یہ ایک خالص اسلامی بلاگ ویب سائٹ ہے۔ اس ویب سائٹ پر مختلف اسلامی موضوعات پر وقتاً فوقتاً مواد شائع کیا جاتا ہے۔ اس بلاگ ویب سائٹ کا واحد مقصد اس پُر فتن دور میں دین کی صحیح معلومات کو پھیلانا اور اسلامی شعار کو محفوظ رکھنا ہے نوٹ: ویب سائٹ پر اپلوڈ کئے گئے مضامین میں حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہے ویب سائٹ اس بارے میں ذمہ دار نہیں۔ شُکریہ

تلاشِ موضوع

قَبْرکُشائی کا شرعی حکم کیا ہے ۔۔۔۔؟



قَبْرکُشائی کا شرعی حکم کیا ہے۔۔۔؟؟

سوال نمبر:4043
اگر میت کر دفنانے کے فوری بعد قبر بیٹھ جائے تو کیا قبر کو کھود کر میت کو باہر نکال کر دوبارہ قبر کی اندرونی سطح کو درست کرنے کے بعد میت کو دفنانا درست عمل ہے؟ تفصیل سے جواب دیجیے گا۔

  •  شریعت کا اصول ہے کہ  میت کی تدفین کے بعد بلاعذر قبر کو کھولنا اور اس جگہ سے میت کو نکالنا جائز نہیں ہے، کیونکہ جب میت کو قبر میں رکھ دیا جاتا ہے تو وہ جگہ اس کے لئے خاص ہوجاتی ہے۔ اگر ضرورت درپیش ہو یا ایسی مصلحت سامنے آجائے جو علماء کے مطابق راجح ہو تو قبر کھولنا اور میت کو نکالنا جائز ہے۔

عبدالرحمان الجزیری قبر کھولنے کے مسئلہ پر فقہائے اسلام کا مؤقف بیان بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

يحرم نبش القبر مادام يظن بقاء شئي من عظام الميت فيه، ويستثنیٰ من ذالک الامور: منها ان يکون الميت قد کفن بمغصوب، و ابي صاحبه ان ياخذ القيمة، منها ان يکون قد دفن ارض مغصوبة ولم يرص مالکها ببقائه، و منها ان يدفن معه مال بقصد او بغير قصد سواء کان هٰذا المال له او غيره، وسواء کان کثيراً او قليلاً و لو درهماً، سواء تغيرالميت او لا، وهٰذا متفق عليه، الا عند المالکيه.


اگر گمان ہو کہ میت کا کوئی ہڈی (یا کوئی بھی عضو) باقی ہے تو اس کی قبر کھولنا حرام ہے۔ اس حرمت سے چند باتیں مستثنیٰ ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ میت کو ہتھیائی ہوئی زمین پر دفن کیا جائے اور مالک زمین کی قیمت لینے سے انکار کر دے یا جس زمین کو غصب کر کے میت دفنائی گئی ہے اس زمین کا مالک وہاں دفنانے پر راضی نہ ہو(تو قبر کھول کر میت کو منتقل کیا جائے گا)، اور اگر جان بوجھ کر یا بےخبری میں میت کے ساتھ کچھ مال دفن ہو گیا ہے (تو ایسی صورت میں بھی قبر کو کھولنا جائز ہے) قطع نظر اس کے کہ مال میت کا تھا یا کسی دوسرے کا، زیادہ تھا یا کم‘ بھلے ایک درہم ہی کیوں نہ ہو، لاش سلامت ہو یا خراب ہو (بہرحال قبر کھول کر مال نکالا جائے گا)۔

الجزيری، عبدالرحمان، الفقه علیٰ مذاهب الاربعة، 1: 537، دار احياء التراث العربي، بيروت، لبنان

 اگر قبر بیٹھ جائے تو بہتر یہی ہے کہ قبر کھولے بغیر اس کو درست کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ اگر قبر کھولنا ناگزیر ہو تو کوئی ایسا انتظام کیا جائے اس سے میت کا ستر باقی رہے۔ کیونکہ میت کا ستر رکھنا بھی اسی طرح واجب ہے جس طرح زندہ کا ہے۔

بہرحال اصول یہی ہے کہ بلاعذرِ شرعی قبر کھولنا یا میت کو نکالنا جائز نہیں۔


 اس مسلئہ کو آسان انداز میں یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ :

   حکم شریعت یہ ہے کہ بلاعذر شرعی قبر کھولنا ناجائز وحرام ہے اور قبر کا دب جانا یا  اس میں پانی جانا یہ کھولنے کے لئے عذر نہیں ۔قبر کھولنے کے اعذار شریعت میں یہ بیان کئے ہیں ۔مثلا: کسی کی زمین میں بغیر مالک کی اجازت کے دفن کردیاگیا اور مالک اس پر راضی نہیں یا غصب کیے ہوئے کپڑے میں دفن کیا یا کسی کا مال قبر میں رہ گیا اورمال والا اس کاتقاضا کررہا ہو ،ان اعذار کے علاوہ قبر کھولنا جائز نہیں ہے ۔

  قبرکشائی ہرگزنہیں کی جاسکتی کہ یہ حرام  ہے۔  فقہائے کرام فرماتے ہیں کہ اگرمیت کے سرکی جگہ پرقدم رکھ دیئے  یامنہ قبلہ رخ کرنابھول گئے توقبرپرسلیب رکھنے کے بعداورمٹی ڈالنے سے پہلے یادآنے پرسلیب ہٹاکرمیت کودرست کرسکتے ہیں لیکن مٹی ڈالنے کے بعدقبرکھولناجائزنہیں ہے اس لئے کہ قبلہ رومنہ کرناسنت ہے جبکہ قبرکھولناحرام ہے اورسنت پرعمل کرنے کے لئے حرام کاارتکاب کرناجائزنہیں ہے۔