کیا قرآن پاک چالیس پاروں میں نازل ہوا؟
کیا قرآن پاک چالیس پاروں میں نازل ہوا؟
حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات مبارکہ میں قرآن مجید جو آج ہمارے پاس کتابی شکل میں موجود ہے ویسے ہی تھا بعد میں اس میں کوئی کمی بیشی نہیں کی گئی۔ جو شخص یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ حضور علیہ الصلاۃ والسلام کی حیات مبارکہ میں چالیس پارے تھے اور بعد میں دس کم کر دیے گئے ہیں۔ ایسا عقیدہ رکھنے والا کافر و مرتد ہے۔ اسلام کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ہے۔ اللہ تعالی نے قرآن مجید کی حفاظت کی خود ذمہ داری لی ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد فرمایا :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ.
(الْحِجْر ، 15 : 9)
ترجمہ کنز الایمان:
{ بیشک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا ہےاور بیشک ہم خود اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔}
اس آیت میں کفار کے اس قول’’اے وہ شخص جس پر قرآن نازل کیا گیا ہے‘‘ کا جواب دیتے ہوئے اللّٰہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ’’اے حبیب! صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ ، بے شک ہم نے آپ پر قرآن نازل کیا ہے اور ہم خود تحریف ، تبدیلی ، زیادتی اور کمی سے اس کی حفاظت فرماتے ہیں ۔‘‘
لہٰذا قرآن مجید جیسے نازل ہوا تھا ویسے ہی آج موجود ہے اور قیامت تک ایسا ہی رہے گا اس میں تحریف نہ ہوئی ہے اور نہ کبھی ہو گی۔ قرآن مجید میں تحریف کا قائل مسلمان نہیں ہے۔ ایسا شخص کافر اور مرتد ہے۔ لہذا آپ ایسے بد عقیدہ لوگوں کے ساتھ نہ رہا کریں ان کی مجلس اختیار نہ کریں جن سے عقیدہ خراب ہونے کا خدشہ ہو۔
قرآنِ مجید کی حفاظت :
یاد رہے کہ تمام جن و اِنس اور ساری مخلوق میں یہ طاقت نہیں ہے کہ قرآنِ کریم میں سے ایک حرف کی کمی بیشی یا تغییر اور تبدیلی کرسکے اور چونکہ اللّٰہ تعالیٰ نے قرآنِ کریم کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے اس لئے یہ خصوصیت صرف قرآن شریف ہی کی ہے، دوسری کسی کتاب کو یہ بات مُیَسّر نہیں ۔ قرآنِ کریم کی یہ حفاظت کئی طرح سے ہے
(1)… قرآنِ کریم کو معجزہ بنایا کہ بشر کا کلام اس میں مل ہی نہ سکے ۔
(2)… اس کو معارضے اور مقابلے سے محفوظ کیا کہ کوئی اس کی مثل کلام بنانے پر قادر نہ ہو۔
(3)… ساری مخلوق کو اسے معدوم کرنے سے عاجز کردیا کہ کفار شدید عداوت کے باوجود اس مقدس کتاب کو معدوم کرنے سے عاجز ہیں ۔ ( خازن، الحجر، تحت الآیۃ : ۹ ، ۳ / ۹۵ ، تفسیرکبیر، الحجر، تحت الآیۃ : ۹ ، ۷ / ۱۲۳ ، ملتقطاً )
تاریخ شاہد ہے کہ اگر کسی نے قرآن کے نور کوبجھانے ، اس میں کمی زیادتی ،تحریف اور تبدیلی کرنے یا اس کے حروف میں شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش کی بھی تو وہ کامیاب نہ سکا۔ قَرَامِطَہْ کے مُلحد اور گمراہ لوگ سینکڑوں سال تک اپنے تمام تر مکر ،دھوکے اور قوتیں صرف کرنے کے باوجود قرآن کے نور کو تھوڑا سا بھی بجھانے پر قادر نہ ہو سکے ،اس کے کلام میں ذرا سی بھی تبدیلی کر سکے نہ ہی اس کے حروف میں سے کسی ایک حرف کے بارے میں مسلمانوں کو شک و شبہ میں ڈال سکے۔ اسی طرح قرآنِ مجید کے زمانۂ نزول سے لے کر آج تک ہر زمانے میں اہلِ بیان،علمِ لسان کے ماہرین ، ائمہ بلاغت، کلام کے شہسوار اور کامل اساتذہ موجود رہے، یونہی ہر زمانے میں بکثرت ملحدین اور دین و شریعت کے دشمن ہر وقت قرآنِ عظیم کی مخالفت پر تیار رہے مگر ان میں سے کوئی بھی اس مقدس کلام پر اثر انداز نہ ہو سکا اور کوئی ایک بھی قرآنِ حکیم جیسا کلام نہ لا سکا اور نہ ہی وہ کسی آیتِ قرآنی پر صحیح اِعتراض کر سکا ۔
یہاں قرآنِ مجید کی حفاظت سے متعلق ایک حکایت ملاحظہ ہو، چنانچہ حضرت یحییٰ بن اَکثَم رَحْمَۃُاللّٰہِ تَعَالٰی عَلَیْہِ فرماتے ہیں ’’مامون رشید کی مجلس میں ایک یہودی آیا اور اس نے بڑی نفیس ، عمدہ اور اَدیبانہ گفتگو کی ۔ مامون رشیدنے اسے اسلام کی دعوت دی تو اس نے انکار کر دیا۔جب ایک سال بعد دوبارہ آیا تو وہ مسلمان ہو چکا تھا اور اس نے فقہ کے موضوع پر بہت شاندار کلام کیا۔مامون رشید نے اس سے پوچھا’’تمہارے اسلام قبول کرنے کا سبب کیا ہوا؟اس نے جواب دیا’’جب پچھلے سال میں تمہاری مجلس سے اٹھ کر گیا تو میں نے ان مذاہب کا امتحان لینے کا ارادہ کر لیا، چنانچہ میں نے تورات کے تین نسخے لکھے اور ان میں اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی،ا س کے بعدمیں یہودیوں کے مَعْبَد میں گیا تو انہوں نے مجھ سے وہ تینوں نسخے خرید لئے۔پھر میں نے انجیل کے تین نسخے لکھے اور ان میں بھی اپنی طرف سے کمی بیشی کر دی۔ جب میں یہ نسخے لے کر عیسائیوں کے گرجے میں گیا تو انہوں نے بھی وہ نسخے خرید لئے۔ پھر میں نے قرآن پاک کے تین نسخے لکھے اور اس کی عبارت میں بھی کمی بیشی کر دی ۔ جب میں قرآن پاک کے وہ نسخے لے کر اسلامی کتب خانے میں گیا تو انہوں نے پہلے ا ن نسخوں کا بغور مطالعہ کیا اور جب وہ میری کی ہوئی کمی زیادتی پر مطلع ہوئے تو انہوں نے وہ نسخے مجھے واپس کر دئیے اور خریدنے سے انکار کر دیا۔اس سے میری سمجھ میں آ گیا کہ یہ کتاب محفوظ ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتا۔ اس وجہ سے میں نے اسلام قبول کرلیا۔ ( قرطبی، الحجر، تحت الآیۃ : ۹ ، ۵ / ۶ ، الجزء العاشر، ملخصاً )
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔