُر پڑھنا جیسے قَالَ میں الف
49 … اظہار : نون ساکن ، تنوین اور میم ساکن کو ظاہر کرکے پڑھنا جیسیاَنْعَمْتَ
50 … اقلاب : نون ساکن اور تنوین کو میم سے بدل کر اخفاء کرناجیسے مِنْْم بَعْد
51 … اخفاء : ادغام او راظہار کی درمیانی حالت جیسے اَنْتَ
52 … ادغام : دو حرفوں کو ملادینا
53 … مُدغم : وہ حرف جسے دوسرے حرف میں ملایاگیا ہو جیسے عَبَدْتُّمْ میں د ال کو ت میں ملایا گیاہے ۔
54 … مُد غم فیہ : جس حرف میں ملایا گیا ہو ۔
55 … مثلین : ایسے دو حروف جو مخرج اور صفات میں متحد ہوں جیسے اِذْذَّھَبَ میں ذال
56 … متجانسین : ایسے دو حروف جن کا مخرج ایک ہو جیسے قَدْ تَّبَیَّنَ میں دال اورتا
57 … متقاربین : ایسے دو حروف جو مخرج اور صفات کے اعتبار سے قریب قریب ہوں ۔ جیسیمَنْ یَّنْظُرُ میں نون او ر یا
58 … خیشوم : ناک کا بانسہ
59 … غُنّہ : ناک میں آواز لے جانا
60 … ادغامِ شفوی : میم ساکن کے بعد دوسر ی میم آجانے کی صورت میں میم ساکن کو دوسری میم میں مدغم کرنا جیسے فَھُمْ مُّقْمَحُوْنَ
61 … اخفائے شفوی : میم ساکن کے بعد (ب) آجانے کی صورت میں میم ساکن کو اسکے مخرج میں چھپا کر ادا کرنا جیسے عَلَیْکُمْ بِوَکِیْلٍ
62 … اظہارِ شفوی : میم ساکن کے بعد(ب) اور(م) کے علاوہ کوئی اور حرف آجانے کی صورت میں میم ساکن کو اسکے مخرج سے ظاہر کرکے پڑھنا جیسے اَلَمْ نَشْرَحْ
63 … اثبات : حرف کو باقی رکھنا
64 … حذف : حرف کو ختم کرنا
65 … تسہیل : تحقیق اور ابدال کی درمیانی حالت ئَ اَعْجَمِیٌّ وَّ عَرَبِیّ
66 … تحقیق : ہمزہ کو اس کے اصلی مخرج سے تمام صفات کے ساتھ ادا کرنا جیسے ءَ اَنْذَرْتَھُم
67 … ابدال : دوسرے ہمزہ کو ماقبل حرکت کے موافق حرفِ مدّ ہ سے بدلناجیسے ءَ اللّٰہ سے اٰللّٰہُ
68 … اِمالہ : زبر کو زیر اقور الف کو یا کی طرف مائل کرکے پڑھنا
69 … سکتہ : کسی حرف پر سانس توڑے بغیر تھوڑی دیر کے لئے آواز کو روک لینا
70 … حُرُوفِ ممدودہ : وہ حُرُوف جن پر مد ہو جیسے جَآئَ
71 … مَدّ : حرف کو اس کی اصلی مقدار سے لمباکر کے پڑھنا ۔
72 … قصر : حرف کو اس کی اصلی مقدار جتنا پڑھنا
73 … ماقبل : حرف سے پہلے والے حرف کو’’ماقبل ‘‘ کہتے ہیں ۔
74 … مابعد : حرف کے بعد والے حرف کو’’مابعد ‘‘ کہتے ہیں ۔
75 … وصل : ملاکر پڑھنا
76 … وقف : کلمے کے آخری حرف پر سانس اور آوازدونوں کو روک کر ٹھہرجانا
77 … موقوف علیہ : جس حرف پر وقف کیاجائے
78 … ابتداء : جس کلمے پر وقف کیا اس سے آگے پڑھنا
79 … اعادہ : جس کلمے پر وقف کیا، رَبطِ کلام کے لئے اس سے یا اس سے
پہلے والے کلمے سے پڑھنا
80 … وقف بِالْاسْکان : جس کلمے کے آخری حرف پر وقف کیااس کو ساکن
کر دینا ۔ یہ وقف تینوں حرکتوں میں ہوتا ہے ۔
81 … وقف بِالرّوْم : جس کلمے کے آخری حرف پر وقف کیا اس حرف کی حرکت کا تہائی حِصّہ پڑھنا ۔ یہ زیر -ِ اور پیش -ُ میں ہوتاہے ۔
82 … وقف بالاشمام : جس کلمے کے آخری حرف پر وقف کیااس کو ساکن کرکے ہونٹوں سے پیش کی طرف اشارہ کرنا ۔ یہ صرف پیش ( ُ) میں ہوتاہے ۔
83 … حُرُوفِ قَمَرِیہ : جن حُرُوف سے پہلے لامِ تعریف پڑھاجائے جیسے اَلْمَدِیْنَہ ، اَلْکِتاَبُ وغیرہ (یہ چودہ حُرُوف ہیں جن کا مجموعہ ہے اَبْغِ حَجَّکَ وَخَفْ عَقِیْمَہْ)
84 … حُرُوفِ شمسیہ : جن حُرُوف سے پہلے لامِ تعریف نہ پڑھاجائے جیسے اَلنَّجْمُ، اَلثَّاقِبُ وغیرہ ( حُرُوفِ شمسیہ بھی چودہ ہیں جو حُرُوفِ قمریہ کے علاوہ ہیں ۔ نوٹ : لامِ تعریف کے بعد الف نہیں آتااس لئے حُرُوفِ قمریہ وشمسیہ میں اسکا شمار نہیں )
85 … ترتیل : قواعدِ تجوید کے مطابق بہُت ٹھہرٹھہر کر پڑھنا ۔
86 … حدر : قواعدِ تجوید کے مطابق جلدی جلدی پڑھنا کہ جس سے حُروف نہ بگڑیں ۔
87 … تَدْوِیْر : ترتیل و حدر کی درمیانی رفتار سے پڑھنا ۔
88 … اجراء : قرآن کی تلاوت کرتے وقت تجوید کے قواعد کا الفاظِ قرآنیہ میں جاری کرنا ۔
89 … قوا عد تجوید : قواعد، قاعدہ کی جمع ہے اسکا لغوی معنی ’’بنیاد‘‘ہے ۔ قواعدِ
تجوید سے مراد ’’وہ اصول وضوابط ہیں جن کے ذریعے حروف کو تجوید
وقراء ت کے مطابق عربی لب و لہجہ میں پڑھنے کا طریقہ معلوم ہو ۔
90 … قِراء ت و رِوایت : مطلقاً قرآن کریم پڑھنے کو ’’ قراء ت ‘‘ کہتے
ہیں ۔ اصطلاحِ قُرّاء میں وہ اختلافِ الفاظ(کسی لفظ کو پڑھنے کے
مختلف طریقے ) جو ائمہ عشرہ(یعنی دس اماموں ) سے ثابت ہیں اسے ’’ قِراءت ‘‘ کہتے ہیں اور جو اختلاف الفاظ ان کے راویوں ( امام کی قراء ت کو نقل کرنے والوں ) کی طرف منسوب ہو اسے ’’روایت ‘‘ کہتے ہیں ۔
91 … طُرُق : طُرُق ’’ طرِیق ‘‘ کی جمع ہے ۔ لغوی معنی’’راستہ ‘‘اور اصطلاحِ قُرّاء میں رُواۃ(راویوں ) کے بعد مشائخِ قُرّاء میں جو فروعی اختلافات ہوئے ان کو ’’ طُرُق ‘‘ سے تعبیر کیاجاتاہے ۔ قراء تِ امام عاصم بہ روایت حفص میں دو طُرُق مشہور ہیں :
٭… … طریقِ امام شاطبی ٭… … طریقِ امام جزری ۔
بَرِّصغیر پاک وہندمیں روایتِ حفص بَطریقِ شاطِبی پڑھی اور پڑھائی جاتی ہے ۔
92 … ہجّے : حرفوں کو آپس میں جوڑنے اور ملانے کو ’’ ہجّے ‘‘ کہتے ہیں ۔
تلاوت کے مَحاسِن
ترتیل قرآن پاک کو خوب ٹھہر ٹھہر کر قواعدِ تجوید کے مطابق پڑھنا
تجوید حروف کو ان کے مخارج سے مع جمیع صفات کے ادا کرنا
تبیین ہر حرف کو صاف اورواضح کرکے پڑھنا
ترسیل ہر حرف کو ایسے ہی ادا کرنا جیسے اس کا حق ہے یعنی مخرج اور صفات کے ساتھ ادا کرنا
توقیر خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا
تحسین لحن عرب او ر قواعدِ تجوید کے مطابق خوبصورت آواز میں پڑھنا
تلاوت کے عیوب
نمبر شمار نام معنی حکم
1 تمطیط ترتیل میں مَدّات و حرکات وغیرہ میں حد سے زیادہ دیر کرنا مکروہ
2 تخلیط حدر میں اس قدر جلدی کرنا کہ حروف سمجھ میں نہ آئیں حرام
3 تنفیش حرکات کو پورا ادا نہ کرنا مکروہ
4 تمضیغ حرکات کو چباچبا کر پڑھنا مکروہ
5 تطنین گنگنی آواز سے پڑھنا اور ہر حرف کی آواز کو ناک میں لے جانا حرام
6 تہمیز ہر حرف میں ہمزہ ملادینا حرام
7 تعویق کلمے کے درمیان میں وقف کرکے بعدسے ابتداء کرنا حرام
8 وَ ثَبَہ پہلے والے حرف کو ناتمام چھوڑ کر دوسرے حرف کو شروع کردینا مکروہ
9 عنعنہ ہمزہ یا کسی اور حرف کے ساتھ عین کی آواز ملادینا حرام
10 ہمہمہ کسی حرف مخفف کو مشدّد پڑھنا حرام
11 زمزمہ گانے کے طریقہ پر پڑھنا حرام
12 ترقیص آواز کو نچانا یعنی کبھی بلند کرنا اور کبھی نیچی کرنا اگر تجوید کے مطابق ہے تو مکروہ ورنہ حرام ہے